لیلیٰ سے سمّی تک ، تحریر: شاہ میر بلوچ
لیلیٰ سے سمّی تک
شاہ میر بلوچ
لیلیٰ خالد 9اپریل 1944ء کو حائفہ میں پیدا ہوئی۔ 1948ء میں فلسطینیوں
کو اس علاقے سے بیدخل کرنے کے سبب ہجرت کر کے لبنان چلے گئے۔ 15سال کی عمر
میں بھائی کے نقش قدم پر چل کے عرب نیشنلسٹ مو ؤمنٹ میں شمولیت اختیار کی
،جو خطے میں بسے مختلف ریاستی ڈھانچوں میں تقسیم ہوئے عربوں کو اپنے قوم
پرستی کے جذبات کے تحت ایک قوم تصور کرتی تھی۔اس جماعت کی بنیاد 1940ء میں
رکھی گئی ۔اسی جماعت کی فلسطینی شاخ آگے چل کر پاپولر فرنٹ فار دی لیبریشن
آف فلسطین (پی ایف ایل پی)بنی۔لیلیٰ خالد پی ایف ایل پی کی ایک مقبول ممبر
رہی ۔لیلیٰ خالد کو فلسطین مسلح مزاحمت کا پوسٹر گرل(پوسٹر گرل آف فلسطین
ملی ٹینسی)بھی کہا جاتا ہے۔
لیلیٰ خالد 1969ء میں ہونے والی ہائی جیکنگ میں عوام کے سامنے متعارف
اور مقبول ہوئیں ۔4ہوائی جہازوں کی ہائی جیکنگ کے واقعات کہ جسے بلیک ستمبر
بھی کہا جاتا ہے اس میں ہونے والے پہلے واقعے میں لیلیٰ خالد کی تصاویر
دنیا بھر میں شائع ہوئیں۔
اگست 1966ء کو لیلی خالد ہائی جیکنگ ٹیم کا حصہ بنی ٹی ڈبلیو اے فلائٹ
840کی ہوائی جہازجو اٹلی سے یونان کی پرواز پہ تھا اسے ہائی جیک کر کے دمشق
پہ اتارا اس جہاز کو اتارنے و تمام مغوی مسافروں کو رہا کرنے کے بعد بمب
سے جہاز کو اڑا دیا گیا۔
اس ہائی جیکنگ کے بعد ہی لیلیٰ خالد عام عوام میں متعارف و مقبول ہوئیں
۔خصوصاً اس مشہور زمانہ تصویر کی توسط جو ایدھی ایڈمز نامی صحافی نے
کھینچی تھی کہ جس میں ایک فلسطینی ہائی جیکر کو عربی رومال پہنے ہاتھوں میں
کلاشنکوف تھامے دکھایا گیا تھا۔یہ تصویر اب تک فلسطینی مزاحمت کی علامت
کیساتھ ساتھ دنیا بھر میں مظلوم اقوام کی جہد آزادی میں عورتوں کے کردار کی
وضاحت کرنے کے سبب مشہور ہے
’’مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا‘‘
سمی بلوچ وہ بہادر بیٹی ہے جو اپنے بابا کی بازیابی کے لیئے جدوجہد میں
اپنے بچپن اور جوانی کو قربان کرچکی ہے ۔ بلوچستان کی سینکڑوں خواتین کی
طرح سمّی بلوچ بھی آٹھ برس سے اپنے لاپتہ والد کی بازیابی کی مہم چلا رہی
ہے۔ سمی بلوچ کے والد ڈاکٹر دین محمد کو 28 جون 2009ء کو پاکستانی خفیہ
ایجنسیوں نے اغواء کر کے غائب کیا ۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ خضدار کے علاقے
اورناچ کے سرکاری ہسپتال میں میڈیکل آفیسر تھے۔ انہیں اپنے پیشے سے اتنا
لگاؤ تھا کہ ہر تین ماہ میں محض چند روز ہی اپنے خاندان سے ملنے کے لیے
نکال پاتے تھے۔ ڈاکٹر دین محمدبلوچ ایک سیاسی رہنما بھی تھے اور ترقی پسند
سیاسی جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کی مرکزی کمیٹی کے رکن تھے۔
سول اسپتال اورناچ سے رات کے اوقات سادہ وردیوں میں ملبوس خفیہ اداروں کے
اہلکارڈاکٹر دین محمد بلوچ کو اٹھا کر لے گئے ،اس واقعے کے چشم دید گواہ
اسپتال میں ڈیوٹی پر معمور سیکورٹی گارڈ تھے، اپنے والد کے لاپتہ ہونے کی
اطلاح ملتے ہی سمی بلوچ اپنے خاندان کے ہمراہ پولیس اسٹیشن میں ڈاکٹر دین
محمد بلوچ کے لاپتہ ہونے کا FIRدرج کرواتی ہے ،بلوچستان ہائی کورٹ میں
درخواست دائر کرکے کوئٹہ پریس کلب کے باہر لگے لاپتہ افراد کے وارثوں کے
کیمپ میں سمی بلوچ کی شکل میں ایک اور متاثر ین کا اضافہ ہوتا ہے۔
پریس کلبوں میں پریس کانفرنسز، سپریم کورٹ آئی کورٹ کے چکر لگاتی ہے
۔پاکستان کے ہر اس ادارے میں جو انصاف کے نام پر تعمیر کی گئی ہیں ان کے در
تک گئے اپنے والد کے بازیابی کی خاطر وہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے
تاریخی لانگ مارچ میں شریک ہوئی(جو کوئٹہ تا کراچی،کراچی تا اسلام آباد تک
تھی) تاکہ اس کے والد کو منظر عام پر لایا جائے ۔
ایک خاطر خواہ بیٹی آخر چاہتی کیا ہے؟ کیوں عید کے مقدس دنوں میں وہ
پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کر رہی ہے ،آخر کیوں ؟یہ سوال دنیا بھر میں
انسان دوست انسانیت کے علمبرداروں سے ہے ،کیا اس بیٹی کے مطالبات درست نہیں
کے اس کے والد کو بازیاب کیا جا ئے ؟ کیا اس بیٹی کے مطالبات درست نہیں کہ
اس کے والد کو منظر عام پہ لایا جائے ’’اگر وہ مجرم ہیں تو اسے قانونی سزا
دی جائے ‘‘
عورتوں کی کردار کو ہمیشہ سے ہمارے معاشرے نے مشکوک نگاؤں سے دیکھا
گیاہے ہمیشہ سے عورتو ں کو کمزوری کی علامت کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے
،یہاں اس موضوع میں دو ایسے شخصیت کا ذکر کر رہا ہو ں جو دنیا میں علامات
کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ لیلی خالد جو دنیا میں عورتوں کی طاقت کی علامت
کے طور پر جانی جاتی ہے تو دوسری جانب سمی بلوچ ،بلوچ دیار میں جہد مسلسل
کی علامت ہے ۔سمی بلوچ ان تمام عورتوں کے لیے باعث فخر ہے جو غیر فطری قید
سے نکل کر عملی میدان میں جدوجہد کررہے ہیں۔
Post a Comment