skip to main |
skip to sidebar
ریاست بمقابلہ عوام : پاکستان کی تاریخ پر نوٹس.....میر محمد علی ٹالپر
تحریر: میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ : لطیف بلیدی
کسی ہستی، گروہ، قوم یا ریاست کو عوام کے فطری حقوق پر ترجیح حاصل نہیں ہو
سکتی جس کی تخلیق یا وجود کی بنیاد خواہ کچھ بھی ہو جس کے تحت اس نے لوگوں
کو ان قیاس کردہ اعلیٰ اور عظیم مقاصد کیلئے اپنے آپ میں ضم کیا ہوا ہو۔
زبانوں، ثقافت، اخلاقیات اور اقدار کا نفاذ جو کہ نافذ کنندہ کی نظروں میں
خواہ کتنی ہی بلند و بالا ہوں مگر پھر بھی ان کے نفاذ کو کسی بھی طرح کا
جواز فراہم نہیں کر سکتیں چاہے ان وجوہات کی بنیاد مذہبی، سماجی، اقتصادی
یا سیاسی ہوں۔ ایسے غیرمنصفانہ نفاذ ہزارہا مسائل کا موجب بنتی ہیں جن کا
ہر موڑ پر ہمیشہ انہیں سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کی متضاد اور ناموافق
فطرت کی قربت کے باعث وقت کے گزرنے کے ساتھ ان کی شدت اور ارتعاش میں بھی
اضافہ ہوجاتا ہے۔
جو افسانے ان گروہوں کے بظاہر عظیم اور بے لوث مقاصد کے گرد بُنے جاتے ہیں،
جو دیگر اقوام کو غلام بنانے پر تلے ہوئے ہوتے ہیں، ان کے ظاہری اور
پوشیدہ ایجنڈوں کے درمیان تمیز کرنے کے لئے ایک گہرے مطالعے کی ضرورت ہے۔
جس پرُفریب اور زیرک انداز میں یہ افسانے بنے اور بروئے کار لائے جاتے ہیں،
سب کو نہ سہی مگر اکثریت کو دھوکہ دے دیتے ہیں اور یہ باور کرواتے ہیں کہ
بظاہر غلط اور جعلی دلیل لائقِ ستائش اور معتبر ہیں۔ یہ ایک بڑے پیمانے پر
کی گئی دھوکہ دہی پر مبنی ہوتی ہے اور بہت کثرت سے کی جاتی ہے وگرنہ یہ
منصوبے کامیاب نہیں ہوسکتے۔ جہاں کہیں بھی وہ لوگ عوام کو اپنی نمود و
نمائش والی بیان بازی سے قائل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو وہ اپنی اصلیت
پر اتر آتے ہیں اور ’ریاست کی عملداری کو یقینی بنانے‘ جیسے گھسے پٹے
الفاظ کا سہارا لے کر شیطانی انداز میں طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ اپنے
مذموم عزائم سے اختلاف کو قطعی برداشت نہیں کرتے اور بالآخر اپنے کمزور حصہ
داروں کی خواہشات کے برخلاف عمل پیرا ہوتے ہیں۔
مقتدر حصہ دار کی تاریخ اور پس نفسیات، جو خود کو عالی نسب سمجھتا ہے، ایک
وفاقی یونین میں اسی طرح کام کرتا ہے اور اس حوالے سے ایک بہت اہم کردار
ادا کرتا ہے کہ وفاق کی دیگر اکائیوں کے ساتھ کتنا اچھا اور کتنا برا سلوک
کیا جانا چاہئے۔ اگر وہ حصہ دار مسلح افواج کو بھی بھاری اکثریت فراہم کرتا
ہو تو دوسروں کی جانب اس کا رویہ بھی زیادہ اہم ہو جاتا ہے کیونکہ دبنگ پن
ان کیلئے زندگی کا ایک قدرتی طریقہ کار بن جاتا ہے۔ آمریت اور دوسروں کے
حقوق نظرانداز کرنا ایک بیماری ہے جس میں پوری انسانی تاریخ میں تمام
طاقتور افراد، گروہ اور قومیں مبتلا رہی ہیں اور یہ امر اُن جعلی عالی نسب
لوگوں کو غیرفطری نہیں لگتیں جو اسے اپنی فطرتِ ثانی کے طور قبول کرلیتے
ہیں اس بات سے قطع نظر کہ مظلوم اور مرعوب عوام ان ناانصافیوں کے بارے میں
کیا سوچتے ہیں جو قومی مفاد کے نام پر زبردستی ان کے حلق میں ٹھونسے جاتے
ہیں خواہ وہ کتنی ہی کڑوی ہوں مگر ان لوگوں کو نگلنی پڑتی ہیں جنہیں نچلے
درجے کے عوام الناس کی حیثیت حاصل ہو۔
اگر غالب اکائی، جس کی تاریخ میں اس سے قبل اس خطے کو نوآبادیت بنانے والوں
کی خدمت گزاری شامل ہو تو پھر کمزور وفاقی اکائیوں کا مقدر پاٹ میں پسنا
ہی ہوتا ہے۔ تاریخ کی لوح پر اپنے کردار کے توازن کو قائم رکھنے کی خواہش
میں اگر ضروری ہو تو وہ طاقت کے ذریعے اور بھی بہت سارے کام کرتا ہے جو اس
نے سابقہ نوآبادکار سے بخشیش حاصل کرنے کیلئے بہ خوشی کیے ہوئے ہوتے ہیں۔
اسے دوسروں کو اپنی ضروریات اور پالیسیوں کے تابع بنانا پڑتا ہے اس بات سے
قطع نظر کہ خواہ اسے بھی زیادہ بڑی طاقت کے پیروں تلے ذلت اٹھانی پڑے۔ یہ
اُن اہم مسائل پر دیگر اکائیوں کی طرف سے کیے جانے والے جائز اعتراضات اور
مخالفت کے حوالے سے بھی انتہائی حساس بن جاتا ہے جس سے وہ اکائیاں براہ
راست متاثر ہورہی ہوتی ہیں۔ یہ ہمیشہ آسانی سے قابل رسائی اور تابعدار فوجی
طاقت کے استعمال کو ترجیح دیتی ہے جو بالآخر اور بلا کسر یا تو علیحدگی کی
جانب دھکیلتی ہے یا پھر دائمی طور پر کھولتے ہوئے عدم اطمینان پر منتج
ہوتی ہے۔
حکمران اشرافیہ جو غیر قانونی طور پر اقتدار پر قبضہ جماتی ہے اس کی منفعت،
مراعات اور رعایت کی اتنی عادی ہوجاتی ہے کہ عوام کی جائز اتھارٹی کو
اقتدار کبھی نہیں دے گی کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ناقابل
تسخیریت اور ناگزیریت پر مکمل طور پر قائل ہوجاتی ہے، صرف اس ملک کے تناظر
میں نہیں بلکہ پوری دنیا کے۔ وہ صدق دل سے یہ ماننا شروع کردیتے ہیں کہ
درحقیقت دنیا کی بقا وہاں پر ان کے اقتدار کو برقرار رکھنے پر منحصر ہے۔
ایسے لوگوں کو اس بات پر قائل کرنا مشکل ہے کہ ریاست کے وجود اور اسکے ساتھ
ساتھ عوامی فلاح کی خاطر وہ اپنی خود اہمیتی اور خود برتری کی غلط فہمی کے
لبادے کو اتار پھینکیں۔ وہ بڑی بے رحمی سے حماقتیں کرتے ہیں اور ہمیشہ
ایسی حماقتیں کرتے ہیں جن سے انہیں، ان کے ٹولے اور ان کے چاپلوس چیلوں کو
فائدہ مل سکے۔
وہ لوگ جو دیگر اقوام کے لوگوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی ٹھانتے ہیں یقینی
طور پر ان کے اقتصادی، سیاسی، مذہبی اور سماجی مفادات اس عمل کو کرنے میں
ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جن کا خیال یہ ہوتا ہے کہ وہ صرف دوسرے لوگوں
کی قیمت پر خوشحال ہو سکتے ہیں۔ اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اگرچہ اعلان
کردہ مفادات یہی ہیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے لیکن پس منظر میں جو چیز
پوشیدہ ہوتی ہے وہ نسل پرستی کا ایک غالب عنصر ہے، ایک ایسا عنصر جس کی وہ
ہمیشہ سختی سے تردید کریں گے۔ اگر نسل پرستی کا عنصر وہاں نہ ہوتا تو ہم اس
ظلم کا مظاہرہ نہ دیکھتے جو دوسروں کو وہ سب کچھ منوانے کیلئے کیا جاتا ہے
جسے غالب گروہ درست اور اپنے خیال میں محکوم لوگوں کے مفاد میں سمجھتا ہے؛
بنگلہ دیش، بلوچستان اور سندھ یہاں کی مقدم مثالیں ہیں۔
اگر نسل پرستی کا عنصر نہ ہوتا تو یہ وفاقی اکائیوں کے ساتھ یکساں سلوک
دکھاتا لیکن چونکہ نسل پرستی کے باعث امتیازی سلوک بڑی ڈھٹائی اور وحشیانہ
طریقے سے برتا جا رہا ہے جس کی توضیح وفاق کے مفاد میں اٹھائے گئے اقدامات
کے طور پر جواز فراہم کرنے کے ساتھ کی جاتی ہے یا پھر یہ جواز کہ وہ یہ کام
دوسروں کے مفاد میں کر رہے ہیں اور جو کوئی بھی اس سے اختلاف کرے اسے
ریاست مخالف عناصر کے ورغلایا ہوا یا ترقی مخالف قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دلیل
باطل اور ناقص ہے کیونکہ پوری تاریخ میں جن کے پاس بھی اقتدار رہا ہے وہ
اپنے اعمال کا دفاع انہی بنیادوں پر کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
وہ لوگ جو دوسروں کو ان کے علاقوں کے جسمانی کنٹرول سنبھال لینے کے بعد
سماجی اور اقتصادی طور پر محکوم کرنا چاہتے ہیں، وہ اس کی شروعات ان
متاثرین پر نا انصافیوں اور ہتک آمیز سلوک کیساتھ کرتے ہیں۔ یہ ہتک آمیز
سلوک، خواہ مخفی ہو یا ظاہر، اس کا ایک مخصوص انداز اور مخصوص توجیہہ ہوتی
ہے؛ اس کا مقصد اور نیت متاثرین کو ان کی شناخت کے احساس سے محروم کرنا اور
ان کو بلا چوں چرا مکمل طور پر اپنے سانچے میں ڈھالنا ہوتا ہے۔ جب کبھی
کوئی مرد یا عورت اپنی شناخت کا احساس کھو دے تو ا سے بدترین کام کرنے
کیلئے بھی راضی کیا جاسکتا ہے اور کوئی بھی کام اپنے لوگوں، اپنی ثقافت اور
تاریخ کے خلاف کام کرنے سے بدتر نہیں ہے۔
یہ ہتک آمیز سلوک اتنی کثرت اور اتنی ہوشیاری سے نافذ اور مسلط کی جاتی ہے
کہ زیر نوآبادیت لوگ آخرکار اس کے عادی بن جاتے ہیں اور اسے ایک قدرتی امر
کے طور پر قبول کر لیتے ہیں۔ اس اہم حقیقت کی وضاحت کرنے کیلئے مینڈکوں پر
ایک تجربہ کیا گیا۔ پانی تقریباً 50 ڈگری سیلسیس پر ابالا گیا اور مینڈکوں
کو پانی میں گرا دیا گیا؛ قدرتی طور پر تمام مینڈکیں مر گئیں۔ مینڈکوں کے
دوسرے گروہ کو نیم گرم پانی میں ڈالا گیا اور پھر اسے آگ پر رکھ کر آہستہ
آہستہ گرم کیا گیا؛ یہاں تک کہ درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیس تک پہنچ گیا مگر
یہ مینڈک پانی میں تیر رہے تھے۔ جب لوگوں کو ہتک آمیز سلوک کا شکار بنا یا
جائے اور ان کے رہنما آواز نہ اٹھائیں یا مزاحمت نہ کریں تو لوگ بھی انہی
مینڈکوں کی طرح توہین کی حدت کے عادی بن جاتے ہیں۔
ہتک آمیز سلوک کی مشق کبھی کبھار انفرادی ہوتی ہے اور بعض اوقات اجتماعی۔
کبھی کبھار یہ مرتکبین اپنے کام کو آسان بنانے اور لوگوں کو ان کے قومی
وقار کے احساس سے محروم کرنے کی کوشش میں پوری قوم کیخلاف ایک علامتی توہین
کا ارتکاب کرتے ہیں۔ وہ بعض اوقات اس توہین کیلئے بڑے اثر و رسوخ اور
اختیار رکھنے والے افراد کا انتخاب کرتے ہیں تاکہ اس ذلت کے اثرات، اگر
مکمل طور پر نہ سہی مگر بیشتر، ان افراد کے پیروکاروں پر پڑیں جنہیں انہوں
نے کسی بڑی کوشش کے بغیر ان کے ناجائز اور ظالمانہ مطالبات کو چپ چاپ تسلیم
کر لینے پر آمادہ کیا ہوا ہوتا ہے۔ ہتک آمیز سلوک لوگوں میں اپنی ثقافت
اور تاریخ کو مسترد کرنے کے عمل کو تیز کر دیتی ہے جو کہ شناخت کے کھونے پر
منتج ہوتی ہے۔
شناخت کھو دینے کی صورت میں ان کی اپنی ثقافت اور تاریخ کے لئے محبت اسی کو
مسترد کرنے میں بدل جاتی ہے۔ اس استرداد کو لانا ظالم کیلئے کبھی بھی کوئی
فضول اقدام نہیں ہے کیونکہ یہ تشخص کا کھونا ہی ہوتا ہے جس کا وہ اپنے
شیطانی مقاصد کی تکمیل کے لئے زیادہ سے زیادہ استحصال کرتا ہے۔ جب استرداد
کا یہ رویہ اس میں سرایت کرجائے تو وہ اپنے قومی وسائل، ثقافت، تاریخ اور
قومی اہداف سے غافل ہوجاتا ہے اور یہ اس کی نفسیات پر مکمل غلبہ پالیتا ہے
اور یہ امر قابض کیلئے نہ صرف اُس محکوم ملک کی دولت اور وسائل کے استحصال
کو آسان بنا دیتی ہے بلکہ اس مرتد شخص کی شکل اسے ایک فعال معاون جرم اور
شیہہ دینے والا سازشی مل جاتا ہے۔
ڈاکٹر مالکوں، لسبیلہ کے جاموں، اسلم رئیسانیوں جیسے لوگ ان حلیفوں کی
تجسیم ہیں اور یہ لوگ اس قابل نفرت اطاعت گزاری کو فروغ دیتے ہیں جو انہیں
مالامال کرنے میں مدد گار ہوتی ہے۔ ایک حکایت اس قابل نفرت اطاعت گزاری کی
پھٹکار کی وضاحت کرے گی، جس کے حق میں وہ لوگ ہوتے ہیں، اور ہمیں ان نا
انصافیوں اور ہتک آمیز سلوک کو قبول کرنے کی اس کھلی رسوائی کی بھی یاد
دلائے گی۔ کسی سلطنت میں لوگوں کو زورگار کے لئے روزانہ ایک دریا پار کرنا
پڑتا تھا۔ آمدنی میں اضافے کی امید میں بادشاہ وہاں ایک پل تعمیر کرواتا
ہے۔ حیرت کی بات ہے، آمدنی کم ہوجاتی ہے۔ وزیر کے مشورے پر وہ ایک محصول
عائد کرتا ہے۔ اس نے سوچا کہ احتجاج بھڑک اٹھیں گے لیکن لوگ اطاعت شعاری سے
پیسہ ادا کرتے رہے اور جب کبھی آمدنی کم ہوجاتی تو محصول بھی بڑھا دیا
جاتا۔
احتجاج کو اکسانے کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے اس نے دونوں سروں پر ایک ایک
شخص تعینات کیے جو ہر ایک راہگیر کو جوتے سے مارتا۔ کچھ دنوں کے بعد پوری
عوام محل پر اکٹھا ہوگئی۔ اس امید میں کہ وہ احتجاج کریں گے، یہ سن کر
بادشاہ چونک گیا کہ ان کا کہنا یہ تھا کہ انہیں مارنے کیلئے صرف دو افراد
تعینات ہیں جس کے باعث انہیں بہت تاخیر ہوتی ہے اور مطالبہ کیا کہ مزید لوگ
تعینات کیے جائیں تاکہ اس عمل کو تیز کیا جاسکے۔ اس سے انہوں نے یہ نتیجہ
اخذ کیا وہ لوگ جو ’ہتک آمیز کے پل‘ کو بہ خوشی پار کرتے ہیں ان پر من مانے
طریقے سے حکومت کی جاسکتی ہے۔ یہ بالکل اسی طرح کی اطاعت گزاری ہے جسے یہ
خود غرض سیاستدان چاہتے ہیں۔
برطانوی اس ہتک آمیز سلوک میں ماہر تھے؛ انہوں نے اس کی تمام شکلیں تمام
لوگوں پر استعمال کیں۔ نوآبادیت کے عمل میں ان کے اسلحہ خانے میں سب سے اہم
ہتھیار یہی تھا۔ انہوں نے اپنے اقتدار کے آگے ذلت آمیز اور قابل نفرت
دستبرداری کو مقدس و متبرک بنایا اور ان تمام لوگوں کو شیطان صفت قرار دیا
جو قائم شدہ معاشروں پر ان کی سیاسی، ثقافتی، سماجی اور معاشی حملے کیخلاف
کسی بھی طرح کی مزاحمت ظاہر کرتے۔
یہاں کے سانولے صاحبوں نے قوموں پر ہتک آمیز سلوک کی اس میراث کو اچھی طرح
سیکھا اور پھر اس کی مشق جاری رکھی۔ انہیں اپنے اقدار، اپنے طور طریقے،
اپنی زبان، اپنے نظریات، اور اپنی اخلاقیات تھوپنے کیلئے اس کا استعمال بے
تحاشہ اور بھرپور قوت سے کرنا پڑا ہے۔ مختصر یہ کہ ایک بالکل نیا نظامِ
عقیدہ اور دنیا کو دیکھنے کا ایک نیا نقطہ نظر جو کہ ان کے خیال میں نہ صرف
برتر ہے بلکہ اللہ کی طرف سے اسے اُن اڑیل لوگوں پر ان کے اپنے فائدے کے
لیے زبردستی نافذ کرنے کا حکم ہے۔ وہ لوگ کہ جن کا برطانوی حکومت کو بھارت
کی تقسیم کیلئے آمادہ کرنے میں اہم کردار تھا، ان کا ماننا یہ تھا کہ اس
ملک کی تخلیق میں اللہ کی مرضی شامل تھی۔ ان کے جانشینوں نے اور بھی زیادہ
بڑھ چڑھ کر اسے ایک ناقابل تغیر سچائی کے طور پر مانا۔
غالب قوت اور استحصال کنندہ ان لوگوں سے خوف کھاتے ہیں جو ان کے دباؤ اور
لالچ سے مرعوب نہیں ہوتے اور اپنے تشخص کے احساس کو زندہ رکھنے میں کامیاب
رہتے ہیں۔ ان کا خوف بڑھتا رہتا ہے کیونکہ سرکشی بھی تابعداری کی طرح وبائی
ہوتی ہے اور اگر وہاں کوئی ایسا نکل آئے جو دباؤ اور ڈرانے دھمکانے یا
لالچ میں نہ آئے تو دوسرے بھی اس کی تقلید کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یا تو
اسے ختم کر دیتے ہیں یا اس کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وہ لوگ جو اپنی شناخت کا احساس نہیں کھوتے، ان کے مفادات کے لئے مسلسل خطرہ
بنے رہتے ہیں۔ قوموں میں ہمیشہ ایسے دیانتدار اور غیرت مند لوگ رہے ہیں
جنہوں نے زبردست مشکلات کے باوجود بھی سرکشی کی ہے اور اپنی قوموں کو فخر
کا احساس بخشا ہے اور وہ لوگ امید کا مینارہء نور رہے ہیں؛ بلوچستان میں
نواب خیر بخش مری، میر شیر محمد مری، اپنے آخری دنوں میں نواب اکبر بگٹی
مینارہء نور تھے۔ موجودہ نسل میں ڈاکٹر اللہ نذر، بالاچ مری اور دیگر
سرمچاروں نے بھی اس کردار کا فرض نبھایا ہے۔ ماما قدیر بلوچ کی لانگ مارچ
اور بلوچ سرزمین کی بہادر بیٹیوں اور جوانوں، جو اُن کے ہمراہ رہے، نے بھی
اس کردار کا فرض ادا کیا ہے۔ دوسری طرف یہاں غدار اور برگشتہ بھگوڑے بھی
رہے ہیں جنہوں نے اپنی قوموں کی تقدیریں کوڑیوں کے عوض بیچی ہیں۔
یہ سانولے صاحبان جانتے تھے کہ انہیں آگے چل کر ایک بہت بڑا کام کرنا تھا
کیونکہ جن قوموں کو انہوں نے سرنگوں کرنے کی ٹھانی تھی اُن کی اپنی تاریخیں
اتنی ہی قدیم تھیں جتنی کہ پہاڑ ہیں، ان کی اپنی زبانیں تھیں، اپنی اخلاقی
اور سماجی اقدار، اصول اور رسم و رواج تھے۔ وہ جانتے تھے کہ انہیں بے دخل
کرنے کیلئے قائل کرنے سے زیادہ طاقت کا استعمال کرنا ہوگا اور مسلح افواج
کی شکل میں انہیں ایک آمادہ ساتھی مل گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس ساتھی نے
ہرطرح کی مخالفت کو کچل کر اطاعت گزاری میں تبدیل کرنے کے کام کا واحد
سربراہ بننے کا فیصلہ کیا۔
کسی مخالف کی مزاحمت پر قابو پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اس
شخص کو خاموش کیا جائے تاکہ وہ اپنی طرح کے لوگوں کیساتھ نہ کوئی رابطہ کر
سکے اور نہ ہی وہ دوسروں کو ان ناانصافیوں سے منسلک کر سکے۔ مخالف کو یا تو
جسمانی طور پر بولنے سے روک کر خاموش کیا جا سکتا ہے یا اس سے اس کی زبان
چھین لی جائے؛ اور یہ حربہ بھی یکساں طور پر مؤثر ہے۔
برطانوی حاکموں نے اپنی زبان مسلط کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ایسا کرنے
سے قاصر رہے تو لہٰذا انہوں نے اس کی ترویج ایک مختلف انداز میں کی۔ انہوں
نے انگریزی کو ایک منافع بخش زبان بنا دیا، ایک ایسی زبان جس سے اس کے
اپنانے یا استعمال کرنے والے کیلئے فوائد کی فراوانی ہوئی۔ ان کا طریقہ
مکارانہ تھا اور انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ بہت زیادہ لوگوں کو
نالاں نہیں کریں گے۔ ان کے نزدیک اس کی مقبولیت کیلئے مراعات دینا زیادہ
ضروری تھا اسی لئے اس میں کوئی تعجب نہیں کہ انگریزی نہ صرف دنیا کی بلکہ
اب بھی اس خطے کی غالب زبان ہے۔
سانولے صاحبان، جو اپنے مشن اور اس کے تقدس کی حوالے سے ایک مختلف نقطہ نظر
رکھتے تھے، نے ان چیزوں کے بارے کوئی اختلاف رائے برداشت نہیں کی جنہیں وہ
عوام الناس کے مفاد میں سمجھتے تھے۔ انہوں نے فرمان جاری کیا کہ پوری رعیت
کی زبان اردو ہو گی ان کی اپنی زبانوں کی کسی حیثیت کے بغیر۔ بنگال کے
لوگوں نے اس ناانصافی کے خلاف مزاحمت کی چونکہ انہوں نے اس اقدام کو ان کی
زبان بندی اور انہیں کچلنے کی کوشش کے طور پر دیکھا۔ مختلف صوبوں میں اس
اقدام کی مخالفت مختلف شدت کی تھی لیکن تمام اختلاف رائے یا تو جسمانی طور
کچل دی گئی یا پھر اسے مذہبی اور سیاسی دباؤ کے ذریعے مرعوب کرکے منوایا
گیا۔ وہ اختلاف رائے کو دبانے میں کامیاب تو ہوئے لیکن انتشار اور انسفاخ
کے بیج بو دیئے گئے تھے۔
اگرچہ 67 سال گزر چکے ہیں یہ ناانصافی بلا روک ٹوک جاری ہے اور حتیٰ کہ اگر
کوئی ان زبانوں کے لئے مساوی حقوق کا مطالبہ بھی کردے، جنہیں وہ ہزارہا
سالوں سے استعمال کرتے آرہے ہیں، تو اس کی مذمت ریاست مخالف کے طور پر کی
جاتی ہے۔ سندھی اس کا سب پہلا اور بڑا شکار رہا ہے کیونکہ یہی وہ جگہ ہے
جہاں آبادیاتی خصوصیات میں سب سے زیادہ تبدیلی کی گئی۔ یہ اب بھی اپنے جائز
مقام کیلئے جدوجہد کر رہی ہے، اسی طرح سے پشتو، بلوچی، براہوی اور سرائیکی
بھی۔ اگر لوگ تخلیقی اور زرخیز بننا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی زبانوں میں
بات چیت کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن قومی مفاد کے نام
پر حکمران انہیں ان کا حق دینے سے انکاری ہیں۔
سانولے صاحبان کا اپنی رعیت سے سلوک بہت زیادہ انتقامی، کینہ پرور اور
زہریلا رہا ہے کیونکہ برطانوی راج کی طرح وہ بھی یہ سمجھتے تھے کہ لوگوں کو
محکوم بنانے اور ان کے آدرش، اقدار، اخلاقیات اور ثقافت مسلط کرنے سے وہ
در حقیقت لوگوں پر ایک بہت بڑا احسان کر رہے ہیں کیونکہ جو کچھ وہ لے کر
آئے ہیں نہ صرف بہتر ہے بلکہ اس کام کے کرنے میں وہ اللہ کی مرضی پر بھی
عمل درآمد کر رہے ہیں۔ خود اتقائی کا یہ رویہ جسکی جڑیں اس ذہنیت میں پیوست
ہیں جس نے ان کے دماغ کو تمام منطق اور مکالمے کیلئے بند کر دیا ہے اور ان
کے پاس صرف وحشیانہ طاقت کے استعمال کا راستہ چھوڑا ہے تاکہ یہ بیہودہ
ناشکرے بھانڈ لوگ اُن کی بالادستی کو قبول کرنے کی ضرورت کو سمجھ سکیں۔
جو قابل رحم اور دلسوز انسانی حقوق، صوبائی حقوق، خواتین کے حقوق اور
اقلیتوں کے حقوق اس وقت یہاں لوگوں کو حاصل ہیں اُس تقدس ماب ریاکار نرگسیت
کا براہ راست نتیجہ ہے جس پر یہاں کی حکمران اشرافیہ عمل پیرا ہے۔ وہ خود
پسندانہ تکبر سے اس بات سے انکار جاری رکھے ہوئے ہیں کہ گویا ان کے اس چیز
کیساتھ جسے وہ ریاکاری سے نظریہء پاکستان کہتے ہیں، یہاں آنے سے قبل اس ملک
میں بسنے والے لوگوں کی کوئی تاریخ، ثقافت، زبان، اقدار، یا اخلاقیات بھی
تھیں۔ حکمران اشرافیہ کا یقیناًیہ ماننا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو 14
اگست 1947ء میں پیدا کیا ہے۔ وگرنہ اس جغرافیائی ہستی کے اندر رہنے والی
قوموں کی زبانوں، حقوق، ثقافت اور تاریخ کی جانب ان کے رویے کی وضاحت اور
کس طرح سے کی جا سکتی ہے؟
ون یونٹ نہ صرف سندھ، بلوچستان اور بنگال کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی
ایک کوشش تھی بلکہ انہیں ان کے تاریخی ناموں سے بھی، تاکہ ان کی تاریخ کی
اہمیت کو گھٹا کر انہیں مکمل طور پر خارج از وجود کرنا اور آخرکار ان کے
پورے وجود کو بھی ختم کردینا۔ اور انہیں مغربی پاکستان جیسے مصنوعی اور بے
معنی چیز میں پناہ تلاش کرنے پر مجبور کرنا۔ کسی شخص کو اس کی قوم کا نام
اور شناخت استعمال کرنے کے حق سے انکار اسے اپنا تصورِ ذات کھونے کی طرف
دھکیلتا ہے، ایک ایسی صورتحال جسے قابض بھرپور طور پر استعمال کرتا ہے تاکہ
وہ اپنے شکار پر اپنا اثر و رسوخ بڑھائے اور اس کے طوق بھی بڑھائے جنہوں
نے اسے پابند سلاسل کر رکھا ہے۔
سندھ کو ہتک آمیز سلوک اور ناانصافیاں اسے اپنے جائز حصے سے زیادہ ملی ہیں۔
بھارت سے مہاجرین کی آمد نے نہ صرف اس کی آبادیاتی خصوصیات کو ہمیشہ کے
لیے بدل کر رکھ دیا بلکہ وہاں پہلے سے مقیم لوگوں کے لئے اقتصادی، سماجی،
ثقافتی اور سیاسی شعبوں میں نقصان دہ تبدیلیوں کی بھی بنیاد رکھی۔ یہ سندھ
کی تقدیر رہی ہے کہ فروری 1843ء میں برطانوی قبضے کے بعد سے اس کے ساتھ
بدترین سلوک روا رکھا گیا ہے۔ حتیٰ کہ برطانوی راج نے بھی اسے صوبے کی
حیثیت، جس کا یہ ہمیشہ سے مستحق رہا ہے، نہ دینے کا فیصلہ کرکے ایک سوتیلی
ماں کی روش اپنائی ہوئی تھی۔
بلوچ سرزمین کے نام سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ ایک بہت بڑے
علاقے میں ان کی آبادی ہے جو کہ در قدیم سے ان کے نام کے ساتھ منسوب ہے۔
اسلئے ان سے ایک مختلف انداز میں نمٹنا تھا۔ ریاست کے پاس طاقت کا ستعمال
واحد راستہ تھا کیونکہ نئی ریاست کے پاس ان کو اپنے آپ میں ضم کرنے کا اور
کوئی اخلاقی، قانونی، یا سیاسی جواز موجود نہیں تھا۔ عوامی نمائندوں نے ایک
الگ اور آزاد و خودمختار وجود کا انتخاب کیا تھا جو کہ ان کا حق تھا۔ ستم
ظریفی یہ ہے کہ جس شخص، جناح، نے برطانوی دور میں اس کی آزادی کی مانگ کی
التجا کی تھی اُسی شخص نے اس کے خلاف طاقت کے استعمال کا حکم دیا تھا۔
بلوچستان کے کم آبادی اور لامحدود وسائل کا حامل ہونے نے اس کے وسائل اور
بڑے علاقوں کا استحصال کرنے کی تمام کوششوں کو مدعو کیا۔ کسی بھی دوسرے
ذرائع سے ان کو محکوم کرنے سے قاصر رہنے کے سبب بلوچستان نے بار بار مختلف
سطحوں اور دورانیوں کی شورشیں دیکھیں۔ وہاں کی جانے والی تازہ ترین
کارروائی، جو کہ پوری تاریخ میں سب سے زیادہ شیطانی اور جو جبر اور قتل عام
وہاں پر کیا جارہا ہے اس سے لاطینی امریکہ میں انسانیت کے خلاف جرائم کا
ارتکاب بھی شرما جائے، وہاں کے لوگوں کے وسائل پر اختیارات کے حق کے
مطالبات اور طاقت کے ذریعے آبادیاتی خصوصیات میں تبدیلی کیخلاف مزاحمت کو
دبانے کی نیت سے کی جا رہی ہے۔ لوگوں نے ان تمام پالیسیوں کیخلاف مزاحمت کی
ہے جنہیں وہ بلوچ اور بلوچستان کے وسیع تر مفادات کیلئے نقصان دہ سمجھتے
ہیں۔ اب وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ساتھ مل کر رہنا ناممکن ہے۔
آبادی میں اضافہ اور کم پڑتے وسائل نے بلوچستان کی جانب نئے سرے سے ایک
شدید یورش اور توجہ کی حوصلہ افزائی کی ہے تاکہ وہ غیرمحسوس اور ظاہری
انداز میں زمین کا ایک بڑا حصہ کاٹ کر لے جائیں جس سے وہ ایک مناسب اور اہم
علاقائی کھلاڑی بن جائیں جس کی ماضی میں امریکہ کو لیکن اس وقت چین کو
ضرورت ہے۔ الحاق اور نوآبادیت عیاری سے خفیہ طور پر جاری رہی اور یہ عمل
بہت سارے علاقے ان کے زیر اثر لے آیا، یہ زیادہ تر ان لوگوں ، جو ان کا کام
آسان کرسکتے تھے، کو مراعات دینے سے کیا گیا ہے یا پھر طاقت کا استعمال کر
تے ہیں جب یہ اور دھوکہ دہی دیگر طریقے ناکام ہوجاتے۔
بلوچستان اور سندھ میں سیاسی جماعتوں اور شخصیات نے عناد پر مبنی ان
پالیسیوں کو کامیاب بنانے میں زیادہ تر خبیثانہ اور غلامانہ کردار ادا کیا
ہے۔ مخصوص افراد اور عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے گروہوں جوکہ
درحقیقت انہیں بعض اوقات ہر طرف گھسیٹتے ہیں جو عموماً آہستہ آہستہ مگر
آخرکار نا انصافیوں اور عدم مساوات کو وسیع تر مفادات کے نام پر اخلاقی اور
قانونی طور پر جائز عمل قرار دیکر انہیں قبول کرنے کیلئے لوگوں کو قائل
کرتے ہیں جو کہ در اصل تنظیم یا پارٹی کی پرتوں میں موجود چند منتخب افراد
کے مفادات سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوتے۔ حکومتوں نے اپنے الحاق اور
نوآبادیاتی مقاصد کو آگے بڑھانے کیلئے سیاسی، روحانی اور مذہبی رہنماؤں کا
بھی استعمال کیا ہے جو ان کے بنیادی طور پر شیطانی اور غلیظ اہداف کو ایک
دردمندانہ، بے لوث اور انسان دوستی کی ظاہری شبیہہ فراہم کرنے میں مددگار
ہوتے ہیں۔
میڈیا نے ریاستی نظریات کے فروغ میں عموماً ایک آلے اور فعال معاون کا
کردار ادا کیا ہے۔ بیرونی کنٹرول اور اندرونی طور پر ازخود سنسرشپ کے سبب
میڈیا نے اس ’سرزمینِ اِخلاص‘، یا جیسا کہ مرحوم جسٹس کیانی کبھی کبھار اسے
’سرزمینِ افلاس‘ کہتے تھے، کی حدود میں بسنے والی مختلف قومیتوں کی کاوشوں
اور ان کے مطالبات کو بے وقعت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حال ہی میں پریس کی طرف
سے ایک نئی اصطلاح گڑھی گئی ہے اور حتیٰ کہ اسے چند ملک گیر روزناموں کے
اداریوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے؛ وہ صوبوں میں سرگرم ان رہنماؤں کا
حوالہ دیتے ہوئے ’نیم قومپرست‘ کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں جو اپنے
لوگوں کے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ گویا آپ کسی کا
حوالہ ’نیم انسان‘ کے طور پر دیں جب آپ اس کا موازنہ انسانوں کے ساتھ کر
رہے ہوں؛ وہ بہ آسانی بھول جاتے ہیں کہ جن لوگوں کو وہ نیم قومپرست کا نام
اور شبیہہ دیتے ہیں ثقافتوں، تاریخوں اور قوموں کی نمائندگی کرتے ہیں جنہوں
نے ہزاروں سالوں سے ان علاقوں کو اپنے وجود سے آراستہ کیا ہے اور جن لوگوں
کو وہ قومپرست کہتے ہیں وہ کم و بیش محض 67 سال سے یہاں آباد ہیں۔ لوگوں
سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنی ثقافتوں، تاریخوں، قومی جذبات کو
اضافی سامان کے طور پر نکال پھینکیں کسی ایسی شے کیلئے جو انہیں صرف مصائب
فراہم کرنے میں کامیاب رہی ہو۔
یہ توقع کرنا محض خام خیالی ہے کہ میڈیا کے اس رویے میں تبدیلی آ جائے گی
کیونکہ تمام نہ سہی مگر بیشتر اخبارات اور ٹی وی چینلز کو چلانے والے اور
ان کے مالکان وہ لوگ ہیں جنہیں موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے فوائد حاصل
ہوئے ہیں اور وہ ترقی کی منازل طے کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہاں اس سے
زیادہ اور کچھ نہیں ہوگا ماسوائے اس کے کہ کبھی کبھار ان لوگوں کے حقوق کے
اظہار کی جھلک دکھائی دے گی جنہیں وسیع تر مفادات کے نام پر ان کے حقوق اور
عزت کی زندگی سے محروم کیا گیا ہے۔ سب کو اسٹیٹس کوو سے فائدہ مل رہا ہے
اور یہ ان کے مفاد میں نہیں ہے کہ وہ اس میں خلل ڈالیں۔ اس میں کسی تعجب کی
بات نہیں کہ چند اخبارات اور جرائد چند لکھاریوں سے طاعون کی وبا کی طرح
بچنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ان کے مضامین ان خیالات کی تائید کرتے ہیں جو
تبدیلیوں کیلئے ہمت بڑھاتے ہیں اور یہ کام ان کے اسٹیٹس کوو کو خطرے میں
ڈال دے گا۔
ان لوگوں کے خلاف نا انصافیاں اور ہتک آمیز سلوک روا رکھنا جو مخالفت میں
صدائے احتجاج بلند کرنے کی ہمت کرتے ہیں، بجائے اس تناؤ کو کم کرنے اور
مسائل کا حل نکالنے کے یہ انہیں مزید بگاڑ دیتے ہیں، اور یہ عمل مزاحمت کو
بڑھاوا دیتی ہے جس میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا جاتا ہے اور آخر کار وہ
مرحلہ آ جاتا ہے جہاں یہ اُس جابرانہ مشینری کو شکست دے دیتی ہے۔ جبر صرف
اور صرف نقصان دہ ہو سکتا ہے لیکن حکمران اشرافیہ ہمیشہ اس حقیقت کو سمجھنے
میں ناکام رہتی ہے۔ لوگوں کی نجات جابرانہ مشینری کو شکست دینے کے لئے ان
کی جدوجہد میں ہی مضمر ہے۔
عدم برداشت کی فضا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تشدد نے یہاں کی سول
سوسائٹی کی اساس تک کو خطرے میں ڈال دیا ہے جو کہ اس جبر کا براہ راست
نتیجہ ہے جو قیام پاکستان کے بعد سے مقبول عام رواج رہا ہے۔ پوری تاریخ میں
معاشرے، ممالک اور سلطنتیں عدم برداشت اور جبر کے باعث ٹوٹتی رہی ہیں جس
کی افزائش اور نشوونما کوتاہ فہم حکمران اشرافیہ کرتے رہے ہیں جنہوں نے
اپنے محدود ذاتی مفادات کا موازنہ ریاست کے مفادات سے کیا ہوا ہوتا ہے اور
وہ بخوشی ایسی پالیسیوں کا آغاز کرتے رہے ہیں جو جلد یا بہ دیر ان کیلئے
اور ان کی زیرنگرانی کام کرنے والے بدبخت لوگوں کیلئے مہلک ثابت ہوئی ہیں۔
جو ذہنیت اس جگہ کو نراجیت اور انتشار کے پاتال میں لے آئی ہے وہ کبھی
تبدیل نہیں ہو گی اور جلد یا بہ دیر معاملات اپنے قدرتی نتیجے پر پہنچ
جائیں گے۔ عوام کو ان نااہل اور سفاک بدھوؤں سے اپنی تقدیر کو چھیننے اور
ہر طرح کے استحصال اور ظلم سے پاک آزادی کے ساتھ رہنے کو یقینی بنانے کیلئے
نبردآماز ہونے کی ضرورت ہے۔ جن لوگوں کو نچلے درجے کے عوام الناس کی حیثیت
قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہے اب وہ اس حیثیت کو اپنی قسمت اور تقدیر کے
طور پر قبول نہیں کررہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان جعلی عالی نسب لوگوں
نے یہ حیثیت دھوکہ دہی اور طاقت کے بل بوتے حاصل کی ہے اور اب انہیں اکھاڑ
پھینکا جانا چاہئے۔ تاریخ میں عوام کو معجزات کرنے کیلئے جانا جاتا ہے؛
کچھ بھی ان کی پہنچ سے باہر نہیں۔
مصنف 1970ء کی دہائی کے ابتداء سے بلوچ حقوق کی تحریک سے وابستہ ہیں
Post a Comment