ذاکر مجید؛ ایک باشعور ، بہادر طلبہ رہنما ، تحریر: مہناز بلوچ
ذاکر مجید ؛ایک باشعو، بہادر طلبہ رہنما
تحریر: مہنازبلوچ
پریس کلب کے سامنے ایک غم ذدہ خاندان بر سر احتجاج تھا۔ریاست کے خلاف
شدید نعرے بازی جاری تھی کیونکہ اس خاندان کے ایک فرد کو ریاستی خفیہ
ایجنسی اغوا کر چکے تھے۔پریس میں انٹرویو کا وقت آیا تو لوگوں کے ہجوم میں
سے ایک نوجوان طالب علم آگے بڑے ،نوجوان طالب علم جس کے ہاتھ میں کتاب تھا
جیسے وہ اپنے تعلیمی ادارے سے آیا ہوں،وہ جو اپنی بات کا آغاز شہیدوں کے
نام سے کرتا،جس میں غضب کا جوش و ولولہ موجود تھا اور کمال کا اندازِ بیان
جو اپنے آپ کو لاپتہ افراد کے لواحقین میں شمار کرتا آج خود لاپتہ ہے۔
وہ باشعور ،بہادر بلوچ طلبہ رہنما زاکر مجید آٹھ جون دوہزار نو کو اپنے مادر وطن سے محبت کرنے کے پاداش میں لاپتہ کر دیا گیا۔
قومی آذادی کے اصول کیلئے مسلح اور پر امن سیاسی جدوجہد دونوں ہی اہم
کردار ادا کرتے ہیں ۔ مگر مسلح جدوجہد ہی وہ واحد راستہ ہے جس کو اختیار کر
کے دنیا کے کئی اقوام نے آذادی حاصل کی۔مگر اس کے ساتھ ، ساتھ پر امن
جدوجہد کو بھی اپنا ایک خاص مقام حاصل ہیں جس میں سیاسی ورکر بنا ہتھیار کے
اپنے مادر وطن کی دفاع کرتے ہیں۔یہ بھی تحریک آذادی کے سپاہی کہلاتے
ہیں۔جو دشمن کے جابرانہ نظام کے خلاف جنگ لڑتے ہیں قلم کو اپنا ہتھیار بنا
کر دراصل یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے علم و شعور سے آذادی کے مشن کو اپنی قوم
تک پہنچاتے ہیں۔ایسے ہی افراد سے ریاست کو سب سے بڑا خطرہ لاحق رہتا ہے۔
ذاکر مجید بلوچ تحریک آذادی کا ایک باشعور ، بہادر بلوچ طلبہ نوجوان
رہنما ہے۔جس نے ہر محاز میں دشمن کو اپنے سیاسی شعور سے مات دی ۔ بلوچ قوم
کو علم و آگاہی فراہم کرنا اس کا مقصد تھا وہ چاہتا تو اعلی سرکاری آسامیوں
کو اپنا سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا کیونکہ ذاکر کو اپنی ذاتی ذندگی
سے بڑھ کر وطن اور قوم کی فکر تھی۔ بی ایس او آذاد کے پلیٹ فارم سےشعور و
آگاہی کی جو شمع روشن کی وہ تا ابد قاہم رہے گی۔دشمن زاکر مجید کے اس
جدوجہد سے خوف ذدہ تھی۔ذاکر کو روکنے کے لیے قیدوبند کی اذیتیں دی گئی مگر
ذاکر ایک نظریاتی رہنما کی طرح اپنے موقف پہ قاہم رہا۔ذاکر اپنے سیاسی
پروگرامز میں دن بہ دن مزید اضافہ کرتا گیا۔ذاکر نے اس فرض کو بخوبی ادا
کیا جو کہ ہرایک بلوچ پہ عائدہوتی ہے۔آذادی کے پیغام کو جھالاوان ،ساراوان
،مکران سمیت پور بلوچستان میں پھیلایا۔
ذاکر مجید نے پارلیمنٹ پرست اور صوبائی خودمختاری کا نعرہ لگانے والے
نام نہاد قوم پرستوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور بلوچ قوم کے نوجوانوں
کو ایسے موقع پرست سیاستدانوں سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔اس کا موقف
پہاڑوں کی طرح بلند و اٹل تھا کہ قومی آذادی سے کم کسی چیز پر بھی رضامند
نہیں ہونا۔لڑنا ہیں ہر اس طاقت کے خلاف جو اس مقصد کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
ذاکر مجید آج بھی اپنے فکر اور موقف پر ڈٹے ہوئے کھڑے ہے ۔جس ذندان میں
ایک دن ایک سال کے برابر ہوتی ہیں وہاں زاکر مجید نے ہنستے ،ہنستے اپنے قوم
وطن کیلئے نو سال قربان کر دیے۔ذاکر آج بھی ہر روز دشمن کو مات دے رہا
ہے۔زاکر مجید اور اس کی جدوجہد نوجوانوں کے لیے ایک مثال ہے۔
ہاں ذاکر کا دشمن ناکام رہا ذاکر جان کو قید کرنے میں ، کیونکہ ذاکر
کسی فرد کا نہیں بلکہ ایک مکمل جدوجہد کا نام ہے۔جس میں ہر دن اضافہ ہورہا
ہے آج ذاکر مجید جیسے فکر و جدوجہد کو اپنا مقصد بنائے ہوئے کئی نوجوان
ہاتھ میں قلم و کتاب اٹھائے نہتے اس جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جو آذاد
بلوچستان تک جاری رہے گی۔
Post a Comment