Translate In Your Language

New Videos

کامریڈ زہرہ بلوچ ایک نظریاتی کارکن۔۔۔۔۔۔۔تحریر :داس بلوچ

کامریڈ زہرہ بلوچ ایک نظریاتی کارکن۔۔۔۔۔۔۔تحریر :داس بلوچ

بلوچ قومی تحریک میں بے شمار قربانیوں نے بلوچ قومی منزل کو اگر پایا نہیں تو وطن کی آزادی کے جذبے کو سرشار کیا ہے ،اسی سوچ اور نظریے کی آبیاری میں روز نئی داستان رقم ہورہی ہیں جو یقیناًجہد آجوئی کے کاروان میں شامل جہدکاروں کیلئے خوشی اور غم کی بے شماریادیں چھوڑ تی چلی جارہی ہیں ،ان لازوال قربانیاں بلوچ قومی آزادی کی اصل روح کی عکاسی کرتی ہیں جو ہم سب کیلئے باعث اعزاز ہے کہ ہم آزادی کی جہد میں تکالیف اور خوشیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ،ریاستی ظلم و جبر کے خلاف آج بھی مضبوط نظریے کے مالک دشمن کے خلاف سیاسی اور عسکری محاذ میں صف آرا ہیں جو یقیناًہماری کامیابی اور آنے والی نسل کیلئے باعث فخر ہوگا، گزشتہ دنوں بلوچستان کے علاقہ مند سے تعلق رکھنے والی بی ایس او آزاد کے زونل ممبر زہرا بلوچ جو ہم سے جسمانی علیحدگی مگر نظریاتی قربت آج بھی رکھتی ہے، ایک کار حادثے میں ہمیشہ کیلئے رخصت ہوگئی ،زہرا بلوچستان کی زرخیز زمین جہاں قومی آزادی کے بانی رہنما واجہ غلام محمد کی سیاسی بصیرت نے بلوچ نوجوانوں کو قومی آزادی کی جانب مائل کیا ،جس سوچ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بے شمار جانیں امر ہوگئے اور لاتعداد جان نثار مصروف عمل ہیں انھی میں سے ایک زہرا بلوچ تھیں جو بی ایس او آزاد کی پلیٹ فارم میں بلوچ خواتین سمیت تعلیمی اداروں میں بلوچ طلبا و طالبات کی سیاسی و علمی تربیت کرتی رہی۔
مند بلوچستان کی تاریخ میں سیاسی اور ادبی حوالے سے اہم مقام رکھتا ہے جہاں سے بلوچی زبان کے نامی اور معروف شاعر مرحوم ملا فاضل نمایاں ہے ،مند بلوچ آزادی کی جدوجہد میں دوسرے علاقوں سے پیچھے نہیں جس نے غلام محمد ،شیرمحمد بلوچ ،دلجان سمیت سعود،اور عاطف بلوچ جیسے عظیم شخصیات کو جہنم دیا جو تاریخ میں بلوچ قوم کے ہیرو رہیں گے ۔کامریڈ زہرا بلوچ ایک نیم قباہلی اور پیچیدہ سماج میں راتوں کو قابض کے خلاف وال چاکنگ اور پمفلٹ کرتی رہی ،زہرا ایک سیاسی اور انقلابی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی وہ ہمیشہ ریاستی دھونس دھمکیوں سے ڈرنے کے بجائے مزید مضبوط ہوتی گئی مگر بدقسمتی سے دیر تک اس کاروان کو اپنی بے بہا صلاحیتوں سے سیراب نہ کر پائی۔

زہرا جیسی با ہمت اور نظریاتی کارکن سماج میں قندیل کی مانند ہوتی ہیں اور تنظیم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیںیقینازہرا جیسی نظریاتی کارکن صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں،بی ایس او آزاد کی پلیٹ فارم میں بے شمار کارکنان قومی آزادی کی تربیت سے سیراب ہورہے ہیں مگر ریاستی جبرو ظلم کے سامنے کوئی بھی ایک کارکن سر بہ سجود ہونے کو اپنی شان اور تنظیم کی بے حرمتی سمجھتے رہے،جسکی مثال بی ایس او کے کارکنان کی شہادت اور ریاستی ٹارچر سیلوں میں بند بی ایس او لیڈران اور کارکنان ہیں،آج بھی بی ایس او کی موجودہ صورتحال میں ایک ممبر تنظیمی پالیسی کو اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتی ہے،جب زہرہ بلوچ کی حادثاتی موت کی خبر سن کر مجھے شدید دھچکا لگا ۔اس واقعے نے مجھے آواران کے اُن دو فیمیل کارکنان کی یاد دلا دی جب وہ 24ستمبر2013میں آنے والی زلزلے میں ہم سے جدا ہوئے تھے ۔ریاستی ظلم و جبر اور حادثاتی اموات ہم سے ہمارے کارکناں کو چھین رہی ہے مگر قومی آزادی کی سوچ اور قربانیوں کے تسلسل نے ہمیں ان حالات میں جینے کا سلیقہ سکھا دی ہے ،بلوچ تاریخ اپنی بیٹیوں کی قرباینوں پر ناز کرتی رہے گی ۔جن میں آزادی کیلئے قربان ہونے والی بلوچ عورتیں شاہناز بی بی ،گلناز بلوچ ،حلیمہ بلوچ اور معصوم بختی کی طرح فریان بلوچ ،روبینہ بلوچ اور کامریڈزہرابلوچ بھی اپنے آج کو کل کے لئے قربان کرگئے جو آج بی ایس او آزاد کے کارکنوں سمیت پوری بلوچ قوم اور نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔۔۔اسی راستے میں ہماری بقا کی سلامتی ممکن ہو سکتی ہے۔

Share this Post :

Post a Comment

Comments

News Headlines :
Loading...
 
Support : Copyright © 2018. BV Baloch Voice - All Rights Reserved