Translate In Your Language

New Videos

اسیرڈاکٹر دین جان بلوچ:مسیحاکاخاندان مسیحائی کا منتظر

اسیرڈاکٹر دین جان بلوچ:مسیحاکاخاندان مسیحائی کا منتظر

تحقیق وترتیب :زرمبش لٹریری فورم

’’مخلص،ایماندار،بے باک ،بہادر،جنون کی حدتک بلوچ قومی آزادی سے وابستگی ڈاکٹر دین جان کوایسے مقام پر فائز کرتا ہے جس کاہر آزادی پسند انسان خواب دیکھتاہے مگر دین جان جیسا کردار وعمل کا پیکر بننا آسان نہیں ہے ‘‘
یہ الفاظ بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ کے ہیں، انہوں نے ڈاکٹر دین جان کو یاد کرتے ہوئے کہا’’بہادری اور آزادی سے مضبوط کمٹمنٹ دین جان کا طرہ امتیاز ہے ،آج وہ جہاں ہے مجھے امید ہے کہ ان کی بہادری اورکمٹمنٹ میں ذرہ برابر فرق نہیں آئے گا،پاکستان کے خفیہ اداروں کے درندہ اوروحشی اہلکار انہیں کبھی بھی توڑ پائیں نہیں گے ،اس بات کا مجھے یقین ہے۔ ‘‘
’’پارٹی ان کی بازیابی کے لئے ہر ممکن جدوجہد کررہی ہے چونکہ پاکستان کے پاس نہ تو کوئی تہذیب ہے اورنہ انسانی اقدار،تاریخ،تہذیب اورسیاسی وجنگی اخلاقیات سے محروم پاکستان سے بلوچ قوم کو ایسے ہزاروں دردملے ہیں اورجب تک بلوچ اپنے اقتداراعلیٰ کا مالک نہیں بنے گامیرے خیال میں اس کی شدت میں کمی ممکن نہیں کیونکہ انسانیت اورانسانی اقدارپاکستان کے لئے معانی نہیں رکھتے ہیں ،بلوچ قوم اوربلوچ نیشنل موومنٹ اپنے محبوب رہنماکو یا دکرتا ہے ،ہم نے 2014کے پارٹی کا قومی کونسل سیشن ڈاکٹر دین جان ،غفورجان اورصادق جمالدینی کے نام کیا،ہم اپنے اسیر رہنماؤں کو کبھی نہیں بھول پائیں گے ،ان کی زندگی کا لمحہ لمحہ بلوچ قومی آزادی کے لئے وقف تھا ،پوری قوم انہیں یاد کررہاہے‘‘پارٹی چیئرمین نے کہا’’دین جان سمیت تمام اسیر رہنماؤں کی جدوجہد رنگ لائے گا،ان کا مشن بلوچ سیاسی کارکن تمام مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھائیں گے۔

ڈاکٹردین محمدبلوچ ایک مختصر تعارف

ڈاکٹر دین محمد بلوچ جسے پیار سے سب لوگ دین جان کے نام سے پکارتے ہیں 5 مئی1969 کو بلوچستان کے علاقے مشکے'' نلی ''میں قادر بخش کے ہاں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم بھی اپنے آبائی علاقے میں گورنمنٹ مڈل سکول مشکے نلی سے حاصل کیا۔ اس کے بعدسیکنڈری تعلیم کے لیے مشکے گجر کے ہائی سکول میں داخلہ لیا۔میٹرک کے بعد گورنمنٹ ڈگری کالج خضدار میں داخلہ لیا۔جہاں سے ایف ایس سی کے امتحانات میں نمایاں نمبروں سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد کچھ عرصہ تعلیم کے شعبے سے بطورٹیچروابسطہ رہے ۔ اس دوران جھاؤ ،اورناچ اور آواران میں بحیثیت سکول ٹیچر خدمات سرانجام دیتے رہے ۔1994ء کو بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں ان کامیڈیکل کی تعلیم کے لیے داخلہ ہوتاہے ۔جہاں سے2000ء میں اپنی میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بحیثیت میڈیکل آفیسر تعینات کیے جاتے ہیں ۔صحت کے شعبے میں بھی دین جان ایک مخلص اورایماندارڈاکٹر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔آواران ،جھاؤ،وڈھ،اتھل اوراورناچ میں بطورمیڈیکل آفیسرخدمات سرانجام دیتے رہے اور پاکستانی اداروں کے ہاتھوں اورناچ ضلع خضدارسے لاپتہ ہونے تک مسیحا بن کر عوام کی خدمت کرتے رہے۔

ایک قابل ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے دل میں قومی بدحالی اورقومی غلامی کا درد کوٹ کوٹ کر بھر اہے اس لئے انہوں سرکارسے حاصل آسائشوں کا پرواہ کئے بغیر ہمیشہ سیاست میں سرگرم کردار ادا کیاہے ۔
سیاسی زندگی
ڈاکٹر دین جان بلوچ زمانہ طالب علمی سے سیاسی عمل میں دلچسپی لیتا آرہا ہے۔جب وہ سیکنڈری سکول کا طالب علم تھا اس وقت انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز BSO سے کیا۔اور میڈیکل کی تعلیم مکمل ہونے تک بلوچ طلباء تنظیم (BSO) سے منسلک رہے اس دوران آپ زونل نائب صدر کے عہدے پہ بھی فائز رہے۔
ڈاکٹر دین جان اور شہیدڈاکٹر منان جان کی دوستی محاورے کی حدتک مشہورہے یہ دونوں سیاسی اورانقلابی رہنماؤں کی جوڑی ہرموڑپر بے مثال رہا, بی ایس اوکی طلبا سیاست سے لے کر بی این پی مینگل اوربلوچ نیشنل موومنٹ میں ان کا سیاسی سفر کم وبیش ساتھ ساتھ چلتارہا ،اکثراوقات اکھٹے گزارتے تھے ۔2002ء میں بلوچستان نیشنل پارٹی شمولیت اختیار کی لیکن بی این پی مینگل کی مبہم سیاست اور آپ کی قومی آزادی سے وابستہ سوچ اورفکرنے آپ کو جلد اس پارٹی سے الگ ہونے پہ اُکسایا ،جب شہید غلام محمد بلوچ نے ڈاکٹر مالک اور انکے حواریوں سے ناطہ توڑتے ہوئے قومی انقلابی پارٹی تشکیل دی تو آپ بھی بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کے لیے بلوچ نیشنل موومنٹ میں شمولیت اختیار کی ۔کراچی میں منعقد ہونے والے کونسل سیشن میں آپ کا انتخاب بحیثیت ممبر سینٹرل کمیٹی ہوااور لاپتہ ہونے تک آپ اسی عہدے پہ فائز رہے۔

گرفتاری کہاں اورکن حالات میں ہوئی ؟

پارٹی چیئرمین واجہ خلیل بلوچ کے مطابق ’’گرفتاری سے تین چاردن پہلے میں اورڈاکٹردین جان کوئٹہ میں اکھٹے تھے جہاں ڈاکٹر صاحب کے بیٹی سمی جان کے گلے کا آپریشن ہوچکاتھاانہوں نے مجھ سے اجازت لی کہ ضروری کام سے اورناچ جارہاہوں لیکن میں نے انہیں سختی سے کہاکہ کام کرکے واپس آجانااوروہاں بالکل مت ٹھہرناکیونکہ ہمارااکھٹے ایک سفر طے تھا۔ہمیں وہیں کوئٹہ میں خبر ملی کہ خفیہ داروں نے ڈاکٹر دین کو حراست میں لے کر لاپتہ کیاپھر اصل حالات و واقعات معلوم کرنے کے لئے شہید ڈاکٹرمنان جان اوراسیررہنماکے بڑے بھائی پروفیسرصدیق بلوچ اورناچ روانہ ہوئے اورکوئٹہ سے ان کا اہلخانہ بھی اورناچ چلی گئی ‘‘

اورناچ کے مقامی لوگوں کے مطابق’’ ڈاکٹردین جان کے اغواء سے چنددن پہلے آرسی ڈی روڈ سے اورناچ تک کچے سڑک کی اچانک گریڈنگ کی گئی ،ہم حیران تھے آخر سرکارکو اورنا چ کے لوگوں کی سفری مشکلات کااتنے وقتوں کے بعد کیسے احساس ہوا ،ہم خوش تھے کہ سڑک کی حالت تھوڑی بہت بہتر ہوئی ۔

بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سڑک ڈاکٹر دین جان کو اٹھانے کے لئے ہموار کیاگیا تھا کیونکہ اس وقت سڑک کی حالت کافی خراب تھی آئی ایس آئی کو خدشہ تھا کہ اورناچ کے عوام اس کی مزاحمت کریں گے اگر ان کے لوگ تیزرفتاری سے وہاں سے نکلنے میں کامیاب نہ ہوئے تو ان کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتے ہیں۔کیونکہ ڈاکٹر دین جان عوام میں بہت مقبول ہیں ،انہوں نے ملازمت کے دوران وہاں کے غریب لوگوں کی بے پناہ خدمت کی ہے ۔

بڑی صاحبزادی بانک سمی بلوچ نے گرفتاری کے بارے میں بتایا۔

’’اس دوران پورا خاندان کوئٹہ میں تھا وہاں بی ایم سی ہسپتال میں میرے گلے کا آپریشن ہوچکاتھا ،آپریشن کے دوسرے روزوالدصاحب ہم سے یہ کہہ کر اورناچ چلے گئے کہ انہیں حکام بالانے ضروری کام کے لئے بلایاہے اورمیں تین دن کے بعد واپس آؤں گا،مجھے یاد ہے کہ 28جون کی شام ٹیلی فون کی گھنٹی بجی تومیں اورچھوٹی بہن فون اٹھانے کے لئے لڑپڑیں کہ فون میں اٹھاؤں گی کیونکہ ابونے ہمیں کل سے فون نہیں کیاتھا اورابو روزانہ فون کرتے تھے ہم فون کے انتظارمیں تھے ،فون میں نے اٹھایا تو دوسری جانب ابوکے کوارٹرسروینٹ تھے ،انہوں نے ہمیں یہ دردناک خبر سنائی کہ رات گئے ایک سرف گاڑی میں مسلح لوگوں ابو کو اٹھا کر لے گئے ہیں ،ہمارے لئے یہ خبر طوفان تھا ،اس خبر کو سننے کے بعد ہمارا خاندانی زندگی آج تک سنبھل نہیں پایاہے ‘‘
مجھے یقین ہے کہ والد کواچانک بلانے والے آفیسربھی میرے ابو کوگرفتارکروانے میں ملوث ہوگاورنہ ایسا کیاکام ہوگاکہ میرے ابوکو اس طرح اچانک بلایاجائے جب ان کی بیٹی بیمار حالت میں ہو۔‘

ایف آئی آرکب اورکہاں درج کرائی گئی؟

سمی نے بتایا۔
’’یہ اہندوہناک خبرسننے کے بعدمیں اورمیرا پورا خاندان اورناچ چلی گئے اور 29جون کواورناچ پولیس تھانے میں ایف آئی آرنمبر5/2009درج کرائی اوروہاں کے لوگوں سے اصل حالات معلومات اکھٹی کیں اورہم واپس کوئٹہ چلے گئے اور30جون کو پہلی پریس کانفرنس کی اوربلوچستان ہائی کورٹ میں پٹیشن نمبر446/2009دائر کیااورعدالت کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھنے لگے کہ اتنی بڑی عدالت ضرورہمارے لئے کچھ نہ کچھ کرے گا۔

خاندان کی جدوجہد

اپنے والد کی بازیاب کے لئے طویل جدوجہدکرنے والی بڑی صاحبزادی سمی بلوچ نے بتایا۔

’’عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کے ساتھ ہم نے ہر ممکن جدوجہد کیا،میں نے مظاہروں حصہ لیا،متعددپریس کانفرنس کیں ابوکے لاپتہ ہونے کے تین مہینے بعد لاپتہ افراد کے لواحقین نے وائس فار مسنگ پرسنزکے نام سے ایک تنظیم بنائی اورمیں نے اپنے خاندان کے ہمراہ تنظیم کے بھوک ہڑتالی کیمپ جوائن کیااورہم چارمہینے تک وہیں کیمپ میں رہے اور2011کومیں اپنے پوری خاندان کے ساتھ کوئٹہ سے اسلام آبادتک ٹرین مارچ میں شامل تھی اورہم نے دس دن تک اسلام آباد میں پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتالی لگایا اوروہاں اسلام آباد میں پیشی کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں پیش ہوئی جہاں سپریم کورٹ کے جج جاویداقبال عدالت میں لاپتہ افرادکے رشتہ داروں کو یقین دہانی کرتاہے کہ ’آپ اپنے گھروں تک پہنچے ہوں گے کہ آپ کے لاپتہ لوگ گھروں پہنچ جائیں گے ‘لیکن یہ سب جھوٹ ثابت ہوئیں ،ہمارا والد بازیاب نہیں ہوئے ،اس کے بعد ہرتین مہینے بعد پریس کانفرنس ،مظاہرہ اوربھوک ہڑتالی کیمپ مسلسل یہ عمل کرتے رہے جب کوئی نتیجہ برآمد نہ ہواتووائس فاربلوچ مسنگ پرسنزکی جانب سے ہونے والے طویل لانگ مارچ میں میں شامل تھی اورہم نے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے کوئٹہ سے اسلام آبادتک تین ہزاپانچ سوکلومیٹرکا فاصلہ طے کیا،اس سفر میں ہمیں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،بعض جگہوں پر سرکارنے روڑایکسیڈنٹ کے نام پر مارنے کی کوشش بھی کی لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری ،تمام مشکلات کا سامنا کیا،ہم نے پرامن احتجاج اورجدوجہد کی ہرممکن راہ اختیارکیا،افسوس کہ اب تک اپنے ابوکو بازیاب کرانے میں کامیاب نہ ہوسکی ہوں ‘‘

ڈاکٹردین جان کی چھوٹی بیٹی مہلب بلوچ بھی اپنے والد کی بازیابی کے لئے جدوجہد میں پیش پیش رہی ہیں ،ہراحتجاج اوربھوک ہڑتالی کیمپ میں نظرآتے ہیں ان کی بعض ویڈیوز بھی سامنے آئے ہیں بعض رلادینے والی ویڈیوزمیں مہلب جان اپنے جذبات پر قابو رکھناکھوجاتی ہیں اورروپڑتی ہیں ہم نے مہلب سے پوچھاکہ والد کے لاپتہ ہونے اوربازیابی کے جدوجہدنے ان کی زندگی پر کیااثرات مرتب کی ہیں؟ تو مہلب جان نے کہا ۔۔۔
’’ میں بہت چھوٹی تھیں کہ ابو لاپتہ ہوئے تومیں ماماقدیر کے کیمپ میں بھوک ہڑتال پربیٹھ گئی اورپریس کانفرنس اورمظاہروں میں شرکت کی ،انسانی حقوق کے اداروں سے پریس کانفرنس اورویڈیوزکے ذریعے اپیل کئے ۔جب سرکار نے میرے ابو کولاپتہ کیا تومیں نے تعلیم بہت متاثر ہوئی ،میں باقاعدہ پڑھ نہ سکی لیکن میں نے اپنی تعلیم کو کبھی اہمیت نہیں دی ،بلکہ اپنے ابوکے بازیابی کاجدوجہدمیرے لئے سب کچھ تھا۔‘‘

بین الاقوامی اداروں کا کردار

بلوچ نیشنل موومنٹ کی طرف سے متعددبار اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے اداروں کومراسلے لکھے گئے ہیں جبکہ ڈاکٹر دین جان کے خاندان نے بھی ان عالمی اداروں کو خطوط لکھے ہیں ،سمی بلوچ کے مطابق’’ابوکی بازیابی کے لئے بیرون بلوچستان بہت احتجاج ہوئے ہیں اورہم نے انسانی حقوق کے اداروں کو خطوط لکھے ہیں لیکن ہمیں ان کی طرف سے نہ کوئی جواب ملا ہے اورنہ ان عالمی اداروں نے عملی کردار ادا کیاہے ‘‘

خاندان پر کیابیت رہی ہے ؟

ہر لاپتہ شخص کی طرح ڈاکٹردین جان کی خاندان مشکلات اورصعوبتوں میں گرا ہوا ہے ،ایک جانب پیارے والد کی گمشدگی کا درد تودوسری طرف پاکستانی اداروں بالخصوص فوج کے جانب سے اس خاندان کوحراساں کرنے کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آئی ہے ۔
سمی بلوچ کے مطابق
’’ہماری دادی اپنے بیٹے کی راہ تکتے تکتے اس دنیاسے چلے گئے اورنزع کی حالت میں بھی ان کے زبان پر ابو جان کا نام تھااوروہ بیٹے کی جدائی کی غم سینے میں لئے اس دنیاسے چل بسے ،ابو کو لاپتہ کرنے کے حادثے نے امی جان کی صحت پر انتہائی مضراثرات مرتب کئے ،وہ آج تک شدید نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہیں ،اچھے سے اچھے ڈاکٹر ان کی بیماری تشخیص نہیں کرپائی ہیں وہ مسلسل بیمار رہتی ہیں ۔

والد کے لاپتہ ہونے کے بعدہمارے پاس کوئی دوسرا سہارانہیں تھا مگر ابو کا بنایاایک گھر تھا یہی احساس غنیمت تھا کہ ہمارے پاس اپنا گھر ہے ،ہم اکثر احتجاج اور مظاہروں کے سلسلے میں کبھی کوئٹہ تو کبھی کراچی اوراسلام آباد میں تھے،ہمارا آبائی گھر مشکئے نلی میں تھا لیکن باربارکے فوجی چھاپوں سے ہم عاجز آچکے تھے توہم وہاں سے نکل گئے اوربڑی کوششوں سے دوسری جگہ گھر تعمیرکئے تو فوج نے ہمارے پہلے اور دوسرے گھرمیں موجود اشیاء کا صفایا کرنے کے بعداس پر قبضہ کرکے فوجی چوکی میں تبدیل کیاہے، جن پر پاکستان کا جھنڈا لگاہے ،پہلا گھرہمارے والد کی نشانی تھی،گھرمیں موجود اشیاء والد کے یادگار تھے ہمارے لئے ،لیکن فوج نے ہمیں ان سے بھی محروم کیاہے۔‘‘

ڈاکٹر دین جان بلوچ ان ہزاروں لاپتہ سیاسی جہدکاروں میں سے ایک ہیں جن کے بارے میں ان کے رشتہ داروں کو کچھ نہیں معلوم کہ وہ کس حال میں ہیں ،ان پر کیا بیت رہی ہے ،یہ مسئلہ لاپتہ افراد اور ان کے رشتہ داروں کا نہیں بلکہ بلوچ مسنگ پرسنزپوری انسانیت کے سامنے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ،یہ جاننے کے باوجودکہ وہ کہاں ہیں مگر تاحال عملی اقدام اٹھانے سے گریزاں ہیں بقول سمی بلوچ ’’میں جانتی ہوں کہ میرا والدکہا ں ہے، سب جانتے ہیں لیکن کوئی نہیں بولتاہے ،لوگ فوج سے خوف زدہ ہیں میں اقوام متحدہ اورتمام انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے اپیل کرتی ہوں کہ میرے ابو کی بازیابی کے لئے کردار ادا کریں

Share this Post :

Post a Comment

Comments

News Headlines :
Loading...
 
Support : Copyright © 2018. BV Baloch Voice - All Rights Reserved