رسم دلیری کا پاسبان (شہید یوسف بلوچ) تحریر:۔ ڈاکٹرجلال بلوچ
کس نام سے پکاروں مادروطن کے ان فرزندوں کو جو دیوانہ وار خود کو
سپردِ زمین کرتے ہیں؟ ان کی وطن سے والہانہ مہر و وفا کی تاریخ کیسے رقم
کریں جہاں ”عشق ِوطن“ کے سامنے ہیچ نظرآجائے عشقِ مجنوں؟ وطن اور قوم کے
لیے جان نچاور کرنے کی ان کی بیقراری جس میں وہ ان ساربانوں کو بھی مات دیں
جو کارواں کو منزل پہ صحیح و سالم پہنچانے کے لیے راہ تلاش کرنے میں خود
سے بیگانہ ہوجاتے ہیں ایسی سوچ بیان کرنے کے لیے ان موتیوں کی تلاش میں
کہاں صحرانوردی کروں کہ وہ الفاظ مل جائیں جو ایسی ہستیوں کے شایان شان
ہوں؟ یقیناً الفاظ کے موجودہ ذخیرے میں ایسے خزینہ الفاط کی قحط ہے جنہیں
ادا کرتے ہوئے ان ہستیوں کے کردار کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کیے
جائیں۔۔۔پر نہ جانے ایسی ہستیوں کے لیے کب الفاظ کے وہ موتی تخلیق ہونگے جو
ان کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوں۔۔۔ایسی ہستیوں کی ترجمانی جو ان
پگڈنڈیوں پہ نقشِ چھوڑرہے ہیں جو منزل کی جانب جاتے ہیں۔۔۔ عظمت کے ان
پیامبروں کے لیے جو مسکراتے ہوئے لہو کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔۔۔ اور وطن
کے ان سرفروشوں کے لیے جورسم دلیری کو جاویداں کررہے ہیں؟۔
آہ۔۔۔یوسف جان (دودا جان) لکھنے سے قاصر یہ بندہ ِعاجزپھربھی کچھ
تحریر کرنے کی جسارت کررہا ہے پر جانتا ہوں کہ رقم ہونے والے یہ الفاظ تیری
شجاعت، تیری حب الوطنی، خاکِ مبارک کے لیے تیری زہیری اور وطن سے تیرے عشق
کی ترجمانی کے قابل نہیں ہونگے۔۔۔کیوں کہ تیری شان اور تیرے آن کا قد تو
شاشان سے بھی بلند تھا۔۔۔اس شاشان سے جس کی دید تو نے آنکھ کھولتے ہی
کیا،اس شاشان سے جس کانظارہ آنکھوں کومنور کرکے دلوں کو اس پہ فریفتہ ہونے
کی تلقین کرتاہے۔۔۔ تیرے جمال کا نقشہ بنانے کے لیے کیا تدبیر کروں۔۔۔اس
جمال کا جو عکس چلتن و بولان ہے،جن کی ایک جھلک دیکھنے کے بعد باربارنظارہ
کرنے کی تمنا کبھی ختم ہی نہیں ہوتی۔۔۔ یا۔۔۔ جو مثل ہربوئی ہے،جس کی مہک
سے انسان اپنے ہواس تک کھو دیں۔۔۔ تیری سوچ، فکر اور نظریے کو کیسے بیان
کروں۔۔۔جس کی گہرائی بحر بلوچ کی مانند ہو، اس بحربلوچ کی جس کا تذکرہ کرتے
ہوئے سر فخر سے بلند ہوتا ہے کہ اس نے حمل جیئند کے ناؤ کو سنبھالا
دیا۔۔۔اس بحر بلوچ کو جو دشمن پہ قہر برسانے والے چار یاروں کے لیے حال ہی
میں خضر بنا۔
یوسف جان (دودا جان) تیرے جیسوں کی شان میں کچھ تحریر کرنے کے لیے
تو برناڈ شاہ کے پاس بھی الفاظ نہیں تھے اسی لیے انہوں نے تیرے جیسے ہستیوں
کے لیے فقط لفظ”دیوانہ“ تحریر کیا۔۔۔ہاں ایسی ہستیاں تو دیوانے ہی ہوتے
ہیں۔۔۔جہاں وہ قوم اور وطن کے لیے اسی دیوانگی میں ایسی راہوں پہ عازمِ سفر
ہوتے ہیں جو ایک اجتماع کی منزل ہوتی ہے۔۔۔ایسی منزل جس میں روشن مستقبل
کی تعبیر ہوتی ہے۔۔۔ ان دیوانوں کو اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ یہ راہیں
پُر آشوب ہیں، پر مستقبل کا ادراک انہیں ہر ستم سے بیگانہ کرتا ہے، اسی لیے
تو ان کی دیوانگی ماپنے کا کوئی پیمانہ نہیں ہوتااور نہ ہی ان کی دیوانگی
کو مقید کرنے کے لیے اب تک کوئی سرحد وجود میں آیا۔۔۔
ایسے دیوانے رسم حیات کے پیامبر ہیں۔۔۔انہی کے کردار کی بدولت ہی
تاریخ میں روشن ابواب کا اضافہ ہوتا ہے، یہی وہ ہستیاں ہیں جن کے لہو کی
سیرابی کی بدولت ہی بارش کی بوندے جب خاک میں مل جاتے ہیں تو فضاؤں میں
ایسی مہک اٹھتی ہے جسے بیان کرنے کے لیے آج تک کسی حکیم اور داناکا جنم ہی
نہیں ہوا۔
اے یوسف جان بلیدہ کی سرزمین نازاں ہے آج۔۔۔یقیناً وہ گنگنارہا ہوگا
کہ یوسف جان کے پائے نقش سے تو پوری گلزمین منور ہے۔۔۔پر۔۔۔جو بلیدہ کے
حصہ میں آیا وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔۔۔بلیدہ نازاں ہے کہ۔۔۔ابر کے
موسم میں کھلنے والے ہر کھلی، ہر پھول،ہر جِر و بوچ(جڑی بوٹیاں) اور اس خاک
سے جسے تو نے اپنے لہو سے سیراب کیا ان سے ایسی مہک اٹھے گی جس کی تفسیر
بیان کرنا کسی لقمان کے بس کی بات نہیں اوربلیدہ نازاں ہے کہ تاابد ہر کوچہ
و گدان میں رسمِ یوسف کی شنوائی ہوگی ہاں یوسف اب تو ہی ان محفلوں کی شان
تو بن گیا ہے۔۔۔بلیدہ کی طرح نال بھی شادماں ہے کہ یوسف اب نال کی کوکھ میں
ہے۔۔۔اس نال کی جو یوسف کی جنم بھومی ہے۔۔۔اس نال کی زمین جس نے یوسف کا
بچپن دیکھا۔۔۔وہ نال جس کے سبزہ زار، جس کے چشمے، جس کے میدان و کوہساروں
پہ یوسف کے قدموں کے نشان ثبت ہیں۔۔۔یوسف جان۔۔۔بلیدہ، نال ہی نہیں بلکہ آج
وطن تم پہ نازاں ہے کہ یوسف جان جیسے فرزندوں کی بدولت ہی میری شان بڑھتی
ہے۔۔۔جو رسم بالاچ کے وارث ہیں، جو حمل،اسلم،اکبر،منان و سلیمان جیسے ہوتے
ہیں جن پہ وطن ہر لمحہ نازاں ہے۔۔۔اے یوسف وطن نازاں ہے آج کہ اپنے لہو سے
تم نے اس رسم کو حیات بخشی۔۔۔ وطن نازاں ہے اور اس کی آواز فضاؤں میں گونج
رہی ہے کہ رسم دلیری یہ ہے کہ سراٹھا کے چلو۔۔۔ اسی رسم کی بدولت ہی انسان
ابد تک زندہ رہتا ہے۔۔۔یوسف جان(دودا جان) جان بھی اس رسم کا داعی تھا اور
آج وہ جسمانی طور پر تو جدا ہوچکا ہے پر اس نے رسم کی پاسداری کرتے ہوئے
ابدیت پالی.
کس نام سے پکاروں مادروطن کے ان فرزندوں کو جو دیوانہ وار خود کو سپردِ زمین کرتے ہیں؟ ان کی وطن سے والہانہ مہر و وفا کی تاریخ کیسے رقم کریں جہاں ”عشق ِوطن“ کے سامنے ہیچ نظرآجائے عشقِ مجنوں؟ وطن اور قوم کے لیے جان نچاور کرنے کی ان کی بیقراری جس میں وہ ان ساربانوں کو بھی مات دیں جو کارواں کو منزل پہ صحیح و سالم پہنچانے کے لیے راہ تلاش کرنے میں خود سے بیگانہ ہوجاتے ہیں ایسی سوچ بیان کرنے کے لیے ان موتیوں کی تلاش میں کہاں صحرانوردی کروں کہ وہ الفاظ مل جائیں جو ایسی ہستیوں کے شایان شان ہوں؟ یقیناً الفاظ کے موجودہ ذخیرے میں ایسے خزینہ الفاط کی قحط ہے جنہیں ادا کرتے ہوئے ان ہستیوں کے کردار کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔۔۔پر نہ جانے ایسی ہستیوں کے لیے کب الفاظ کے وہ موتی تخلیق ہونگے جو ان کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوں۔۔۔ایسی ہستیوں کی ترجمانی جو ان پگڈنڈیوں پہ نقشِ چھوڑرہے ہیں جو منزل کی جانب جاتے ہیں۔۔۔ عظمت کے ان پیامبروں کے لیے جو مسکراتے ہوئے لہو کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔۔۔ اور وطن کے ان سرفروشوں کے لیے جورسم دلیری کو جاویداں کررہے ہیں؟۔ آہ۔۔۔یوسف جان (دودا جان) لکھنے سے قاصر یہ بندہ ِعاجزپھربھی کچھ تحریر کرنے کی جسارت کررہا ہے پر جانتا ہوں کہ رقم ہونے والے یہ الفاظ تیری شجاعت، تیری حب الوطنی، خاکِ مبارک کے لیے تیری زہیری اور وطن سے تیرے عشق کی ترجمانی کے قابل نہیں ہونگے۔۔۔کیوں کہ تیری شان اور تیرے آن کا قد تو شاشان سے بھی بلند تھا۔۔۔اس شاشان سے جس کی دید تو نے آنکھ کھولتے ہی کیا،اس شاشان سے جس کانظارہ آنکھوں کومنور کرکے دلوں کو اس پہ فریفتہ ہونے کی تلقین کرتاہے۔۔۔ تیرے جمال کا نقشہ بنانے کے لیے کیا تدبیر کروں۔۔۔اس جمال کا جو عکس چلتن و بولان ہے،جن کی ایک جھلک دیکھنے کے بعد باربارنظارہ کرنے کی تمنا کبھی ختم ہی نہیں ہوتی۔۔۔ یا۔۔۔ جو مثل ہربوئی ہے،جس کی مہک سے انسان اپنے ہواس تک کھو دیں۔۔۔ تیری سوچ، فکر اور نظریے کو کیسے بیان کروں۔۔۔جس کی گہرائی بحر بلوچ کی مانند ہو، اس بحربلوچ کی جس کا تذکرہ کرتے ہوئے سر فخر سے بلند ہوتا ہے کہ اس نے حمل جیئند کے ناؤ کو سنبھالا دیا۔۔۔اس بحر بلوچ کو جو دشمن پہ قہر برسانے والے چار یاروں کے لیے حال ہی میں خضر بنا۔ یوسف جان (دودا جان) تیرے جیسوں کی شان میں کچھ تحریر کرنے کے لیے تو برناڈ شاہ کے پاس بھی الفاظ نہیں تھے اسی لیے انہوں نے تیرے جیسے ہستیوں کے لیے فقط لفظ”دیوانہ“ تحریر کیا۔۔۔ہاں ایسی ہستیاں تو دیوانے ہی ہوتے ہیں۔۔۔جہاں وہ قوم اور وطن کے لیے اسی دیوانگی میں ایسی راہوں پہ عازمِ سفر ہوتے ہیں جو ایک اجتماع کی منزل ہوتی ہے۔۔۔ایسی منزل جس میں روشن مستقبل کی تعبیر ہوتی ہے۔۔۔ ان دیوانوں کو اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ یہ راہیں پُر آشوب ہیں، پر مستقبل کا ادراک انہیں ہر ستم سے بیگانہ کرتا ہے، اسی لیے تو ان کی دیوانگی ماپنے کا کوئی پیمانہ نہیں ہوتااور نہ ہی ان کی دیوانگی کو مقید کرنے کے لیے اب تک کوئی سرحد وجود میں آیا۔۔۔ ایسے دیوانے رسم حیات کے پیامبر ہیں۔۔۔انہی کے کردار کی بدولت ہی تاریخ میں روشن ابواب کا اضافہ ہوتا ہے، یہی وہ ہستیاں ہیں جن کے لہو کی سیرابی کی بدولت ہی بارش کی بوندے جب خاک میں مل جاتے ہیں تو فضاؤں میں ایسی مہک اٹھتی ہے جسے بیان کرنے کے لیے آج تک کسی حکیم اور داناکا جنم ہی نہیں ہوا۔ اے یوسف جان بلیدہ کی سرزمین نازاں ہے آج۔۔۔یقیناً وہ گنگنارہا ہوگا کہ یوسف جان کے پائے نقش سے تو پوری گلزمین منور ہے۔۔۔پر۔۔۔جو بلیدہ کے حصہ میں آیا وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔۔۔بلیدہ نازاں ہے کہ۔۔۔ابر کے موسم میں کھلنے والے ہر کھلی، ہر پھول،ہر جِر و بوچ(جڑی بوٹیاں) اور اس خاک سے جسے تو نے اپنے لہو سے سیراب کیا ان سے ایسی مہک اٹھے گی جس کی تفسیر بیان کرنا کسی لقمان کے بس کی بات نہیں اوربلیدہ نازاں ہے کہ تاابد ہر کوچہ و گدان میں رسمِ یوسف کی شنوائی ہوگی ہاں یوسف اب تو ہی ان محفلوں کی شان تو بن گیا ہے۔۔۔بلیدہ کی طرح نال بھی شادماں ہے کہ یوسف اب نال کی کوکھ میں ہے۔۔۔اس نال کی جو یوسف کی جنم بھومی ہے۔۔۔اس نال کی زمین جس نے یوسف کا بچپن دیکھا۔۔۔وہ نال جس کے سبزہ زار، جس کے چشمے، جس کے میدان و کوہساروں پہ یوسف کے قدموں کے نشان ثبت ہیں۔۔۔یوسف جان۔۔۔بلیدہ، نال ہی نہیں بلکہ آج وطن تم پہ نازاں ہے کہ یوسف جان جیسے فرزندوں کی بدولت ہی میری شان بڑھتی ہے۔۔۔جو رسم بالاچ کے وارث ہیں، جو حمل،اسلم،اکبر،منان و سلیمان جیسے ہوتے ہیں جن پہ وطن ہر لمحہ نازاں ہے۔۔۔اے یوسف وطن نازاں ہے آج کہ اپنے لہو سے تم نے اس رسم کو حیات بخشی۔۔۔ وطن نازاں ہے اور اس کی آواز فضاؤں میں گونج رہی ہے کہ رسم دلیری یہ ہے کہ سراٹھا کے چلو۔۔۔ اسی رسم کی بدولت ہی انسان ابد تک زندہ رہتا ہے۔۔۔یوسف جان(دودا جان) جان بھی اس رسم کا داعی تھا اور آج وہ جسمانی طور پر تو جدا ہوچکا ہے پر اس نے رسم کی پاسداری کرتے ہوئے ابدیت پالی.
Post a Comment