skip to main |
skip to sidebar
چاؤشسکو، لبرل جمہوریت اور رومانیہ : مشتاق علی شان
یہ پچیس دسمبر 1989 کا دن ہے، رومانیہ کے ایک فوجی اڈے میں ’’
عدالت ‘‘ لگائی گئی ہے۔ ویسی ہی عدالت جس کا ذکر ہمیں تاریخ میں اکثر ملتا
ہے۔ جن کے ’’ منصف‘‘صدیوں کی ملامت ہی پاتے ہیں۔ وہ ترازو جن میں استحصالی
طبقات کی سڑاند کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔ البتہ قابل گردن زدنی قرار دیے
جانے والے ’’مجرم ‘‘ زندہ رہ جاتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے نشانِ راہ
ٹھہراتے ہیں۔ سقراط، مزدک اور صوفی شاہ عنایت کو سولی کا تحفہ دینے
والے’’منصف‘‘ آج کسے یاد ہیں؟ہاں تو یہ عدالت جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں،
سوشلسٹ رومانیہ کے صدرکامریڈ نکولائی چاؤشسکو اور ان کی ہمدم کامریڈ الینا
چاؤ شسکو کے خلاف لگائی گئی ہے۔ رومانیہ کے دو مختلف دیہات میں ایک جیسے
غریب کسان خاندانوں میں پیدا ہونے والے یہ دو انقلابی، 52 سالہ سیاسی اور42
سالہ ازدواجی رفاقت کی بہترین مثال قائم کر نے کے بعد آج اپنے آدرشوں پر
قربان ہونے کی مثال بھی ایک ساتھ ہی قائم کر رہے ہیں۔
فوجی عدالت بہت جلدی میں ہے۔ عدالت لگانے کایہ تکلف بھی نہ برتا جاتا اگر
اس کا اصل کرتا دھرتا انہیں ’’نشانِ عبرت ‘‘ بنانا حد درجہ ضروری نہ قرار
دیتا۔ ان کی موت کے پروانے رومانیہ سے نہیں بلکہ بہت دور اس مقام سے جاری
کیے گئے ہیں جہاں ایک زمانے سے ’’ مجسمہ آزادی ‘‘ ایستادہ ہے۔ قوموں کی
آزادی کا تمسخر اڑاتا، انھیں پامال کرتا ’’ لبرل اور جمہوری امریکا ‘‘ ،
اپنے لے پالکوں کا منہ بولا باپ ، سرتاپا جرم واستبداد ، نسل پرستی سے لے
کر مذہبی جنونیت تک کا بانی مبانی ، اس کی سرپرستی کرنے والا عالمی دہشت
گرد۔ سو انقلابی جوڑے کو تین عدد سویلین ، پانچ عدد ججوں، دو پراسیکوٹروں
اور دو دفاع کے وکلا پر مشتمل فوجی ٹربیونل کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ کوئی
الزام ثابت نہیں کیا جا سکا۔ چاؤ شسکو کہتا ہے، ’’وہ صرف محنت کش عوام اور
’گرینڈ نیشنل اسمبلی ‘ کو جوابدہ ہے، لٹیروں کے اس ٹولے کو نہیں‘‘۔
سزائے موت اور اس پر فوری عمل درآمد کا فیصلہ صادر ہوتا ہے۔انقلابی جوڑے کے
چہروں پر موت کی زردی نہیں ہے جو قاتلوں کے لیے باعثِ تکلیف ہے۔ان کے ہاتھ
باندھ کر برآمدے میں گولیوں کا نشانہ بنانے کے لیے لایا جا رہاہے۔ وہ اپنے
قاتلوں ، فاشسٹوں اوران کے سامراجی آقاؤں پر لعنت بھیج رہے ہیں۔ دیوار کے
ساتھ گولیوں کے سامنے کھڑے چاؤ شسکو کے ہونٹوں پر پیرس کمیون کے مزدور شاعر
یوجین پوتئے کا گیت ہے۔ انٹرنیشنل، دنیا بھر کے محنت کشوں کا گیت ، سرمائے
پر محنت کی غیر مختتم فتح کی نوید۔ الینا کے الفاظ ہیں: ’’ رومانیہ زندہ
رہے گا۔ ‘‘یہ گیت ، یہ آواز گولیوں کے شور میں دبا دیے جاتے ہیں۔
یہ انقلابی جوڑا زینت دار اس لیے بنایا گیا ہے کہ یہ لبرل سرمایہ دارانہ
جمہوریت کی پناہ میں جانے سے انکاری ہے، یہ رومانیہ کو سوشلسٹ ہی دیکھنا
چاہتا ہے۔یہ اپنی دھرتی پر بھوک، بیماری اور قحبہ خانوں سے انکاری ہے۔یہ
اپنے قومی وقار کے ساتھ زندہ رہنا چاہتا ہے۔ وہ سوشلزم اور وہ قومی وقار جس
کے لیے یہ دونوں زمانہ طالب علمی سے ہی برسرِ پیکار رہے، جس کے لیے
رومانیہ کے کمیونسٹ جانبازوں نے سوویت یونین کی سرخ فوج کے ساتھ مل کر مہیب
فاشزم کے سامنے بند باندھا تھا اور اپنی جانوں کے نذارنے پیش کیے تھے۔ اس
انکار سے سب ناخوش ہیں، لبرل اور جمہوری امریکا ومغرب سے لے کر اپنے انہدام
کی طرف بڑھتے سوویت یونین کے مقتدر ٹھگوں تک سب کی پیشانیوں پر سلوٹیں
ہیں۔ اسے سر پھرے جوڑے کو بہت سمجھایا گیا لیکن یہ اشتراکیت سے کم پر راضی
ہی نہیں۔
16دسمبر1989 کوسوشلسٹ رومانیہ کے خلاف سازش کا جال بچھایا جاتا ہے اور
مغربی علاقے’’ تیمیسور‘‘ میں ایک فسطائی بغاوت برپا کی جاتی ہے۔ اس سازش کا
اہم مہرہ ’’یون ایلیسکو‘‘ جیسا غدار اور کچھ فوجی عہدیدار ہیں۔ اپنے ہی
جمع کردہ شر پسندوں پر گولی چلا کر سوشلزم اور سوشلسٹ حکومت کے خلاف نعرے
لگوائے جاتے ہیں اور پھر چاؤ شسکو اور الینا کو سینٹرل کمیٹی بلڈنگ سے
گرفتار کر لیا جاتا ہے۔کرسمس کے جلو میں اس موت کا جشن رومانیہ کے نئے لبرل
سرمایہ دار حکمرانوں سے لے کر مغرب و امریکا کے ایوانوں تک میں منایا گیا۔
رومانیہ کی پرولتاری آمریت ختم ہوئی اورجمہوریت کے نام پر سرمایہ داروں کی
آمریت قائم ہوگئی۔اب رومانیہ کا کیا حال ہے؟ اس کا ذکر کرتے ہوئے لبرل
سرمایہ دار میڈیا، اس کے دانش وروں اور نظریہ دانوں کی زبانیں کیوں لکنت کا
شکار ہیں۔
چاؤ شسکو کے بعد لبرل اور جمہوری امریکا کی تائید وتوثیق سے یون ایلیسکو
15سال تک اقتدار سے چمٹا رہا اور بعد میں سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کے سینیٹر
کے طور پر اقتدار میں شامل رہا مگر اسے کسی نے آمر نہیں کہا۔ اس نے رومانیہ
کے عوام سے روزگار کی ضمانت، گھر، مفت تعلیم اور صحت کی سہولیات چھین لیں
لیکن اس کے ان اقدامات اور رومانوی عوام کی زندگیوں سے کھلواڑ کی کسی نے
مذمت نہیں کی، کیوں کہ وہ کمیونسٹ نہیں تھا۔ اس نے رومانیہ کو سرمایہ داروں
کی منڈی میں تبدیل کر دیا۔ کتنا دہرا معیار ہے لبرل اور جمہوری امریکا اور
مغرب کا۔ لیکن اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے کیوں کہ یہی سرمایہ دارانہ
سام راجیت کا، اس کی لبرل جمہوریت کامعیار ہے جس کی نمایندگی امریکا کرتا
ہے۔
کامریڈ نکولائی چاؤ شسکو پر کچھ کمیونسٹ حلقوں کی تنقید بھی موجود تھی، مگر
اشتراکیت اور اپنے وطن کے محنت کش عوام سے وابستگی اس نے اپنی جان کی
قربانی دے کر ثابت کی۔ چاؤ شسکو نے اگر یتیم بچوں کے لیے یتیم خانے بنائے
تو اس پر لبرل لکھاریوں اور نام نہاد دانش وروں کی طرف سے تنقید ہوتی تھی
کہ ان میں بچوں سے مناسب سلوک نہیں کیا جاتا۔ اگر وہ ضرورت سے زیادہ اجناس
دیگر ضروریات کے لیے فرخت کرتا تو یہ کہتے تھے کہ رومانیہ کے عوام کو بھوک
مارا جا رہا ہے۔بہرکیف، چاؤ شسکو کے رومانیہ میں کوئی بھوکا، بے گھر، بے
روزگار اور لاعلاج مرنے پر مجبور نہیں تھا۔ مگر سرمایہ دار جمہوریت نے
رومانیہ کو کیا دیا؟ رومانیہ 2004 میں نیٹو میں شامل ہوا اور2007 میں اسے
یورپی یونین کی رکنیت بھی دے دی گئی مگر وہاں کے عوام کو بھوک، ذلت، بیماری
،بے روزگاری، بڑھتی ہوئی فسطائیت ، قحبہ خانوں، جرائم، اور مافیا کا تحفہ
ہی ملا۔
بہرحال، رومانیہ کی سرمایہ دار آمریت کا مزہ اگر وہاں کے عوام چکھ رہے ہیں
تو انھوں نے اہلِ مغرب کو بھی یقیناً مایوس نہیں کیا ہے۔ 2013 کے اوائل میں
ایک فرانسیسی وزیر نے یہ انکشاف کیا کہ رومانیہ سے برطانیہ اور دیگر یورپی
ممالک کو گائے کے گوشت کے نام پر مردہ اور لاغر و بیمار گدھوں، گھوڑوں اور
خچروں وغیرہ کا گوشت سپلائی کیا جا رہا ہے۔ بعد ازاں فروری 2013 میں
برطانوی جریدے ’’ڈیلی میل‘‘ اور یورپی یونین کی ایگری کلچر کمیٹی کے نائب
صدر Jose Bove نے بھی اس کی تصدیق کی۔ ان کے بیان کے مطابق رومانیہ کے
سلاٹر ہاؤسز میں مردہ جانوروں، لاغر و بیمار گدھوں، گھوڑو ں اور خچروں کو
بڑے پیمانے پر کاٹ کر اس کا گوشت برطانیہ سمیت مختلف یورپی ممالک کے عوام
کوگائے کے گوشت کے نام پر کھلایا جاتاہے۔ برطانوی وزیر ماحولیات اووین پیٹر
سن نے اس کا سخت نوٹس لینے کا بھی عندیہ دیا لیکن اس وقت تک یورپی باشندے
ہزاروں ٹن کے حساب سے یہ گوشت مزے لے لے کر کھاچکے تھے اور اس انکشاف کے
بعد ابکائیاں کر تے رہے۔ لیکن یہ سرمایہ داری ہے، لبرل سرمایہ داری جس میں
ہر شئے برائے فروخت ہے۔ رومانیہ کے سرمایہ دار حاکموں نے اور بیچ کھانے کے
لیے وہاں چھوڑا ہی کیا ہے؟۔
ہاں تو یہ ہے آج کا ’’ لبرل اور سرمایہ جمہوری ‘‘ رومانیہ جہاں ہر سال 2000
سے زائد بچیاں 12سے 15سال کی عمر میں مائیں بن جاتی ہیں۔ 10دسمبر 2016 کی
ایک خبر کے مطابق رومانیہ کی 18سالہ ماڈل الیگزینڈرا خیفرسن نے اپنا ’’
کنوارپن‘‘ ایک جرمن ایجنسی کی توسط سے خریداری کے لیے پیش کیا ہے۔اس ماڈل
کے ساتھ یہ ایک رات گزارنے کے لیے کئی ایک سرمایہ داروں نے رجوع کیا ہے۔
تادم تحریر سب سے زیادہ بولی 1.7ملین پاؤنڈ لگائی گئی ہے جس میں 20 فی صد
کمیشن جرمن ایجنسی کا ہو گا۔ الیگزینڈرا نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا
ہے کہ ان پیسوں سے وہ کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ لیں گی اور اپنے لیے
گھر خریدیں گی۔ وہی تعلیم اور رہائش جو چاؤ شسکو کا سوشلسٹ رومانیہ ہر شہری
کو مفت فراہم کرتا تھا۔
رومانیہ میں صنعتی ترقی کے لیے چاؤ شسکو نے 26 بلین ڈالرز کا قرضہ لیا
تھاجو محض 6 سال میں ادا کر دیا گیا۔ جب چاؤشسکو کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا
تو رومانیہ ایک ڈالر کا بھی مقروض نہیں تھا۔ آج حالت یہ ہے کہ رومانیہ کا
شمار یورپ کے غریب اور قرض دار ترین ممالک میں ہوتا ہے۔یون ایلیسکو کے
پندرہ سالہ دور میں رومانیہ 42,760 ملین امریکی ڈالرز کا مقروض ہو چکا تھا۔
امیل بوک 2012 تک وزیر اعظم رہا، اس کے دور میںIMF، ورلڈ بینک اور یورپی
یونین سے 20 بلین یورو کا قرضہ حاصل کیا گیا۔اس قرض کو ختم کرنے کے لیے جب
تنخواہوں میں کمی، سبسڈیز کا خاتمہ اورٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا تواس
بدترین مہنگائی نے جنم لیا جس کے نتیجے میں ہونے والے احتجاج کے باعث وزیر
اعظم کو مستعفی ہونا پڑا۔ آج رومانیہ 90677.10ملین یورو کا مقروض ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق رومانیہ کے 72 فی صد بچے خوراک سمیت
بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔19ملین آبادی کے اس ملک میں 8.5ملین افراد
غربت اور بد حالی کی منہ بولتی تصویر ہیں۔یورپی تنظیم ٹیمپ نیٹ ورک کی ایک
رپورٹ کے مطابق مغربی یورپ کے ممالک میں سیکس ورکرز کے طور پر نقل مکانی
کرنے والوں میں رومانیہ سرِ فہرست ہے۔ آج کا رومانیہ صرف ناروے سے امداد کے
طور پر 47 ملین کراؤن لینے پر مجبور ہے۔جب کہ امریکا نے اپنی توسیع
پسندانہ عزائم کے لیے رومانیہ کو باقاعدہ طور پر اپنا فوجی اڈہ بنایا ہوا
ہے جہاں وہ 2013 کے بعد سے ریڈار اور ایس ایم ٹو میزائل انٹر سیپٹرز کی
تنصیبات پر 80 کروڑ ڈالرز خرچ کر رہا ہے۔
بدعنوانی کا یہ عالم ہے کہ ابھی جون میں ہی ’’قبرستان میں رشوت‘‘ نامی ایک
پینٹنگ بہت مشہور ہوئی کہ رومانیہ کے سابق وزیر خزانہ دریوز والکو نے مبینہ
طور پر ایک قبرستان میں رشوت وصول کی تھی۔ مئی 2016 میں رومانیہ کے
اسپتالوں میں غیر معیاری اور ناقص ادویات کا معاملہ سامنے آنے پر عوامی
ردِعمل کے نتیجے میں رومانیہ کے وزیر صحت پاٹریسیو آچیماس کو مستعفی ہونا
پڑا۔
رومانیہ کے لبرل ،سرمایہ دار اور جمہوری حکمرانوں نے تو رومانیہ کو خیر سے
لوٹا کھسوٹا ہی تھا وہ 22000 ہزارشر پسند بھی 25 سال تک اس لوٹ میں سے اپنا
حصہ پاتے رہے جنہیں سوشلسٹ حکومت کے خاتمے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
رومانیہ کے یہ ’’ انقلابی ‘‘ پچیس سال تک اضافی استحقاق کے سرٹیفیکٹ لیے
پھرتے تھے جن کے ذریعے یہ دیگر مراعات کے ساتھ ساتھ ٹرین کا سفر تک مفت
کرتے تھے۔ ان میں6000 افراد تو ایسے بھی تھے جو ہر ماہ 500 ڈالرز ماہانہ اس
’’خدمت‘‘ کے عوض پاتے رہے لیکن افسوس کہ ’’جمہوریت‘‘ کی پچیسویں سالگرہ پر
حکومت نے ان سے یہ ’’ انقلابی مراعات ‘‘ واپس لے لیں۔ بھوک ہڑتالیں،
مظاہرے ہوئے لیکن ’’ فرزندانِ انقلاب‘‘ کو ان کے ’’انقلابی‘‘ حاکموں نے
مایوس ہی کیا۔
یہ ہے لبرل سرمایہ دارانہ جمہوریت کا چہرہ جو گزشتہ ستائیس سال سے رومانیہ
کے عوام دیکھ رہے ہیں، اسے بھگت رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج رومانیہ کے 63
فی صد باشندے سوشلسٹ دور کی زندگی کو بہترین قرار دیتے ہیں۔جلد یا بدیر
رومانیہ کے محنت کش عوام نئے چاؤ شسکو پیدا کریں گے اور پھر سے انٹرنیشنل
کا وہ گیت گائیں گے جسے اس بار فوجی عدالتوں اور گولیوں کے شور میں خاموش
نہیں کیا جا سکے گا۔
Post a Comment