skip to main |
skip to sidebar
دنیا کا نقشہ بدلنے کی جنگ محکوم اقوام و مظلوم طبقے کا اتحاد نا گزیر,, میراث زِروانی
کہا جاتا ہے کہ دنیا کی معیشت و سیاست کی قسمت چند عالمی طاقتوں کے
ہاتھوں میں ہے، ان طاقتوں کا یہ اختیار و حیثیت سرد جنگ کے دور میں بھی
تھے اور آج بھی پوری شدومدسے نظر آتے ہیں لیکن سرد جنگ کا زمانہ جو دو
عالمی طاقتوں سویت یونین اور امریکہ کے زیر اثر ہونے اور دونوں کی عالمی
معاملات میں حدود قیود طے پانے کے باعث اس قدر انتشار زدہ اور بد ترین
تصادموں و بد امنی سے دوچار نہ تھا جس قدر آج کی امریکی چھتری تلے بظاہر
یونی پولر یایک قطبی دنیا میں دکھائی دیتا ہے ۔اگرچہ بیسویں صدی کی 60 اور
سترکی دہائیاں افریقہ ایشیا ء اورلاطینی امریکہ میں قومی آزادی اور انقلاب
کی تحریکات و تبدیلیوں کے ابھار کے باعث بعض تصادموں ،خلفشار اور جنگوں و
خانہ جنگوں کا شکار بھی نظر آئیں مگر ، ہر تنازعہ وانتشار پردو عالمی
طاقتوں کے مابین کسی سمجھوتے یا مفادات میں ہم آہنگی کی گنجائش بہر صورت
نکل آ تی تھی اور کوئی بھی تنازعہ کسی عالمگیر جنگ یا خلفشار کی ایک نہ ختم
ہونے والی نوبت تک نہیں پہنچتا تھا ، چاہے کسی حریف کو اپنے مخالف کی نسبت
زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ،یہ دور بھی پراکسی چالوں اور عالمی طاقتوں کی
خفیہ کارروائیوں سے بھر پور رہا تھا لیکن پھربھی کسی مخصوص علاقے میں حریف
طاقتوں کے مابین پائے جانے والے تضادات کی شدت سے دنیا بھر کے امن کو یوں
خطرات کا سامنا نہ کرنا پڑتا تھا جو آج کے دور کا خاصہ بن گئے ہیں ۔اب سوال
یہ ہے کہ تضادات سے بھر پور ردونوں ادوار یعنی کل اور آج کے مناظر میں
اپنے نتائج اور اثرات کے حوالے سے یہ تفریق آخر کیوں کر پیدا ہوئی ہے۔ بعض
ماہرین کے خیال میں اس کا جواب موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں بڑھنے والے
شدید بحران اور زوال پذیری اور اس کے محرکات میں تلاش کرنا ہوگا ،جس میں
سامر اجیت یا اجارہ داریت اپنی انتہائی بلندیوں کو چھو رہی ہے اور پوری
دنیا کی دولت و معیشت چند ہاتھوں میں جا چکی ہے ، اوریہ ہاتھ اس کوشش میں
ہیں کہ جتنی جلدی ہو سکے وہ دوسرے ہاتھوں میں رہ جانے والی دولت بھی سمیٹ
کر پوری دنیا کے بلاشرکت غیرے حکمران بن سکیں ،ایسی ہی خواہشات ہر سامراجی
طاقت کے دل دماغ میں مچل رہی ہیں اور صرف بڑ ی سامراجی طاقتیں ہی نہیں بلکہ
ان کی حواری اور گماشتہ ریاست جیسے کہ پاکستان و چین کی فوج و بالادست
قوتیں بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتیں جس کے نتیجے میں صرف
سامراجی آقاؤں کے درمیان ہی نہیں بلکہ آقاؤں اور ان کے حواریوں و گماشتوں
کے مابین بھی مفاداتی ٹکراؤ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ یہ مفاداتی ٹکراؤ در
حقیقت اقتصادی ٹکراؤ ہے جس نے کئی پیچیدہ سیاسی مسائل پیدا کر دئے ہیں جو
فریقین کے مابین جاری تناؤ کو جنگی فضا میں بدل رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق سامراجیت میں پیدا ہونے والی موجودہ پر انتشار کیفیت
ناگزیر تھی ،کیونکہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی سامراجی طاقتوں
کے درمیان دنیا کی جو بندر بانٹ کی گئی تھی اور اس کے تحفظ کیلئے جو اصول
وقوائدکؤطے کئے گئے تھے وہ آج ان کی سامراجی ضروریات کی تکمیل کی راہ میں
رکاوٹ اور پاؤں کی زنجیرثابت ہورہے ہیں ،جن سے نجات کے بغیر ان کے بھاری
بھر کم وجود اور حکمرانی و بالادستی کو قائم رکھنا ممکن نہیں رہا ہے ،یہی
وجہ ہے کہ اقوام متحدہ سمیت امن و انصاف کیلئے قائم کئے گئے۔ عالمی اداروں
اور معاہدوں کے تسلیم شدہ قوانین اور اصول و ضوابط کی خلاف ورزیاں عالمی و
علاقائی طاقتوں کا وطیرہ بن چکی ہیں جس کی مثالیں مقبو ضہ بلوچستان میں
جاری ریاستی مظالم میں تیزی، عراق پر امریکی حملے ، شام میں بڑی طاقتوں کی
پراکسی جنگ اور مشرق وسطیٰ و افغانستان سمیت دنیا کے مختلف مقامات پر
سامراجی قوتوں کی ہر قسم کی مداخلت اور زورآور کا رروائیوں کی صورت میں بڑی
واضح نظر آتی ہیں ، یہ تمام مثالیں اس امر کا ثبوت ہیں کہ آج دنیا میں
کوئی قانون یا اصول و ضابطہ عملی طور پر لاگو نہیں رہا ،اور تمام مروجہ
قوانین کی جگہ طاقت کے قانون نے لے لی ہے ،جو کسی اعلیٰ مہذب اور پر امن
انسانی سماج کی بجائے جنگل کے حیوانی قانون کی حیثیت رکھتا ہے ،اسی لئے
اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی ادارے کسی بھی تنازعہ کے حل کیلئے بے اثر اور
غیر فعال ڈھانچے بن کر رہ گئے ہیں ، خاص طور پر اقوام متحدہ اپنے وجود کا
جو از کھو چکی ہے اور اس کی حالت بھی دوسری جنگ عظیم سے قبل اقوام عالم خاص
طورپر سامراجی اقوام کی تنظیم لیگ آف نیشنز جیسی ہوگئی ہے جس کے قیام کا
مقصد دنیا کو پہلی جنگ عظیم جیسی کسی دوسری جنگ سے روکنا تھا مگر یہ عالمی
تنظیم اپنے قیام کے اس بنیادی مقصد کے حصول میں ناکام رہی اور دوسری
عالمگیر جنگ کے نتیجے میں یہ تنظیم تحلیل ہوگئی ،اقوام متحدہ کا قیام بھی
دنیا کو جنگ سے بچاتے ہوئے ریاستوں کے مابین تنازعات اور مختلف بین
الاقوامی ایشوز کو مذاکرات اور پر امن ذرائع سے حل کرنے کیلئے عمل میں لایا
گیا ،جس کی بخوبی انجام دہی کیلئے قوانین و ضوابط پر مشتمل ایک چار ٹر
منظور کیا گیا جسے اس تنظیم کے اراکین دنیا کے تمام ممالک نے تسلیم کیا ۔اس
چارٹر میں امن کی بنیاد اقوام عالم کی آزادی و خود مختاری اور ان کی آزاد
جداگانہ قومی شناختوں کے تحفظ کے حقوق کی پاسداری پر رکھی گئی اور قوموں کے
حق خود داریت کو تسلیم کیا گیا ، جس کے تحت کسی بھی قوم یا خطے پر بیرونی
یلغار اور تسلط کو جارحیت اور غیر قانونی عمل تصور کیا گیا ،کویت پر عراقی
قبضہ چھڑانے کیلئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو عراق پر حملے کی اجازت
اقوام متحدہ نے اسی مذکورہ بالا اصول و قانون کے تحت دی تھی ،اگرچہ یہ کام
اگر امریکہ سمیت کسی بڑی سامراجی طاقت نے کیا ہوتا تو نتیجہ اس کے بر عکس
نکلتا تاہم یہی وہ بنیادی نکتہ تھا جس نے اس عالمی ادارے کی شکل میں دنیا
کو باہم مربوط اور مشترکہ پلیٹ فارم فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے
،لیکن آج یہ ادارہ اپنے دونوں بنیادی ،مقاصد کے حصول میں بری طرح ناکام
نظر آتا ہے ، جسکی مثال اس خطے میں بلوچ،سندھی و دیگر اقوام پر قابض ریاست
کی جارحیت کے خلاف خاموشی لگتا ہے۔ اقوام متحدہ کی ناکامی کے اسباب میں ایک
بنیادی سبب دنیا کی بندر بانٹ کی موجودہ شکل پر سامراجی طاقتوں کاعدم
اطمینان اور دنیاکی اپنے مخصوص مفادات کے تحت ازسر نو تقسیم اور اسے نئی
شکل و صورت دینے کی تگ و دو بھی ہے، کیونکہ اقوام متحدہ پر عالمی طاقتوں کا
غلبہ ہے جنہیں دنیا بھر کی تمام اقوام کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار
حاصل ہے جبکہ اس ادارے میں ایسی تمام ریاستوں کو بھی رکنیت دی گئی ہے جہاں
قومی تضاداور تنازعات کے گرد قومی حق خودداریت کا سوال بڑی شدت سے پایا
جاتا ہے ، جسکی مثال بلوچستان کی صورت میں واضح ہے، ایسی ریاستوں کا قیام
دنیا کی سامراجی تقسیم اور مفادات کے تحت عمل میں لایا گیا ، اس عمل کے
ذریعے آزاد و جدا گانہ تشخص اور خطوں کی حامل چھوٹی پسماندہ اور کمزور
اقوام کی چیر پھاڑ کرتے ہوئے ،انہیں کئی ریاستوں میں تقسیم کردیا گیا ،اور
ان متاثرہ اقوام کی بین الاقوامی برادری میں آزاد اور جدا گانہ قومی شناخت
مٹادی گئی ،اگر متاثرہ محکوم اقوام اس سامراجی تقسیم کو دل ودماغ سے تسلیم
کر لیتیں تو پھر بھی قوموں اجتماع رکھنے والی ریاستوں کو بحیثیت قومی
ریاستیں قبول کرنا قابل اعتراض قرار نہ پاتا ،لیکن مبصرین کے خیال میں ایسی
کثیر القومی ریاستوں کی تشکیل جس میں شامل کی گئی چھوٹی اور کمزور اقوام
شروع دن سے ہی ان کی آزادانہ حیثیت اور جداگانہ شناخت کو مٹانے کیخلاف اور
قومی حق خودداریت کے حصول کیلئے بر سر پیکار رہیں کسی بھی طرح اقوام متحدہ
کی رکنیت کی اہل نہیں تھیں ،کیونکہ ایسی ریاستیں اقوام متحدہ کے چارٹر کے
اس بنیادی نکتے کی پامالی پر کھڑی تھیں جس میں دنیا بھر کی تمام جھوٹی بڑی
،کمزور یا طاقتور اور امیر یا غریب اقوام کی آزادانہ و جداگانہ خود مختار
حیثیت اور ان کے حق خودداریت کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ بعض مبصرین کے مطابق
اقوام متحدہ کا اپنے بنیادی چارٹرسے یہ ایسا انحراف تھا جس نے دنیا میں امن
و انصاف کے قیام میں ہمیشہ رکاوٹیں پیدا کیں اور اقوام متحدہ محکوم چھوٹی
اور کمزور قوموں کی آزادی و خود مختاری کو یقینی بنانے کی بجائے ان پر
جارحیت اور تسلط قائم کرنے والی سامراجی طاقتوں اور ان کی حواری قوتوں کے
مفادات کی نمائندگی و ترجمانی کرتا رہا ،ایسی صورت میں دنیا کا پر امن رہنا
ممکن نہ تھا اور نہ ہے۔ کیونکہ جارحیت اور تسلط دونوں متشدد انہ عمل ہیں
اور تشدد امن کی ضد ہے، اور تشدداپنے بطن سے تشدد کوہی جنم دیتا ہے ،جو
عمومی طور پر سامراجی جبرو تشدد کے رد عمل میں محکوموں کی تحریکات جو بعض
صورتوں میں مسلح شکل بھی اختیار کرتی ہیں کی صورت میں بظاہر ہوتاہے ، جنہیں
کچلنے اور سبوتاژ کرنے کیلئے سامراجی طاقتوں نے نہ صرف براہ راست ریاستی
طاقت کا استعمال عمل میں لایا بلکہ انہیں کاؤنٹر کرنے کیلئے مذہبی شدت
پسندی اور دھشگردی کو بھی پروان چڑھایا گیا ، اور ان کیخلاف کارروائیوں کی
آڑ میں متعلقہ خطوں میں براہ راست مداخلتیں کی گئیں ،تاکہ وہاں اپنا تسلط
مزید مضبوط اور دائمی بنایا جا سکے ،اس تمام سامراجی عمل میں اقوام متحدہ
کے کردار کے بارے میں بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اقوام عالم کے نام سے وجود
میں آنے والا یہ ادارہ کہیں بھی کوئی ایسی مثال قائم نہ کرسکا جو کسی بھی
جارحیت اور لاقانونیت پر کسی بڑی و چھوٹی یا درمیانی ،عالمی و سامراجی طاقت
کیخلاف کارروائی کی صورت میں ہو،آج اس ادارے کی بے بسی پہلے سے بڑھ گئی ہے
،اسی لئے اقوام متحدہ میں اصلاحات اور عالمی فیصلہ سازی کے مرکز سیکورٹی
کو نسل میں وسعت اور مزید اقوام کی نمائندگی کا بھی مطالبہ سامنے آرہا ہے ،
جس میں سیکورٹی کو نسل کی بجائے جنرل اسمبلی کو طاقتور بنانا بھی شامل ہے ۔
یہ تمام کیفیت اس امر کی وضاحت کرتی ہے کہ دنیا کا موجودہ جغرافیائی ،سیاسی
،اقتصادی اور اقوام متحدہ کی صورت میں انتظامی ڈھانچہ اسے تشکیل دینے والی
سامراجی اوران کی حواری طاقتوں کے مفادات کی بخوبی تکمیل میں رکاوٹ ثابت
ہو رہا ہے ، جس کی پاسداری اب ممکن نہیں رہی ہے، چھوٹی اور کمزور اقوام بھی
جو تاریخی طور پر ایک جداگانہ شناخت اور سر زمین کی مالک ہونے کے باوجود
اقتدار اعلیٰ اور آزادی و خود مختاری سے محروم ہیں دنیا کے موجودہ نقشے اور
اس کے تحفظ کیلئے قائم کردہ اقوام متحدہ کے کردار سے مطمئن نہیں ہیں ،جبکہ
نت نئے جغرافیائی سیاسی اور معاشی نقشہ سازی سے چونکہ دنیا بھر کے عوام
الناس کا سرمایہ دارانہ بنیادوں پر خون چوسا گیا ہے اور ان کی زندگی عذاب
بن گئی ہے لہٰذا جبرو استداد و استحصال کے شکار عوام الناس بھی دنیا کے
موجودہ ڈھانچے کی تبدیلی چاہتے ہیں ان کی یہ خواہش کافی دیرینہ ہے جس کے
راستے میں وہی سامراجی قوتیں رکاوٹ تھیں جو آج خود اسے بدلنے کے درپے ہیں
،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سامراج سے لے کر محکوم اقوام و مظلوم طبقات تک سب
دنیا کی موجودہ تقسیم سیاسی و اقتصادی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے تحفظ
کیلئے قائم کردہ قواعد و ضوابط سے مطمئن نہیں ہیں لہٰذا ایسی صورت میں اس
امکان کا پیش کیا جانا غلط نہیں ہوگا کہ آنے والے دنوں میں وہ دنیا باقی
نہیں رہے گی جو آج ہم دیکھ رہے ہیں ۔
تبدیلی کا یہ امکان کئی پہلوؤں کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے ، کیونکہ حاکم
اور محکوم کے درمیان تبدیلی کی خواہش اپنے فکروعمل میں باہم متضاد صورتیں
پیدا کرتی ہے ،یہی تضادنئی دنیا کے تصور پر بھی پایا جاتا ہے ،سامراجی
قوتیں ایک ایسی دنیا کا تصور رکھتی ہیں جہاں چھوٹی اور کمزور اقوام اور
عوام الناس کے وسائل اور محنت کی لوٹ ما ر پر ا نہیں کوئی روکنے والا نہ ہو
اور وہ جہاں جی میں آئے وہاں تسلط قائم کریں جبکہ اس کے برعکس محکوم اقوام
اور استحصال زدہ عوام الناس ایک ایسی نئی دنیا بسانا چاہتے ہیں جہاں ہر
قوم اور قوم کے تمام افراد کو آزادی ،خوشحالی اور سیاسی ،معاشی و
سماجی،قومی برابری حاصل ہو اور طبقاتی جبر اور استحصال سے پاک نظام قائم
ہو، نئی دنیا کے بارے میں ان تصورات میں محکوم اقوام اور استحصال زدہ عوام
الناس کی اپروچ میں کافی یکسانیت پائی جاتی ہے، کیونکہ ہر قوم سامراجیت اور
سرمایہ دارانہ استحصال و جبروکا شکار ہیں ،جس کا مکمل خاتمہ ہی ان کی نجات
کا واحد ذریعہ ہے، جبکہ یہ اپروچ سامراجی طاقتوں کے نئی دنیا کے تصورات سے
براہ راست ٹکر اتی ہے ،یوں محکوم اقوام اور مظلوم طبقے کا مفاد سامراجی
قوتوں سے اتحاد بنانے کی بجائے تمام مظلوم اقوم کی باہمی بین الاقوامی
انقلابی اتحاد کی صورت میں پورا ہو سکتا ہے اور سامراج سے مظلوم کا رشتہ
عداوت اور نفرت کا ہی تشکیل پاسکتا ہے ۔بعض ماہرین کے مطابق اگر محکوم
اقوام اوراستحصال زدہ مظلوم طبقے کے مابین سامراج اور سرمایہ داری مخالف
انقلابی اور ترقی پسند، جمہوری وروش خیال فکرو پروگرام پر باہمی اتحاد
کاقیام اور مشترکہ جدو جہد کا آغاز کیا جاتا ہے تو ایسی صوررت میں سامراجی
قوتیں نہ تو دنیا پر اپنا تسلط برقرار رکھ سکتی ہیں اور نہ ہی کوئی ایسی
سامراجی بندر بانٹ میں کامیاب ہو سکتی ہیں جو چھوٹی اور کمزور اقوام اور
مفلوک الحال عوام الناس کی زندگیوں کو مزید محکومی اور جبرو استحصال سے
دوچار کر سکے ۔مبصرین کے خیال میں موجودہ دورسامراجیت میں گہری ٹوٹ پھوٹ
اور انتشار کا دور ہے ، جو نہ صرف دنیا کو جنگ و جدل کی دلدل میں دھکیل چکا
ہے بلکہ اس میں بر بریت اور تباہی بربادی کی ایسی مثالوں کو جنم دے رہا ہے
جن سے پوری نوع انسانی اور کرہ ارض فنا کے دھانے پر پہنچے ہوئے نظر آتے
ہیں ،سامراجیت میں باہمی ٹکراؤ دنیا میں ایک نئی عالمگیر جنگ کے خدشات کو
ابھار رہا ہے ،جس سے محفوظ رہنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے
،کیونکہ سامراجیت سرمایہ داری کی وہ آخری بلند ترین منزل ہے جس کے بعد مزید
بلندی نہیں بلکہ تنزلی اور گراوٹ شروع ہوتی ہے ،جس کی عکاسی تمام سامراجی
ریاستوں اور سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں گہرے زوال اور گراوٹ میں نمایاں
طور پر دیکھی جا سکتی ہے ، اس گراوٹ سے پیدا ہونے والا بحران عالمی و
علاقائی طاقتوں میں مزید جار حانہ پن اور انتہا پسندی کو بڑھاوا دے رہا ہے
،بعض مبصرین و تجزیہ کاروں کاخیال ہے کہ جس طرح دوسری عالمی جنگ کا محرک
ایشیاء میں جاپان کا امریکی بحری بیڑے پرل ہار پر حملہ بناتھا اسی طرح اس
بار بھی ایشیاء میں جاری عالمی طاقتوں کے مابین ٹکراؤ اور مختلف قومی و
علاقائی تنازعات کسی تیسری عالمی جنگ کے آغاز کا محرک بن سکتے ہیں ،جس کے
باعث اس امر کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ دنیا میں حالیہ اور آئندہ شدید
مفاداتی ٹکراؤ اور جنگی تصادموں کا سب سے بڑا میدان ایشیا ء ہی بنے گا ،
اگرچہ یورپ و امریکہ سمیت دنیا کے دیگر خطے بھی اس کی لپیٹ میں آئیں گے مگر
سب سے زیادہ شدت کا سامنا ایشیاء کو ہی کرنا پڑے گا ، جس کا نتیجہ جہاں
ایشیاء کی سامراجی طاقتوں جیسا کہ پاکستان ،چین،روس و دیگر ، ریاستوں میں
داخلی بحرانوں اور انارکی میں بڑھاو ے و انہیں کمزور کرنے کی صورت میں ظاہر
ہوگا وہاں چھوٹی اور کمزور محکوم اقوام اور استحصال زدہ عوام الناس کی
آزادی اور انقلاب پسند تحریکات کے ابھار اور ان کی وسعت و طاقت میں بھی
اضافے کا باعث بنے گا ۔تجزیہ کاروں کے مطابق یہ وہ ممکنہ پیش منظر ہے جو
سامراج مخالف آزادی اور انقلاب پسند تحریکات و قو توں کی نظریاتی و سیاسی
تعلیم و تربیت اور پختگی کا تقاضا کرتا ہے ۔ان حلقوں کے خیال میں بلوچستان
میں جاری آجوئی پسند تحریک بھی ایشیاء اور خطے کے بلوچ قومی سوال کی صورت
میں ایک ایسے قومی و علاقائی تنازعہ کے گرد جاری ہے جو دنیا اور خاص طور پر
ایشیاء میں بڑ ھتے ہوئے تصادم اور خلفشار سے براہ راست متاثر ہوگا، کیونکہ
بلوچستان جغرافیائی طور پر جنوبی وسطی اور مغربی ایشیاء کے ایک ایسے سنگم
پر واقع ہے جو عالمی مفادات کا مرکز کہلاتا ہے، جس کی اہمیت اور عالمی
قوتوں کے تصادم میں شمولیت کے امکانات و خدشات کو دوچندبنانے میں چائنا
پاکستان اکنامک کوریڈور کے منصوبے نے کلیدی کردار ادا کیا ہے ، اور اسی
اہمیت کے پیش نظر بلوچستان کو بھی دنیا کی نئی نقشہ سازی کیلئے لگائی جانے
والی لکیروں میں شامل کرنے کی خبریں گرم ہیں ،لیکن ان لکیروں پر تمام
سامراجی طاقتیں متفق نظر نہیں آتیں کیونکہ بعض طاقتوں کیلئے خطے کا موجودہ
نقشہ ان کے مفادات کیلئے نہ صرف نقصان دہ نہیں ہے بلکہ ناگزیر بھی ہے ،
لہٰذا ایسی کیفیت میں دنیا اور خطے میں تبدیلی کا عمل پر امن نہیں بلکہ
انتہائی خونریز اور جنگی تصادموں سے بھر پور ہوگا ۔مگر حرف آخر بلوچ قومی
جہد جو اپنی آزادی کے لیے ایک نئی اور اکسیویں صدی میں مثالی جہد کہلائی جا
سکتی ہے انکی دیر پا سرزمین پہ جہد کے ساتھ انکی خارجہ پالیسی بہت اہمیت
کا حامل ہو گا کہ وہ کس طرح عالمی اداروں و قوتوں کا رخ اپنی جہد کی جانب
مبذول کرانے میں کامیاب ہونگے ،اگر ان چند سالوں میں بلوچ قومی سوال کے
دعوئے دار دنیا کو اپنے اوپر ڈالے جانے والے مظالم کی جانب متوجہ کرانے میں
کامیاب ہوئے تو یہ انکی کامیابی ہو گی اس لیے کہ بلوچستان ایشیا کی تبدیلی
و دنیا کے نقشوں کی تبدیلی کا اہم مرکز ہے۔
Post a Comment