بابوعبدالکریم شورش ایک مشعل راہ تھے- تحریر، امبر بلوچ
۷۲ مارچ ۸۴۹۱ء میں بلوچستان پر موجودہ ملک پاکستان نے قبضہ کیا اور کھینچاتانی شروع ہوئی بابوعبدالکریم خان کی قیادت میں بلوچوں نے گوریلا جنگ شروع کی کچھ وقت بعد انھیں مزاکرات کے لئے بلا کر انھیں زندانوں میں ڈالا گیا۔یوں ایک نہ رکنے والے جنگ نے سر اٹھائی جو ہنوز جاری ہے۔
فضل احمد غازی لکھتے ہیں:
”ون یونٹ ٹوٹ گیا سرداری نظام شکست سے دوچار ہوا،بلوچستان میں نیب کی حکومت قائم ہوئی اور ان کے دیرینہ ساتھی غاث بخش بزنجو پہلے گورنر عطاء اللہ مینگل پہلے وزیر اعلی ٰ اور گل خان نصیر وزیر تعلیم و اطلاعات بنے۔بابو عبدالکریم شورش جھوم اٹھے انھیں لگاکہ ساری دنیا میں انسانیت اور بشریت کی امن اور فلاح و بہبود کے جتنے خواب انھوں نے دیکھے تھے اب تعبیر سے ہمکنار ہوں گے۔ان کی زندگی کا دوسربڑاا مشن ہفت روزہ نوکین دور اب ایک عسرت زدہ معمولی علاقائی اخبار کی جگہ قومی صحافت کے آسمان پر ستارہ بن کر چمکے گا۔ بابوکی رجائیت پسندی زیادہ عرصہ ان کا ساتھ نہ دے سکی بلوچستان میں قائم ہونے والی حکومت کے ایوانوں میں بابو کی لہو رنگ قربانیاں پذیرائی نہ پاسکیں اور عین نیپ کی حکومت کے دوران بابو کا نوکیں دور معاشی بدحالی کے سبب بند ہوگیا۔“(غازی،۲۹۹۱ء،۵۲)
فضل احمد قاضی لکھتے ہیں:
”آزادی کے بعد ہم لوگوں پر ایک ایسا بھی دور آیاکہ ہمارے اپنے قائدین نے ہمیں وطن دشمنی کے الزام میں نظر بند کردیا۔ مچھ سنٹرل جیل میں شورش بابو بھی آگئے تو مجھے مخاطب کرکے کہنے لگے دیکھا ہمارے اپنے لائے ہوئے انقلاب نے ہمارے ساتھ کیا کیا اور تاریخی حقیقت پھر ثابت ہوئی کہ انقلاب سب سے پہلے اپنے ہی بچوں کو کھایا کرتاہے دیکھنا غازی یہ انقلاب ہم سب کو کھاجائے گا لیکن پرواہ نہیں ہماری قوم اور وطن کی آزادی کی قیمت پر ہمیں یہ سودا قبول ہے۔“ (غازی،۲۹۹۱ء،۶۲)
اختر علی خان بلوچ لکھتے ہیں:
”بابو پاکستان کے اولین سیاسی قیدیوں میں سے تھے جو ۸۴۹۱ء میں سوشلسٹ تحریک سے وابستہ لوگوں کے خلاف داروگیر کے دوران پکڑے گئے اور یہ سلسلہ بعد بھی جاری رہا۔ بابو کی شوریدہ سری حکمرانوں کے جبر کے آگے سپر نہ ڈال سکی،نہ قیدوبند کی صوبتیں ان کے عزم و ہمت کی دیوار میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہوئیں۔انھوں نے اپنی فعال سیاسی و صحافتی زندگی کے ابتدائی تیس سال ایک سرشاری کی کیفیت میں بتادیئے۔ اپنی سرزمین اور اس کے باسیوں کیلئے ایک پر امن اور خوش حال زندگی تلاش نے کی سرشاری،بلوچی زبان و ادب کو پروان چڑھانے اور اس خطے کی سیاسی آزادی کے حصول کی تڑپ ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑتی رہی۔نوکیں دور کا اجراء اور اس کی اشاعت کا تسلسل ان کے شوق و جنون کی آخری منزل تھا جسے وہ ہر قیمت پر برقرار رکھنا چاہتے تھے۔جون ۲۶۹۱ء میں نوکیں دور کے آغاز سے لے کر ۰۷۹۱ء میں بلوچستان میں آغاز جمہوریت تک بابو کا نوکین دور پوری گھن گرج اور بے باکی کے ساتھ بلوچستان کے سیاسی حقوق کے حصول کی جنگ لڑتا رہا۔بابو نوکین دور کیلئے چند جمع کرتے رہے۔انھوں نے اپنی حق گوئی اپنے نظریات کی پاسداری کیلئے کسی بھی سطح پر سمجھوتہ نہ کرنے کا جو عہد اپنے آپ سے کیا تھا اسے نبھاتے نبھاتے شاید اندر سے لہو لہان بھی ہوئے ہوں۔ مگر ایک صبح نو کی آس نے ان کے ذہن و دل میں چراغاں کئے رکھا اور جب وہ صبح طلوع ہوئی تو اس کا سورج بابو کو چھوئے بغیر ہی گزرگیا۔حالانکہ یہ وہ دور تھا جب بلوچستان میں بھی صحافت صنعت کا درجہ حاصل کر رہی تھی اور یہاں سے بہت سے بڑے اخبارات و جرائد اعلیٰ تکنیک کے ساتھ شائع ہونے شروع ہوچکے تھے۔ نوکیں دور کسی نہ کسی انداز میں یہ امید و آس دلاتا رہا کہ زمانہ بدلنے کو ہے۔“(بلوچ،۴۹۹۱ء،۷ جون)
عنایت اللہ خان لکھتے ہیں:
”۴۱ دسمبر ۶۸۹۱ء کو ۴۷ برس کی عمر میں بابو وفات پاگئے۔ اگرچہ نوکیں دور، ان کے انتقال تک کسی نہ کسی صورت میں نکلتا رہا مگر یہ رسالہ نوکیں دور نہ تھا نہ وہ بابو عبدالکریم بلکہ درحقیقت وہ بابو کی بے کسی اور بے بسی کا نوحہ تھا، جو کبھی کارڈوں کی صورت میں کبھی کیلنڈر کی شکل میں بابو کے مشن کو یاد دلاتا جس کیلئے بابو نے بیش بہا قربانیاں دی تھیں۔یعنی انصاف اور مساوات پر مبنی ایک ایسے پاکیزہ اور روح پر ور نظام کا قیام جس میں مزدور کو اس کی پوری مزدوری اور کسان کو اس کی محنت کا پورا صلہ ملتا ہو۔ جہاں فرد کے ہاتھوں فرد گروہ کے ہاتھوں گروہ اور ایک صوبے کے ہاتھوں دوسرے صوبے کے استحصال کا امکان نہ ہو۔“(خان،۵۹۹۱ء،۷۱)
در اصل بابو عبدالکریم شورش اور انکے نوکیں دور کی موت ۳۷۹۱ء میں اس وقت واقع ہوگئی تھی، جب بابو کی توقعات کے عین بر عکس ان کے پرانے سیاسی رفیقوں کے دور حکومت میں ان کا نوکیں دور بند ہوگیا۔
چاکر خان بلوچ نے نیب کی نمائندہ حکومت کے اراکین کو مخاطب کرکے لکھا:
”وہ صحافی تھا اس نے دس سالہ ایوبی آمریت میں بلوچستان کی صحافت کی لاج بچالی بالآخر کامیاب ہوا۔بلوچستان کی صوبائی حیثیت تسلیم کرلی گئی۔ الیکشن آئے تو بوڑھا شورش جوانوں بلکہ دیوانوں کی طرح نیب کیلئے کام کرتا رہا۔وہ ایک تحریک کا نمایاں کردار تھا کامیابی کے بعد وہ بھی تبدیلی کا خواہاں تھا۔ایک مظلوم بے چارہ صحافی جس کو بلوچستان بنانے کا دعویٰ ہے فاقے کر رہاہے۔اپنے ۵۳ سالہ سیاسی رفیق اور بلوچستان کے جانباز سپاہی کو پہچاناشورش تم لوگوں کی رفاقت کی ایک خوفناک علامت بن گیا ہے اب لوگ تم پر اعتماد نہیں کریں گے۔(بلوچ،۲۷۹۱ء،۰۷۔۱۷۔۲۷)
نوائے وطن کے کے شمارہ نمبر تیس میں لکھی گئی ہے:
”عبدالکریم شورش اکتوبر ۱۱۹۱ء میں حاجی محمد قاسم کے گھر مستونگ میں پیدا ہوئے اور ضلع قلات کے اکلوتے مڈل سکول واقع مستونگ سے تعلیم حاصل کی۔”(نوائے وطن،۴۸۹۱ء،شمارہ ۰۳)
عنایت اللہ خان لکھتے ہیں:
”برصغیر میں انگریزی استعمار کے تسلط کے خلاف کانگریس کی تحریک سے متاثرہوکر زمانہ طالب علمی میں میر عبدالعزیز کرد اور ان کے ساتھیوں نے طلبہ کی ایک انجمن قائم کی تھی۔بابو عبدالکریم اس وقت کم سن تھے اس لئے تنظیم کے باقاعدہ ممبر تو نہ بن سکے،مگر پھر بھی انجمن کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔یہیں سے آپ نے آزادی کیلئے جدوجہد کا جذبہ مستعار لیا اسی طرح آپ پہلی اور دوسری آل انڈیا بلوچ کانفرنس میں بھی شریک ہوئے۔بعد ازاں آپ قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کے قیام کے ساتھ اس کے سرگرم رکن بن گئے۔“(خان،۵۹۹۱ء،۹۱)
عنایت اللہ خان لکھتے ہیں:
”۶ جولائی ۹۳۹۱ء کو قلات نیشنل پارٹی کے سالانہ کنونشن کے موقع پر جس کے قیام نے قلات کے حکمرانوں اور قبائلی دھڑوں کے ساتھ انگریز سرکار کو بھی بلادیا تھاپر مسلح سرداری لشکر کے حملے کے نتیجے میں بابو اس جلسے میں زخمی بھی ہوئے۔۰۲ جولائی ۰۳۹۱ء کو قبائلی معتبرین اور
خان کے باہمی اتفاق سے قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی پر پابندی لگاکر اہم اراکین کو ریاست بدر کیا گیا ان میں داخلہ قابل تعزیر ٹھرا یا گیا۔“
(خان،۵۹۹۱ء،۹۱)
ملک فیض محمد یوسف زئی لکھتے ہیں:
”دوسرے دن کوئٹہ میں پارٹی کے اجلاس کے مطابق پارٹی کے تمام ملازم ممبران جو ڈیڑھ دوسو کے قریب تھے استعفے دے کر میدان عمل میں اتر آئے۔ شورش بابو جو کنبے کے کفیل تھے اور ملازمت ان کا واحد ذریعہ معاش تھا بھی ملازمت ترک کرکے اپنے ساتھیوں سے آملے اور نفع و نقصان کی پرواہ کیئے بغیر قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے پروگرام کو آگے بڑھانے کے عمل میں پورے جوش وخروش کے ساتھ شامل ہوگئے
۔“ (یوسف زئی،۳۹۹۱ء،۴۱)
عنایت اللہ خان لکھتے ہیں:
”بابو نے میدان صحافت کا رخ اس وقت کیا جب ریاست قلات مکمل طورپر برطانوی حکومت کے وفادار سرداروں کے زیر تسلط تھی۔ زبان اور قلم پر پابندی تھی اور سیاست ناقابل معافی جرم سمجھی جاتی تھی مگر ان تمام پابندیوں کے باوجود بابو نے اپنا مشن جاری رکھا۔ قیدو بندکی صعوبتیں برداشت کیں،ریاست بدری کا سامنا خندہ پیشانی سے کیا،اس ریاست بدری میں بابو کوئٹہ آئے تو خان عبدالصمد اچکزئی کے اخبار ہفت روزہ استقلال میں کام کرنا شروع کیا۔ اس طرح بابو کی صحافتی زندگی کی ابتداء ہفت روزہ استقلال سے ہوئی۔اس دوران سیاسی جماعت استمان گل قائم ہوئی تو بابو اس سے منسلک ہوکر خدمات انجام دینے لگے۔“(خان،۵۹۹۱ء،۰۲)
فضل احمدغازی لکھتے ہیں:
”سیاست اور صحافت کے ساتھ ساتھ انھوں نے بلا تمیز رنگ ونسل محنت کش طبقات کی خدمت کو اپنا نصب العین بنا لیا تھا۔ وہ ایک انقلابی انسان تھے اور اپنی استعمار دشمنی کے باعث ہر اس مظاہرے میں شریک ہوتے جو انگریز وں کے خلاف ہوتاچاہے کسی بھی جماعت یا گروہ کی طرس سے ہو۔ وہ ابتداء ہی سے مرحوم قاضی داد محمد کے ساتھ محنت کشوں کو منظم کرنے اور ان کے حقوق کیلئے جدوجہد کرتے رہے۔“(غازی،۲۹۹۱ء،۵۲)
عنایت اللہ خان لکھتے ہیں:
”۳۵۹۱ء میں غلام محمد شاہوانی نے نوائے وطن کے نام سے ایک ہفت روزہ کا اجراء کیا تو بابو نے اس میں لکھنا شروع کیا اور اپنے ولولہ انگیز مضامین سے اہل بلوچستان کے دلوں کو گرماتے رہے۔اکتوبر ۷۵۹۱ء میں عبدالرحمن کرد کی زیر ادارت جاری ہونے والے ہفت روزہ نوائے بولان اور بعد میں عبدالرحمن غور کے ہفت روزہ میثاق الحق میں کام کیا اور اپنی زندہ تحریروں سے عوام کو ایک جدید انداز فکر عطا کیا۔“(خان،
۵۹۹۱ء،۱۲)
سید کامل القادری لکھتے ہیں:
”اس دور کے بعد اور نوکین دور کے اجراء سے قبل بابو کچھ عرصہ کیلئے ہفت روزہ زمانہ اور بعد ازاں روزنامہ زمانہ سے بھی منسلک رہے۔ کہا جاتاہے ہفت روزہ زمانہ کا فروغ بابو کی ان تھک کوششوں کا نتیجہ تھا پھر زمانہ کے روزنامہ ہونے کے بعد آپ کی صحافتی خوبیوں کا جوہر
مزید کھلا اور آپ کے رپورتاژ اور علاقائی معاملات و امور بابو کے شذرات نے بلوچوں کو زمانہ خرید نے اور پڑھنے پر مجبور کردیا۔“(القادری
،۹۶۹۱ء،ستمبر)
پروفیسر سیمی نغمانہ طاہر لکھتی ہیں کہ شیہک کریم سے ذاتی ملاقات کی تو انھوں نے بتایا:
”عبدالکریم شورش کی صحافتی زندگی کا نقطہ عروج ان کے ذاتی ہفت روزہ نوکین دور کا آغاز ہے جس کی باقاعدہ اشاعت ۸ جون ۲۶۹۱ء کو دنیا کے پہلے بلوچی ہفت روزہ اخبار کی حیثیت سے ہوئی۔ بابو اس کے ایڈیٹر اور پبلشر تھے نوکین دور کے پہلے شمارے کی باقاعدہ تقریب رونمائی ۸ جون ۲۶۹۱ء کو پریس کلب کوئٹہ میں ہوئی یہ بارہ صفحات پر مشتمل سات کالمی اخبار رنگین ٹائٹل کے ساتھ منظر عام پر آیا۔نوکین دور کے اہم قلمی معاونین میں پیر محمد زبیرانی،آزاد جمالدینی،کریم دشتی اور کامل القادری شامل رہے۔“(طاہر۶۰۰۲ء۶۹۱)
سید کامل القادری لکھتے ہیں:
”شورش بابو نے نوکین دور ایک ایسے مشکل وقت میں جاری کیا،جب بلوچستان جہالت اور قبائلیت کی گرفت میں تھا۔ انگریز جاتے ہوئے اقتدارنوکر شاہی کے سپرد کر گئے تھے، اور اس اقتدار میں اپنا حصہ لینے کیلئے سرداراور خوانین بھی ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔سیاسی آزادیان سلب تھیں بلوچستان پر بار بار فوج کشی ہورہی تھی اور علاقے کے زیردستوں کی عافیت اسی میں تھی کہ عوام کو زیردست رکھنے کیلئے دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں اور آزادیوں کی روشنی ان تک نہ پہنچنے دی جائے۔صوبے کے ایسے ہی سہمے ہوئے عوام میں اپنے آپ کو پہچاننے کا شعور پیدا کرنے کیلئے عبدالکریم نے نوکین دورکے ذریعے آزادی اور امن کا پیام عام آدمی تک پہنچانے کی کوشش کی نوکین دور کے ذریعے بابو نے بلوچی صحافت کی بنیاد رکھی۔ اور عام آدمی کی خدمت ایسے پر آشوب زمانے میں کرتے رہے کہ جب لب و دہن کی بخیہ گری عام ہوچکی تھی۔“(القادری،۹۶۹۱ء،ستمبر)
پروفیسر سیمی نغمانہ طاہر لکھتی ہیں:
”اپنے تئین بابو اپنے مشن کو کسی نہ کسی طورپر جاری رکھے ہوئے تھے۔ وہ کارڈ کسی اور کیلئے کسی بھی وقت کے حامل ہوں خود بابو انھیں پوری انسانیت کی خوشحالی،امن کی بحالی اور خود اپنی قوم میں شعور و آگہی کی بیداری کے اس مشن کا تسلسل خیال جس کیلئے انھوں نے اپنی نہایت خوب رو جوانی،مناسب ملازمت اور معقول کاروبار کو قربان ہی نہیں کیا تھا بلکہ اپنے متن اور من کی بازی بھی لگائی تھی۔ آخر ی عمر میں بابو کے اعضاء اور دماغ دونوں ہی ضعف کا شکار ہوچکے تھے لوگوں کی بے اعتنائی بابو جیسے خود پسند اور خوش گمان انسان کیلئے اس سے سوا تھی۔ اس عالم میں ۴۲ دسمبر ۴۸۹۱ء کو بابو انتقال کرگئے۔بعد ازاں بابو کے عقیدت مندوں نے نوکین دور کے دوبارہ اجراء کی کوشش کی جس کے نتیجے میں بابو کی زندگی کے آخری ایام میں عبدالرحمن کرد کے صاحبزادے سلیم کرد اور نوجوان ادیب و صحافی وحید زہیر نے کچھ عرصہ تک نوکین دور جاری رکھا۔ پھر کچھ تعطل کے بعد ڈاکٹر شاہ محمد مری کی زیر صدارت اور عبداللہ جان جمالدینی و دیگر رفقاء کی سرپرستی میں نوکین دور ایک معیاری ماہنامے کے طورپر ۰۹۹۱ء سے دوبارہ جاری ہوا اور تقریباَ سات برس کے تسلسل کے بعد پھر تعطل کا شکار ہوگیا۔“(طاہر،۶۰۰۲ء
،۹۹۱)
حوالہ جات
غازی فضل احمد ”بابو عبدالکریم شورش ایک تحریک“ ماہنامہ نوکیں دور کوئٹہ شمارہ۔۷۔۸۔
بلوچ اختر علی خان ”واجہ عبدالکریم شورش امن مشرق کوئٹہ ۷ جون کوئٹہ
خان عنایت اللہ،بابو عبدالکریم شورش،ماہنامہ نوکیں دور شمارہ نمبر ۱،۲
یوسف زئی ملک محمد فیض ”کریم امن“ ماہنامہ نوکین دور کوئٹہ شمارہ جنوری فروری
القادری کامل سید ”عبدالکریم شورش رندم“ ماہنامہ بلوچی دنیا ملتان ستمبر
طاہر، سیمی نغمانہ ”بلوچستان کی لسانی وحدتیں“مشمول بلوچستان میں ابلاغ عامہ“ مقتدرہ قومی زبان
Post a Comment