skip to main |
skip to sidebar
بلوچستان:لاپتہ افراد,شہدا کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3137 دن مکمل ہوگئے

کوئٹہ: لاپتہ افراد، شہدا کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3137
دن آج مکمل ہوگئے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں پنجگور سے ایک وفد نے
لاپتہ افراد ، شہدا کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی وائس فار بلوچ مسنگ
پرسنز کے وائس چیئر مین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے کہا کہ دشمن اپنی افواج
،خفیہ اداروں اور ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے بلوچ قوم کی منظم نسل کشی کررہا ہے
جو عالمی ضمیر کے لیے چیلنج بنتا جارہا ہے۔ بدبخت بلوچ قوم اپنی زمین پر
غلام ہے اور ایسے وقت میں ایک ایسی تباہ کن آپریشنوں کا شکار بن گیا ہے کہ
دیکھتے ہی دیکھتے ہی گاؤں کے گاؤں فوجی بربریت سے تباہ ہورئے ہیں- ہر روز
کا نکلتا سورج پوری بلوچ قوم کے لیے تباہی لے کر طلوع ہوتا ہے آئے روز
بلوچ فرزندوں کو اغوا اور شہید کیا جارہا ہے - بلوچ قوم کے بھی اپنے راجی
وت واکی کے خواہش کی دوٹوک و واضع محکف و الفاظ نے پاکستانی سیاستدانوں
اور نام نہاد بلوچ قوم پرستوں سمیت پاکستانی فورسز کا دفلی بجاکر رکھ دی
حکومت اور خفیہ اداروں نے بلوچ قوم کو سبق سکھا نے کے لیے اپنے تمام قبضہ
گیری حربے استمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے- ماما قدیر بلوچ نے وفد
سے کہا کہ قابض قوتیں محکوم و غلام قوم کو اپنے زیر قبضہ رکھنے لے لیے سب
سے پہلے اُنہیں زہنی طور پر غلام بنانے کی کوشش کرتی ہیں جس کے لیئے وہ
متزکرہ نفسیاتی ،نظریاتی اور تعلیمی مفادات و ثقافتی ذرائع استمال کرنے کے
علاوہ مالی مفادات ، مراعات سے نواز نے کے حربے بروئے کار لاتی ہیں مگر جب
کسی محکوم و غلام سماج میں احساس غلامی اور اس نجات کا انقلابی شعور وسعت
اختیار کر جائے تو وہاں تمام حربے ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر ریاست کی طرف
سے اگلا مرحلہ طاقت کا بے رحمانہ استمال کا ہوتا ہے کہ جسے بے دریغ طور
پر آزمایا جاتا ہے - لہذا اس حوالے یہ امرخوش آئند ہے کہ بلوچ قوم اب
زہنی غلامی سے نکل چکی ہے ۔اور اب ماسواے طاقت کا بے رحمانہ استمال کے
علاوہ ریاست کی ہر کی جانے والی عمل بیرونی ، استماری حکمرانی کے کسی دوسرے
عنصر کو حتمی منزل کو حصول میں بڑی رکاوٹ قرار نہیں دیا جاسکتا- لیکن
قابض قوتیں بھی زہنی تبدیلی کو بھانپ چکی ہیں اس لیے وہ بلوچ قوم کی نسل
کشی کو اپنی بقاء اور بالادستی کا آخر یچارہ کار خیال کررہی ہیں- جس کا
مظاہرہ بلوچ گدانوں دیہاتوں اور شہروں میں آئے روز فوجی کاروائیوں اور
اس میں عام بلوچوں خواتین بچوں اور بوڑھوں سمیت ہر عمر اور ہر شعبہ ہائے
زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنانے کی صورت میں دیکھا جاسکتا
ہے
Post a Comment