Translate In Your Language

New Videos

پاھار...... سنگر کامکمل پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ...دوستین بلوچ کے قلم سے

پاھار...... سنگر کامکمل پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ...دوستین بلوچ کے قلم سے

......پاھار......
بلوچستان میں فوجی آپریشن میں شدت
گوادر تجارتی میلے کا ڈرامہ
ماہِ جنوری میں70فوجی آپریشنز میں90 افرادلاپتہ،20لاشیں برآمد


سنگر کامکمل پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ
چیف ایڈیٹر  دوستین بلوچ  کے قلم سے


مقبوضہ بلوچستان کی انسانی حقوق حوالے صورت حال نئے سال کی شروعات سے گھمبیر رہی۔جنوری2018 جہاں ایک طرف قابض ریاست اندرونی طور پر چپقلشوں کا شکار رہی تو دوسری جانب دنیا میں بھی دہشت گردی کو پروان چڑھانے و دھوکہ دہی جیسے سخت معاملات سامنے آئے ۔اس طرح پاکستان تنہائی کا شکار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق پامالیاں حد درجہ شدت کے ساتھ جاری ہیں جو دنیا بھر میں بلوچ جہد آزادی کے لیے سود مند تو ضرور ہو رہے ہیں مگر ریاستی جبر،اجتماعی نسل کشی پر تاحال عالمی قوتیں خاموشی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔
جنوری کے ماہ فورسز نے 70 سے زائد آپریشنز میں90 سے زائد افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا،جبکہ دوران آپریشن سینکڑوں گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور 85 سے زائد گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔ اسی ماہ20 لاشیں ملیں جس میں پانچ بلوچ فرزند شہید کیے گئے جبکہ 5 نعشوں کی شناخت نہ ہو سکی، اور 7 کے محرکات سامنے نہ آ سکے اور دو پولیو ورکروں کومسلح افرادنے جبکہ ایک شخص کو پنجگور پولیس نے قتل کیا ۔ مشکے میں ایک خاندان کے تمام افراد بشمول خواتین و بچوں کو آرمی نے حراست میں لے کر کیمپ منتقل کیا گیا جن کے بارے میں تاحال کوئی اطلاعات نہیں ہیں۔11 افراد ریاستی عقوبت خانوں سے بازیاب ہوئے۔ بلیدہ میں تین اسکول، گورکوپ میں دو اسکول آرمی کیمپ میں تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ دشت ،بلیدہ،آواران،مشکے،تربت،گوادر میں کئی نئی چوکیاں قائم کی گئی ہیں سمیت فوج کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ بھی کیا گیا۔
جنوری کا سورج جوں ہی طلوع ہو اپاکستانی گن شپ ہیلی کاپٹروں و زمینی فوج نے نئے سال کا استقبال کولواہ میں بمباری سے کر کے درجنوں بلوچوں کے گھروں کو نشانہ بنایا۔ضلع آواران کے علاقے کولواہ میں جنوری کی ابتداء سے آتش و آہن کا سلسلہ مہینے کے آخر تک جاری رہا۔
آواران کے دیگر علاقے اورمشکے بھی بھی پورے مہینے فوجی زمینی و فضائی آپریشنز کا شدید شکار رہا۔مشکے زیر عتاب رہنے کے ساتھ سینکڑوں گھروں میں لوٹ مار اور متعدد افراد کو لاپتہ کر نے کے ساتھ مویشیوں کو بھی لوٹ لیا گیا۔
ضلع کیچ سے منسلک دشت جو گوادر سے منسلک و سی پیک روٹ کا اہم حصہ ہے،تاحال مکمل فوجی محاصرے میں ہے۔سائیجی کاخطرناک پہاڑی سلسلہ جو پاکستانی فوج کے لیے ایک چیلنج ہے،پوری قوت کے ساتھ فوج نے چاروں اطراف سے اسے سیل کرکے پہاڑی سلسلوں میں داخل ہونے کی کوشش کی مگریکے بعد دیگرے بلوچ سرمچاروں کے حملوں نے اس کو پسپا کر دیا۔شکست خوردہ فوج حسب معمول اپنی بہادری دکھانے کیلئے آبادیوں کو نشانہ بناتے رہے اور طویل آپریشنوں سے دشت کے سینکڑوں خاندان نقل مکانی پر مجبور کیے گئے جن میں سے بیشتر نے گوادر ،جیونی ، کیچ و دیگر علاقوں کارخ کیا مگر ریاستی جبر نے انکا پیچھا نہیں چھوڑا اور وہاں بھی آئے روز انکے گھروں پر فورسز کے چھاپے ،لوٹ مار سمیت اس مہینے کئی افراد کو حراست بعدلاپتہ کیا گیا۔
ضلع کیچ سے مند ،سیستان بلوچستان کے سرحد تک فورسز کے آئے روز گھروں پر چھاپے خواتین و بچوں کی بے حرمتی لوٹ مار میں اس ماہ بھی کمی نہیں آئی،درجنوں افراد کو غائب کرنے کے ساتھ بی ایس او آزاد کے وائس چیئر پرسن کریمہ بلوچ کے ماموں ماسٹر نور محمد کو دوران حراست قتل کیا گیا،جسے 28 جولائی2016 کو فورسز نے لاپتہ کیا تھا اور دو جنوری کو شدید تشدد بعد گولیوں سے بھوند کر شہید کیا گیا۔
ضلع کیچ سے کولواہ آواران کی جانب علاقوں پر بھی ریاستی جبر کی صورت مختلف نہ رہی بلکہ شدت ایسے ہی رہی اور لوگوں کو انکی زمینوں پر غلام ہونے کا احساس ہر لوٹ مار کے ساتھ دیا گیا۔
ضلع کیچ سے بلیدہ،زعمران،بالگترصورت حال دیگر علاقوں کی طرح یکساں رہی،آبادیوں پر حملے لوٹ مار ساتھ کئی افراد کو لاپتہ کیا گیا جبکہ زعمران کے علاقوں دشتک اور جالگی میں آرمی کیمپ تعمیر کرنے کے ساتھ ایران سے منسلک پٹرول و ڈیزل سمیت دیگر خورد ونوش کا کام کرکے گزر بسر کرنے والوں کی گاڑیوں کو بھی لوٹا گیا۔
ضلع پنجگور کے مختلف علاقوں گچک،دراسکی و گرد نواح میں بھی آبادیوں کو نشانہ بنا کر کئی افراد کو حراست بعد غائب کیا گیا،جبکہ پروم کے مختلف علاقوں میں آبادیوں کو محاصرے بعد لوگوں کو ہراساں و لوٹ مار کی گئی۔
بسیمہ،راغے سے کئی افراد سمیت خواتین و بچوں کو ملٹری کیمپ منتقل کرنے کے ساتھ مال مویشیوں کو بھی لوٹا گیا۔
بولان میں فورسز نے کئی علاقوں میں آپریشن کر کے نہ صرف گھروں میں لوٹ مار کی بلکہ درجنوں گھروں کو نذر آتش کیا اور متعدد افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا اور موشیوں کو بھی ساتھ لے گئے۔
ڈیرہ بگٹی کے کئی علاقوں میں آپریشن کے ساتھ لوٹ مار کی گئی اور ایک شخص کو دوران حراست قتل کیا گیا۔
مہینے کے آخر میں کولواہ میں فورسز کا آپریشن جاری رہا جہاں دو بلوچ فرزندوں کو شہید کرنے کے ساتھ چالیس سے زائد گھروں کو تباہ کیا گیا،اسی طرح دشت کے علاقے سائیجی ،و مشکے میں آپریشن اپنی پوری شدت کے ساتھ جنوری کی سورج غروب ہونے تک جاری رہی۔
گوادر،ساحل بلوچستان کے کئی علاقے،دشت،سائیجی،مند ،تمپ،بلیدہ ،زاعمران،ہوشاپ،پیدارک،پنجگور،پروم،گچک ،کولواہ،آواران،جھاؤ،مشکے،راغے،بسیمہ،بولان
،جنوری2018 کے مہینے پوری شدت سے ریاستی زمینی و فضائی سنگینیوں کا شکار رہے،جبکہ ڈیرہ بگٹی کے بھی کچھ علاقے فورسز کے زیر عتاب رہے۔
جہاں ریاستی فورسز و اسکے دیگر ٹولزسیاسی گروہ،مذہبی دہشت گرد،ڈیتھ اسکواڈز نے مل کر بلوچ قوم کو نشانہ بنایا اور سینکڑوں گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ ان کو نذر آتش کیا ۔اس مہینے حراستی قتل عام کے ساتھ مسخ پرانی لاشیں اور تشدد زدہ ایسی بھی لاشیں ملیں جن کی شناخت نہ ہو سکی۔مشکے سے لے کر ضلع کیچ کے تمام اسکولوں و کالجوں کو آرمی کیمپوں و چوکیوں میں تبدیل کیا گیا اور فوجی نفری کو بڑی حد تک بڑھایا گیا۔بزرگ و جوانوں سمیت خواتین و بچوں کو بھی حراست بعد لاپتہ کیا گیا۔ جبکہ بلیدہ میں بھی کئی اسکول آرمی کیمپوں میں بدلنے کے ساتھ جنوری کی سورج غروب ہونے تک وہاں آپریشن جاری اور سو سے زائد افراد کو آرمی کیمپ منتقل کیا گیا۔
کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ثناہ زہری کے خلاف اچانک عدم اعتماد کا ڈرامہ رچایا گیا اور نواب زہری نے اپنی پوری طاقت کے ساتھ ڈاکٹر مالک کی طرح فوج کی وفاداری میں بلوچ کا لہو بہایا مگر وفا فوج و پاکستان کے کام نہ آیا اور کوئٹہ سے استعفیٰ بعد ایسے غائب ہوا کہ تاحال تحریر موصوف کی کوئی خبر نہیں۔نئی کٹھ پتلی حکومت میں تمام وہی چہرے مگر اس بار کرسیوں پر چہروں کو تبدیل کر کے مزید وفادار ی کے دعوئے داروں کو بٹھا گیا جو بلوچ کے خون کو مزید پاگل پن سے بہا سکیں۔
قدوس بزنجو جسے نے ٹپہ ماری کے باوجود بھی صرف544 ووٹ کا ریکارڈ قائم کیا جو اس حلقہ کا ایک فیصد ووٹ بھی نہیں بنتے آئی ایس آئی کے حضورنظر ہو گیا اور نواب زہری کو لات مارنے بعد اسے کرسی اعلیٰ پر بٹھایا گیا۔قدوس بزنجو فوج و خفیہ اداروں کے اہم اعلیٰ کار کے ساتھ اس حوالے خاندانی پس منظر بھی رکھتا ہے جہا ں اس کا بھائی طالبان کا کمان ہے اور بلوچستان میں آئی ایس آئی کا سب سے بڑا اہم کارندہ ہے جو کشمیر،افغانستان میں آئی ایس آئی نواز طالبان کو افرادی قوت فراہم کرنے سمیت ،مقبوضہ بلوچستان میں بلوچ جہد آزادی کے خلاف مذہبی دہشت گردی کا اہم سرغنہ ہے۔ایسے میں قدوس بزنجو کا وزیر اعلیٰ کی کرسی پر ۵ سو ووٹ کے ساتھ دنیا کے لیے حیرت کی بات ہو سکتی ہے مگر پاکستان و اسکی میڈیا و دیگر اداروں کے لیے اس کی کوئی معنی نہیں اس لیے کہ یہ ریاست صرف جھوٹ،و مذہبی دہشتگردی پر تکیہ کیے اپنے مخالفین و مقاصد کو حاصل کرنے کے درپے ہے۔
معاشی وعسکری برتری2018 کے شروعات سے ہی اپنا رنگ دکھا رہی ہے،جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سال نہ صرف اس خطے میں جہاں مقبوضہ بلوچستان قوع پذیر ہے گہرئے اثرات کے ساتھ سیاسی و عسکری میدان بنا رہے گا بلکہ عرب ممالک،افریقی عرب ممالک، سمیت مغرب میں بھی اتحاد کی اُتار چڑاؤ کا منصب معاشی و عسکری حوالے ہو گا جس سے دنیا میں معاشی،عسکری،جغرافیائی تبدیلیاں متوقع ہیں۔
مقبوضہ بلوچستان اس خطے کا اہم گیٹ وے ہونے کی وجہ سے گیم چینجرکی حیثیت رکھتا ہے،اور اس خطے میں کسی بھی قسم کی جغرافیائی ،معاشی و عسکری تبدیلی میں اہم کردار کا عامل ہو گا۔سی پیک،گوادر پورٹ کو لے کر چین اپنی بھاری سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کے لیے پوری انٹیلی جنس و فوجی قوت کے ساتھ پاکستان کی پشت پنائی کر رہا ہے۔تجزیہ نگاروں کے مطابق سی پیک کی ناکامی سے چین میں کئی بنکوں کا دیوالیہ نکل سکتا ہے اس لیے کہ سی پیک و سلک روٹ پر چین کی بنکوں کا بھاری پیسہ لگا ہوا ہے۔ایسے میں چین کسی صورت بھی گوادر پورٹ و سی پیک کی فنکشنل کے لیے نہ صرف اپنی پوری قوت استعمال میں لا رہا ہے بلکہ مغربی ممالک،افریقی و روس سمیت کئی ہمسایہ ممالک کو گوادر کی افادیت حوالے اپنے ساتھ لینے کی پوری کوشش میں ہے۔
تاہم بھارت ایران گلف اس حوالے چین کی اس منصوبے کو معاشی سے زیادہ عسکری منصوبے کے طور پر دیکھتے ہوئے اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ تاہم روس کی نرم گوشیاں چین کی طرف جھکاؤ عالمی سطح پر نئی اتحاد کی قیام کے ساتھ امریکہ و پورپی ممالک پر اپنی معاشی دباؤ قائم کرنے کے ساتھ دنیا کے مظلوم ، محکوم و غلام زدہ اقوام و سرزمینوں پر اپنی معاشی بر تری کے ذریعے اپنی کمزور معیشت کو پروان چڑھاکر دنیا میں اپنی گرفت کو مضبوط کرکے امریکہ کی عسکری قوت و اسلحہ ساز آمدنی کو ڈھیر کرنا چاہتے ہیں،یقینا2018 کا سال دنیا کے لیے کئی تبدیلیوں کا باعث بنے گا۔
دوسری جانب اس خطے کاسامراجی ریاست پاکستان جو چین کے لئے ایک ٹولز کے طور پر استعمال ہو رہاہے۔ امریکہ کے شدید دباؤ کا شکار ہے،جہاں ٹرمپ انتظامیہ نے پہلی بار پاکستان کو کھل کر اسکے کالے کرتوت بتانے کے ساتھ اسکی امداد بڑی حد تک بند کر دی ہے۔پاکستان اس وقت دنیا کا شاید واحد ریاست ہے جو مذہبی دہشتگردی کے کاروبار سے چل رہا ہے۔پاکستان کے مکردہ چہرہ دنیا کے سامنے اب کھل کر عیاں ہو چکا ہے،مگر عالمی بدلتے اتحادوں کی وجہ سے پاکستان پر اسکے خاصے بیرونی اثرات دکھائی نہیں دے رہے ہیں اس لیے کہ چین و اسکی نئی اتحادی زون و سعودی عرب کے لیے پاکستان ایک پروکسی کے طور پر ضروری ہے،جسکے استعمال سے چندہ ممالک و پالیسی میکرز اپنے سامراجی منصوبوں میں کامیابی لانے کے خواہاں ہیں اس لیے کہ پاکستان کی قیام سے اب تک اس ریاست کا کردار یہی رہا ہے،پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ریاست کبھی کسی کا نہیں رہا جہاں زیادہ بولی لگی جھکاؤ وہیں ہوتا ہے۔
اس وقت پاکستان کی اندرونی صورت حال بھی ٹال مٹول ہے جہاں اہل قلم و آزادی اظہار رائے پر مکمل قدفن کے ساتھ سیاسی آزادی بھی مکمل تالا بند ہے۔ریاست میں موجود تمام سیاسی جماعتیں برائے نام ہیں،صرف فوج کے ماتحت اور اسکی جی حضوری میں جی رہے ہیں ۔واحد ریاست ہے جسکے تمام پلرز،سیاست ،پارلیمان،کورٹ،میڈیا کو فوج برائے راست چلاتی ہے اور کرسیوں پر سیاست کے نام صرف مہرے بٹھائے ہوئے ہیں۔
گوادر جسے نہ صرف اس خطے کا گیم چینجر سمجھا جاتا ہے جس سے پاکستان کی معاش و بقا کا انحصار ہے اسی طرح چین کے لیے بھی خاص اہمیت کا حامل ہے،جہاں نہ صرف چین کی بڑی سرمایہ کاری ہے،بلکہ عالمی منڈیوں تک رسائی اور عسکری سبقت کے لیے بھی اہم ہے،منصوبہ کی کامیابی کے لیے پاکستانی فوج نے اپنی پوری قوت صرف کی ہوئی ہے تو چین کودلاسہ دینے کے لیے آئے بھی روز مختلف قسم پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ چین سمیت دیگر ممالک پر اپنا دباؤ بنائے رکھے اور گوادر سے منسلک منصوبوں کی تکمیل و فنکشنل کو وسعت دے کر دلاسے پر گزارا کیا جا سکے۔اسی طرح گوادر میں جنوری کے آخری دن ایکسپو 2018کے نام سے ایک تجارتی میلے کاااہتمام کیا گیا۔اب ایکسپو کا مقصد عوام کی شمولیت ہوتی ہے جہاں ان لگے کاروباری اسٹالز تک عوامی رسائی ممکن ہو مگر گوادر ایکسپو تو فوجی اجلاس جیسے تھا،بند اجلاس جہاں صرف فوج،وزراء خاص اور چند خاص کاروباری لوگ اور چند چینی حضرات۔ایکسپو سے ایک روز قبل سخت سیکورٹی کے ساتھ پسنی سے گوادر تک تمام بازاروں کو بند کرنے کے ساتھ لوکل ٹرانسپورٹ کو بند کیا گیا جبکہ گوادر کے تمام داخلی راستے جن پر پہلے سے فوجی کیمپ قائم ہیں کسی بھی غیر سرکاری یا بغیر پاس کے شخص کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔اسی طرح گوادر بازار کو مکمل بند کرنے کے ساتھ داخلی ٹرانسپورٹ کو بھی چلنے نہیں دیا گیا یو کہنا بجا ہو گا کہ غیر اعلانیہ کرفیو کا سماں رہا ۔مقامی صحافیوں کے مطابق گوادر ایکسپو کا مقصد دراصل چین کو دلاسہ دینا تھا کہ سب اچھا چل رہا ہے، مگر زمینی حقائق اسکے برعکس ہیں،گوادر،سی پیک پاکستان کی معاشی و عسکری تباہی بنے گا۔
ٹھیک گوادر ایکسپو افتتاح کے اگلے روز جب تقریبات کا دوسرا دور جاری تھا پاکستانی فوج پر حملہ ہوا، جس سے انکی ایک گاڑی تباہ ہونے کے ساتھ کچھ لمحے بعدگوادر پورٹ اتھارٹی میں دھماکہ ہوا ہے ،دھماکے کی شدت اتنی زوردار تھی کے کئی عمارتوں کے شیشے ٹھوٹ گئے اور پورا علاقہ دھماکے سے گھونج اُٹھا۔واضح رہے پورٹ و تمام کارباری بلڈنگ سمیت سرکاری عمارتیں وہاں موجود ہیں۔ یکے بعد دیگرے حملے اس وقت ہوئے جب پاکستان فوج نے ایکسپو کا ڈرامہ رچایا اور چین کو تسلی دینے کی کوشش کی مگر زمینی حقائق اسکے برعکس ہیں۔ایک بات واضح ہے کہ مقبوضہ بلوچستان میں پاکستان گزشتہ دس سالوں سے اپنی پوری قوت آزمایا ہوا ہے مگر بلوچستان میں جاری جدو جہد میں شدت اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اب تحریک عوامی جڑوں میں داخل ہو چکی ہے اور ریاست و اسکے ہمنواؤں کے لیے اب ممکن نہیں کہ وہ اپنے قبضہ کو یہاں مزید دوام دے سکیں۔
بلوچستان جو اس وقت پاکستانی قبضے کا شکار ہے اور بلوچ قوم کے علاوہ کوئی قوم ریاست کے خلاف اپنی آفاقی و انسانی حقوق کے لیے جد وجہد نہیں کر رہی ہے،حالانکہ سول سوسائٹی بھی برائے نام ہے اور پاکستان میں بسنے والے دیگر اقوام سندھی،پختون،ہزارہ، آزادی تو دور کی بات ریاست کے اندر ہونے والے مظالم پر خاموش ہو کر اس دہشت گرد فوج کو مزید حواصلہ دے رہے ہیں۔ظلم و جبر پر خاموشی کسی بھی قوم کی آنے والی نسلوں کی تباہی و بربادی کی نشاندی ہے،ریاستی اسٹیبلشمنٹ نے مذہبی دہشت گردانہ سوچ کو قابض پاکستان کے سماج،تعلیم گاؤں میں ایسا ٹھونسا ہے کہ یہ ریاست دنیا کی تباہی کا سبب بن جائے گا۔چندہ ترقی پسندوں کا خیال ہے کہ کاش بلوچ اپنی آزادی جلد حاصل کرلیں تاکہ اس ریاست میں گھونگے،بہرے و ظلم کے تلے پسے ہوئے اقوام و طبقات کے لیے کوئی کرن کی امید اُجاگر ہو ۔
بلوچستان میں ریاستی بربریت و انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی ماہ جنوری کی تفصیلی رپورٹ حسب معمول بلوچ نیشنل موومنٹ نے جاری کردی ہے جو روزنامچے کی شکل میں موجود ہے اور اس میں پورے مہینے کی فورسز کے آپریشنز،جبری گمشدگیوں ، گھروں کونذر آتش کرنے ،خواتین و بچوں پر تشدد،حراستی قتل ، لاشوں کی برآمدگی اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے کارروائیوں وواقعات کا احاطہ کیا گیا ہے جو ہم بی این ایم کے شکریے کے ساتھ اپنے قارئین کیلئے پیش کر رہے ہیں تاکہ ایک دستاویزکی شکل میں بلوچ قوم و انسانی حقوق اداروں بشمول میڈیا ہاؤسز کیلئے کارآمد ہوسکے۔

ماہِ جنوری2018 کی تفصیلی رپورٹ
بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات دلمراد بلوچ نے جنوری میں مقبوضہ بلوچستان میں جاری ریاستی مظالم کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ 2018 کے پہلے ماہ فورسز نے 70 سے زائد آپریشنز میں90 سے زائد افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا،جبکہ دوران آپریشن سینکڑوں گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور 85 سے زائد گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔ اسی ماہ20 لاشیں ملیں جس میں پانچ بلوچ فرزند شہید کیے گئے جبکہ 5 نعشوں کی شناخت نہ ہو سکی، اور 7 کے محرکات سامنے نہ آ سکے اور دو پولیو ورکروں کومسلح افرادنے جبکہ ایک شخص کو پنجگور پولیس نے قتل کیا ۔ مشکے میں ایک خاندان کے تمام افراد بشمول خواتین و بچوں کو آرمی نے حراست میں لے کر کیمپ منتقل کیا گیا جن کے بارے میں تاحال کوئی اطلاعات نہیں ہیں۔11 افراد ریاستی عقوبت خانوں سے بازیاب ہوئے۔ بلیدہ میں تین اسکول، گورکوپ میں دو اسکول آرمی کیمپ میں تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ دشت ،بلیدہ،آواران،مشکے،تربت،گوادر میں کئی نئی چوکیاں قائم کی گئی ہیں سمیت فوج کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ بھی کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف صداقت پر مبنی حقائق ہیں جنہیں ہم ہرماہ دنیااورعالمی میڈیاکے سامنے رکھتے ہیں تاکہ بلوچ قومی نسل کشی،روزانہ کی بنیادوں پرجاری آپریشنوں اوربے پناہ جبروتشددکے بارے میں اصل حقائق دنیااورذمہ دارعالمی اداروں تک پہنچیں اس کے ساتھ ساتھ حقائق پرپاکستانی میڈیا کے پھیلائی گئی جھوٹ اورتعصب کے چادرکوتارتارکیاجائے اوربین الاقوامی اداروں کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلائی جائیں اوردوسری طرف ریاستی تردید اور مظالم میں روزبہ روز اضافہ ہے جو نسل کشی اوراستحصال سے دوچار بلوچ قوم کے مشکلات میں مزیداضافے کا باعث بن رہے ہیں لیکن ناقابل یقین حدتک پاکستا ن کے مظالم پرعالمی اداروں اورعالمی میڈیاکی چشم پوشی اس المیے کی سنگینی میں براہ راست کرداراداکررہاہے کیونکہ پاکستان اقوام متحدہ اورانسانی حقوق کے عالمی اداروں کے خاموشی یا چشم پوشی کو ایک استثنیٰ کے طورپراستعمال کررہاہے جوانسانی تاریخ میں ایک بدنماداغ کی حیثیت سے ہمیشہ یادرہے گا ۔
انہوں نے کہا بلوچ نیشنل موومنٹ اقوام متحدہ سمیت تمام انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنی فرائض کے بجاآوری میں مزید تاخیرنہ کریں کیونکہ ان کی خاموشی اورچشم پوشی کا قیمت ایک دہشت گرد ریاست کے ہاتھوں بلوچ قوم روزانہ اپنی جان و مال سے اداکررہاہے اورتاریخ میں ان کی خاموشی بلاشبہ بلوچ لہوبہانے اورپاکستان کے جنگی جرائم میں انہیں بھی ملوث کرنے کا سبب بن رہاہے ہم امید کرتے ہیں اقوام متحدہ اور عالمی دنیا بلوچ قومی نسل کشی کے سدباب کے لئے پاکستان کے خلاف اپنی ذمہ داریوں کااحساس کرکے راست اقدام اٹھائیں گے ۔

یکم جنوری
۔۔۔قلات کے پہاڑوں سے خاتون سمیت دو افراد کی لاشیں برآمد دونوں افراد کو نا معلوم افراد نے پہلے ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے مارنے کے بعد فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا، دونوں لاشوں کو ڈسڑکٹ ہسپتال پہنچا دیا قلات ،عزیز آباد کے پہاڑوں میں ایک خاتون سمیت دو افراد کی لاشیں ملی جنہیں پہلے لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے شدید تشدد کے بعد فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا ،ابھی تک قتل کے محرکات سامنے نہ آ سکے۔
۔۔۔ضلع کوہلو کے علاقے جنتلی میں موٹر سائیکل بارودی سرنگ سے ٹکرانے کے باعث خاتون اور بچے سمیت تین افراد شدید زخمی ہوگئے ۔
۔۔۔ ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ میں علی الصبح پاکستانی فوج نے گلی کے مقام پر جمیل ولد مراد نامی ایک شخص کے گھر پر حملہ کرکے خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایااور گھر کے قیمتی اشیا لوٹ لئے ۔جبکہ واپسی پر سلو کے مقام پر دو افراد کو حراست میں لیکر اپنے ساتھ لے گئے جن کی شناخت پیر جان ولد نور جان اور سلیمان ولد عباس کے ناموں سے ہوگئی جو سلو کے رہائشی ہیں ۔

2 جنوری
۔۔۔ کولواہ کے علاقوں مرہ شم ،ہار بازار اورگردو نواح میں پاکستانی آرمی نے ایک جنوری2018 بروز پیر آبادیوں کا محاصرہ کرنے بعد گھروں میں لوٹ مار کی اور متعدد افراد کو حراست میں لیا، فورسز نے آپریشن زدہ تمام علاقوں میں موجود پچاس سے زائد گاڑیوں،موٹر سائیکلوں سمیت منی ٹرانسپورٹ کے کئی لوکل گاڑیوں کو بھی آرمی کیمپ منتقل کر دیا ہے۔
۔۔۔ آواران کے علاقے پاہو و گرد نواح میں پاکستانی زمینی فوج و دو گن شپ ہیلی کاپٹروں کا آپریشن ۔
۔۔۔ ماسٹر نور محمد بلوچ کی لاش آج تمپ سے برآمد ہوئی ہے جو کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی موجودہ چیر پرسن کریمہ بلوچ کے ماموں ہیں۔ماسٹر نور محمد بلوچ کو 28 جولائی 2016 کو پاکستانی خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے اغواء کیا تھا جن کی آج ڈیڑھ سال بعد لاش برآمد ہوئی ہے۔

3 جنوری
۔۔۔ پنجگور چتکان بازار سے گچک کلری کے رہائشی تین افرادڈاکٹر محمد گل ولد ولی محمد،محمد اسلم ولد دوست محمد،محمد حنیف ولد عبداللہ کو حراست بعد لاپتہ کر دیا۔
۔۔۔تربت میں مختلف شہری اور دیہی علاقوں میں آرمی، ایف سی اور پولیس کی مشترکہ سرچنگ آپریشن۔ شہرکے متعدد علاقوں میں سرچ آپریشن کے دوران گھر گھر تلاشی ، دوران گھریلو اشیاء، بستر اور دیگر سازوسامان الٹ پلٹ کر رکھ دیئے گئے جبکہ جن گھروں میں کتابیں تھیں ان کے مکینوں کو سخت باز پرس کرکے اگلے آپرشن تک تمام کتب ماسوائے تاریخ پاکستان اور پاکستان کی حمایت سے متعلق کتابوں کوٹھکانے لگانے کا حکم دیا گیا ہے۔سرچ آپریشن کے موقع پر تربت شہر میں تمام موبائل نیٹ ورک اور پی ٹی سی ایل انٹر نیٹ کنکشن معطل کردیئے گئے ہیں۔
۔۔۔کیچ:فورسز کا آپریشن جاری تین افراد حراست بعد لاپتہ، دشت کے علاقے ڈنڈار میں پاکستانی فورسز نے آبادی پر دھاوا بول کر گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ خواتین و بچوں کو زدو کوب کیا اور تین افراد اکرم اسلام، اسلام ولد پیر بخش، حمید ولد رسول بخش کو حراست بعد لاپتہ کر دیا،۔
۔۔۔،بدھ کو کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ سے پولیس نے ایک نامعلوم شخص کی گولیوں سے چھلنی نعش قبضے میں لیکر شناخت کیلئے ہسپتال کے مردہ خانے میں رکھ دی۔

4 جنوری
۔۔۔ آواران سے فورسز نے دو افراد کوحراست بعد لاپتہ کر دیا جس کی شناخت ماسٹرمحسن ولد صوالی اور عظیم ولد محسن ساکنان آواران ڈل بیدی سے ہوئی۔
۔۔۔ جمعرات کی صبح کچلا ک کے علاقے کلی خانو میں نا معلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے کوئٹہ کے رہائشی قاسم خان ولدنذر محمد کو ہلاک کردیا ۔
۔۔۔کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں مدھو گوٹھ سے پاکستانی خفیہ اداروں و فورسز نے بین الاقوامی تعلقات کے طالب علم ممتاز ساجدی ولد ڈاکٹر کریم بخش کو انکے بھائی کامران ساجدی کو انکے گھر سے حراست بعد لاپتہ کر دیاہے،ممتاز ساجدی گریشہ کا رہائشی ہے جو کراچی میں زیر تعلیم تھا۔
۔۔۔ ضلع کیچ کے علاقے سری کہن میں ریاستی فورسز نے ایک گھر پر دھاوا بول کر خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا،گھر میں موجود قیمتی اشیاء کو لوٹنے کے ساتھ ساجد ولد اسد کو اغوا کر لیا،جبکہ گزشتہ روز پنجگور کے علاقے چتکان بازار سے فورسز نے خالد ولد کریم بخش نامی شخص کو لاپتہ کر دیا جو گچک کلری کا رہائشی بتایا جاتا ہے۔

5 جنوری
۔۔۔ ضلع کیچ کے علاقے دشت میں پاکستانی زمینی فوج کی بڑی تعداد میں آمد و آپریشن ،دشت کے علاقوں سائیجی،شولیگ،کھڈان،دروار،چاتیگ،میں پاکستانی زمینی فوج کی بڑی تعداد کا آپریشن ،پہاڑی علاقوں میں پیدل فوج کے ساتھ دوران آپریشن مذکورہ علاقوں میں آبادیوں کو نشانہ بنا نے کے ساتھ لوٹ مار کی گئی۔
۔۔۔کوئٹہ ، ہزارگنجی میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے ایک شخص محمد ابراہیم کو ہلاک کر دیا جبکہ فائرنگ کی زد میں آکر ایک مزدور ظریف خان شدید زخمی ہوگیا ۔
۔۔۔ضلع پنجگور کے علاقے خدابادان کے پہاڑی سلسلے پسکول ڈیم کے قریب زمین میں دفنی ایک پرانی لاش برآمد ہوئی ہے ،،جو مکمل ڈھانچہ بن چکی ہے۔

6 جنوری
۔۔۔آزادی پسند بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے والدہ محترمہ جہاں فانی سے کوچ کر گئیں۔
۔۔۔کراچی سے پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والا ممتاز ساجدی ،بھائی سمیت بازیاب ہو کر اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔
۔۔۔ فورسز نے ڈیرہ بگٹی میں زین کوہ کے مقام پر ایک گھر میں دھاوا بول کر لوٹ مار کے بعد ایک شخص حضور بخش چندرانی بگٹی کو لاپتہ کر دیا۔
۔۔۔آواران پاکستانی فورسز نے جمعہ کے روز اسلم ولد اللہ داد کو جھاؤ سے حراست بعد لاپتہ کر دیا، جبکہ جھاؤ وادی میں 24 دسمبر کو پاکستانی فورسز نے دوران آپریشن جنکو افراد کو حراست بعد لاپتہ کیا تھا انکی شناخت ہو گئی،اسد اللہ ولدمیاء پسند،خلیل ولد داد امحمد،انوار ولد خدا بخش،شوکت ولد مولا داد،اسلم ولد واجو اور نیک محمد ولد کچی۔

7 جنوری
۔۔۔گذشتہ دنوں پاکستانی فوج و خفیہ اداروں نے ضلع گوادر کے ساحلی شہر پسنی میں وارڈ نمبر 7میں ایک گھر پر حملہ کرکے جمعہ خان ولد سیدکو حراست میں لیکر لاپتہ کردیا جبکہ اس کے بھائی واحد ولد سید کو گوادر شہر سے حراست میں لیکر لاپتہ کیا گیا ہے ۔
۔۔۔ گذشتہ شب تربت کے علاقے آبسر میں پاکستانی فوج و خفیہ اداروں نے ایک گھرپر چھاپہ مارکر سلیم ولدرحمت نامی شخص کو حراست بعد لاپتہ کردیا جو کلگ جکی کا رہائشی بتایا جاتا ہے ۔
۔۔۔ آواران دراسکی میں 5ماہ قبل فورسز ہاتھوں لاپتہ ہونے والے امیر بخش ولد علی مراد نامی شخص بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گیا۔
۔۔۔ پیر کے روز پاکستانی فورسز نے آواران سے باپ بیٹے کو حراست بعد لاپتہ کر دیا،ماسٹر محسن ولد صوالی اور عظیم ولد محسن سکنہ پیراندر آواران کو فورسز نے لاپتہ کر دیا۔

9 جنوری
ْ۔۔۔سلیم ولدبور جان کلانچ پسنی ضلع گوادرسے فورسز نے اغوا کر لیا۔
۔۔۔فاضل عرف گہرام بلوچ کو ایرانی فورسز نے فائرنگ کر کے شہید کیا۔

10 جنوری
۔۔۔ ڈیرہ بگٹی،کشمور،کوہلو کے سرحدی علاقے میں فوجی آپریشن، آبادی کو نشانہ بنا کر گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ، کئی گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا۔
۔۔۔حب چوکی زہری گوٹھ سے میا داد ولد پیر بخش کو فورسز نے اغوا کر لیا۔
۔۔۔محمد عالم ولد نبی بخش گونکو کلکو رگ ضلع سے فورسز نے اغوا کیا ۔

11 جنوری
۔۔۔9 مئی 2017 کو فوج کے ہاتھوں اغوا ہونے والا گومازئی ضلع کیچ کے رہائشی جاسم ولد پیر بخش بازیاب۔
۔۔۔ ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ زعمران میں پاکستان کی زمینی وفضائی فوج کا آپریشن ،عمران کے مختلف علاقوں میں آبادیوں پر فضائیہ کی بمبارمنٹ ۔
۔۔تربت میں آج جمعرات کے روز آرمی نے ایف سی اور پولیس کے ساتھ مل کر اوورسیز اور سینٹرل جیل کے قریبی گھروں میں سرچ آپریشن کرتے ہوئے گھر گھر تلاشی لی اور مکینوں کے شناختی کارڈ چیک کیئے جبکہ گھروں میں سرچنگ کے دوران قیمتی سازوسامان لوٹنے کے ساتھ خواتین بچوں اور مردوں کو زد کوب کا نشانہ بنایا۔
۔۔۔کیچ کے علاقے بلیدہ سلو میں فورسز نے ایک گھر پر دھاوا بول کر ایک ضیعف العمر شخص حاجی محمد حنیف ولد یار محمد کو حراست بعد آرمی کیمپ منتقل کر دیا۔
۔۔۔اوتھل سے فورسز نے دو ماہ قبل تین افراد کو لاپتہ کیا تھا جنکی شناخت ہو گئی ہے، تینوں بھائی، نوردین ولد الہٰی بخش،فیصل ولد الہٰی بخش ،سخی داد ولد الہٰی بخش سے ہوئے۔
۔۔۔ بھائی ناصر احمد کی بازیابی میں انسانی حقوق کے ادارے اپنا کردار ادا کریں،بہن کی پریس کانفرنس

12 جنوری
۔۔۔بلیدہ کے علاقے نوانو آرمی کیمپ سے بڑی تعداد میں زمینی فوج ایران سے منسلک سرحدی علاقے جالگی اور گرد نواح میں فورسز کی بڑی تعداد پہنچ چکی جنہوں نے آرمی کیمپ کی تعمیر کا سلسلہ شروع کر دیا۔
۔۔۔ مشکے کے علاقے کلر میں آرمی نے آبادی پر دھاوا بول کر کئی افراد کو حراست بعد لاپتہ کر دیا ہے۔

13 جنوری
۔۔۔نجگور کے علاقے دازی کراس مین روڈ پر پولیس کی چوکی پر نہ رکنے پر ایرانی پک اپ گاڑی کا پولیس نے تعاقب کر کے اس گاڑی کے ٹکر مار کر الٹ دیا جس سے ایک شخص جان بحق اور ایک زخمی ہو گیا،
۔۔۔ کوئٹہ کے علاقے ارباب کرم خان روڈپر فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہو گیا ہے۔
۔۔۔زعمران بڑی تعداد میں فوج کا آبادیوں کا گھیراؤ،آپریشن تیسرے روز بھی جاری،۔زعمران کے علاقے دشتوک میں فورسز نے ہسپتال اور اسکول پر قبضہ کر کے چوکیاں اور کیمپ بنا دئے،جبکہ پوگنزان میں بھی چوکی قائم کر دی گئی ہے، دشتوگ کے علاقے کو فوج نے خالی کر دیا ہے۔ ناگ زعمران سے ڈاکٹر وحید ولد مبارک، زاہد ولد حاجی شیر جان، الطاف ولد حاجی شیر جان، ماسٹر نورجان ولد لعل بخش اغوا۔
۔۔۔ پنجگور کالونی میں پاکستانی فورسز نے گچک کے رہائشی عبداللہ ولد گل محمد کو حراست بعد لاپتہ کر دیا۔

14 جنوری
۔۔۔ ضلع آواران میں دراسکی کے کئی علاقوں کوزمینی فوج نے علی الصبح سے محاصرے میں لینے کے بعد آپریشن شروع کر دیا،دراسکی کے علاقے آسکانی میں گھروں میں لوٹ مار کے بعد انکو نذر آتش کر دیا گیا۔
۔۔۔ گزشتہ روز دوران آپریشنز فورسز نے دراسکی گواش میں تین افراد کو حراست بعد لاپتہ کر دیا،گواش میں اللہ داد میتگ میں آرمی نے گھروں کو نذر آتش کرنے بعد 16 سالہ اسد ولد اللہ دادکو حراست بعد ساتھ لے گئے،جبکہ اسی علاقے میں دو بھائی شیر دل ولد نوکاپ ،بہار ولد نوکاپ جو چروائے ہیں فورسز نے انکو بھی لاپتہ کردیا،اور انکی بھیڑ بکریوں کو بھی ساتھ لے گئے ،دونوں بھائی گچک کے رہائشی بتائے جاتے ہیں، انکے گھر والوں نے بھائیوں کے نمبر پر رابطہ کیا تو آگے سے آرمی اہلکاروں نے فون اُٹھایا اوردونوں بھائیوں کی تشدد اور چیخ و پکار کی آواز خاندان والوں کو سنائی گئی،۔
۔۔۔ کچھ روز قبل تربت سے بالیچہ جانے والا شخص، داؤد ولد حاجی محمد رحیم اپنے گھر نہ پہنچا ،اہل مکینوں کے مطابق خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اسے راستے سے لاپتہ کر دیا ہے۔
۔۔۔ مشکے کلر میں پاکستانی فوج نے آبادی پر دھاوا بول کر گھروں میں لوٹ مار کی، اور ذگری فرقے کے پیشوا مْلا شبیر ولد جان محمد کو دو دیگر افراد کے ساتھ حراست بعد ملٹری کیمپ منتقل کر دیا۔ واضح رہے کہ انکے بھائی عبدالطیف جو پیشہ سے صحافی تھے کو فورسز نے ستمبر2016 کو لاپتہ کیا تھا جو دسمبر2017 میں بازیاب ہو گیا،انکے ایک اور بھائی راشدبلوچ کو جو پیشے سے دکاندار تھے فورسز نے 17اگست2011 کوگڈانی کے مقام پر بس سے اْتار کر اغوا کیا اور انکی مسخ لاش11 اکتوبر 2011 کو خضدار سے ملی۔

15 جنوری
۔۔۔گوادر سے پاکستانی زمینی فوج کی بڑی تعداد نے سائیجی کے داخلی و خارجی راستوں کو سیل کر دیا ہے ،جبکہ دشت سے سائیجی کی جانب بھی راستے سیل کر دئیے گئے ہیں۔

16 جنوری
۔۔۔تربت ر ایف سی نے اوورسیز ایریا اور واستوبازار کا محاصرہ کرکے تمام راستے کئی گھنٹوں تک بلاک کردیئے اور مسافروں کو لائن میں کھڑا کرکے ان کی تلاشی لی اور ان پر تشدد کیا۔ اس دوران ایف سی نے واستو بازار میں گھر گھر تلاشی لی اور مکینوں کوتشدد کا نشانہ بنایا۔

17 جنوری
۔۔۔زعمران ،دشتک:اسکول،ہسپتال آرمی کیمپ میں تبدیل،علاقہ محصور، مکینوں کو علاقے سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے،جبکہ دشتک اسکول اور ہسپتال کے باہری حصے میں بڑی خندقوں کی کہدائی کا سلسلہ بھی جاری ہے،جبکہ راستوں کے سیل ہونے کی وجہ سے لوگوں کی روز مرہ کی خوردنوش کی اشیاء کا بھی قلت پیدا ہو چکا ہے،علاقے میں موجود پانی پر بھی فوج نے قبضہ کر لیاہے،پہاڑی علاقوں میں تمام اطراف میں فوجی اہلکاروں نے مورچے بنا کر عوام کو محصور کر دیا ہے ،اور آرمی کیمپ کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے۔
۔۔۔ مشکے کے کئی علاقے تین روز سے فوجی محاصرے میں،لوگوں پر تشدد ، مشکے کے علاقے گجلی،کُھلان،زنگ،کوپ اسپیت کے پہاڑی علاقوں ،ندیوں میں آپریشن جاری ہے اور رونجھان تک آپریشن کو وسعت دیا گیا ہے، تین روز سے جاری آپریشن میں فوج کے ساتھ ڈیتھ اسکواڈ بھی شریک ہے، واشک کے پہاڑی سلسلہ نمدی میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی گشت کے ساتھ زمینی فوج نے علاقوں کا مکمل محاصرہ کر دیا ہے، فورسز اس آپریشن میں اونٹوں موٹر سائیکلوں کا استعمال کر رہے ہیں ،دوران آپریشن لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ انکی مویشوں کو بھی آرمی کیمپوں میں منتقل کیا جا رہا ہے، آرمی اہلکار وں کے ساتھ ڈیتھ اسکواڈ ،مذہبی شدت پسندوں کی بڑی تعداد شامل ہے ۔۔۔ شاپک و اسکے گرد نواح میں فورسز نے آبادیوں کا محاصرہ کر کے آپریشن شروع کر دیا ہے،گھر گھر تلاشی کے دوران لوٹ مار سمیت خواتین و بچوں کو اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔

18 جنوری
۔۔کوئٹہ کے علاقے میں مسلح افراد کی انسداد پولیوٹیم پر فائرنگ خاتون رضاکار بیٹی سمیت جان بحق ۔
۔۔۔ پیدارک درمعکول میں ڈیتھ اسکواڈ کا شہید اسلام بلوچ کے گھر پر حملہ ، گھر کو ،مسمار کرکے قیمتی اشیا سمیت گھر کے دروازے، کھڑکیاں اپنے ساتھ لے گئے ۔

19 جنوری
۔۔۔ جیونی سے فورسز نے غفور ولد عبدالطیف کواغوا کر لیا۔
۔۔۔ کیچ کے علاقے ہوشاپ تل سر میں فورسز نے آبادی پر دھاوا بول کر لوٹ مار کی اور لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ،گھروں کے اندر پاکستانی جھنڈے بنائے ۔
۔۔۔ ڈیرہ بگٹی پیر کوہ سے فورسز نے پگری ولد لعل بگٹی اور رحمت اللہ ولد سلطان کو لاپتہ کردیا جو پیشہ سے دکاندار ہیں۔
۔۔۔ آواران کے علاقے جھکرو میں علی الصبح آرمی اور ڈیتھ اسکواڈ نے درمان بینٹ کا محاصرہ کر کے داخلی و خارجی راستے سیل کر دئیے گئے ۔۔۔پاکستانی فوج نے تربت کے علاقوں ملائی بازار،زور بازار کو گھیرے میں لے کر خارجی داخلی راستے سیل کر دئیے، سرچ آپریشن جاری ہے۔
۔۔۔آواران کے علاقے دراسکی لنڈکی چڑھائی،درمان بھینٹ جھکرو،دراسکی تل اور پنجگور کی جانب جانے والے روڈ کو بھی آرمی اہلکاروں نے سیل کرنے کے ساتھ، آسمی ولد تاج محمد کو حراست بعد لاپتہ کر دیا ہے ۔

20 جنوری
۔۔۔ کیچ ، گورکوپ کے علاقوں،جمک،لنجی،سری کلگ،سہرودی،میانی کلگ ،سولانی میں آبادیوں پر بمباری کے ساتھ فائرنگ اور گھروں کو نذر آتش کرنے سمیت گھر گھر تلاشی و خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانے اورکئی افراد کوحراست میں لیا گیا۔، سری کلک کے علاقے کئی افراد کو فورسز نے آرمی ٹرکوں میں ڈال کر کیمپ منتقل کر دیا ہے۔جن میں کچھ کی شناخت اللہ داد ولدعیسیٰ، سعید ولد عیسیٰ، خداداد، جمیل ولد محب اللہ ہوئی۔
۔۔۔ آواران کے علاقے جھکرو سے قندھار کی جانب پاکستانی فوج نے آبادی پر دھاوا بول قندھار میں دو گاؤں کو مکمل نذر آتش کر دیا ہے،جبکہ بڑی تعداد میں گزشتہ تین روز سے دراسکی،جھکرو و آواران کے دیگر علاقوں میں آپریشن،آرمی کے ساتھ ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے بھی ان آپریشنز میں شامل ہیں۔
۔۔۔ گزشتہ روز فورسز نے گوادر سے ضلع کیچ ،گومازی کے رہائشی طالب علم سلمان ولد ماسٹر بشیر کو حراست بعد لاپتہ کر دیا ۔
۔۔۔ پنجگور کے علاقے پروم سے لاش برآمد،شناخت کیلئے مردہ خانے میں رکھ دی۔ہسپتال ذرائع کے مطابق مقتول کو پتھروں اورڈنڈوں سے وار کرکے ہلاک کیا گیا ہے۔
۔۔۔کہ گورکوپ کے علاقوں،جمک،لنجی،سری کلگ،سہرودی،میانی کلگ ،سولانی میں آبادیوں پر بمباری کے ساتھ فائرنگ اور گھروں کو نذر آتش کرنے سمیت گھر گھر تلاشی و خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانے اورکئی افراد کوحراست بعد لاپتہ کر دیا گیا۔

21 جنوری
۔۔۔نذر آباد تمپ سے فورسز نے صدام ولد خیر محمد فوج کے ہاتھوں اغوا۔
۔۔۔ آوارن کے مختلف علاقوں پیراندر، تلارک، لوپ ،مشکے منجومیںآج بروز اتوار کو پاکستانی فوج نے اپنی لے پالک مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے ہمراہ علاقوں کو گھیرے میں لیکر آپریشن شروع کردیا ہے ۔
۔۔۔گورکوپ و سولانی بازار میں آپریشن ،اسکولوں پر مورچے قائم ، فوج نے گورکوپ ہائی اسکول اور گرلز اسکول میں اپنے مورچے قائم کرلئے۔
۔۔۔پیدارک گذشتہ روز سری کلگ میں آپریشن کے دوران فورسز کے ہاتھوں لاپتہ کئے گئے تین افراد کی شناخت آٹھ سالہ حاتم ولد ماسٹر نذیر ،جمیل ولد مہبلہ اوراسلم ولد بہادر کے نام سے ہوگئی ہے۔
۔۔۔ذکریوں کا پیشوا مْلا شبیر فوج کے ہاتھوں شدید تشدد کے بعد آج بازیاب ہو گیا۔
۔۔۔پشین کے علاقے یارو سے دو افراد کی لاشیں ملی ہیں جنہیں شناخت کے لئے سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کر دیاگیا جنہیں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کر دیاتھا ۔واضح رہے کہ فورسز ہاتھوں لاپتہ بلوچوں کی مسخ لاشیں پہلے بھی پشین کے علاقے یارو سے برآمد ہوئی ہیں۔

22 جنوری
۔۔ گورکوپ کے کئی علاقے تاحال فوجی محاصرے میں ہیں،سولانی میں فورسز نے ایک معذور شخص ملا بخش ولد یوسف کو تشدد کا نشانہ بنایا،اسی علاقے میں آرمی اہلکار لوگوں کے خاندانی ڈیٹا،شناختی نمبر،اور فون نمبر جمع کرنے کے ساتھ خالی پیپر پر دستخط و انگوٹھے کا نشانہ لگا رہے ہیں،لوگوں میں خوف و حراس کا ماحول ہے۔گورکوپ سری کلگ سے گزشتہ روز فورسز نے کئی افراد کو حراست بعد لاپتہ کر دیا جس سے دو کی شناخت ڈاکٹر اختر ولد دلبود،چاکرولد وشدل سے ہوئے۔جبکہ بیس تاریخ کو گورکوپ سے فورسز ہاتھوں لاپتہ ہونے والا کمسن بچہ ہاتم ولدمحمد نذیرکو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد آج چھوڑ دیا گیا،جبکہ لنجی اسکول پر فوج کا قبضہ ہے اور علاقے فوجی میں محاصرے میں ہے۔
۔۔۔ بلیدہ کورے پشت سے فورسز نے ایک شخص ملا مسلم ولد ابابکر کو حراست بعد لاپتہ کر دیا۔

23 جنوری
۔۔۔نودز کیچ سے شرف ولد یحیٰ فوج کے ہاتھوں اغوا۔
۔۔۔کوئٹہ کے نواحی علاقے علمدار روڈ سے ایک شخص کی لاش برآمد، ایدھی کے مطابق کوئٹہ کے علاقے علمدار روڈ مری آباد سے ایک نامعلوم شخص کی لاش برآمد کر لی جنہیں شناخت کے لئے سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کر دیا گیا ہے ۔
۔۔۔ منگل کے دوپہر سے فوج نے آپریشن شروع کی ہے ،زمینی فوج کے ساتھ گن شپ ہیلی کاپٹروں کی بولان کے مختلف علاقوں میں شیلنگ، آپریشن سانگان،کمان، کٹ، سنجاول اور غربوغ کے علاقوں میں جاری ہے۔

24 جنوری
۔۔۔کوہاڑ تمپ سے ساجد ولد واحد کو فورسز نے اغوا کر لیا۔ ٖ
۔۔۔پنجگور سے فورسز نے ایک شخص گرفتارکرکے نامعلوم مقام پہ منتقل کردیا۔ نوجوان کی شناخت نور جان ولد دوست محمد کے نام سے ہوئی جو کہ پروم پنجگور کا رہائشی ہے۔
۔۔۔گوادر سے فورسز ہاتھوں لاپتہ سلمان ولد ماسٹر بشیر سکنہ گومازی بازیاب ہو گیا ہے۔
۔۔۔زعمران جالگی،آرمی کیمپ کی تعمیر جاری،سو سے زائد ڈیزل لوڈ گاڑیاں ضبط ،ان گاڑیوں کے ذریعے کیمپ کی تعمیر کے لیے ریتی بجری،پتھروں کو لانے کا کام کیا جا رہا ہے،جبکہ کیمپ کے اطراف میں سرنگین بنانے کا کام بھی جاری ،واضح رہے کہ جالگی پاکستانی قبضہ والی و ایرانی بلوچستان کے سرحد پر واقع ہے جس سے لاکھوں لوگوں کی روز گار منسلک ہے۔ارد گرد کے تمام علاقوں کو بھی فوج نے محصور کردیا ہے۔
۔۔۔ گزشتہ روز مشکے ، گجلی کے پہاڑی علاقوں میں دوران آپریشن کئی مویشیوں کے مالکان کے گھروں کو نذر آتش کرنے کے ساتھ انکی مال مویشیاں اغوا کر لیے گئے،دوران آپریشن آرمی اہلکاروں نے شہید غوث بخش ولد شکاری عرضو کے تمام گھر والوں کو حراست بعد جیبری آرمی کیمپ منتقل کر دیا،واضح رہے کہ ایک دسمبر2017 کو آپریشن میں غوث بخش اور انکے 80 سالہ والدہ محترمہ کو فوج نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا، اور دیگر تین بھائیوں خدا رحم، عبدالنبی اور عبداللہ کو فورسز نے لاپتہ کیا جو تاحال فورسز کی حراست میں ہیں،جبکہ خاندان کے آخری سہارا حاجی رحیم بخش ولد شکاری کو فورسز نے خاندان کے خواتین و بچوں سمیت حراست بعد آرمی کیمپ منتقل کر دیا ہے۔

25 جنوری
۔۔۔کمبیل دشت کے رہائشی عزیز ولد اشرف کو گوادر سے فورسز نے اغوا کر لیا۔
۔۔۔پاکستانی فوج نے بولان میں 20 افراد کو آرمی کیمپ منتقل کرنے کی تصدیق کر دی ، فوج نے بیس افراد کے حراست بعد آرمی کیمپ منتقلی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن ردالفساد کے دوران نے بلوچستان کے مختلف علاقوں بولان، سانگان اور شاہرگ میں کارروائی کرتے ہوئے 20 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ آئی ایس پی آر نے بیان میں دعوی کیا کہ ‘ بولان کے علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہوئے 20 افرادکو گرفتار کرکے ان کے قبضہ سے بھاری مقدار میں بارودی مواد دستی بم اسلحہ راکٹ لانچر جس میں 113 گولے 82 ملی میٹر مارٹر 127 کارتوس 82 ملی میٹر مارٹر 146 سیکنڈیز 110 فیو ز 82 ملی مارٹر برآمد کرکے قبضے میں لے لئے ،مگر اس آپریشن حوالے کسی قسم کے حقائق و گرفتار افراد کو میڈیا کے سامنے ظاہر نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی کے نام وتفصیلات سامنے لائے گئے۔
۔۔۔ ڈیرہ بگٹی کے علاقے زین کو سے 15 جنوری کو ریاستی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے بوزو ولد غلام محمد بگٹی کی لاش کو فورسز نے زین کوہ میں ہی پھینک دیا ہے جس کے جسم پر غیر انسانی تشدد کے نشانات ہیں لواحقین کے مطابق بوزو بگٹی کو شدید تشدد کے بعد شہید کیا گیا ہے۔ بوزو بگٹی کو دیگر دو بلوچ فرزندوں ویساق ولد دھلک بگٹی اور حضور بخش بگٹی کے ساتھ فورسز نے اغوا کر لیا تھا تاہم دگر دو افراد کا تاحال کوئی پتہ نہیں کہ ان کو کہاں اور کس جرم کے تحت رکھا ہوا ہے۔
۔۔۔ بولان کے مختلف علاقوں سانگان، سنجاول، غربوغ، کٹ، کمان، شاہرگ، و ہرنائی میں فورسز کا آپریشن تیسرے روز بھی جاری ہے۔ بولان و آس پاس کے علاقوں سے فورسز کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد نامعلوم مقام پہ منتقل ہونے والے چند ایک بلوچ فرزندوں کی شناخت ہوگئی۔
فورسز کے ہاتھوں انڈس چلھڑی سے لاپتہ ہونے والوں میں حاجی عزیز سمالانی عمر چالیس سال پیشہ مالداری، جلمب ولد طور خان مزارانی،عمر 43 سال پیشہ مالداری۔ جمعہ خان محمد حسنی،عمر 75 سال پیشہ چرواہا، پیرو محمد حسنی 80 سال ، پیشہ زمینداری، ،اپوڑسی محمد حسنی، عمر 42 سال پیشہ زمینداری، غازو سمالانی، عمر 35 سال پیشہ مالداری، اکبر سمالانی، عمر 40 سال پیشہ مالداری،تیمور خان عمر 38 سال پیشہ زمینداری،۔شیر خان ولد تیمور خان عمر 30 سال پیشہ مالداری، شامل ہیں۔

26 جنوری
۔۔۔ جمعہ کے صبح سے فورسز نے کیچ کے علاقے دشت شولیگ میں آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے،ساےئجی کے پہاڑی سلسلہ جانب تمام راستوں میں ناکہ لگا کر سیل کر دیے ہیں۔
۔۔۔ضلع گوادر کے علاقے مونڈی میں دو روز قبل فورسز نے آبادی پر دھاوا بول کر ایک شخص کو حراست بعد لاپتہ کر دیا تھا جسکی شناخت عزیز ولد اشرف سے ہوئی۔واضح رہے کہ24 جنوری کو گوادر کے علاقے مونڈی میں آبادی پر دھاوا بول کر خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ گھروں میں لوٹ مار کی گئی اور قیمتی اشیاء سمیت تمام لوگوں کے موبائل بھی فوجی اہلکار اپنے ساتھ لے گئے، مونڈی میں بیشتر افراد دشت سے نقل مکانی کر کے آباد ہوئے ہیں،واضح رہے کہ دشت کی بڑی آبادی فوجی آپریشنوں و ریاستی بربریت سے نقل مکانی پر مجبور کیے گئے۔ دشت کمبیل سے کچھ عرصے قبل بھی عزیز بلوچ کو فورسز نے لاپتہ کیا تھا اور کچھ دنوں بعد چھوڑ دیا تھا۔
۔۔۔مستونگ کے علاقے خواصام میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے حبیب اللہ نامی شخص کو ہلاک کر دیا ۔
۔۔۔ مشکے کے علاقوں سنیڑی،رونجان،نیوانی،گجلی،نلی،گھرہوک،کھلان،زنگ،پتندر، کو آرمی نے مکمل سیل کرنے کے ساتھ داخلی و خارجی راستوں پر ناکے لگا لیے ہیں،70 سے زائد فوجی گاڑیوں کے قافلے نے مذکورہ علاقوں کا محاصرہ کر کے آپریشن کرتے ہوئے خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ گھروں میں لوٹ ماربھی کی اور تاحال یہ علاقے فوجی محاصرے میں ہیں اور کئی افراد کو آرمی اہلکار اغوا کر کے ملٹری کیمپ بھی منتقل کر چکے ہیں،۔
۔۔۔حب چوکی سے جمک گورکوپ ضلع کیچ کے رہائشی چاکر ولد مراد اور گل داد ولد مراد فوج کے ہاتھوں اغوا۔

27 جنوری
۔۔ مشکے فوجی آپریشن میں تیزی ،پاکستانی فوج کے مزید قافلے و تین گن شپ ہیلی کاپٹر مشکے پہنچ گئے، گزشتہ روز 8 چروائے بھی فورسز گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گئے جبکہ انکی مویشیوں کا پتہ نہیں،خیال کیا جا رہا ہے کہ انکو بھی فورسز اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔
۔۔۔کولواہ فورسز کے ساتھ جھڑپ میں سرمچار مبارک عرف حمل ولد سفر سکنہ تیرتیج اور شعیب عرف لکمیر ولد ماسٹر حمزہ سکنہ شاپک کیچ شہید
۔۔۔ کولواہ کے علاقے شندی ، بارکنڈ ، تنزیلااور پہاڑی علاقوں کے آبادیوں کو پاکستانی فوج نے علی الصبح محاصرے میں لیکر بمباری کا آغاز کردیا ۔ بمبارمنٹ سے 40گھر تباہ ہوگئے ۔
۔۔۔گوادر و کیچ اضلاع کے سنگم پر پاکستانی فوج نے بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کا آغاز کردیا،3بڑی کیمپیں قائم ،فوج کی بڑی تعداد آبادیوں اور پہاڑی سلسلوں میں داخل ہوگئی ۔
۔۔۔گذشتہ سا ل اکتو بر میں پنجگو ر کے علاقے گچک کرک میں ایک فوجی آپریشن کے دوران لاپتہ ہونے والے 6افراد بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے ۔جن میں اسلم ولد خدا بخش،عیسیٰ ولدلشکران، زاہد ولد شہداد ،خلیل ولد زباد ،عبداللہ اور واحد بخش ولد جمعہ کے نما شامل ہیں۔

29 جنوری
۔۔۔ بلیدہ کے علاقے میسکی میں پاکستانی فوج نے اسکول پر قبضہ کر کے اسے آرمی کیمپ میں تبدیل کردیا اور سڑک پر چوکی بنا دی،واضح رہے کہ میسکی بلیدہ کے علاقے میناز ،الندور اور کوچک کے درمیان واقع ہے۔
۔۔کیچ کے علاقے آؓب سر سے اطلاعات کے مطابق گزشتہ رات فورسز نے ایک گھر پر دھاوا بول کر لوٹ مار کے ساتھ خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور وہاں موجود الطاف ولد دوست محمد کو حراست میں لے کر اپنے ساتھ لے گئے۔

30 جنوری
۔۔۔دو سال پہلے چب ریکانی گوادر سے فوج کے ہاتھوں اغوا ہونے والا ناصر ولد محمد بازیاب ہو گیا۔
۔۔۔تربت آپسر سے شہرک کے رہائشی مظاہر نزیر ولد نذیر فورسز کے ہاتھوں اٖغوا۔
۔۔ پنجگور کے علاقے وشبود میں ایک موٹر سایکل پر سوار دو مسلح افراد نے شہاب نامی نوجوان کو اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی مزاحمت پر سر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
۔۔ تربت کے علاقے شہرک میں گذشتہ رات 2بجے پاکستانی فوج نے میاں سبزل نامی ایک شخص کے گھر پر چھاپہ مار کر خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایااور2افرادکو حراست بعد لاپتہ کردیا ۔
جن کی شناخت عامر ولد ولی اور مزار ولد فضل کے ناموں سے ہوگئی ۔ عامر ولی کی عمر 20 سال ہے جو کوئٹہ ایگری کلچر کالج کا طالب علم ہے اور مزار مزدورہے۔
اسی طرح ضلع تربت کے علاقے بلیدہ الندور میں فورسز نے آپریشن کر کے خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ گھروں کے قیمتی اشیا لوٹ لئے ۔
ایک شخص کو حراست میں لیکر لاپتہ کردیا جن کی شناخت آصف ولد خداد کے نام سے ہوگئی ۔

***

Share this Post :

Post a Comment

Comments

News Headlines :
Loading...
 
Support : Copyright © 2018. BV Baloch Voice - All Rights Reserved