New Posts from Balochistan Channel

Translate In Your Language

New Videos

شہید اسحاق ایک جانباز ساتھی تحریر: چاکر بلوچ

شہید اسحاق ایک جانباز ساتھی

تحریر: چاکر بلوچ





ہمیشہ میرا کوشش یہی ہوتا ہے کہ اپنے قلم, زہن و فہم کو وطن مادر کی مہر, حرمت و آزادی کے خاطر قربان ہونے والے مہر زادوں کے لیۓ وقف کردوں. لیکن شہیدوں کے کردار پہ لکھنا, انکی اعلیٰ ظرفی کو لفظوں میں پِرونا اور قربانیوں کو قلم سے سرخ رنگ دینا ہمیشہ ہی میرے لیۓ مشکل اور کٹھن کام رہا ہے. شہید تو ہوتے ہی عظیم ہیں. شہادت ہوتا ہی عظیم لوگوں کے لیۓ ہے. ان کی اڑان و پہنچ ہمارے سوچ و تخیل سے کہیں اونچی اور کہیں آگے ہوتی ہے. اس لیۓ ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیۓ, ان کے کردار پہ اپنی خیالات کی درشانی کے لیۓ عظیم لفظ ہی چھوٹے لگنے لگتے ہیں. شہید اسحاق اور حق نواز دونوں ہی میرے وطن کے روشن چمکتے دمکتے ستارے ہیں. لیکن یہاں میرے تحریر کا مرکزی کردار اسحاق بادینی عرف یوسف بلوچ ہوگا. کیونکہ میری معلومات شہید حق نواز کے نسبت شہید اسحاق کے بارے میں تھوڑی زیادہ ہیں. پانچوں اور طویل بلوچ قومی تحریک کے جہد میں شامل ہونے والے شہیدوں اور غازیوں کی صفت میں اگر میں ان کے شان و شرف میں کچھ لکھوں تو یہ میرے لیے ایک اعزاز کی بات ہوگی، اگر آج میں اس کاروان میں ہمگام ہوں تو شاید یہ کریڈٹ انہی دوستوں کو جاتا ہے، جو آج ہمارے ساتھ اس سفر میں اپنا حق ادا کر کے مادر وطن کے سینے میں سکون کی نیند سو رہے ہیں یا وہ غازیوں کے شکل میں آج بھی دشمن کے سامنے تاتاری کے پہاڑ کی طرح مضبوطی کے ساتھ دشمن کو شکست دینے پر ڈٹے ہوئے ہیں اسی طرح راسکوہ کے دامن وادی نوشکی میں جنم لینے والے سنگت اسحاق بلوچ کی بہادری کی داستان کو آج بھی بولان اور شور پاور کے پہاڑ سنہرے الفاظ میں محفوظ کر رہے ہیں، شہید حق نواز بلوچ کے بڑے بھائی سنگت اسحاق بلوچ نے 2008 میں بولان کے مرکزی کیمپ میں تربیت حاصل کرنے کے بعد اپنے خدمات سرانجام دینے کے لیے کیمپ سے شہر کا رخ کرتے ہیں۔ جہاں وہ اپنے بہترین حکمت عملی کو اپنانے کی وجہ سے چھ سال تک شہری نیٹورک میں دن رات ایک کرکے دشمن کی نیندیں حرام کر دیتے ہیں۔ شہر میں گوریلا جنگ کو جاری رکھنے والے سنگت اسحاق بلوچ جب شہر میں دشمن کے نظروں میں آنے کے بعد تنظیمی بشمول سینئر کمانڈ کے فیصلے کے مطابق قلات کے تاریخی پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں، جو پہلے سے ہی دشمن کے لینے آگ کے شعلے برسا رہا ہوتا ہے۔ سنگت اسحاق بلوچ انہتائی مخلصی اور ایمانداری کے ساتھ شور کیمپ میں بھی اپنے چھوٹے بھائی سنگت حق نواز عرف بلوچ خان کے ساتھ دشمن کے خلاف ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر مقابلہ کرتے رہے تھے۔ بھائی کی شہادت یعنی شہید حق نواز کے شہادت کے بعد اسحاق اور مضبوط ہوچکے تھے۔ وہ مزید جوش و خروش کے ساتھ دشمن کے لئے زہر بن ثابت ہورہے تھے اور مزید نئی حکمت عملی اپنا کر نئے شہری نیٹورک بنا کر دشمن پر ٹوٹ پڑتے حق نواز کی شہادت کے بعد شہید سنگت اسحاق کو کافی پریشررائزڈ کیا گیا کہ وہ سرینڈر کرے اور اپنے ہی دوستوں کے خلاف دشمن کا ساتھ دے۔ شہید اسحاق کو پریشر کرنے کے لیے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اس کے بھائی کو اغواء کے بعد سرکار کی طرف سے سنگت اسحاق کے بھائی کی بازیابی کے لیے یہ شرط رکھا گیا کہ جب اسحاق سرینڈر کرے گا، تب ہی اس کے بدلے اس کے بھائی کو بازیابی ملے گا لیکن تاریخ آج بھی گواہی دے رہا ہے۔ اسحاق کی مخلصی اور بہادری یا تحریک کے ساتھ خلوص کو کوئی بے بنیاد ثابت کرسکے۔ سنگت اسحاق گھر کے آرام دہ زندگی کو ترجیح دینے کے بجائے پہاڑوں میں تکلیف سردی گرمی کے پرواہ کئے بغیر دشمن کو یہ یقین دلارہے تھے کہ وطن کے جانباز ابھی تک دشمن کے خلاف ثابت قدم ہیں۔ آج ایسے محسوس ہورہا ہے کہ اعلیٰ کردار کے مالک اسحاق آج بھی زندہ ہیں، لیکن مرے تو آج ہم لوگ ہیں، کیونکہ ہم آج اسحاق جیسے ایک انمول دوست، ایک ہیرے سے محروم ہو گئے ہیں، اسحاق سے ہم جسمانی طور پر ضرور جدا ہوئے ہیں، لیکن اسحاق اور ہمارا فکر اور مقصد ایک ہی ہے اور اس بات کا اعادہ کرنا ہے کہ فکر ء اسحاق کو آگے لے جانا ہے، جب اس کے فلسفے اور اس کے نقش قدم پر دوست چلیں گے، اسحاق کو اس بات کا سکون ضرور ہوگا کہ جس مقصد کے لئے میں نے آج قربانی دی ہے دوست اسے آگے لے جانے میں دن رات محنت کررہے ہیں۔



نوری نصیر خان سے واجہ غلام محمد تک تحریر۔ سفر خان بلوچ

نوری نصیر خان سے واجہ غلام محمد تک تحریر۔ سفر خان بلوچ


ویبسٹر ڈکشنری کی تعریف کے مطابق لیڈرشپ سے مراد ”رہنمائی کرنے کی اہلیت“ ہے۔ میرین کورز (Marine Corps) کی تعریف کے مطابق لیڈرشپ ذہانت، انسانی تفہیم اور اخلاقی کردار کی ان صلاحیتوں کا مرکب ہے جو ایک فردِ واحد کو افراد کے ایک گروہ کو کامیابی سے متاثر اور کنٹرول کرنے کے قابل بناتی ہیں۔ لیڈر کا کام بھی ہر مسئلے کو تن تنہا حل کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اپنی اقتداء کرنے والوں کو ان مسائل کے حل کرنے کے لئے تحریک فراہم کرنا ہوتا ہے۔ یاد رکھئے کہ ماں کے پیٹ سے لیڈر بن کر کوئی نہیں آتا، سب اپنے ہاتھوں سے اپنی قائدانہ صلاحیت کو تعمیر کرتے ہیں لیڈروں میں یہ اہلیت ہوتی ہے کہ وہ ایک ہدف کا تعین کریں، اس ہدف کو حاصل کرنے میں دوسروں کو اپنی اعانت کرنے پر آمادہ کریں، اور پھر اپنی ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے اسے فتح سے ہمکنار کرادیں۔ مگر قیادت کی تعریف ہے کیا؟ قیادت کی کوئی ایک متعینہ تعریف نہیں ہے۔ ایک مؤثر لیڈر بننے کے لئے اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ قیادت کے بارے میں چند عمومی تصورات اور تعریفات کچھ یوں ہیں: کسی گروہ، ٹیم یا تنظیم کا مقررہ سربراہ ایک لیڈر ہوتا ہے۔ لیڈر ایک کرشماتی فرد ہوتا ہے، جو عمدہ فیصلے کرنے اور دوسروں کو ایک مشترکہ مقصد حاصل کرنے کے لئے متحرک کرنے پر قادر ہوتا ہے۔ بھرپور انداز میں دوسروں کو اپنی بات سمجھانے اور انہیں متحرک کرنے کا نام قیادت ہے۔ حقیقی لیڈر وہ ہوتے ہیں جن میں کسی معاشرے کے انفرادی ارکان کی اجتماعی خواہشات اور توقعات کا پتہ چلانے کے لئے ضروری مگر کمیاب ذہانت اور دوراندیشی کی خصوصیات موجود ہوتی ہیں، تب وہ انفرادی مفادات کو ازسرنو ترتیب دے کر انہیں اجتماعی مفادات کے حصول کی جدوجہد میں شامل کرنے اور میڈیا کے ذریعے انہیں معاشرے کے مختلف طبقات کے سامنے ایسے انداز میں پیش کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں، جس سے ان کے جذبات کو تحریک ملے اور وہ اس کی حمایت کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے ذریعے اپنی تنظیم کے مقاصد کے حصول سے ہٹ کر، ایک لیڈر کی سب سے بڑی ذمہ داری نئے لیڈر تیار کرنا ہوتا ہے۔ حقیقی قیادت کا تقاضہ ہی یہی ہے کہ آپ اپنے ماتحتوں کو بھی لیڈر بنا دیں۔ حقیقی قیادت کا تقا ضہ ہی یہی ہے۔ درجہ بالا حوالہ جات کے نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے بلوچ تاریخ میں جنہوں نے صحیح معنوں میں ایک لیڈر کا کردار ادا کیا ہے، وہ ایک تو نوری نصیر خان ہیں اور دوسرے شہید واجہ غلام محمد، شاید میرے اس نقطہ نظر پر کوئی اعتراض بھی کرسکے، مگر جولیڈر کا تعریف ہوتا ہے، ہمیں ان دونوں کے علاوہ بلوچ تاریخ میں کوئی دوسرا نظیر نہیں مل سکتا، جنہوں نے ایک لیڈر کے جو تقاضات تھے انہیں پورا کیا ہو۔ شاید ہم نام بھی لیں،عطاء اللہ مینگل، خیر بخش مری، اکبر بگٹی یا کوئی اور تو جواب ایک ہی آئیگا نہیں نہیں بلکل نہیں۔ ایک لیڈر کی جوضروریات تھے، ان میں سے کسی نے پورا نہیں کیا۔ موجودہ دور میں جو لیڈر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، تو شاید وہ بھی نہیں ہونگے۔ ان میں سے حیر بیارکانام اگر آئیگا توجواب میں نہیں آئیگا، برہمداگ بگٹی جواب وہی ہے بلکل نہیں، اور ڈاکٹر اللہ نظر جواب یہی آئیگا بدقسمتی سے یہ بھی نہیں۔ پھر شاید آپ لوگ سوچ رہے ہونگے کہ میں شہید واجہ غلام محمد اور نوری نصیر کو کیوں لیڈر کے درجے پر فائز کررہا ہوں؟ بلوچ تاریخ کے اوراق کو اگر ہم باریک بینی سے دیکھ لیں اورہوش و حواس سے سوچیں تو ہمیں ان دونوں کے علاوہ کوئی دوسرا دیکھنے کو نصیب نہیں ہوگا جو ایک لیڈر کے تعریف پر پوری طرح اترتا ہو۔ بلوچ تاریخ میں نوری نصیر خان وہ واحد شخص ہے، جنہوں نے پورے بلوچ قوم کو ایک ساتھ منظم اور مضبوط کیا۔ یہ بات بھی نہیں کہ اس وقت حالت میں مشکلات یا رکاؤٹ موجودنہیں تھے، ایک جانب ہندوستان اور دوسری جانب افغانستان میں احمد شاہ ابدالی، اُس وقت اس خطے کے مضبوط شہنشاہؤں میں اس کا شمارا ہوتا تھا، جنہوں نے ہندوستان کے مراہٹہ سامراج کو تہس نہس کردیا تھا لیکن احمد شاہ ابدالی کی فوج بھی نوری نصیر کی لشکر کو جیت نہیں سکا، جب مستونگ پڑنگ آباد کے مقام پر جنگ چھڑگئی، جس میں شاہ ولی خان کی سربراہی میں ابدالی کی فوج کو شکست کاسامنا رہا، جب ابدالی کو اس کی خبر ملی تو وہ خود بہت بڑے لشکر کو لے کر مستونگ پہنچ گیا، کہتے ہیں اس جنگ میں نصیر خان نے دولاکھ پچاس ہزار کی فوج کی ایک عظیم جم غفیر اکھٹا کیا تھا۔ جب اس جنگ میں نتائج نکلنا مشکل ہوتا جارہا تھا تو ابدالی بعد ازاں گفت و شنید پہ مجبور ہوگیا اس حوالے سے تاریخ داں لکھتے ہیں احمد شاہ ابدالی ایک دور اندیش حکمران تھا، وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ نصیر خان جیسا قابل حکمران قلات میں کوئی اور نہیں ہے، نصیر خان ایک بہادر اور ذہین رہنما ہیں جوکہ حالات کی نزاکت کوسمجھنے میں بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد افغان اور بلوچوں کے درمیان ایک معاہدہ طے ہوا، جس کے بعد نصیر خان کے لئے افغان خطرہ ٹل گیا کیونکہ جو ریاست کا تشکیل کا کام تھا اس میں بار بار افغان رکاوٹ بنتے آرہے تھے، مکران پہ پہلا جو حملہ ہوا تھا اس میں افغان کی مداخلت سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا تھا اور اس کے بعد نصیر خان نے مکران پہ حملہ کیا اور اس میں اسے کامیابی نصیب ہوئی (مکران کے اس حملے کے حوالے سے ہمارے کئی دوست اس پہ اختلاف رکھتے ہیں مگر وہ الگ بحث ہے اگرمیں اس بحث کو چھڑوں تو میرے مضمون کا جو متن ہے وہ ایک اور جانب جانے لگے گا) مکران کے علاوہ نصیر خان نے خاران اور لسبیلہ پہ حملے کئے اور اس طرح دنیا کے نقشے پہ جو بلوچ ریاست کا خواب تھا وہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ ویسے بلوچ ہزاروں سال سے اس سرزمین پہ وجود رکھتے تھے مگر ایک متحدہ بلوچستان کا وجود نصیر خان کی سربراہی میں آیا۔ نصیر خان کے بعد انگریز سامراج کا دور حکومت ہو یا قابض پاکستان کے قبضے کے بعد، ہمیں ایک ایسا شخص یا لیڈر بلوچ تحریک میں نہیں ملا، جو پورے بلوچ قوم کو متحدہ کرنے میں کامیاب ہو۔ ہاں شہید واجہ غلام اگر کچھ اور سال زندہ رہتے تو شاید وہ ایک لیڈر کے جوضروریات ہیں انہیں پورا کرتے کیونکہ جو نظریہ بلوچستان کے آزادی کے حوالے سے شہید فدا کا تھا غیر پارلیمانی سیاست صرف اور صرف بلوچستان کی آزادی کے لئے جدوجہد تو اس عمل کو شہید واجہ غلام محمد نے شروع کیا اور مضبوطی کے ساتھ اس جدوجہد نے روز پکڑ لیا کہ دشمن پریشان ہوکر رہ گیا، بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے غیر پارلیمانی سیاست کے اعلان کے بعد بلوچ نیشنل فرنٹ کا قیام، اب یہ وہی وقت تھا کہ صدیوں بعد بلوچ کو اتحاد نصیب ہوا اور یہ سب شہید واجہ غلام محمد اور دوستوں کے محنت کے بدولت ممکن ہوا اور شہید واجہ غلام محمد کے قائدانہ صلاحیت کے بدولت ممکن ہوا تھا۔ لیکن کئی چیزیں واجہ غلام محمد اور نوری نصیر خان میں قدر مشترک تھے، میں نے اوپر لیڈر کے تعریف کے حوالے سے کچھ حوالے دیے تھے، جن میں ایک یہ تھا کہ حقیقی لیڈر کا تقاضا ہی یہی ہے کہ آپ اپنے ماتحتوں کو بھی لیڈر بنادیں، حقیقی قیادت کا تقاضا یہی ہے، واجہ غلام محمد نے اپنے ماتحت دوستوں کو لیڈری کا تقاضا پورا کرنے کا اہل بنایا تھا مگر نوری نصیر خان کے حوالے سے ہمیں کہیں ایسا دیکھنے کو نہیں ملتا ہے، واجہ غلام محمد کے اسی سوچ کی بدولت آج تک وہی کارواں جسکی شروعات انہوں نے کی تھی، آج تک رواں دواں ہے اور واجہ کا نظریہ زندہ ہے۔ واجہ غلام محمد کی شہادت کے بعد جب کئی دوستوں نے بی این ایم سے استعفٰی دیا اور کئی دوست کنارہ کش ہوئے۔ اگر شہید غلام محمد اپنے دوستوں کو یہ اہل نہیں بناتا کہ وہ ایک تنظیم اسکے بعد لاسکیں تو بی این ایم واجہ غلام کے شہادت بعد شاید اسی دن ختم ہوتا۔ اسی لئے کہتے ہیں لوگ تو قوموں کے اندر ہر روز پیدا ہوتے ہیں مگر ایک لیڈر کو پیدا ہونے میں صدیاں لگ جاتے ہیں





شہدائے مرگاپ کا خون ابھی تازہ ہے تحریر: گلزار امام بلوچ


شہدائے مرگاپ کا خون ابھی تازہ ہے تحریر: گلزار امام بلوچ



بلوچ تحریک میں کچھ ایسے خونی واقعات ہیں، جنہوں نے بلوچ سیاسی و مزاحمتی جنگ کو ایندھن فراہم کیا۔ ان میں 26 اگست 2006 کو نواب اکبر خان کی ساتھیوں سمیت شہادت اور 9 اپریل کو تین بلوچ رہنماؤں کی ملنے والی مسخ شدہ لاشوں کے واقعات شامل ہیں۔ مرگاپ سے ملنے والی یہ لاشیں بلوچ نوجوانوں کے دلوں میں موجود اس نفرت کو سامنے لانے میں کارگر ثابت ہوگئے جس کی تمنا خود شہید غلام محمد کو تھا کہ میری شہادت سے اگر دشمن کے خلاف بلوچ کی جنگ مزید تیز تر ہوتی ہے تو شہادت میری تمنا ہے۔ جہد آزادی کے سیاسی جنگ میں میرے سیاسی سرگیوں کا مرکز پنجگور رہا، تربیت کہیں یا سیاسی چالبازی کے ہنر میں کمی بی ایس او سمیت بی آرپی کے مرکز تک میں کبھی پہنچ نہ پایا۔ لہٰذآ شہید غلام محمد و شہید شیر محمد سے زیادہ نزدیک ہونے اور ان سے سیاسی تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن شہید لالا منیر پنجگور کی قومی سیاست میں ہمارے لئے ایک سیاسی استاد سے لیکر ایک شفیق باپ سے کم نہیں تھے، بلوچ سیاسی آزادی پسند لیڈروں سے تھوڑا بہت اگر سیکھنے کا موقع ملا تو گراونڈ اکثر و بیشتر پنجگور کا مہربان خاک رہا۔ بی ایس او آزاد کی قیادت کی خواہش تھی کہ بی این ایم کے ساتھ کوئی باقاعدہ سیاسی اتحاد بنایا جائے لیکن اکثرزونل سطح پر دوست اس اتحاد سے ڈر رہے تھے، اس کی سب سے بڑی وجہ پالیمانی پارٹیوں کے ہاتھوں بی ایس او کے سابقہ ادوار میں تقسیم یا اپنے اصل مقصد سے روگردانی تھا۔ زونل سطح پر جو دوست جس میں میں بھی شامل تھا اس کی شدید مخالف تھے جو کہ ہماری کم سیاسی تجربہ کاری تھا چونکہ اس وقت بلوچ آزادی کے سیاسی جنگ میں سب سے بڑا کردار بی ایس او کا ہی تھا، بی این ایم شہید غلام محمد بلوچ کی قیادت میں ایک نئے پروگرام کے تحت بلوچستان میں فعال ہورہا تھا تو شہید غلام محمد بی ایس او سے باقاعدہ ایک اتحاد کی بے حد کوششوں میں مصروف تھے۔ اس سلسلے میں شہید آغا عابد شاہ کی خواہش پر ہم نے زونل سطح کے دوستوں کے ہمراہ ڈگری کالج پنجگور میں شہید غلام محمد، شہید لالا منیر کے ہمراہ ایک طویل نشست کا اہتمام کیا۔ شہید غلام محمد و شہید لالا منیر کی سابقہ وابستگی پارلیمانی سیاست سے رہی تھی، ہم نوجوان پارلیمانی سیاست کے سخت ترین مخالف تھے، اس بناء پر ہم شہید غلام محمد کے ان دلائل سے آخر وقت تک مطمئین نہیں ہوئے کہ بی ایس او کسی سیاسی پارٹی کا باقاعدہ اتحادی بنے کیونکہ پاکٹ آرگنائریشن کا لفظ بلوچ سیاست میں انتہائی بدنام ہوچکا تھا۔ اس بناء پر ہم ایک حقیقی اتحاد سے بھی کترا رہے تھے۔ بعد میں بدلتی سیاسی صورتحال، بی آرپی کی تشکیل و بی این ایف کا قیام، بی ایس او کا فعال کردار ہمیں تھوڑا بہت سیاسی پختگی کے اسٹیج پر لاچکا تھا لیکن شہید غلام محمد کے ساتھ اس طویل نشست میں جہاں شہید لالہ منیر نے ہمیں کچھ زیادہ ہی جذباتی نوجوان قرار دے دیا تھا تو وہیں شہید غلام محمد ہمیں بی ایس او کے حقیقی وارث قرار دے کر اگلی نشست کا وعدہ کرکے ہم سے رخصت ہوئے۔ بی این ایف کے قیام کے دوران پنجگور تقریباً سیاسی سر گرمیوں کا مرکز بن گیا تھا، جہاں شہید لالا منیر کے دلچسپ و انمول تقاریر و شہید غلام محمد کے علمی و شاعرانہ انداز کے انداز بیان نے پنجگور کی سیاسی ماحول کو ایک حد تک مزاحمتی ماحول بنا دیا تھا۔ جب میں نے مزاحمتی سیاست کو وقت کی ضرورت سمجھا، تو میرے مصروفیات و کام کا جگہ کیچ رہا، جہاں کے نوجوانوں میں شہید غلام محمد کے کردار کی جھلک نظر آرہی تھی۔ یہ جھلک کبھی لالا منیر بن کر نظر آنے لگا، تو کبھی شیر محمد بن کر نمو دار ہوا۔ پنجگور میں سیاسی مزاحمت کے دوران شروع میں ہم کم دوست شہید لالا منیر کے ہمراہ سرگرم عمل تھے، جہاں لالا ہمارے لئے ایک ایسے رہبر تھے کہ جس شٹر ڈاؤن ہڑتال میں لالا ہمارے ساتھ نہیں ہوتے تو دکاندار دکانیں بند نہیں کرتے کہ لالا ان کے ساتھ نہیں ہے یہ لڑکے اپنی طرف سے یہ شرارت کررہے ہونگے۔ لالا ایک ایسے سیاسی رہبر تھے جنکی شہادت نے پورے بلوچستان کو سوگوار تو کردیا تھا لیکن پنجگور کے سیاسی ورکر اپنے آپ کو یتیم تصور کرنے لگے لیکن لالا و ساتھیوں کے خون نے ایسے سینکڑوں نوجوان پنجگور میں پیدا کیئے، جہاں لالا کی کمی و ہماری ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔ سیاسی جنگ میں جہاں ریاستیں اپنی وحشیانہ پن کا استعمال کرتی ہیں، وہاں سیاسی کرداریں و قوتیں نئی جہت و حکمت عملیوں سے میدان عمل میں اپنا کردار نبھاتے رہتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک مزاحمتی کمانڈر کی جانب سے غلام محمد کے بعد کے بی این ایم پر نکتی چینی سے دلی افسوس محسوس ہوا کیونکہ میں نہ واحد قمبر بن سکتا ہوں، نہ چیئرمین خلیل، نہ غلام محمد لیکن ہر کوئی اپنا جدا کردار بن سکتا ہے۔ جہاں اپنی بساط کے مطابق، اپنی قومی ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کریں۔ گوکہ شہید غلام محمد کی سیاسی سرگرمیوں کے دوران بلوچستان میں ریاستی جبر آج کے حالات سے مختلف تھے، تو ان حالات کے مطابق بی این ایم کے پروگراموں کی تشکیل کیلئے، بی این ایم میں چیئرمیں خلیل بلوچ کے کردار کو مسخ کرنا، شہید منان و غلام محمد کی قربانیوں کے ساتھ ایک مزاق تصور کیا جائے گا۔ بات شہدائے مرگاپ کا ہورہا تھا، گلے شکوے تک پہنچ گیا۔ خون جب ایک عظیم مقصد کیلئے بہایا جائے تو وہ خون کبھی خشک نہیں ہوتا۔ شہدائے مرگاپ کا خون آج بھی تازہ ہے اور تابندگی سے چمک رہا ہے اور حالات کے ظلمت میں قوم کو منزل کا پتہ دیتا ہے۔

آخری گولی کا فلسفہ تحریر: برزکوہی

آخری گولی کا فلسفہ تحریر: برزکوہی




وہ جواں مرد، عالی ہمت، جی دار اور فوجی کتاب۔ وہ جری، سوربیر، ارسلان اور باسل۔ لیکن اسکا مزاج کامل ادھینتا، درماندگی، خاکساری، عجزو انکساری اور نیاز آگینی۔ وہ ظلمتوں میں عطسہ شب، سائبانِ سیمابی، وہ بامداد اور وہ ہی صباح، وہ بھور اور وہی پگاہ۔ آرام کشی کو “اوارون” کے بغیر رخصت کرنے والا وہ جفاکش، کوشاں، ساعی اور اجیر۔ بہی خواہوں کیلئے مہربان، التفات، مشفق، محب و مربی۔ عدو کیلئے پرکالہ آفت، غضب، کرودھ اور قیامت خیز۔ وہ ذکی، وہ فطین، وہ سرہنگ، وہ کمانیر، وہ سالار، وہ زعیم، صرف اور صرف وہ ہی ” امیر”۔ وہ نہ جھکنے والوں میں سے تھا، اور نہ بکنے اور ٹوٹنے والا شخص، اسکی خمیر میں حالات و کیفیت کا شکار ہونا نہیں تھا بلکہ اسکا تعلق اس قبیل کے انسانوں سے تھا، جو وقت و حالات اور کیفیات کو موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ہر وقت متحرک و ایماندار، بے انتہاء مخلص و عاجز، قومی آزادی کی جنگ میں بہادری کے ساتھ پیش پیش، قدم رواں دواں، توتک سے اٹھنے والی یہ آواز، دشمن کے لیئے قہر و جبر امیر ملک ہی ہوسکتا ہے۔ میں جتنے بھی اسم صفات امیر کے شخصیت و کردار کے احاطے کی کوشش میں پرنوں پر بکھیرتے جاؤں، لیکن اس دیو ہیکل کردار کے تعین کی کوشش میں الفاظ بے معنی ہوکر اپنا سا منہ لیکر بیٹھ جاتے ہیں، اور سب کہا کھوکھلا معلوم ہونے لگتا ہے۔ کون آج کا دن 7 اپریل بھول سکتا ہے، جب امیر آج کے ہی دن شور و پاردو کے سمسوک جل و چر میں تاریخ رقم کرگئے، اگر آپ کہیں امیر اپنی محنت، مخلصی، احساس ذمہ داری، دلچسپی کے فلسفے کی بنیاد پر بلوچ آزادی کی جنگ میں پوری ایک نسل کو تیار کرگئے تو غلط نہیں ہوگا۔ آج بھی پرجوش کارواں میں امیر کی تخلیق، جوش و جذبہ، ہمت اور فلسفہ ہر قدم پر نظر آتا ہے۔ یوں تو ہر اس شہید رہبر کی زندگی و کردار کا احاطہ الفاظ میں کرنا جوئے شیر لانے کا مترادف ہے، جس نے تاریخ کی دھارا بدلنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں قطع نظر کامیابی و ناکامی کے خود وقت سے بڑے ہوگئے۔ لیکن میں یہ محسوس کیئے بنا نہیں رہ سکا اس پائے کے ہستیوں میں امیرالملک ایک ایسا نام ہے، جسکے کردار کے اعلیٰ قدری سے کوئی انکاری نہیں، جس کے قصے ہر محفلوں میں زبان پر ہوتے ہیں، جسکا طریق ہر نوجوان سرمچار کا وداع لینے کا خواب ہے لیکن پھر بھی سب سے کم اس پر لکھا گیا ہے۔ اسکی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ اسکی سب سے بڑی وجہ امیر کا مزاج اور امیر کا طریق تھا۔ امیر کو لکھنا مشکل ہے، کیونکہ امیر چند ایک بڑے واقعات کا نام نہیں ہے، امیر چند ایک متاثر کن اقوال زرین نما کلمات کا نام نہیں ہے، امیر چند ایک قربانیوں کا نام نہیں ہے، امیر چند ایک دشواریوں کا نام نہیں ہے کہ جن کو چیدہ چیدہ، پیرا با پیرا آسانی سے قلمبند کرکے امیر کو بیان کردیا جائیگا۔ بلکہ امیر مسلسل روزانہ، بلا ناغہ، بغیر جھجھکے، بغیر شکایت کیئے سورج کی پہلی کرن سے رات کے آخری گھاٹ تک سالوں تک کام کرتے جانے کا نام ہے۔ کیونکہ امیر گھربار، بھائی، رشتہ دار و خاندان سب لٹانے کے بعد ہر روز ایسی مسکراہٹ کے ساتھ آپ سے ملنے کا نام ہے اگر کوئی اسے نہیں جانتا ہو تو اسے یہ گمان گذرے کہ اس شخص نے زندگی میں کبھی دکھ کا چہرہ ہی نہیں دیکھا۔ امیر مختلف انسان تھا، وہ اپنے تکلیف اور قربانیوں کو ظاہر کرکے ہمدردی بٹورنے کے بجائے انہیں مسکراہٹ میں چھپانا بہادری سمجھتا تھا۔ وہ سخت محنت اور مسلسل محنت پر یقین رکھتا تھا اور وہ یہ بغیر ظاھر کیئے خاموشی سے کرتا جاتا۔ ایک دفعہ ایک ہی کام کا تذکرہ امیر اور ایک اور ساتھی الگ کررہے تھے۔ میں نے پہلے دوسرے ساتھی کو سنا تو ایسا لگا کہ کوئی جوئے شیر کھود کر لایا گیا ہے، پھر امیر سے اس کام کا سنا تو اس نے چار جملوں میں ایسے بیان کیا، جیسے وہ کھانا کھانے ک بعد ہاتھ دھونے کا اپنا قصہ سنا رہا ہو۔ میں نے از راہ اشتیاق اس سے دونوں بیانوں کے تضاد کا وجہ پوچھا تو اس نے جو وجہ بتائی میرے خیال میں وہ امیر کو بیان کرتا ہے ” اکثر دوست کوئی کام کرتے ہیں تو وہ جتنا مشکل ہوتا ہے، اس سے زیادہ بڑھا چڑھا کر اسلیئے پیش کرتے ہیں کیونکہ وہ یہ احساس دلانا چاہتے ہیں کہ اتنا مشکل کام کرکے وہ اتنا ہی اہم اور خاص ہوگئے ہیں اور انہوں نے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے اور یہ کارنامہ سرانجام دینا ہر عام و خاص کے بس کی بات نہیں، میری کوشش ہوتی ہے کہ میں حقیقت بتاؤں، بلکہ شاید ہم نالائق ہیں، ہمیں زیادہ کوشش کرنی پڑی اگر کوئی لائق بندہ ہوتا، وہ اور زیادہ آسانی سے یہ کام کردیتا، اسلیئے میں اور زیادہ آسان بتاتا ہوں تاکہ ہر بلوچ کو لگے کہ یہ کام کرنے کیلئے کسی ہیرو کی ضرورت نہیں، کچھ خاص ہونے کی ضرورت ہیں بلکہ ہر کوئی آسانی کے ساتھ چاہے کرسکتا ہے، تاکہ لوگ اس کام کو دشوار سمجھ کر ڈریں نہیں۔ میں لوگوں کو یہ نہیں بتانا چاہتا کہ پہاڑوں میں بھوک پیاس بھی ہے، میں انہیں وہ قصے سناتا ہوں جب ہم پہاڑوں میں سجی بناتے ہیں، “پہوالوں” سے خالص لسی، مکھن، دیسی گھی لیتے ہیں جو کبھی شہروں میں نصیب ہوتا۔” امیر تحریک میں مینار بن کر دور سے دِکھنے کے بجائے مضبوطی کے ساتھ بنیاد بننے کو زیادہ اہم سمجھتے تھے، ایک ایسی تحریک جس میں خودنمائی، خواہش لیڈرشپی، دبدبہ اور ہیروازم کے شوق کا بول بالا ہو وہاں ایسی سوچ شروع دن سے رکھنا۔ خود ظاھر کرتا ہے کہ امیر کیا تھا۔ امیر کے دوست کہتے ہیں کہ جب تک امیر تھا تو وہ صبح صادق کام سے نکلتا اور پھر رات کا کھانا ساتھ کھاتے۔ اسے کبھی دن کا کھانا ساتھ میں کھاتے نہیں دیکھا۔ بس نمکو کا ایک تھیلا اور پانی کا ایک بوتل اسکے ساتھ ہوتا تھا۔ اس پر اکثر اسے دوست مزاق میں چھیڑ کر نمکو پکارتے۔ ہمیں پورا پتہ نہیں ہوتا وہ کیا کررہا ہوتا۔ لیکن جب وہ شہید ہوگیا، اسکے بعد ہمیں اندازہ ہوا کہ اس ایک شخص نے اکیلا آسمان اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا، ہم ایسے بکھرے کہ ایک طویل عرصہ تو ہمیں صرف یہ سمجھنے میں لگ گیا کہ وہ ایک انسان اتنے زیادہ کام کیسے کیسے کرتا تھا، اس کے بعد آہستہ آہستہ وہ کام دوسرے سنبھالنے کے لائق ہوئے۔ میں ہزاروں ایسی چھوٹے بڑے واقعات بیان کرسکتا ہوں، لیکن میں پھر بھی نہیں سمجھا سکوں گا کہ امیر کون تھا۔ صرف یہی کہوں گا کہ امیر اعلیٰ خیال اور مسلسل عمل کے آمیزش کا کامل مرکب تھا، جو انسان کی صورت اختیار کرگیا۔ کبھی کبھبار سوچتا ہوں کچھ ایسے تنظیمی ساتھی ہوتے ہیں، ان کی ایمانداری، احساس ذمہ داری و مخلصی اور قربانی کے بدولت تنظیم ان کا، ان کے فکر کا قرضدار رہتا ہے، کچھ تنظیم پر بوجھ بنکر تنظیم کا حق ادا نہ کرتے ہوئے تنظیم کا قرضدار رہتے ہیں۔ امیر وہ انسان تھا کہ تنظیم کو اپنا قرضدار کرگیا، موجودہ قومی آزادی کی جنگ میں اگر آپ امیر کے کردار و محنت اور تمام قربانیوں کے ساتھ انصاف کرکے فیصلہ کریں، تو امیر واقعی ایک مثالی و منفرد کردار کے مالک آپکو نظر آئیں گے۔ آج بھی بلوچ قوم میں خصوصاً بلوچ نوجوانوں میں امیر ایک آئیڈیل بن چکا ہے۔ خود غرضی، نمود و نمائش، سستی شہرت، سستی و کاہلی، غرور و ضد، لالچ و خوف سے بالاتر درویش و ملنگ اور عاجز امیر ایک زندہ شخصیت کا مالک تھا۔ آج بڑے بڑے دعویدار، دھواں دار باتوں، دلیلوں، بھڑک بازیوں، دکھاوے سے اپنی بونے جیسی قد کو دیو ہیکل ثابت کرنے کی کوشش کرتے نظر آئیں گہ لیکن جب بھی اس کانٹوں سے سجے راستے پر امتحان و آزمائش سر پر آتی ہے تو سب کے دعوے ریت کے گھروندے کی طرح بکھرے نظر آتی ہیں۔ ان طوفانوں کو شروع دن سے سینے پر سہنے والا امیر ہی تھا۔ امیر نے جیسی زندگی گذاری، ایک عام موت ایسی اساطیری زندگی کی توہین ہوتی۔ اسکے زندگی کے خوبصورت قصے کا عامیانہ انجام بھلا کیونکر ہوتا، تبھی موت بھی رومانویت سے بھرپور نصیب ہوئی۔ وہ تاریخ کے ان گنے چنے نایاب لوگوں کے صف میں آکھڑا ہوا، جو وقت سے لڑ کر زندگی اپنی مرضی کا گذارتے ہیں اور پھر موت بھی اپنے ہاتھوں سے اپنے مرضی کا چنتے ہیں۔ سات اپریل 2014 کو دشمن سے گھنٹوں لڑنے کے بعد جب اسکی گولیاں ختم ہوجاتی ہیں، تو وہ مسکراتے ہوئے اپنی جیبیں ٹٹولتا ہے اور ایک گولی دائیں جیب سے نکالتا ہے، یہ گولی سالوں سے اسکے جیب میں رکھا ہوتا ہے۔ جب کوئی پوچھتا ہے کہ کس لیئے یوں جیب میں رکھا ہے تو وہ مسکرا کر بولتا میرے لیئے ہے، لیکن کوئی سمجھتا نہیں۔ وہ گولی بندوق کے نلی میں اتار کر، امیر آسمان کی طرف دیکھتا ہے، بندوق کی نل ٹھوڑی کے نیچے مستعد کردیتا ہے، انگلی بندوق کے لبلبی پر رکھتا ہے، ایک مسکراہٹ، انگلی پر دباؤ، زور دار آواز، گرتی لاش اور ایک فلسفے کا آغاز۔ آخری گولی کا فلسفہ

آہ امیر! وہ حساب آج چُکا دیا تحریر: حکمت یار بلوچ

آہ امیر! وہ حساب آج چُکا دیا تحریر: حکمت یار بلوچ




دشوار گذار راستوں اور گھاٹیوں کے تنگ زاویے ، فرحت انقلاب سے لبریز، پرانی وضع قطع کے ساتھ، دشمنان وطن کیلئے آتش فشاں اور وطن کے سرمچاران کے لیے لمّہ وطن کا صحت آفرین مقام، شور پارود کے پہاڑ جس کے سینے میں کئی شہداء جسمانی لحاظ سے اور کئی شہداء کی روحانی یادیں وابستہ ہیں۔ بلوچ قوم کئی منفرد خصوصیات کی حامل قوم ہے۔ ان خصوصیات کی وجہ سے بلوچ قوم کو بہتر فوائد کے ساتھ ساتھ بدترین نقصانات بھی اٹھانے پڑے ہیں۔ بلوچ قوم کو بیرونی قبضہ گیروں سے زیادہ مار آستین نے نقصان پہنچایا ہے۔ لارڈ کی بھگی کھنچنے والے تو تاریخ ہی رقم کرگئے۔ دور جدید میں بھی بلوچ قوم انہیں مسائل کا شکار ہیں۔ اس مسئلے کے ساتھ ساتھ ایک اور مسئلہ جو ہمارے اندر سرائیت کرگئی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم بذات خود عمل سے دور بھاگتے ہیں۔ وہ ماضی کو فخر سے یاد کرنا ہے۔ بیشک ہمارے اسلاف نے بڑے کارنامے انجام دیئے۔ مگر ہمارا اپنا کردار کیا ہے؟ ہم دوسروں کے چبائے ہوئے نوالوں پر کب تک وقت گذارتے رہیں گے؟ ہم موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ بلوچ قومی تحریک میں ایسے ہزاروں فرزندان وطن پیدا ہوئے ہیں کہ دنیا کے بڑے بڑے انقلابی انکے پائے خاک تک نہیں پہنچ سکتے۔ مگر کیا کیا جائے کہ ہمارے ہاں ذمینی حقائق دنیا کے دوسرے نوآبادیاتوں سے قدر مختلف اور پیچیدہ ہے۔ امیر الملک انہی فرزندان وطن میں سے ایک چمکتے ستارے تھے۔ بالاد میں چلتن، تیکھا ناک نقشہ، بھوری اور سیاہ رنگ کی آمیزش سے بنی آنکھیں، درمیان سے مانگ نکالنے والا نوجوان اکثر داڑھی منڈواتے تھے۔ نورا، نوروز ، اور لونگ خان جیسے بہادروں کی سرزمین جھالاوان کے علاقے توتک میں جنم لینے والا عظیم اور بہادر سپوت امیرالملک ان چنیدہ سرمچاروں میں سے ایک تھے۔ جو ایک کارتوس بچا کر جیب میں الگ رکھتے ۔۔۔۔ دشمن پر بجلی کی سی تیزی کے ساتھ جھپٹتے اور برق رفتاری سے واپس لوٹ جاتے تھے۔ 7 اپریل 2014 کو شور پارود میں ہونے والے فوجی آپریشن میں امیرالملک اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر دشمن کے ساتھ دوبدو لڑرہے تھے۔ وہیں دل جان ٹک تیر دوسرے ساتھیوں کو محفوظ مقام کی جانب لے جانے کے لیے راستہ نکال رہے تھے۔(یاد رہےاسی موقع پہ دل نے دشمن کی ہیلی کاپٹر مار گرائی تھی) شدید لڑائی کے بعد جب کارتوس ختم ہو گئے، تو جیب میں رکھی آخری کارتوس سے امیر نے اپنے جسم پہ وار کرکے ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔۔۔۔ پھلین امیر کی روحانی تسکین کے لیے اسکے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے عملی جدوجہد میں شریک ہونا چاہیئے۔

شہید امیرالملک بلوچ تحریر چاکر بلوچ


شہید امیرالملک بلوچ تحریر چاکر بلوچ



 جب بھی ہم اپنے خیالی سوچ و فکر سے نکل کر اپنے حقیقی زندگی کے بارے میں سوچتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں احساس غلامی ستاتی ہیں اور ہم اس سوچ کو لے کر اس کے گہرائی میں چلے جاتے ہیں اور اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ہمیں غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنا کیسے ممکن کافی سوچ و بچار کے بعد ذہن میں اس سوال کا جواب گردش کر رہا ہوتا ہیں کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں ہماری ایک الگ ثقافت ہیں تو کسی کو کیا حق ہیں وہ باہر سے آکر ہمارے موجودہ صورت تحال اور مستبقل کے فیصلے کرے مجال ہے میں اس حرکت کو برداشت کرو.ہمیشہ میں نے اپنے بڑوں یعنی بزرگوں سے سنا ہیں بلوچ کے خون میں ضد اور مزاحمت رہا ہیں پھر یہاں ایک اور سوال دماغ میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچ دن اول سے مزہمتی ہیں فورا اس کا جواب بھی مجھے سنجیدہ سنگتوں کے مجلس سے مل جاتا ہیں کہ یار دن اول سے بلوچ کے ساتھ ناانصافی ہوتا آرہا ہیں اور یعی نا انصافی انسان کو باغی بناتا باغی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے زات سے نکل کر اپنے قوم کی بقاء کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہے شہری زندگی کو چھوڑ کر پہاڑوں کی زندگی کا انتخاب اس لیے کرتے ہیں اور اسے ان سب چیزوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہیں کہ یہاں مجھے گرمی سردی بھوک پیاس اور اس کے علاوہ تمام تکلیفوں کو برداشت کرنا پڑتا ہیں اور وہ انسان پھر بھی پہاڑوں کے اس کٹھن سختی میں بھی مطمئن ہیں کیونکہ وہ دشمن کے خلاف جنگ میں مصروف عمل ہیں ۔ انہی نوجوانوں میں سے ایک نوجوان شہید امیرالملک بلوچ بھی ہے یہ نوجوان خضدار شہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک گاؤں توتک کا رہائشی تھا یہ وہ گاؤں ہیں جہاں امیر الملک کے علاوہ شہید نعیم جان قلندرانی اور شہید یعیہی کا بھی گاوں رہا ہیں امیر الملک سے باذات میری ملاقات کبھی نیہں ہوہا تھا لیکن امیر الملک کو جانتا تھا کہ یہ دوست کون ہیں اور کہاں سے ہیں آج سے سات سال پہلے کچھ دوستوں نے مجھے وتاخ کی طرف آنے کی دعوت دی کہ آپ کچھ دنوں کے لیے ہمارے طرف آئے لیکن میں اس بات کو اپنی بدقسمتی سمجھتا ہوں کہ اس وقت میں وہاں کیوں نہیں گیا تو کچھ عرصے بعد جن دوست کے ساتھ میرا رابطہ تھا وہ دوست محاذ پر شہید ہوئے اور سنگتوں سے میرا رابط ختم ہوا کیوں کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ ایسا واقعہ بھی ہو سکتا ہیں خیر شاہد اس وقت میں ذہنی طور پر کمزور تھا کہ یہ سب تحریک کے حصلے ہیں یہ 7 اپریل 2014 کے دن تھا میں کچھ کام سے خضدار گیا ہوا تھا اور میرا رہائش بھی چھاؤنی کی آس پاس تھا صج کا وقت تھا اچانک دشمن کے ہیلی کاپٹروں کی بے چینی دیکھ کر مجھے انداذہ ہوا تھا کہ سنگتوں کے کیمپ پر آپریش ہوا ہیں اور پریشان بھی تھا کہ یا اللہ دوستوں پہ خیر کرنا اس پریشانی میں میں نے کافی دوستوں سے رابطے کرنے کی کوشش کی کہ دوستوں کا حال حوال لے سکوں لیکن دو دن بعد جب میری نظر اخبار میں ایک خبر پر پڑا جس میں تنطیم بی ایل اے نے اس بات کا دعوہ کیا تھا کہ دشمن کے ساتھ جھڑپ ریاستی فوج کے متعدد اہلکار ہلاک ہوہے ہیں ہمارے تین ساتھی بھی دشمن کے ایس ایس جی کمانڈوز کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوہے ہیں جن میں شہید امیرالملک قلندرانی کا نام بھی تھا۔ سنگت امیر الملک کے ایک قریبی دوست سے ملنے کا موقع ملا تو اس دوست نے کہاں کہ امیرالملک ہر وقت نہے دوست بنانے کی کوشش میں لگا رہتا تھا اور سب دوستوں کا رابطہ سنگت امیر کے ساتھ تھا امیر کے شہادت کے وقت اس کے موبائیلز کا ایک بیگ بھی اس کے ساتھ تھا جو ہر دوست کے رابطے کے لیے الگ موبائل استمال کرتا تھا دوستوں کا کہنا تھا کہ جب دشمن کے ہیلی کاپٹروں کے صبح سویرے کیمپ پر حملہ کیا تو سب دوست دشمن کے گھیرے سے نکلنے میں کامیاب ہوہے بدقسمتی سے امیر الملک اور اس کے دو نہے دوست گھیرے میں پنس گیے اور دشمن کے ساتھ مقابلہ کر کے آخر میں گولیاں ختم ہونے کی وجہ سے بجائے دشمن کے سامنے سرینڈر کرنے کی آخری گولی کا انتخاب کر کے جام شہادت نوش کیا جب سنگتوں کو امیر کی شہادت کی اطلاع ملا تو کچھ دوست پریشان تھے کہ وہ موبائل والا بیگ بھی شاہد کے ہاتھ لگ گیا ہیں تو وہاں موجود ایک دوست نے ضد کی کہ ہم وہاں جا کر اس جگہ کو تلاش کرتے ہیں شاید امیر جان نے وہ بیگ چھپایا ہو بعد میں دوستوں کے درمیان فیصلہ یہ ہو کہ چند دوست امیر الملک کے شہادت کی جگہ جا کر اس بیگ کو تلاش کرے گے جب کچھ دوست وہاں پنہچے تو شہید امیرالملک نے بطور نشانی سگریٹ پی کر اس کا آدھا حصہ وہاں چھوڑ دیا تھا تاکہ دوست سمجھ جاہے وہ موبائل والا بیگ یہاں موجود ہیں امیر جان کی اس عقل سمجھداری اور گوریلا پالیسوں کو دیکھ کر کبھی کبھی یہ سوچتا ہوں یار امیر آپ کچھ وقت اور ہمارے ساتھ ہوتے ہمیں آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا۔ ایک اور دوست اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ امیرالملک کی خواہش تھی کہ اسے نیو کاہان شہداء قبرستان میں دفن کیا جائے لیکن امیر جان کے شہادت کے وقت دشمن نے تمام راستوں کو بند کر رکھا تھا اور امیر جان کو جب پہاڑوں میں پارود کے مقام پر سپردخاک کیا گیا تو دشمن ایک مہینے بعد 14 مہئ 2014 کے دن اس کے آخری آرام گاہ پر آہ کر ہیلی کاپٹر سے شیلنگ شروع کردیا تھا امیر الملک وہ گوریلا دوست تھا جس نے دشمن کے نیندوں کو حرام کر رکھا تھا امیر کے جانے کے بعد اس اس خلا کو کوئی پر نہیں کرسکتا لیکن ہمیں آگے آکر امیر الملک کے چھوڑے ہوئے کاموں کو آگے لے جانا ہیں اور جو خواب شہید امیرالملک نے اپنے آنے والے نسل کے لیے دیکھا تھا ہمیں اس خواب کو پورا کرنا ہیں ۔

“مجھے ایک دن مار دیا جائے گا، لیکن میرے بعد کوئی اور آئے گا”


“مجھے ایک دن مار دیا جائے گا، لیکن میرے بعد کوئی اور آئے گا”



آج سے نو سال پہلے ایک متحرک اور ذہین نوجوان نے نیوز لائن میگزین کو تین بلوچ رہنماوں غلام محمد بلوچ، شیر محمد بلوچ اور لالا منیر بلوچ کے شہادت کے دن انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ” میں جانتا ہوں بلوچستان میں حقیقی سیاست کرنے کا انجام کیا ہوتا ہے، ایک دن مجھے مار دیا جائے گا، لیکن میری موت مجھے دور نہیں کرے گی، میرے بعد کوئی اور آئے گا اور اس طرح آزادی کیلئے ہماری یہ جدوجہد جاری رہے گی۔” اس پچیس سالہ نوجوان نے اپنا تعارف زاہد کرد بلوچ کے نام سے کی تھی اور وہ اس وقت بلوچستان کے ایک بڑے طلباء تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سیکریٹری جنرل تھے اور کراچی یونیورسٹی میں سیاسیات کے شعبے میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ وہی زاہد بلوچ آگے جاکر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرمین بنتے ہیں۔ اگر آپ بلوچستان کے بارے میں معلومات کیلئے پاکستانی میڈیا یا سرکاری بیانیئے تک اکتفاء کرتے ہیں تو پھر شاید آپ یہ سمجھیں کہ بی ایس او آزاد پنجاب کے طلباء تنظیموں کی طرح یونیورسٹیوں میں غنڈہ گردی کرنے والا کوئی چھوٹا موٹا تنظیم ہے یا پھر اگر آپ آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز زیادہ پڑھتے ہیں تو پھر شاید یہ سمجھیں کہ یہ کوئی دہشتگرد تنظیم ہے۔ ان دونوں بیانیوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ بی ایس او بلوچ سماج اور سیاست میں جز لاینفک کی حیثیت رکھتی ہے، اسکے اثر انگیزی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں، دوسرے عمومی طلباء تنظیموں کے برعکس اس طلبہ تنظیم کو کسی پارٹی نے جنم نہیں دیا بلکہ اس طلبہ تنظیم کے کوکھ سے کئی پارٹیوں حتیٰ کے مسلح تنظیموں تک کی جنم ہوئی ہے۔ اس لیئے بی ایس او کو بلوچ سیاست میں ” مادر تنظیم ” کہا جاتا ہے۔ لہٰذا اس تنظیم کے سربراہ ہونے کے معنی بلوچ سیاست اور بلوچ سماج میں بہت معنی اور اثر رکھتی ہے۔ زاہد بلوچ اسی تنظیم کے جمہوری طور پر منتخب چیئرمین تھے، وہ جانتے تھے کہ اتنی بڑی ذمہ داری کی قیمت بھی اتنی ہی بھاری چکانی پڑے گی، جس کا اشارہ وہ بہت پہلے دے چکے تھے۔ آج سے چار سال پہلے 18 مارچ 2014 کو زاہد بلوچ تنظیمی دورے پر بلوچستان کے شہر کوئٹہ جاتے ہیں اور وہیں سے خفیہ اداروں اور پاکستانی نیم فوجی دستے فرنٹیئر کور کے ہاتھوں عینی شاھدین کے سامنے اغواء ہوتے ہیں اور آج چار سال گذرنے کے باوجود وہ تاحال لاپتہ ہیں۔ اس واقعے کے عینی شاھد کے طور پر اس وقت کے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے وائس چیئرپرسن اور موجودہ چیئرپرسن کریمہ بلوچ بیان دے چکے ہیں کہ زاہد بلوچ کو انکی آنکھوں کے سامنے اٹھایا گیا، جس کے بعد وہ کوئٹہ کے سریاب تھانے ایف آئی آر درج کرنے گئی لیکن پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔ ” گذشتہ نو سالوں سے خاص طور پر بی ایس او آزاد کے سابق سینئر وائس چیئرمین ذاکر مجید کے اغواء کے بعد سے پاکستان خفیہ ادارے اس بات پر کمربستہ ہیں کہ ہر حال میں بی ایس او آزاد کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے، ہمارے مرکزی رہنما تو درکنار ہمارے عام کارکنوں تک کو نہیں چھوڑا جارہا اور انہیں مار دیا جاتا ہے، چاکر بلوچ، مجید بلوچ اور بالاچ بلوچ کی عمر تو بمشکل 12 سے 14 کے درمیان تھی، انہیں صرف بی ایس او آزاد کے کارکن ہونے کی پاداش میں اذیت ناک تشدد کرکے شہید کیا گیا، لیکن ان حالات کے باوجود زاہد بلوچ شہر شہر اور گاوں گاوں جاکر کارکنوں اور لوگوں سے ملتے تھے اور تنظیمی کام کرتے تھے۔” زاہد بلوچ کے قریبی دوست اور بی ایس او آزاد کے ایک سابق مرکزی رہنما نے دی بلوچستان پوسٹ سے زاہد بلوچ کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ آخر وجہ کیا تھی کہ زاہد بلوچ اتنا خطرہ مول کر تنظیمی دوروں پر نکلتا؟ تو اس نے کہا ” زاہد یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ چاہے حالات جتنے بھی ناگفتہ ہوں، پھر بھی آزادی کیلئے پر امن طریقے سے جدوجہد کی جاسکتی ہے، وہ باور کرانا چاہتا تھا کہ آزادی مانگنے کیلئے ضروری نہیں ہے کہ صرف بندوق اٹھائی جائے بلکہ پر امن رہ کر قلم و زبان اور سیاسی طریقوں سے بھی یہ لڑائی لڑی جاسکتی ہے، وہ بلوچستان کے سیاسی میدانوں کو ویران دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ انکو بندوق نا اٹھانے کی سزا ملی ہے، اگر وہ بندوق اٹھاتے تو اس وقت وہ زندہ ہوتے یا پھر شہیدوں میں گنے جاتے لیکن اب وہ نا زندہ ہیں نا ہی مردہ” زاہد بلوچ کے اغواء کے بعد متعدد انسانی حقوق کے اداروں نے اسکے اغواء کا نوٹس لیا اور پاکستان پر دباو ڈالا کے وہ زاہد بلوچ کی فوری رہائی یقینی بنائیں۔ اس حوالے سے ایشین ہیومین رائٹس کمیشن نے 25 اپریل 2014 کو ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر زاہد بلوچ کے اغواء کا الزام لگایا اور رہائی کا مطالبہ کیا۔ اسی طرح ایشین لیگل ریسورس سینٹر نے 16 جون 2014 کو زاہد بلوچ کے جبری گمشدگی کا نوٹس لیکر ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں زاہد بلوچ کے اغواء کا ذمہ دار خفیہ اداروں کو ٹہرایا گیا اور زاہد بلوچ کے رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 19 مئی 2014 کو بیک وقت دو زبانوں انگریزی اور فرانسیسی میں نوٹس جاری کرتے ہوئے، پاکستانی حکام سے زاہد بلوچ کے رہائی کا مطالبہ کیا تھا، جس میں فرنٹیئر کور پر زاہد بلوچ کو اغواء کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ 29 اپریل 2014 کو ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرپرسن زہرہ یوسف نے بھی پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے زاہد بلوچ کے رہائی کا مطالبہ کیا تھا اور خفیہ اداروں کو مورود الزام ٹہرایا تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے علاقائی اور عالمی انسانی حقوق کے اداروں نے زاہد بلوچ کے رہائی کیلئے کوششیں کرتے رہے لیکن کچھ بارآور ثابت نہیں ہوا۔ گذشتہ چار سالوں سے مسلسل زاہد بلوچ کے رہائی کیلئے پرامن احتجاج بلوچستان و کراچی سمیت دنیا کے کونے کونے میں وقتاً فوقتاً جاری ہے۔ ان احتجاوں میں سب سے قابلِ ذکر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی کمیٹی کے رکن لطیف جوھر بلوچ کی 46 روزہ بھوک ہڑتال ہے۔ انہوں نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کرکے احتجاج کا آغاز کردیا لیکن 46 روز گذرنے کے بعد جب انکی حالت ناگفتہ بہ ہوگئی اور وہ قریب المرگ ہورہے تھے تو بہت سے انسانی حقوق کے اداروں نے ملکر یقین دہانی کرائی کے وہ اس بات کو ممکن بنائیں گے کہ زاہد بلوچ جلد از جلد چھوٹ جائیں، جس کے بعد انہوں نے احتجاج ختم کردیا تھا۔ اس حوالے سے دی بلوچستان پوسٹ نے لطیف جوھر بلوچ سے گفتگو کی اور دریافت کیا کہ بھوک ہڑتال کے بعد ان اداروں کی یقین دہانیوں کے بابت ابتک کیا پیشرفت ہوئی ہے تو انہوں نے کہا ” اُن یقین دہانیوں سے کچھ نہیں ہوا، ایچ آر سی پی نے یقین دہانی کرائی تھی، انکی تو خود اپنی اتنی بڑی رسائی نہیں ہے لیکن اسکے باوجود انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ ہم نے ایک دو بار درخواست کی تھی کہ ہمیں اقوام متحدہ تک جانے کیلئے مدد کریں لیکن وہ یہ بھی نہ کرسکے، تو بعد میں ہم اپنی مدد آپ کے تحت، رابطے پیدا کرکے جنیوا تک گئے اور زاہد سمیت باقی اغواہ شدہ افراد کے مقدمات وہاں پیش کرنے میں کامیاب ہوئے، اسی طرح یو این ورکنگ گروپ نے تمام کیسز کے متعلق پاکستان سے پوچھ کر ہمیں بتایا کہ پاکستان کوئی جواب نہیں دے رہا ہے۔” زاہد بلوچ ایک طلبہ رہنما تھے، وہ قلم و کتاب اور اظہارِ رائے کے ذریعے اپنی جدوجہد کرنا چاہتے تھے، گوکہ آپ اسکے رائے سے اختلاف رکھ سکتے ہیں، لیکن اسکا طریقہ پرامن تھا، جب پر امن طریقوں پر قدغن لگائی جائے گی پھر نوجوانوں کے پاس بندوق کا سہارہ لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ 18 مارچ 2018 کو زاھد بلوچ کے اغواء کو چار سال پورے ہورہے ہیں اور ان چار سالوں میں بلوچستان میں جاری جنگ کم ہونے کے بجائے محض شدت اختیار کرچکا ہے، یہ بات یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ زاھد بلوچ جیسے طالبعلم رہنماوں کے خاتمے سے آپ سیاسی میدان ضروری ویران کردیں گے لیکن جنگی میدان مزید سجیں گے۔ #SaveZahidBaloch

’’جدائی کا احساس دلانے والی اداس رات‘‘ Shaheed Commander Ali Sher Kurd Baloch


’’جدائی کا احساس دلانے والی اداس رات‘‘ Shaheed Commander Ali Sher Kurd Baloch



’’جدائی کا احساس دلانے والی اداس رات‘‘ Shaheed Commander Ali Sher Kurd Baloch وہ ایک اداس رات تھی تنہاءی میں بیٹھ کر ایک کونے میں اس شخص کے بارے میں سوچ رہا تھا جوجاتے وقت کہتا تھا کہ “رخصت اف اوار ان سنگت” لیکن وہ رخصت کیے بغیر ہمیشہ کے لیے کچھ اس ادا سے بچھڑ گیا کے رت ہی بدل گءی ، وہ شخص ایک پورے کارواں کو ایک قوم کو اداس کر گیا ۔ دل میں ان کی جداءی پر ایک چھبن سی محسوس ہورہی تھی یادوں کی سمندر میں غوطہ زن ہو گیا ان کا مسکراتا ہوا چہرہ یاد آیا ، جب ہم مایوس ہوتے تو وہ ہمیں بٹھاتے اور سیاہ چاءے کی پیالی تھماتے اور امید بندھاتے ، ایسا لگ رہا تھا جیسے سب کچھ ختم ہوگیا ہو ، کون اس کی جگہ لے گا؟ دل ہی دل میں خود سے سوال کیا تب خود ہی برجستہ دل بیقرار کو خود جواب دیا کے کوءی نہیں اس کی جگہ لے سکتا ۔ کہاں سے ڈھونڈ کر لاءے گے ہم تجھے اب ؟ اسی سوچ میں غلطاں تھے کہ ان کی آواز اچانک کانوں سے ٹکراءی کے رخصت اف اوارن سنگت ۔ بے اختیار آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے درد کے جس کا پیمانہ نہ تھا جداءی کے احساس کا دکھ جو مسلسل طویل ہوتا جارہا تھا۔ایک مرتبہ پھر وہی آواز سناءی دی گویا وہی شخص مجھ سے مخاطب ہو مگر کیسے وہ تو بچھڑ چکا ہے لیکن کہتے ہیں کہ جو لوگ ایک مقصد کے لیے جان دیتے ہیں وہ کبھی نہیں مرتے بلکہ وہ ہر جگہ اپنے عظیم مقصد کے ساتھ آپ کو ملتے ہیں ۔ لیکن یوں لگا کہ شاید میں اس انسان کے بارے میں مسلسل سوچ رہا ہوں اسی لیے ان کی آواز مجھے سناءی دے رہی ہے یہ میرا وہم ہے ۔لیکن پھر وہی آواز سناءی دی نرم لہجے میں کہ ” غم کپبو زیبا منزل خڑک ء” ۔تب برجستہ کہا کے سنگت کہاں ہو آپ ایک ایسے وقت میں ہمیں چھوڑ کر چلے گءے جب آپ کی ہمیں سخت ضرورت تھی ۔ تب ایک سرد آہ بھری اور کہا سنگت اس سے زیادہ ایک انسان کی خواہش کیا ہوتی ہے کہ وہ اپنے قوم کی آزادی کے لیے جدوجہد کرے اور اپنے وطن کو آزاد ہوتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے لیکن جیسے کے ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ جس راہ کا ہم نے انتخاب کیا ہے وہاں ہر وقت موت سے بغل گیر رہنے کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے اور موت تو ایک تلخ حقیقت ہے اس سے انکار نہیں کرنا چاہیے بلکہ زندگی اپنے قوم کے لیے اگر گذارے انسان تو پھر اسے بخوشی موت کو گلے سے لگانا چاہیے کیونکہ اس نے جو زندگی گذاری وہ فضول نہیں گذاری بلکہ ایک فکر کے تحت ایک مقصد کے لیے ، انسان کے سر کو قلم کرکے زندہ خیالوں کو نہیں مارا جاسکتا ۔ پھر ہمیں چے گویرا کے یہ الفاظ بھی اچھی طرح یاد ہیں کہ موت ہمیں جہاں بھی آلے ہم اس کا مسکرا کراستقبال کریں بشرطیکہ ہمارے مقصد کو آگے لے جانے کے لیے دیگر ساتھی موجود ہوں ۔پھر شہیدوں کے خون سے روشنی کی جو سوتیں پھوٹتی ہیں وہ پورے قوم کے لیے راہیں روشن کردیتی ہے اور شہید کی قربانیوں کو تمام عمر یاد رکھا جاتا ہے۔ ان کی سنجیدگی اور شعور پر فخر کیا جاتا ہے ان کا عمل تجربے کی صورت میں آنے والی نسلوں کی رہنماءی کرتا رہے گا اور شہیدوں کی قربانیاں انہیں اس منزل کی جانب قدم بڑھانے پر مجبور کریں گی جسے آزادی کہتے ہیں ۔ پھر وہ خاموش ہوگءے ، پوچھا بتاءو کیسا ہے میرا بلوچ کیسا ہے میرا بلوچستان ؟ وطن کی جڑی بوٹیوں سے لے کر قوم کے ہرفرد کا خاص خیال رکھنا اور خیال رکھنا کے ان کو کوءی ستاءے نہیں ۔آج ایک سخت گھڑی قوم پر آءی ہے تکالیف اور دکھوں کا شکار ہیں لیکن یہ دن بدلے گے اور عظیم بلوچ قوم کے عظیم نوجوانوں کو آگے آنا ہوگا اس قوم کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہوگی تحریک میں اپنا سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا ، شعور کے ساتھ پختگی کے ساتھ ایک قوم بننے کا احساس جو پیدا ہوا ہے اسے عملی شکل دینا ہوگا اور جب ہم ایک قوم کی حیثیت سے لڑیں گے تو پھر فتح ہماری ہوگی اور یہی تو شہیدوں کے ارمانوں کی تکمیل ہے ۔ تب میں نے پوچھا کے بابو لیکن قوم تو تقسیم در تقسیم کا شکار ہے ؟تب ایک سرد آہ بھری اور گویا ہوءے کہ گروہانہ سوچ اس قدر حاوی ہوچکی ہے کہ ایک قوم بننے کے احساس کو فروغ دینے کی بجاءے ہم اس قوم کے زخمی وجود پر مزید وار کر رہے ہیں اور دشمن کو یہ موقع فراہم کررہے ہیں کہ وہ آءے اور ہمیں مزید نقصان پہنچاءے ۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہمیں ایک قوم بننا ہے۔ جب بھی کچھ ساتھی لیڈر پرستی او شخصیت پرستی کا شکار ہوکر کہتے کہ عطا اللہ مینگل و میر غوث بخش بزنجو غدار ہے تب میں بالکل اکتا جاتا اور کہتا کہ اگر ہم مخلص ہے تو پہلے ہمیں اپنے عمل کا جاءزہ لینا چاہیے کہ ہم بلوچ قوم کے لیے کیا کر رہے ہیں اگر ہم مخلص ہیں تو ہمیں قوم کے مفاد میں جدوجہد کرنی چاہیے ہر وہ ذریعہ اپنا نا چاہیے جو ہمیں ایک قوم بناتا ہے جو ہمیں آزادی دلاتا ہے ، کون غدار ہے اور کون مخلص یہ فیصلہ تاریخ کرے گی بلوچ قوم کرے گی اگر ہم نے اپنی تمام تر صلاحیتیں اپنے فکری اور علاقاءی مخالفین کو غدار قرار دینے میں صرف کردی تو پھر ہم خود نہ صرف بلوچ تحریک کو بلکہ بلوچ قوم کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دے گے ۔ ہاں اگر کوءی بلوچ قومی مفاد کے سامنے بالکل کھڑا ہوجاتا ہے تو پھر بلوچ تنظیمیں موجود ہیں اور وہ مکمل تحقیق اور ثبوت کے ساتھ ان کے خلاف کارواءی کا حق رکھتی ہیں لیکن کسی کو غدار قرار دینا انفرادی خواہش یا فکری اختلاف نہیں ہونا چاہیے ۔ آج کا وقت تقاضہ کر رہا ہے کہ ایک قوم بن کر جدوجہد کی جاءے اب تک ہم گروہوں میں تقسیم ہیں اور اس مرحلے تک ہم اپنی شعور اپنی جدوجہد اپنی قربانیوں اپنی کامیابیوں اپنی غلطیوں کی بدولت پہنچے ہیں ۔ ہمیں کسی چیز کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ تمام چیزوں کو اپنے سامنے رکھتے ہوءے قوم کو متحد کرتے ہوءے اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا چاہیے ہمیں اپنی غلطیوں کو قطعاً نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ہمیں اپنی غلطیوں کو زیادہ سے زیادہ زیر بحث رکھنا چاہیے تاکہ ان غلطیوں کو رفع کیا جاءے ان سے سیکھا جاءے اور ان کو دہرایا نہیں جاءے آزادی حاصل کرنے کی راہ میں حاءل سب سے بڑی رکاوٹ اس کی کمزوریاں ہوتی ہیں اور تقسیم در تقسیم رہنا سب سے بڑی کمزوری ہے ۔یہ وقت ایک دوسرے پر اخبارات میں الزام تراشی کا نہیں دشمن نے ہم پر یلغار کیا ہے ہمارے نوجوانوں کو شہید کیا جارہا ہے ایسے میں بلوچ لیڈروں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور قوم کو متحد کرنے کے لیے ایک قومی لاءحہ عمل دینا چاہیے ۔ بلوچ مسلح تنظیموں اور بلوچ سیاسی پارٹیوں کو ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی بجاءے جدید اور مضبوط ادارے تعمیر کرنا چاہیے جو ایک قومی تشکیل کے لیے راہ ہموار کرسکے ہمیں کسی ایک فرد تک کسی ایک گروہ تک اپنی سوچ کو محدود نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ لہو جوبہتا ہے بلوچ کے لیے بہتا ہے اور بلوچستان پر بہتا ہے اور قومی مقصد کے لیے بہتا ہے ہمیں اس لہو کو قوم کو متحد کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے نہ کہ قوم کے درمیان مزید نفرت کی لکیریں کھینچنی چاہیے یقین کرو اگر ہم اپنے آپ کو کسی ایک شخصیت یا پھر گروہ تک محدود کریں گے تو پھر ہمیں سمجھنا ہوگا کہ وفاداری سوچ کے تابع ہوتی ہے اگر ہم شخصیت یا گروہ تک اپنی سوچ کو محدود رکھیں گے تو پھر ہماری وفاداری بھی صرف اسی گروہ یا شخصیت سے ہوگی لیکن اگر ہماری وفاداری بلوچ سے ہوگی بلوچستان سے ہوگی تب ہی ہم اپنے شہدا کے ارمان کی تکمیل کر پاءیں گے ۔تب وہ خاموش ہوءے لمحے کے لیے ہم نے کہا بابو کہ جو آج قوم کو متحد کرنے کی باتیں کررہے ہیں انہیں بالکل نظر انداز کیا جارہا ہے انہیں سازشی عناصر قرار دیا جارہا ہے ان کی وفاداری پر سوال اٹھایا جارہا ہے ۔ چند لمحوں کی خاموشی کی بعد وہ کہنے لگے یہ ہماری غلامانہ سوچ کے علاوہ اور کچھ نہیں ،تین کروڑ کی آبادی پر مشتمل تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں رابطے کی کمی کے باعث ایک دوسرے کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں جب ہم خواہشات کے محتاج ہوتے ہیں تو پھر ہمیں لگتا ہے کہ ہم ایک گروہ کے طور پر اپنی منزل حاصل کرسکتے ہیں لیکن جب ہم خواہشات کے برعکس حقیقت کو اپنے سامنے رکھیں گے زمینی حقاءق اور جدوجہد کی ضرورتوں کو اپنی خواہشات پر قربان کریں گے قوم کو ہر چیز پر ترجیح دے گے تو پھر یقیناً ہمارا فیصلہ یہی ہوگا ہماری کوشش یہی ہوگی کہ کس طرح ایک قوم ہونے کے توانا احساس کو عملیجامعہ پہنایا جاءے ۔پھر وہ چپ ہوگءے اور ہم نے یہ سوال کرکے سکوت توڑا کہ بابو وہ قلم جسے آپ نے اٹھایا تھا وہ قلم ایک قوم بننے کا شعور دیتا تھا جو تربیت کے راز اگلتا تھا جس سے اپنے قوم کے لیے محبت کے چشمیں پوٹھتی تھیں جس سے دشمن کے لیے بالاچ کا بیرگیری جذبہ ظاہر ہوتا تھا لیکن اب وہ قلم ساکن ہے ۔ آج لکھنے و الے تو ہیں لیکن ان کا قلم نفرت کا زہر اگلتی ہے جن کی دانشوری صرف اس حد تک محدود ہے کہ کس طرح فکری یا علاقاءی مخالف کو نیچا دکھایا جاءے بابو کیا آپ اسے دانشوری کہیں گے ؟ ایک درد بھری آہ بھری اور کہنے لگے یہ کہاں کی دانشوری ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو ایک گروہ یا پھر شخصیت پر کیچڑ اچالنے تک محدود کرنا بلکہ یہ بدقسمتی کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتی کہ قلم موجود ہو لیکن اس کا صحیح استعمال نہ کیا جاءے کیا ہم نہیں سمجھتے کہ فکری یا علاقاءی مخالفین کو نیچا دکھانے سے زیادہ ہمیں قومی اداروں کے اوپر لکھنے کی ضرورت ہے ، ہمیں اچھی طرح سے سمجھنا ہوگا کہ انقلابی جدوجہد ایک تخلیقی عمل ہے سیکھنے اور سکھانے کا خوبصورت عمل ہے ، ہمیں سنجیدگی سے سیکھنا چاہیےاور ایمانداری سے اسے قوم تک منتقل کرنا چاہیے یہی چیز تحریک کو پروان چڑھاءے گی ہمیں ایک قوم بناءے گی اور جب ہم ایک قوم ہونے کا ادراک حاصل کر لیں گے تو پھر ہمیں کوءی غلام نہیں رکھ سکے گا ۔اگر سیکھنے اور سکھانے کا عمل ختم ہوجاءے تو پھر انقلابی جدوجہد کو تخلیقی عمل کی ہرگز نہیں کہا جاسکتا پھر پاکستان کے بوسیدہ اور بانج تعلیمی نظام اور بلوچ تحریک میں کیا فرق رہ جاءے گا جہاں ڈگری یافتہ تو ہونگے لیکن باعلم اور با صلاحیت نا پید۔ لفظ کی اہمیت سے آشنا ہونا چاہیے ہمیں جب ہم لکھتے ہیں تو پھر ہمیں یاد رہنا چاہیے کہ ہم ایک قوم کی خاطر لکھ رہے ہیں کسی کو نیچھا دکھانے کے لیے نہیں بندوق ہو یا قلم اسے ایک فکر کا محتاج ہونا چاہیے اسے عوام کی رہنماءی کرنا چاہیے ۔ بلوچ قوم آج کس دوراہے پر کھڑا ہے ؟ بلوچ تحریک آج کن مشکلات سے دوچار ہیں ؟ ہماری غلطیاں کیا ہے جن کے سبب ہمیں نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے ؟ قومی تحریک میں اداروں کی اہمیت اور بلوچ قومی تحریک میں جدید قومی اداروں کی تشکیل کیوں نہیں ہو پارہی ؟ بلوچ تحریک میں دانشور کا کردار اور تقسیم در تقسیم کے عمل کو روکنے میں بلوچ دانشور کس حد تک اپنی صلاحیتوں کا استعمال کررہا ہے ؟ بلوچ لیڈر شپ کس حد تک وقت کے مطابق صحیح فیصلے کررہے ہیں ؟ بلوچ نوجوانوں کی اغوا نما گرفتاریوں کے خلاف کیا پالیسی بناءی گءی ہے اور اس پر کس حد تک عمل کیا گیا ہے ؟ یہ وہ چیزیں ہیں جن پر بلوچ دانشور کو لکھنا چاہیےاور قوم کو آگہی دینی چاہیے۔ جب ملاقات ختم ہونے کا وقت ہوا تب ہم نے کہا بابو کوءی پیغام بلوچ نوجوانوں کے لیے ؟تب انہوں نے کہا کہ بلوچ نوجوانوں کو لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو بلوچ قوم کے روشن مستقبل کے لیے اپنا کلیدی کردار شعور ،سنجیدگی اور پختگی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے ، اپنی صلاحیتیں بلوچ تحریک کے لیے قربان کرنی چاہیے ایک قوم ہونے کے احساس کو عملی جامع لازمی پہنانا چاہیے کیونکہ وقت کا سب سے اہم تقاضہ یہی ہے کہ اتحاد اتحاد اور صرف اتحاد ، اتحاد آزادی کے لیے ۔ اتحاد شہیدوں کے ارمانوں کی تکمیل کے لیے۔ اپنی جدوجہد کو منزل کے حصول تک جاری رکھیں۔ آزاد بلوچستان زندگ بات پھر وہ جاتے وقت اتنا کہہ گئے رخصت اف اوارن سنگت ۔
x

شہید یوسف جان کا نظریہ و فکر - تحریر: مرشد بلوچ


شہید یوسف جان کا نظریہ و فکر - تحریر: مرشد بلوچ


تحاریک اجتماعی سوچ کو پروان چڑھانے کا سب سے اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔ اس سوچ، نظریہ اور فکر سے لیس کرداروں کو ہم جابجا دنیا کے تحاریک میں دیکھتے ہیں۔بسا اوقات اس سوچ کے عامل افراد کی قربانیوں کو دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے اور یہ سوچنے پہ مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ کونسا جذبہ ہے جو ان کرداروں کو ناقابل یقین کارنامے سرانجام دینے کی جانب اکساتا ہے۔ ان کے ان کارناموں کو جو کسی عام انسان کے لیے ناقابل یقین امر ہیں یہ ناقابل عمل ہی انہیں سماج میں دوسروں سے منفرد بناتا ہے اور ان کی یہی انفرادیت ہی انہیں تاریخ میں تخت مینا پہ پہنچاتی ہے۔ دنیا کے دیگر تحریکوں کی مانند بلوچ قومی تحریک میں بھی ہم یرمقام پہ عظمت کے ان پیامبروں کے انمٹ کارناموں کو دیکھ سکتے ہیں جو اپنی ذات سے نکل کر قومی آزادی کے لئے خود کو مسکراتے مسکراتے فدا کرتے۔ اور آج میرے سامنے اُن کا مسکراتا ہوا چہرا صاف دکھائی دے رہا اور لگتا ہے کہ وہ میرے روبرو ہے، وہ مجھ سے ہمکلام ہے، میرے کانوں میں اس کی باتیں اذان کی گونج رہے ہیں، وہ کہہ رہا ہے کہ مجھے اُن بااعتماد لیڈروں نے فرض ،قرض، عشق آزادی، غلامی ،لیننزم ،مارکسزم ،نظریات ،وطن دوستی کے علوم سے آشناء کیے اور ان رہنماوں سے ایک رہنماء جس نے مجھے جینے کا سلیقہ سکھایا، جس نے کہا کہ اگر ابدی زندگی کی تمنا رکھتے ہو تو اجتماعی سوچ کے ساتھ آگے بڑھتے رہو اس وقت تک جب تک کہ تیرے لہو سے لہو سے یہ سرزمین سیراب نہ ہو۔ زندگی میں لوح آزادی روشن کرنے والا کوئی اور نہیں انکے اپنے گھر میں پیدا ہونے والا بڑا بھائی اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن {آزاد} کےاسیر رہنماء زاہد بلوچ ہے جو گزشتہ چھ سالوں سے پاکستان کے عقوبت خانوں میں قوم و وطن کے روشن مستقبل کے لیے اذیت سہہ رہا ہے۔ یوسف مسکرارہاہے اس کی مسکراہٹ اس بات کی جانکاری دے رہا ہے کہ میں زاہد کی تعلیمات کی لاج رکھ دی وہ تعلیمات جن میں انسان خود کو مقصد عظیم پہ نثار کرتا ہے، وہ تعلیمات جن پہ عمل ہی اجتماعی شعور کا ذریعہ ہے ہاں جان تو چلی جائے گی اس سفر میں پر زندگی کا سفر کبھی ختم نہیں ہوگا کیونکہ اس سوچ کے ساتھ جسمانی طور پر رخصت ہونے کے ساتھ انہی راہوں پہ کارواں محوسفر ہونگے اور یہ سفر اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ منزل کا حصول ممکن نہ ہو۔۔۔ یوسف کرد اسی کارواں کا داعی تھا وہ یوسف جس کا جنم بلوچستان کے علاقہ نال حاجی الی بخش کے گھر ہوا۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں اورمڈل و میٹرک بلوچستان کے مختلف علاقوں سے حاصل کیے یوسف بلوچ سن 2012 میں بلوچ قومی تحریک آزادی میں ایک مسلح مزاحمتی تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ میں ایک سپاہی کی حیثیت اپنے فرائض ادا کرتارہا۔ میری ملاقات یوسف جان سے کب اور کہاں ہوئی مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔میں نے یوسف کو اپریل 2013 میں جاءآہو سورگر کے پہاڑوں میں بی ایل ایف کے ایک کیمپ میں دیکھا۔میں بزات خود وہاں یوسف کے اخلاق ،مہر ودوستی ،پارٹی کے نظم وضبط کی پابندی سے بہت متا ثر ہوا۔ وہ ایک سادہ مزاج اور مضبوط ڈسپلن کا مالک سرمچار تھا، ہر وقت انکے چہرے پر مسکراہٹ ہی مسکراہٹ تھا وہ کبھی بالگتر کے پہاڑوں میں ،کبھی زامران ، کبھی شاشان ،اور کبھی بولان و شور کے پہاڑوں میں دشمن کے خلاف برسر پیکار رہا ۔کچھ مدت کےبعد یعنی سال 2014 میں کچھ مدت کے بعد بی ایل ایف چھوڑ کر ایک اور بلوچ مزاحمتی تنظیم بلوچ ،لبریشن، آرمی میں شامل ہو گیا ۔یوسف جان خود نظم و ضبط کا پابند انقلابی تھا اوردوسروں کوبھی پاپند رہنے کی ہدایت کرتاتھا۔وہ فوجی اصولوں کا اتنا پابند تھا جیسے اس کی رازداری کی مثال دی جاسکتی ہے کہ شہادت سے قبل اس کا اصلی نام کسی کو معلوم نہ تھا یعنی وہ اس قدر رازدار اور انقلابی اصولوں پہ کاربند تھا۔ اُس نایاب اور مسکرانے والا دوست سے ملاقات کا سلسلہ چلتا رہا ۔ تقربیاں 5 مہینے قبل ایک نا معلوم جگہ پہ ہماری ملاقات ہوئی اور میں یہ نہیں جانتا تھا کہ اس دوست سے یہ آخری ملاقات ثابت ہو گی- اس ملاقات میں کافی باتیں ہوئیں اس ضمن میں ہم نے جنگ،آزادی ،غلامی اور جُہد آزادی پہ نئے چیلنجز، پہ گفت وشنید کرتے رہیں اس ملاقات کے وہ الوداعی الفاظ جو یوسف کے لبوں سے نکلیں کہ ہماری بقاء اسی جنگ میں ہے ۔اگر ہم خوشی خوشی اپنے عزیز و رشتہ داروں کے ساتھ یہاں وہاں رہتے رہے تو ہم اپنی مقصد سے روز بہ روز دور ہو جاتے رہینگے۔ اس ملاقات کے کچھ مدت بعد یوسف جان(دودا بلوچ) اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ زامران بلیدہ وگردنواہ میں اپنی تنظیمی کاموں مصروف ہوگیا۔ 29 جنوری 2020کے دن فیس بک دیکھ رہا تھا تو اچانک ایک خبر میرے سامنے سے گزرا تو جلدی میں نے لنک کو کلک کیا اور خبر کو بلند آواز سے پڑھا۔ کہ بلیدہ کے علاقے ناگ میں سرمچاروں اور ریاست کے مہذہبی شدت پسندگروہ اور ڈیتھ سکواڈ کے کارندوں کے درمیان میں شدید نوعیت کی جھڑپیں دونوں طرف سے نقصانات کی اطلاعات۔۔میں نے پوری خبر پڑھ لی۔اس خبر کی تصدیق کے لیے میں چند ایک دوستوں سے رابطہ کیا تو وہاں سے یہ دردناک اطلاع ملی کہ دودا جان چند ساتھیوں کے ساتھ وطن پہ قربان ہوگئے۔اس کے باوجود پہ یقین کرنا میرے لیے محال تھا پر شام کے 5 بجے دشمن نے شہیدوں کے تصویریں شائع کیں جن میں شہید یوسف کرد عرف دودا کے علاوہ جھاءآہو کوہڑو سے تعلق رکھنے والا بی ایل اے کا جانثار سرمچار ناجد عرف سلیم، سامی سے تعلق رکھنے والا بی ایل ایف کا جوان سال ساتھی دولت رسول عرف بابا باران ،بلیدہ زامران سے تعلق رکھنے والا میران عرف دادجان اور گوادر سے تعلق رکھنے والا بی ایل اے کا جانباز دوست شکیل عرف ماما جنید بلوچ کی تصوریں تھیں۔آج شہدائے بلیدہ ہمارے درمیان میں موجود نہیں وہ جسمانی طور پر ہم سے جدا ہیں لیکن اُنکے دیے ہوئے تعلیمات اور نظریات ہمارے رہنمائی کررہے ہیں۔ ان کی تعلیمات جو اجتماعی سوچ کو ہی مقصد کی کامیابی تصور کرتے تھے لہذا ہمیں اسی سوچ کو جو قومی بقاء کا ضامن ہے اسے پروان چڑھانا ہوگا کہ شہداء کا نظریہ اور فکر یہی ہے۔ آخر میں ان تمام شہیدوں کوسرخ سلام پیش کرتا ہوں۔ اور اپنی کم علمی پہ ۔۔۔بلوچ راجی آجوئی سنگر "کا آپریشن اسریچ "کو ان نو عمر شہیدوں کے نام کرتا ہوں ۔اور ان شہیدوں میں سے ایک شہید ناجد عرف سلیم کی ماں "ماس زیبا" بلکہ سارے شہیدوں کی ماں ہے۔ وہ بڑے فخریہ انداز سے تمام شہیدوں کو شہادت پہ مبارک باد دیتی ہوئی کہہ رہی ہے کہ جہد آزادی اور سر زمین سے عشق کیلئے میری پاس اور چار لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں ۔اگر مادر بلوچستان نے چاہا تو ان بچوں کو سر زمین کیلئے قربان کرونگی ۔سلام ہے ایسی بہادر ماں کو جس نے اپنے لخت جگر قربان کیا اور مزید قربانیاں دینے کے لیے تیار ہے۔یہی دراصل اجتماعی سوچ کی نشانی ہے جس قوم اور وطن کے قربانیوں کا درس شامل ہے۔

شہید یوسف جان و ساتھیوں کی کامرانی تحریر: حاجی بلوچ


شہید یوسف جان و ساتھیوں کی کامرانی تحریر: حاجی بلوچ


مجھے تو بہت جمیل ، دلکش ، اور حسین خوبرو لگ رہا ہے، کامیابی و کامرانی اور فتحیابی کا رشتہ شہید یوسف عرف دودا جان اور ساتھیوں کے ساتھ، کیا آپ کو بھی سندر لگ رہا ہے ان کا رشتہ، اپنائیت ،اور آپس داری؟ ہاں بلکل! لیکن میں ایک بات بتاتا چلوں یہ کامیابی اور کامرانی وہ کامیابی اور کامرانی نہیں جو انسان امتحان میں یا کوئی بازی و کھیل میں حاصل کرتا ہے، جو صرف اپنے دائرے تک، اور اپنے مطلب یا غرض تک، یا مفاد تک، صرف علاقائی حوالے تک ہوتا ہے، بلکہ یہ وہ خوبصورت کامیابی اور فتحیابی ہے، جو صرف خوش بخت، خوش قسمت ، اور صاحب نصیب والوں کو ملتی ہے، جو انتیس جنوری دو ہزار بیس کو شہید یوسف عرف دودا جان کو چار ساتھیوں سمیت نصیب ہوا۔ ایک ایسی کامیابی جو علاقائی و قومی بلکہ ملک گیر انٹرنیشنل کامیابی کامرانی اور اقبال مندی ہے، جسے ہر قوم اپنے لیے ہمت افضائی، ہمت انگیزی، حوصلہ داری و دل بڈی سمجھتی ہے، جو ابھی تک غلامی یا محکومی کے شکار ہیں، جو اس غلیظ غلامی، محکومی سے مستقل نجات و چھٹکارا حاصل کرنا اور اپنی آزادی، خود اختیاری و خودمختاری کی شکل و صورت کو دنیا کے سامنے لانا، پیش کرنا، ظاہر و نمایاں رکھنا چاہتے ہیں۔ ان سب کے لیے شہید یوسف عرف دودا اور ساتھی آج روز روشن کی طرح بہادری ،جرات مندی، شجاعت ، مردانگی کا ایک کردار و نمونہ یا مثال بن چکے ہیں۔ خاص طور پر بلوچ قوم اور بلوچ نوجوانوں کے لیے ایک سبق ، درس، وعظ یا نصیحت و ہدایت ہیں کہ بلوچ نوجوان اپنی قومی پہچان و شناخت کو، اور اپنی بقا اور وجود کو فنا ہونے سے بچائیں، شہید یوسف اور ساتھیوں کی قربانی، شہادت آج بلوچ نوجوانوں سے مخاطب ہیں، اگر بلوچ قوم نے خاص طور پر بلوچ نوجوانوں نے اپنی آزادی کی جد وجہد ، دوڑ دھوپ میں ایک ایمان دارانہ، مخلصانہ، سر توڑ کوشش، انتہائی زیادہ محنت نہ کیا ، اور ایک مثالی کردار ادا نہ کیا ، تو بلوچ قومی شناخت و پہچان کو ، اور بلوچ قومی بقا یا وجود کو کوئی نہیں بچا سکتا، سوائے یا بجز خود بلوچ قوم کے۔ اگر ابھی بھی ہم اپنے ہاتھ گالوں پر رکھ کر، یا کمر پر کس کر ، صرف تماشائی بنے رہے، نظارہ کرتے رہے ، اور اس انتظار یا چشم براہ ہوتے رہے کہ اب ظالم ، سفاک کے ہاتھوں کونسے دوست ، کس ماں کے لخت جگر، ماں کی ممتا ، باپ کا سایہ ، بہن کا سہارا ، اور گھر کا روشن چراغ ، شہید ہونے والا ہے، یا ظالموں کے ہاتھوں اغوا ہونے والا ہے، تو میرے خیال میں آج بلوچ قوم کی سب سے بڑی تباہی، بربادی نقصان کا کارن، سبب، علت ہماری منتظر تماشائی بنے رہنے سے ہوئی ہے۔ آج اگر پینتالیس ہزار لوگ دشمن ، ظالم آئی ایس آئی ، ایم آئی یا ان کے بنائے ہوئے ڈیتھ اسکواڈ یا حواریوں کے ٹارچر سیلوں میں پتہ نہیں کیسی کیسی اذیت سہہ رہے ہیں، برداشت کررہے ہیں، دس یا پندرہ ہزار شہید کیئے گئے ہیں، ان سب کے کارن، وجہ، ہماری لا تعلقی، لب بستہ اور خاموش تماشائی دیکھنے سے اتنی بڑی نوعیت کا نقصان ہوا ہے، اب اتنی بڑی نوعیت کی تباہی، نقصان کا مداوا، علاج، چارہ صرف و صرف بے شمار قربانی، بے انتہاء محنت کر کے اپنی جدو جہد میں مضبوطی ، شدت اور تیزی لانے سے ہوگا ، تاکہ جلد سے جلد بلوچ قوم اور بلوچ وطن دنیا میں دوبارہ اپنی آزاد و خود مختار، قانونی حیثیت اپنی شان و وقار کو بحال کرنے میں فتحیاب رہے۔

رسم دلیری کا پاسبان (شہید یوسف بلوچ) تحریر:۔ ڈاکٹرجلال بلوچ

رسم دلیری کا پاسبان (شہید یوسف بلوچ) تحریر:۔ ڈاکٹرجلال بلوچ


     کس نام سے پکاروں مادروطن کے ان فرزندوں کو جو دیوانہ وار خود کو سپردِ زمین کرتے ہیں؟ ان کی وطن سے والہانہ مہر و وفا کی تاریخ کیسے رقم کریں جہاں ”عشق ِوطن“ کے سامنے ہیچ نظرآجائے عشقِ مجنوں؟ وطن اور قوم کے لیے جان نچاور کرنے کی ان کی بیقراری جس میں وہ ان ساربانوں کو بھی مات دیں جو کارواں کو منزل پہ صحیح و سالم پہنچانے کے لیے راہ تلاش کرنے میں خود سے بیگانہ ہوجاتے ہیں ایسی سوچ بیان کرنے کے لیے ان موتیوں کی تلاش میں کہاں صحرانوردی کروں کہ وہ الفاظ مل جائیں جو ایسی ہستیوں کے شایان شان ہوں؟ یقیناً الفاظ کے موجودہ ذخیرے میں ایسے خزینہ الفاط کی قحط ہے جنہیں ادا کرتے ہوئے ان ہستیوں کے کردار کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔۔۔پر نہ جانے ایسی ہستیوں کے لیے کب الفاظ کے وہ موتی تخلیق ہونگے جو ان کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوں۔۔۔ایسی ہستیوں کی ترجمانی جو ان پگڈنڈیوں پہ نقشِ چھوڑرہے ہیں جو منزل کی جانب جاتے ہیں۔۔۔ عظمت کے ان پیامبروں کے لیے جو مسکراتے ہوئے لہو کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔۔۔ اور وطن کے ان سرفروشوں کے لیے جورسم دلیری کو جاویداں کررہے ہیں؟۔ آہ۔۔۔یوسف جان (دودا جان) لکھنے سے قاصر یہ بندہ ِعاجزپھربھی کچھ تحریر کرنے کی جسارت کررہا ہے پر جانتا ہوں کہ رقم ہونے والے یہ الفاظ تیری شجاعت، تیری حب الوطنی، خاکِ مبارک کے لیے تیری زہیری اور وطن سے تیرے عشق کی ترجمانی کے قابل نہیں ہونگے۔۔۔کیوں کہ تیری شان اور تیرے آن کا قد تو شاشان سے بھی بلند تھا۔۔۔اس شاشان سے جس کی دید تو نے آنکھ کھولتے ہی کیا،اس شاشان سے جس کانظارہ آنکھوں کومنور کرکے دلوں کو اس پہ فریفتہ ہونے کی تلقین کرتاہے۔۔۔ تیرے جمال کا نقشہ بنانے کے لیے کیا تدبیر کروں۔۔۔اس جمال کا جو عکس چلتن و بولان ہے،جن کی ایک جھلک دیکھنے کے بعد باربارنظارہ کرنے کی تمنا کبھی ختم ہی نہیں ہوتی۔۔۔ یا۔۔۔ جو مثل ہربوئی ہے،جس کی مہک سے انسان اپنے ہواس تک کھو دیں۔۔۔ تیری سوچ، فکر اور نظریے کو کیسے بیان کروں۔۔۔جس کی گہرائی بحر بلوچ کی مانند ہو، اس بحربلوچ کی جس کا تذکرہ کرتے ہوئے سر فخر سے بلند ہوتا ہے کہ اس نے حمل جیئند کے ناؤ کو سنبھالا دیا۔۔۔اس بحر بلوچ کو جو دشمن پہ قہر برسانے والے چار یاروں کے لیے حال ہی میں خضر بنا۔ یوسف جان (دودا جان) تیرے جیسوں کی شان میں کچھ تحریر کرنے کے لیے تو برناڈ شاہ کے پاس بھی الفاظ نہیں تھے اسی لیے انہوں نے تیرے جیسے ہستیوں کے لیے فقط لفظ”دیوانہ“ تحریر کیا۔۔۔ہاں ایسی ہستیاں تو دیوانے ہی ہوتے ہیں۔۔۔جہاں وہ قوم اور وطن کے لیے اسی دیوانگی میں ایسی راہوں پہ عازمِ سفر ہوتے ہیں جو ایک اجتماع کی منزل ہوتی ہے۔۔۔ایسی منزل جس میں روشن مستقبل کی تعبیر ہوتی ہے۔۔۔ ان دیوانوں کو اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ یہ راہیں پُر آشوب ہیں، پر مستقبل کا ادراک انہیں ہر ستم سے بیگانہ کرتا ہے، اسی لیے تو ان کی دیوانگی ماپنے کا کوئی پیمانہ نہیں ہوتااور نہ ہی ان کی دیوانگی کو مقید کرنے کے لیے اب تک کوئی سرحد وجود میں آیا۔۔۔ ایسے دیوانے رسم حیات کے پیامبر ہیں۔۔۔انہی کے کردار کی بدولت ہی تاریخ میں روشن ابواب کا اضافہ ہوتا ہے، یہی وہ ہستیاں ہیں جن کے لہو کی سیرابی کی بدولت ہی بارش کی بوندے جب خاک میں مل جاتے ہیں تو فضاؤں میں ایسی مہک اٹھتی ہے جسے بیان کرنے کے لیے آج تک کسی حکیم اور داناکا جنم ہی نہیں ہوا۔ اے یوسف جان بلیدہ کی سرزمین نازاں ہے آج۔۔۔یقیناً وہ گنگنارہا ہوگا کہ یوسف جان کے پائے نقش سے تو پوری گلزمین منور ہے۔۔۔پر۔۔۔جو بلیدہ کے حصہ میں آیا وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔۔۔بلیدہ نازاں ہے کہ۔۔۔ابر کے موسم میں کھلنے والے ہر کھلی، ہر پھول،ہر جِر و بوچ(جڑی بوٹیاں) اور اس خاک سے جسے تو نے اپنے لہو سے سیراب کیا ان سے ایسی مہک اٹھے گی جس کی تفسیر بیان کرنا کسی لقمان کے بس کی بات نہیں اوربلیدہ نازاں ہے کہ تاابد ہر کوچہ و گدان میں رسمِ یوسف کی شنوائی ہوگی ہاں یوسف اب تو ہی ان محفلوں کی شان تو بن گیا ہے۔۔۔بلیدہ کی طرح نال بھی شادماں ہے کہ یوسف اب نال کی کوکھ میں ہے۔۔۔اس نال کی جو یوسف کی جنم بھومی ہے۔۔۔اس نال کی زمین جس نے یوسف کا بچپن دیکھا۔۔۔وہ نال جس کے سبزہ زار، جس کے چشمے، جس کے میدان و کوہساروں پہ یوسف کے قدموں کے نشان ثبت ہیں۔۔۔یوسف جان۔۔۔بلیدہ، نال ہی نہیں بلکہ آج وطن تم پہ نازاں ہے کہ یوسف جان جیسے فرزندوں کی بدولت ہی میری شان بڑھتی ہے۔۔۔جو رسم بالاچ کے وارث ہیں، جو حمل،اسلم،اکبر،منان و سلیمان جیسے ہوتے ہیں جن پہ وطن ہر لمحہ نازاں ہے۔۔۔اے یوسف وطن نازاں ہے آج کہ اپنے لہو سے تم نے اس رسم کو حیات بخشی۔۔۔ وطن نازاں ہے اور اس کی آواز فضاؤں میں گونج رہی ہے کہ رسم دلیری یہ ہے کہ سراٹھا کے چلو۔۔۔ اسی رسم کی بدولت ہی انسان ابد تک زندہ رہتا ہے۔۔۔یوسف جان(دودا جان) جان بھی اس رسم کا داعی تھا اور آج وہ جسمانی طور پر تو جدا ہوچکا ہے پر اس نے رسم کی پاسداری کرتے ہوئے ابدیت پالی.

پاکستانی ٹارچر سیلوں سے شہید نصیر بنگلزئی کا آخری پیغام – نوروز بلوچ



پاکستانی ٹارچر سیلوں سے شہید نصیر بنگلزئی کا آخری پیغام – نوروز بلوچ



پاکستانی ٹارچر سیلوں سے شہید نصیر بنگلزئی کا آخری پیغام تحریر۔ نوروز بلوچ شہید نصیر بنگلزئی مستونگ کے علاقے اسپلنجی کا رہنے والا تھا وہ بہادر اور وطن پہ جان قربان کرنے والا سرمچار تھا، انکی ہر وقت یہی کوشش تھی کہ وطن کی آزادی کی راہ میں زیادہ سے زیادہ اپنا حصہ ڈال دوں اور وطن اور اپنی ماں بہنوں کی عزت پہ ہاتھ ڈالنے والوں کو زیادہ سے زیادہ جہنم رسید کرسکوں۔ اسی سوچ نے اسے ایک عام شہری سے سرمچار بنا دیا اور اس نے یونائیٹڈ بلوچ آرمی(UBA) جوائن کر لیا۔ سرمچار بنتے ہی اس سے اپنی ذمہ داریاں پوری لگن اور ایمانداری کے ساتھ سنبھال لیں۔ وہ شہید نورزیب کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک ساتھی تھا کچھ وقت تک علاقائی کام سنبھالنے کے بعد جب تنظیم کے ساتھیوں نے انکی لگن، ایمانداری اور مخلصی کو دیکھی تو انہوں نے اسے شال کے کاموں کو سنبھالنے کی ذمہ داری دینے کا فیصلہ کیا۔ جب یہ بات تنظیمی سطح پہ طے ہونے کے بعد نصیر جان کو بتایا گیا تو نصیر جان نے خوشی کا اظہار کرکے اسے خوشی خوشی قبول کرلیا اور کچھ دنوں بعد شال کی طرف چل پڑا، شال میں نصیر جان نے قدم رکھتے ہی دن رات محنت کر کے اپنے لیئے کچھ خاص ساتھی اکھٹے کیا۔ ان میں سے ایک ساتھی اسکا کزن شہید نصیب اللہ عرف مانجی بھی تھا اور تحریکی کاموں کو سنبھالتے ہی قابض پہ ہر جگہ سے حملہ بول دیا۔ شال دھماکوں کی آوازوں سے گونج اٹھا اور قابض فوج لرز اٹھا اور قابض نے انہیں ہر طرح سے ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر آزادی پسند سرمچار بہت ہی ہوشیار اور بہترین انداز میں اپنے ذمہ داریاں سرانجام دیتے رہے، جس سے دشمن کو شک بھی نہیں ہونے دیا۔ وہ اپنے ساتھیوں اور کزن مانجی کے ساتھ ملکر بہت سے محاذوں پہ دشمن پہ قہر بنکر برسے اور انکے نیندیں حرام کیئے۔ ایک دن نصیر جان اور اسکا کزن مستونگ سے کوئٹہ کی طرف آرہے ہوتے ہیں تو ریاستی اہلکار اور خفیہ اداروں کے اہکار انہیں مستونگ سے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پہ منتقل کرتے ہیں۔ کچھ دن بعد انکے کچھ کزنز اور اسکے چار بھائیوں کو بھی حراست میں لیا جاتا ہے، شہید نصیر اور اسکے کزن کو بہت اذیت دی جاتی ہے لیکن وہ مانتے نہیں ہیں، نہ کہ تنظیمی راز افشاں کرتے ہیں حالانکہ ان سے ریاستی اہکاروں کی طرف سے وعدے بھی کی جاتی ہیں کہ راز ظاہر کرنے اور اپنے ساتھیوں کو گرفتار کروانے پر انہیں رہا کیا جائیگا لیکن وہ غلامی کی زندگی اور غداری جیسے غلیظ چیز کو اہمیت دینے سے زیادہ شہادت کو ترجیح دیتے ہیں اور انکی یہ جرت مندانہ اور دلیرانہ سوچ نے انہیں آج تاریخ کا حصہ بنایا۔ بقول شہید کے ایک ساتھی کے کہ جب نصیر جان کو ٹارچر کیلئے کمرے سے لینے ایف سی اہلکار آئے تو اسکی آنکھیں ایک سفید پٹی سے باندھ کر اسکی ہاتھوں کو پیچھے کی طرف باندھ کر لیکر گئے، جب لیکر گئے تو نصیرجان کو بہت بے دردی سے مارنے لگے اور ایک ایف سی اہلکار اس سے بار بار ایک ہی سوال پوچھ رہا تھا کہ اپنے ساتھیوں کا نام بتاو اور اپنے تنظیمی راز افشاں کرو مگر نصیرجان کے منہ سے بار بار ایک ہی جواب آتا تھا کہ میں کچھ نہیں جانتا کسی کہ بارے میں نہ کہ مجھے کسی کا پتہ ہے، زیادہ مار کھانے کی وجہ سے نصیرجان بے ہوش ہوکر گر پڑتا تھا مگر ظالم اہلکار بے ہوشی کی حالت میں بھی اسے مار رہے ہوتے ہیں اور سخت سردی میں اسکی جسم پہ برف والا پانی ڈالا جاتا ہے اور جب وہ ہوش میں آتا ہے تو ایف سی اہلکاروں سے کہنے لگتا ہے جتنا مار سکتے ہوں مارو ابھی بہت ہی کم دن رہ گئے ہیں تمہارے بلوچستان میں، تم لوگ اپنے آخری سانسیں گن رہے ہو ہمارے گلزمین کو تم جیسے یزیدی فوج سے آزاد ہونا ہوگا ہمیں اپنے دھرتی کو تم جیسے بزدلوں اور مکاروں سے پاک کرنا ہوگا، تمہیں تمہارے ہر ظلم کا حساب دینا ہوگا۔ کیونکہ بلوچ نوجوانوں میں اب شعور آچکا ہے اب انہیں اپنی غلامی کا احساس ہوگیا ہے جس قوم کو اپنی غلامی کا احساس ہو جاتا ہے پھر وہ قوم زیادہ دیر تک غلام نہیں رہتی۔ یہ سن کر قابض اہلکاروں میں اور بھی غم و غصہ کی لہر دوڑتی اور وہ سیخ پا ہوکر شہید نصیر جان کو اور زیادہ اذیت دینے لگے کافی مارنے کے بعد نصیرجان کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے کمرے تک لیکر آتے ہیں اور اسے گرا کر مارنے لگے یہ کہتے ہوئے کہ ہر اس آنکھ کو نکال دینگے جو کہ بلوچستان کے آزادی کا خواب دیکھتا ہے، ہر اس زبان کو کاٹ دینگے جس زبان پہ آزادی کا لفظ آتا ہے، ہر اس ذہن کو ختم کرینگے جس میں بلوچستان کے آزادی کا خیال آتا ہے اور ہر وہ دل کو چیر دینگے جس میں آزادی کی خواہش اٹھتا ہو۔ یہ سن کر نصیر جان ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ دیوار میں دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر بڑی مشکل سے دیوار پہ ٹیک لگا کر کھڑے ہوکر ان سے کہتا ہے ان آنکھوں کو تم نکال دو گے، ان سے آزادی کا خواب چھین لو گے، اس زبان کو تم خاموش کرو گے کہ آزادی کا دوبارہ اس پہ الفاظ نہ آئے یہ بتاو کہ میرے دل سے کیسے آزادی کا خیال نکالوگے، اس دل سے اپنے لیئے نفرت کو کیسے ختم کر سکو گے، چلو مان لیتے ہیں کہ تم مجھے مار کر میرے دل سے آزادی کے جوش و جذبے کو ختم کروگے، یہ تو بتاو کہ میرے فکر کو کیسے ختم کرسکوگے، ان نوجوانوں کے دل سے کیسے تحریک آزادی کے خواب کو ختم کر سکو گے، جو کہ تمہارے خلاف اٹھ کھڑے ہیں، جو شہادت کو اپنا شان سمجھ کر دیدہ دلیری سے تمہارے بزدل اہلکاروں پہ ہر راستے پہ گھات لگا کر حملہ کر رہے ہیں اور تمہارے بزدل اہلکاروں کو جہنم رسید کرکے تمہیں روزانہ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اب تم جیسے ناپاکوں کیلئے اس پاک دھرتی پہ کوئی جگہ نہیں، یہ سن کر قابض اہکار غصہ سے سرخ پیلا ہو کر نکلتے ہیں اور نصیر جان گر پڑتا ہے۔ ایک قیدی اس کے پاس جاتا ہے اسکا سر اٹھا کر اپنے گود میں رکھتا ہے تو شہید نصیر کے منہ سے خون بہہ رہا ہوتا ہے اور شہید مسکراتے ہوئے اس سے کہنے لگتا ہے پتہ ہے، مجھے میرے مرنے کا تھوڑا بھی افسوس نہیں ہے نہ کہ مجھے موت کا خوف ہے بس افسوس اس بات کا ہے کہ اپنے وطن کی آزادی کو دیکھے بنا جانا پڑ رہا ہے یہ آنکھیں آزادی کے پیاسے ہیں بہت لیکن یہ آزادی بنا دیکھے بند ہونے والے ہیں۔ اچھا سنو؟ مجھے پتہ ہے مجھے مار دیا جائیگا، پر تم چھوڑ دیئے جاؤگے، تم جب چھوٹ جاؤگے تو سب سے پہلے میرے دوستوں تک میرا پیغام پہنچانا کہ نصیر تم سب کو سلام کہہ رہا تھا، بعد سلام انہیں کہنا کہ تحریک آزادی نہیں رکنا چاہئے، میرے فکری دوست مجھ سمیت تمام شہیدوں، اسیروں اور ماں بہنوں سب کی امیدیں تم سے وابستہ ہیں۔ یہ تحریک آزادی میں کئی ہزار شہیدوں کا خون شامل ہے، یہ سلسلہ نہیں رکنا چاہئے آزادی عنقریب ہے مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آزادی کو دیکھے بنا مجھے جانا پڑ رہا ہے، میں جسمانی طور پہ تحریک اور تم سب سے الگ تو ہو رہا ہوں مگر روحانی طور پر ہمیشہ تحریک اور تم سب سے جڑا رہونگا۔ اسکے بعد میرے گھر جاکر میرے ماں سے کہنا کہ میرے موت پہ میرے لئیے ماتم مت کرنا بلکہ خوشیاں منانا کیونکہ تیرا بیٹا وطن کی جہد میں ایک فکر لیکر اس دنیا سے جارہا ہے۔ اسکے بعد میرے ابو کو کہنا کہ اپنے بیٹے کی لاش پہ ہنستے ہوئے آنا تاکہ سب تمہیں دیکھ کر کہیں کہ یہ ہے شہید کا باپ جسے اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر ہے کوئی بھی دُکھ نہیں میرے بھائیوں کو کہنا کہ ناز کرنا اپنے بھائی کی شہادت پہ کیونکہ آج کے بعد لوگ میرے نام سے تمہیں پہچاننگے کہ وہ دیکھو شہید نصیر کے بھائی جارہے ہیں اسکے بعد نصیر جان کی آنکھیں لگ جاتی ہیں کہ ایک ایف سی کا ٹیم پہنچ جاتی ہے اور نصیرجان کو اپنے ساتھ لیکر جاتے ہیں اور کچھ دنوں بعد اسکا لاش کوئٹہ قمبرانی روڑ پہ پھینک دیا جاتا ہے، جب لاش کو اٹھاتے ہیں گاؤں لاتے ہیں تو یزیدی لشکر نے شہید نصیر کو بہت بے دردی سے مار دیا ہوتا ہے، اسکے سر کو جگہ جگہ سے ڈرل کیا ہوتا ہے اور پاؤں کی ہڈیوں کو ڈرل مشین کے ذریعے جگہ جگہ سے سوراخ کیا ہوتا ہے اور سینے کو خنجر سے چیرا ہوتا ہے تاکہ لوگ دیکھ کر ڈر کے مارے تحریک آزادی سے کنارا کشی کریں، مگر ان درندوں کو کیا پتہ شہیدوں کے خون سے تحریکیں اور بھی پختہ ہونگے ہمارا فکر اور ارادے اور بھی مضبوط ہونگے اور آزادی طے ہوگا۔

Comments

News Headlines :
Loading...

Sponsor

Recent News

Recent

< >

 
Support : Copyright © 2018. BV Baloch Voice - All Rights Reserved