skip to main |
skip to sidebar
بیکن ہاؤس سے دامن گیشک تک :تحریر:عالیان یوسف

بلوچ وطن کے پایہ تخت قلا ت سے مشرق کی طرف
کوہ سیاہ‘کوہ گیشک اور کوہ ساراوان کے گھیراؤ کے اندر ایک سرسبز اور چھوٹا
سا گاؤں جوہان واقع ہے۔مئی کا مہینہ ہے‘سرسبزی اور بلوچوں کی سادہ مزاجی کی
کشش کے اثرات رکھنے والا یہ گاؤں تحریک آزادی بلوچ وطن میں ایک نیا باب
رقم کرنے کیلئے بے تاب ہے گاؤں کے عین درمیان میں مسجد کے زیر سایہ ایک
پرانی کچے گارے کی بنی چاردیوفاری ہے ۔چاردیواری کے اندر تقریباً 70سال
پرانی مقامی طرزتعمیر کے نمونے پر تعمیر شدہ چار یا پانچ کمرے ہیں۔دیواروں
کا پلستر ادھڑا ہوا ہے۔رنگ روغن کی بس ایک سادہ سی جھلک موجود ہے۔سامنے لان
میں اخروٹ کے دوبڑے عمر رسیدہ مگر سایہ دار اور پھل داردرخت اس چاردیواری
کو گاؤں کے دوسرے نسبتاً اچھے گھروں سے نمایاں کرتے ہیں۔گھر کے اندر پانی
کے ایک نالے نے راہ گزربنالی ہے۔اس صاف ستھرے نالے کا پانی اور بھیگی
پکڈنڈی کو رنگین سرخ ہونے میں چند گھنٹے باقی ہیں ۔اخروٹ کے عمر رسیدہ ‘
سیب اور دوسرے پھل دارمگر نوخیز درختوں کی بنیاد کی نم مٹی میں چند بوندیں
لہو کے گرنے میں ابھی کچھ دیر ہے۔
اندھیروں اور روشنی کی جنگ روز اول سے جاری ہے۔آج بھی تاریکی کو شکست ہورہی
ہے روشنی غالب آرہی ہے شفق کی سرخی پھیل رہی ہے‘سحر ہونے کو ہے‘کتنی عجیب
مماثلت ہے‘اندھیروں کے چھٹنے اورسحر کے نموادرہونے کا دائرہ رہ جاتا
ہے‘سفریوں تو روز کا معمول ہے مگر آج اس بوسیدہ چاردیواری کے اندھیر گھر کا
مکین شمس لہڑی(سورج) ایک دفعہ پھر ظلم واستبداد ‘قبضہ گیریت اورتاریکی کے
نمائندوں سے دوبدو ہونے کو ہے ۔
شمس سورہاہے؟نہیں سورج کبھی نہیں سوتا‘آرام کرتا ہے پھر توانا وتازہ ہوکر
اندھیروں کو شکست دینے کیلئے روشنی کے حق کا نمائندہ ہے ۔ روشنی سچ کا راہ
بلد ہے روشنی شیر دلوں کا ساتھی ہے۔روشنی کو تاریکیوں اور اندھیروں سے لڑنے
کی تربیت ہے۔روشنی کی پہچان ہی یہی تضاد ہے کہ وہ اندھیروں کومٹانے کیلئے
اپنی پہچان یعنی اسی تضادکو قائم رکھنے کیلئے ابھی آرام کو دورپھینک
دیگا۔اپنے کرنوں سے جلوے بکھیرے گا‘ ابھی طلوع ہوگا ابھی آنے والے چند لمحے
‘چند لمحوں کی صبر واستقامت اور حوصلہ مندی اس کا‘اس کے ساتھیوں کا اس کی
قوم کی سربلندی کا فیصلہ کرینگے۔
شمس چھپ رہے گا چیخے گا نہ چلائے گا‘بلکہ لڑے گااندھیروں کے نمائندوں
سے۔پوزیشن بدل بدل کرلڑیگا یہی حوصلہ یہی طریقہ کار یہی مہارت ساتھیوں
کیلئے گیشک کے پہاڑی جیسا حوصلہ ہوگا اور دشمن کیلئے؟ دشمن کیلئے اظہرمن
شمس
’’میں طلوع ہورہاہوں تو غروب ہوے والا‘‘
مذہب اسلام کے مقدس لبادے کوبطور ڈھال استعمال کرنے کی روایت رکھنے والے
پاکستانی آرمی کے لاؤ لشکر نے سینکڑوں کی تعداد میں جوہان کوچاروں طرف سے
گھیر رکھا ہے ‘سونے چاندی اگلنے والی سرزمین کے مالک غربت زدہ مگر خوددار
بلوچوں مسجد میں داخل ہونے اوراپنے رب کے آگے سجدہ ریز ہونے سے منع کیاگیا
ہے۔ایک جگہ اکھٹا کرکے ان کو بٹھایاگیا ہے۔مسجد کے لاؤڈ اسپیکر آن ہوتے ہی
ایک کریہہ آواز کی گونچ پہاڑوں سے ٹکراتی ہے۔
شمس لہڑی تمہیں چاروں اطراف سے گھیر لیاگیاہے ۔ہتھیار پھینک کر باہر آجاؤ ورنہ ایکشن کرینگے‘‘
شمس کیا سوچ رہا ہے؟
یہ کیا کہہ رہے ہیں؟کتنی آسانی سے ہتھیار پھینک کر ہاتھ اوپراٹھانے کی بات
کررہا ہے۔اس کو دولائنوں پر مشتمل یہ جملے رٹائے گئے ہیں لیکن میں لفظ لفظ
یہ سوچوں گا ہرایک لفظ کی تشریح کرنگا۔
’’تمہیں چاروں اطراف سے گھیر لیاگیاہے‘‘
گھر کے دائیں طرف میری جدی پشتی زمین ہے میری فصلات ہیں وہ دشمن کے قبضے
میں ہے‘بائیں طرف مسجد کے نزدیک میری ملکیت ایک چھوٹا سا باغ ہے وہ دشمن کے
قبضے میں ہے۔مغرب کی طرف بھی قابض مورچہ زن ہیں‘مشرق کی طرف‘میرے عزیز
میرے رشتہ دارمیرا قبیلہ میرے لوگ ‘میرے ساتھی۔مغرب کی طرف سے بھی یہ قابض
مورچہ زن ہیں ۔چاروں اطراف سے گھیرے میں ہوں۔شمس لہڑی کی سوچ چند لمحوں میں
بڑی مسافت طے کرلیتا ہے۔چشم تصور میں شمس مسکراتا نظر آرہاہے۔اس نے بڑی
حوصلہ مندی سے بہترین تجزیہ اور بروقت فیصلہ کرلیا ہے۔چاروں اطراف کو چھوڑ
کر پانچویں راہ پر جانے کا فیصلہ۔
اگر قبضہ گیر کے سینکڑوں پر مشتمل لشکر نے چاروں اطراف سے گھیراؤ کیاہے تو
میں پانچویں راستے سے جاؤنگا جس کو دشمن لاکھوں کالشکر لا کر بھی گھیر نہیں
سکتا۔
’’میں اوپر جاؤنگا وہ پرواز کی تیاری کررہاہے‘‘
’’ہتھیار پھینک دو ورنہ فوجی ایکشن کرینگے‘‘
شمس سوچ رہا ہے’’اف اللہ ‘‘ میرے دشمن کی کتنی بری یادداشت ہے اس بھولنے کی
بیماری کی وجہ سے آج بھی شکست کھاؤگے۔تم ہزاروں کی تعداد میں ہوکر ہتھیار
پھینک سکتے ہو۔میں ہتھیار نہیںٖ پھینک سکتا۔تمہاری دھوکہ باز فطرت بھی
تمہاری شکست کا سبب بنے گی۔بدبخت قبضہ گیریت اوراستحصال کو دوام دینے کا
ہنر بھی نہیں رکھتے۔کچھ تو تاریخ سے آگاہی رکھتے۔ ابھی دوسال پہلے کی بات
بھول رہے ہو کہ نہتے مگر بلند فکر وبلند حوصلہ نوجوان محراب احمد زئی نے کس
طرح تم لوگوں سے مقابلہ کرکے پانچویں راہ کا انتخاب کرکے اپنے نام کی اپنے
ساتھیوں کی اپنے فکر ونظریے کی اوراپنے بزرگوں کی لاج رکھ لی تھی میں اس
کا ساتھی ہوں میں اس کا ہم فکر ہوں میں کیسے ہتھیار پھینکوں گا۔
قلات کے شہداء قبرستان میں آسوہ خاک بلوچ مجاہد اول خان محراب خان احمد زئی
،محراب ثانی ورنا محراب احمد زئی شہید آغا محمود خان اور دوسرے شہداء کی
قبروں کو چھوتی ہوئی ہوائیں ہربوئی اور گیشک کی بلند چوٹیوں سے ہوتی ہوئی
میرے بدن کو چھورہی ہیں۔میراحوصلہ بڑھا رہی ہیں۔میرے ساتھی میرے بزرگ مجھے
اپنے باہنوں میں لینے کو بے تاب ہیں۔اشارہ مل رہا ہے پانچویں راستہ‘کامیابی
وکامرانی کاراستہ۔میں کیسے ہتھیار پھینکوں گا۔
رہی فوجی ایکشن کی بات تو یہ داستان طویل بھی ہے اور پرانی بھی۔1839سے جب
میراوطن تمہارے ان آقاؤں کے قبضے میں تھا ان کے تم پانچویں درجے کے غلام
ہو۔تقریباً 170 سال پہلے جب میرے
بزرگ میرے رہنماء کم تعداد اور کم وسائل میں ہونے کے باجوود تم سے ہزار
درجے بہتر دشمن کے فوجی ایکشن کے دباؤ میں نہیں آئے اور شہادت خندہ پیشانی
سے قبول کرلی اور شہید اعظم خان محراب خان نے میری نسل کیلئے وہ تاریخی
فقرہ کہا کہ
’’بعض جنگیں جیتنے کیلئے نہیں لڑی جاتیں بلکہ قوم اورتاریخ کے سامنے سرخرو ہونے کیلئے لڑی جاتی ہیں‘‘
آج تم نے یہ غلط اندازہ لگایا ہے کہ میں تاریخ کے سامنے سربلند نہیں سرنگوں
ہونگا۔میں اکیلا نہیں میرے ساتھ میرافکر میر انظریہ اور میرے ساتھی ہیں
اور یہ جو تم ڈری اور سہمی آواز میں مجھے ہتھیار پھینکنے کا کہہ رہے ہو اس
کو میری قوم اور قبیلے کی زبان میں ’’ھکل‘‘ کہتے ہیں اس ’’ھکل‘‘ کا جواب
میں تمہاری طرح بلند چیخ سے نہیں اپنے عمل سے دونگا۔مجھے بھی اپنے بچھڑے
ساتھیوں سے بغل گیر ہونے کی جلدی ہے ۔میں خوبصورت پھلین زبیر جان کا بلند
آہنگ قہقہ سننے کو بے تاب ہوں۔یقیناً وہ روایتی انداز میں دونوں ہاتھ کھول
کر ’’شمس یار آگئے‘‘ کہہ کر گلے لگائیں گے۔مجھے جستجو ہے کہ محراب ثانی
مردانہ وجاہت اور شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ میرا استقبال کرینگے۔ شہید آغا
محمود خان احمد زئی جب پدرانہ شفقت مگر تھوڑی خفگی کے ساتھ میری بے احتیاطی
پر ناراض ہوکر ڈانٹیں گے اور میں لالہ آغا‘لالہ آغا سے آگے اپنی صفائی میں
کچھ کہہ نہ پاؤں گا اور بہت سے میرے ہزاروں ساتھی ہوں گے جن کی میں صرف
ذریعہ داستانیں سنی اورتصویریں دیکھی ہیں۔ان سب سے مجھے ملنے کی جلدی ہے
لیکن جاتے جاتے تم غاصبوں سے بھی چند کو تمہارے ہزاروں کی تعداد میں ہتھیار
پھینکنے والوں کے پاس پہنچانے کی نیکی کرونگا۔تم غاصبوں اورقبضہ گیروں کے
ادنیٰ نمائندے ہو اور جنگوں کے ایندھن ہو‘مجھے یقین ہے میری شہادت کے بعد
میری جگہ لینے بہت سارے بلوچ میرے انتظار میں ہونگے مگر تم اپنی بے بنیاد
‘لوٹ مار اور قبضہ گیر ذہنیت اور تابعدار لشکر کیلئے گلیوں میں بھرتی کیلئے
اعلان کرتے پھروگے۔
مسجد کے اسپیکر سے ایک دفعہ پھر اعلان دہرایاجاتا ہے‘ایک بکتر بند پوری قوت
سے چاردیواری کے مین گیٹ کو توڑتی اورپھر پیچھے ہٹ جاتی ہے۔تھوڑی دیر بعد
علاقے کا پیش امام اور ایک قبائلی شخصیت پاکستانی فوج کے غاصب کرنل کا
پیغام لے کر آتے ہیں اور ہتھیار ڈالنے کی تلقین کرتے ہیں۔
داعی دیتے ہیں کہ یہ لوگ پورے گاؤں کو ملیامیٹ کردینگے‘گھروں کوجلادینگے بندوق پھینک کر باہر آجاؤ۔
شمس کو قلت وقت کا پورااندازہ ہے وہ سوچتا ہے کہ میں ان کو کیسے سمجھاؤں کہ
پورا بلوچ وطن عرصوں سے ان ناپاک فوجیوں کے بوٹوں تلے ملیامیٹ ہوچکاہے جب
ان کے جی میں آیا یہ قوم وطن شناخت ثقافت اور وطن کے باسیوں کو روندتے رہے۔
یہ نئی بات سنیں اور نہ یہ لوگ ان کے کرتوت ان کے غاصبانہ ارادے ہمارے
کیلئے اجنبی ہیں اور نہ میں پہلی دفعہ مزاحمت کررہاہوں میری قوم کی پوری
تاریخ اس بات کی گواہی بلند آواز سے دیگی کہ وطن کو جب بھی خون کی ضرورت
پڑی اس آزادی کی تحریک کوبلوچ جوانوں بزرگوں اور خواتین نے اپنے خون سے
سینچا ۔آج میرا وطن مجھ سے میراحصہ مانگ رہاہے اور میں بخوشی اپنے حصے کا
قرض چکانے کو تیارہوں۔
شمس ان دوشخصیات سے بات کررہے ہیں‘اتنے میں آئی(اماں) بی بی اماں(ڈھائی
سالہ بچی ثریا) اوراس کی والدہ آجاتی ہیں ۔آئی کے آنسو بہہ رہے ہیں مگر وہ
اپنے بیٹے کا حوصلہ بڑھاتی ہیں وہ اس کے کاندھے پرہاتھ رکھ کرکہتی ہیں
’’میں ڈرتی تھی کہ میرا بیٹا میرالخت جگر میرا کمزور بدن شمس اکلوتا‘کم فہم
اور چھوٹا ہے لیکن آج میں دیکھ رہی ہوں کہ میرا بیٹا کتنا بڑا ہوگیا ہے۔
میر ابیٹا کتنی باتیں جانتا ہے کتنا سمجھدار ہے وہ اپنے بیٹے کا ماتھا
چھومتی ہوئی کہتی ہیں کہ بیٹا میں تمہیں ہتھیار ڈالنے کو نہیں کہوں گی میں
کیسے چاہوں گی کہ میرا بیٹا اپنی فکر اپنے نظریہ اور اپنے ساتھیوں اور
تنظیم کے سامنے شرمندہ رہے۔ہماری فکر چھوڑو اسی فکر کو تھامے رکھو جس کو
سینے سے لگاکر اب تک جیتے رہے ہو۔اس کے حوصلے ناگاؤ کی چوٹیوں سے زیادہ
بلند ہوجاتے ہیں۔آئی ہزاروں دعائیں دے کر بچوں کو ساتھ لے کر رخصت ہوجاتی
ہیں بی بی اماں (بچی) کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اپنے والد کو آخری بار
دیکھ رہی ہے وہ آئی کے کاندھے سے جھانک کر اپنے ابا کو پکارتی ہیں۔
ایک شاعر دوست نے لکھا ہے کہ ’’رخصت اف اواران سنگت‘‘ لیکن شمس اپنے بچی کو
کچھ کہہ نہیں پاتا۔آئی(اماں)اور دوسرے گھر کی چاردیواری سے باہر نکل جاتے
ہیں اورپاکستانی فوج کا نمائندہ آگے بڑھ کر پوچھتا ہے کہ وہ کتنے لوگ ہیں ؟
آئی کا جواب تاریخی ہے ’’ایک شہید کی ماں سے ایسے ہی جواب کی توقع ہے ‘‘
’’جب لڑائی شروع کروگے تو پتہ چلے گا کہ چاردیواری کے اندر کتنے لوگ ہیں ‘‘
جارحیت کاآغاز ہوجاتا ہے‘فائرنگ شروع ہوگئی‘چار دیواری پر گولیوں کی بوچھاڑ
ہے ۔شمس پوزیشن بدل بدل کر اپنے دشمن پر وارکررہاہے‘نظارہ دیکھنے اور
محظوظ ہونے کا تقاضہ کرتا ہے۔ایک طرف بڑے بڑے ہتھیاروں سے مسلح سینکڑوں کی
تعداد میں قبضہ گیرپاکستانی آرمی اور دوسری طرف لاغر کمزور بدن شمس
غاصب فوجی اندازہ نہیں لگاپاتے کہ اندر کتنے لوگ ہیں‘فائرنگ روک دیتے ہیں
‘گاؤں کے جمع لوگوں کواورخواتین کو کہتے ہیں کہ قرآن لے کر اس جاہل اور
گنوار کے پاس جاؤ اور اسے کہہ دو کہ تم دوسروں کے ہاتھ استعمال ہورہے
ہو‘ترقی کے مخالف تمہیں استعمال کررہے ہیں ’’وہ اتنا کہہ پاتے ہیں کہ آئی
چلا کرکہتی ہیں ’’وہ جاہل اور گنوار نہیں ہے بیکن ہاؤس سے پڑھا ہے تمہارے
پورے لشکر میں اس جیسا پڑھا لکھا نہیں ہوگا۔کسی کے ہاتھ استعمال نہیں ہورہا
وہ آزاد رہنا چاہتا ہے‘اپنی قوم کو آزاد دیکھنا چاہتا ہے‘‘
فوجی برداشت کھوبیٹھتے ہیں‘دھمکی دیتے ہیں کہ دوبارہ اگر یہ خاتون بول
اٹھیں تو جان سے ماردینگے ‘خواتین قرآن پاک ہاتھ میں لے کر گھر کے اندر
داخل ہوجاتی ہیں ’’اداشمس ‘‘ کہہ کر اپنی پہچان کرواتی ہیں اور شمس لہڑی
بڑے احترام سے کتاب مقدس کو بوسہ دیتے ہیں‘کچھ پیسے جتنے کہ اس کی جیب میں
تھے ‘قرآن پاک کے اوپر رکھ کر اورعزت واحترام سے خواتین کو واپس بھیج دیتے
ہیں ۔لڑائی پھر شروع ہوگئی‘لگ بھگ تین گھنٹے تک جاری اس لڑائی میں کئی فوجی
اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔چار دیواری سے آنے والی ہر گولی جب ہدف
کو نشانہ بناتی تو ’’آئی‘‘ کی ’’میں صدقے میں گوری‘‘ کی آواز شمس کی کانوں
میں پہنچتی تو وہ مزید حوصلے سے لڑتا۔
فائرنگ کی آواز اب یکطرفہ ہے ‘چاردیواری سے فائرنگ کی آواز آنی بند
ہوگئی۔خاموشی چھا گئی‘گاؤں کے لوگ اس خاموشی کو شمس لہڑی کی شہادت کا اعلان
سمجھتے ہیں۔فوجی ڈرتے ڈرتے حویلی کے اندر داخل ہوگئے ‘وہ شمس کو اٹھا کر
لارہے ہیں ۔اس میں ابھی تک زندگی کی رمق باقی ہے ۔بے خودی میں ہاتھ ہلارہے
ہیں ‘شاہد وہ اس دم فوجیوں کے مکروہ کو نہیں دیکھنا چارہے۔
بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کر آئی شاہد جذبات کابندھن توڑدے‘لیکن نہیں وہ
بلند آواز میں فوجیوں کو للکارنے لگی اپنے بیٹے کی شہادت کا اعلان خودکرنے
لگی ’’گواہی دینا میں نے اپنے اکلوتے لخت جگر کو بلوچستان پر قربان
کردیا۔میں نے اس کی زندگی کی بھیک نہیں مانگی۔میں نے اس کو ہتھیار ڈالنے کا
نہیں کہا۔گواہی دینا میرے بیٹے شمس نے ڈرکر دبک کر موت کا انتظار نہیں
کیا۔بہادری سے لڑ کر جام شہادت نوش کیا۔
شمس شہید کی جست خاکی کو ورثاء کے حوالے کرنے کے بعد فوجی اس کے گھر میں
لوٹ مار شروع کی ۔گھریلو اشیاء کو ایک جگہ جمع کرکے جلا دیاگیا۔
دھوئیں کے مرغولے اخروٹ کے درختوں سے اوپر اٹھنے لگے‘صاف ستھری پانی رنگین
سرخ ہوکر چاردیواری کی دوسری طرف بہنے لگی۔کمروں کو زمین بوس کرکے کھنڈرات
میں بدل دیاگیا۔فتح مندی کا صرف جھنڈا گاڑھنا باقی رہ گیا۔
فتح وشکست کا صفحہ تاریخ کیلئے چھوڑ دیتے ہیں ‘کھنڈرات بنتے ہی نئی تعمیر
کے لئے ہیں۔تخریب وتعمیر روشنی تاریکی ‘جدت وقدامت پسندی اورحق وباطل کی
جنگ جاری ہے‘جاری رہے گی
’’شمس پھر طلوع ہوگا‘‘
Post a Comment