Translate In Your Language

New Videos

پنجابی کی غلامی یا قومی آزادی ......تموچن بلوچ

پنجابی کی غلامی یا قومی آزادی ......تموچن بلوچ

زمانہ جاہلیت میں مظلوم اقوام اوران کی سرزمین پر قبضہ کرنے والے جابراقوام وحکمران انہیں بڑی آسانی سے یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ کہ وہ خدا یادیوتا ؤں کے بھیجے ہوئے عقلمند اور قابل حکمران وقاصد ہیں ۔اورخدا یا دیوتا ؤں کے حکم سے ان پر مسلط ہوئے ہیں ۔اس سے ان کا مقصد یہ ہوتا ‘کہ محکوم ومظلوم اقوام کے افراد خدا و دیوتاؤں کے خلاف انہیں چیلنج نہ کریں ۔ لیکن وقت گذر نے کے ساتھ محکو م اقوام کواس ڈرامے کی سمجھ آتی گئی ۔اور خدا و دیوتا ؤں کی پشت پنا ہی کی متھ ختم ہوتی چلی گئی ۔تو سامراجی اقوام نے سرمایہ دارانہ نظام کے بل بوتے پروسائل کی لوٹ کھسو ٹ ومارکیٹ پر تسلط جمانے کی غرض سے اقوام اوران کی سرزمین پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔ سامراج کا یہ کھیل پندرھویں صدی سے لیکر تا حال جاری وساری ہے ۔موجودہ دور میں اس سامراجی حربے کی وجہ تما م دنیا میں ایک قومی کش مکش برپا ہے ۔قبضہ گیری کے اس تمام عمل میں جابروسا مراجی اقوام کو موقع پرست وچا پلو س افراد کی حمایت وکمک حاصل رہی ہے اور موجود ہ دور میں بھی حاصل ہے ۔چاپلوس وموقع پرست افراد نے اپنی خدمات کے صلے میں سامراج سے مفادات ومرا عات بھی حاصل کی ہیں ۔ کالونیل ایجنٹ (Colonial Agent) پنجابی نے اسی طرح کے سامراجی خدمات کے صلے میں پاکستان حاصل کیا ۔
قوموں کی نفسیات کاعلم یعنی ،علم النفس کے ماہرین میں دومعتبر ترین نام فرانس کے ڈاکٹر گسٹا ؤلی بان اورمسلم مفکر وتاریخ دان علامہ ابن خلدون کے ہیں ۔ان دانشوروں نے دنیا کے قوموں کی نظام اخلاق کا مطالعہ کیاان کے تاریخ وتمدن پہ گہری مشا ہداتی نگاہ ڈالی ۔اور ایک جدید فلسفہ تاریخ کی بنیاد رکھ دی ۔ان کی تحقیق کے مطابق یہ بات سامنے آئی کہ،
’’جس طرح ہر شخص میں ایک مخصوص روح ہوتی ہے جس کے مطا بق وہ اپنے تمام ذاتی کام انجام دیتاہے بالکل اسی طرح ہرقوم کے قالب میں بھی ایک خاص روح ہوتی ہے ۔اس کے مخصوص اخلاق اورخواص ہوتے ہیں ۔ علم ومذہب، تہذیب وتمدن، ملک وسطنت اورقوانین نفسی ہرقوم کاسرمایہ حیات ہیں ۔انہی چیزوں کی ترکیب وامتزاج سے ہرقوم کاتاریخی ونفسی مواد تیار ہوتا ہے ۔اور اخلاق ہی قوموں کے مزاج عقلی کوپیدا کرسکتا ہے ۔یہی مزاج عقلی ہرقوم کی تاریخ کاماخذ ہے ۔اس سے مدبر ین کو راہ ہدایت ملتی ہے ۔ کیونکہ اسی کی بدولت ہرقوم میں چند اوصاف ایسے پائے جاتے ہیں ۔ جو ناقابل تغیر وتبدیل ہیں ۔
ڈاکٹر گسٹاؤلی بان اس سلسلے میں مزید اضافہ کرتاہے کہ ’’یہ اوصاف وخصو صیا ت قومو ں میں جن اسباب کی بنا ء پر پیدا ہوتی ہیں‘یانسل درنسل منتقل ہوتی ہیں ۔ان میںآباد اجدا د کا اثر، خاندان کا اثر، جغرافیائی حدود،آ ب وہوا اور گرد وپیش کی چیزوں کے اثرات قابل ذکرہیں ۔
اسی بات کا قرآن مجید میں بھی باربارذکرآیاہے ۔
قالوابلِ وجدنااباناکذلک یفحلون قالو احسنا ماوجدنا علیہ آباء ناقالوابل نتبع ماوجدناعلیہ آباء نا۔
ترجمہ:وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آباؤاجدادکو ایساہی کرتے پایا،وہ لوگ کہتے ہیں۔کہ ہم نے اپنے آباؤاجداد کو جس روش پر پایا وہ ہمارے لئے کافی ہے ہم اسی کی تقلید کرتے ہیں ۔
تاریخ پرگہری نظر رکھنے والے دیگر ماہرین ،محقیقین ودانشوروں کابھی یہی خیال ہے کہ ماضی کی صحیح تحقیق وتشکیل اورقومی نفسیات کے مطالعہ ومشاہدہ کسی بھی معاشرہ میں بسنے والے اقوام کوسامراجی نفسیات اور مختلف معاشروں میں موجود چاپلوس وموقع پرست افراد کی خصلت و سامراجی تسلط کے ہتھکنڈوں کا عکس دکھا سکتی ہے ‘‘۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں اگر ہم بلوچ قوم اورپنجابی کی ماضی کاجائزہ لیں ا ن کی قومی نفسیات کامشاہد ہ کریں ان کی تاریخ وتمدن کامطالعہ کریں ان کے نظام اخلاق یعنی اوصاف و خصائل پہ ایک نگاہ ڈالیں ۔اوربلوچ قوم کاپنجابی کی نوآبادی بننے کی تاریخ کودہرا ئیں تو بڑی آسانی سے ان سوالات کا ادراک کرلیں گے کہ،
**کیابلوچ نے اپنی مرضی سے اسColonial Agent پنجابی کی غلامی کو قبول ہوئے پاکستان کو وراثت میں ملی اس کے Colonial System میں شامل ہوا ؟
**اگرنہیں تو پھر وہ کیا حالات تھے جن کی وجہ سے بلوچ ریاست کواس کا لونیل ایجنٹ پنجابی سامراج کی جانب سے وراثت میں پاکستان کے جھوٹ پرمبنی اس Colonial System میں پنجابی کے ساتھ کسی بھی طرح کے شرائط پرUnion میں رہ سکتاہے ؟
ان سوالات کاجواب جاننے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے ہم پنجابی قوم کے ماضی کاجائزہ لیں تاکہ اس کے معاشرتی نفسیات ‘قومی مزاج اور خصلتوں کوسجھ سکیں ۔اور اس کے پسِ منظر میں پنجابی کی حیثیت وحقیقت کوسمجھنے کے ساتھ ساتھ اس عالمی تغیروتبدل کے دور میں بلوچ کے مستقبل کی راہ متعین کرسیکں ۔
خود پنجابی دانشوروں نے ڈاکٹر مبارک علی کی زیر ادارت شائع ہونے والی سہ ماہی ’’تاریخ ‘‘ کے پنجاب نمبر میں اپنی تحریوں میں اس بات کا اعتراف کیاہے ۔کہ ’’پنجابی سنجیدگی وگہرائی سے نابلد شیخی باز،موقع پرست،مزاحمت کے جذبے سے عاری، چاپلوس وعیار قوم ہے ‘‘۔اسی طرح اخبار میں شائع ہونے والی اپنے ایک مضمون میں احمد ندیم قاسمی بڑے غمزدہ انداز میں یہ اعتراف کرتے ہیں کہ افسوس ماسوائے دلابھٹی ورائے اوراحمد خان کھرل کے ہماری کوئی مزاحمتی ہیرو نہیں ۔۔۔‘‘اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پنجابی کی خصلت میں چاپلوسی کوٹ کوٹ کربھری ہوئی ہے ۔ اسی بناء پرمہابھارت سے لیکر پانی پت کی لڑائیوں تک پنجابی سرزمین شمال سے جنوب کی جانب حملہ آوروں کیلئے گزر گاہ کا کام دیتارہاہے ۔پنجابی نے اپنی چاپلو سانہ وموقع پرستانہ خصلت کی وجہ سے اپنے مفادات کے تحت فائدہ اٹھاتے ہوئے ا ن حملہ آوروں کو کوہ ہندو کش کے سنگلاخ دروں اوردہلی وآگر ہ کے تحت طاؤس کی جانب راہ دکھائی ہے۔یعنی اس تمام عرصے میں پنجابی قوم کاتاریخی کردار یہ رہاہے ۔کہ اس نے حملہ آوروں کی تو پیں کھینچ کردہلی وآگرہ تک پہنچا ئی ہیں۔اپنی سرزمین پر حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کے بجائے ان کی خوب آؤبھگت اور ہرطرح سے ان کی دلجوئی کی ہے ۔جبکہ ان حملہ آوروں کی نظر یں دہلی وآگرہ کی زروجواہر پرلگی ہوئی تھیں ۔
اس کی بنیادی وجہ پنجابی قوم کی وہ قد یمی وبنیادی نفسیات ہے جس کا ذکر تاریخ کے صفحات پرمحفوظ ہے ۔پنجابی کے اسی تاریخی نفسیات کو پیش نظررکھ کرایک پنجابی محقق،اشفاق سیلم مرزااپنے تحقیقی مقالہ ’’پنجاب کے قدیم ہاشند ے ‘‘میں لکھتا ہے’’ پنجابی کی تاریخ کی کہانی بھی عجیب ہے ۔ کیونکہ ماہرین بشریات ونسلیا ت ابھی تک اس سلسلے میں تذبذ ب کا شکار ہیں اور ہم خود بھی جو نہی اپنی جڑوں (Roots) کوتلاش کرتے ہیں ۔تو اپنی شناخت کے حوالے سے یہ ہمارے لیئے تذلیل کاباعث ہے ۔کیونکہ ہماری شجرہ نسب وجڑوں کی تلاش کے نتائج کچھ اچھے نہیں ہیں ۔‘‘
اس سلسلے میں اگر ہم ’’رگ وید کا مطالعہ کریں ۔تو اس میں ہمیں بہت سے ایسے پیرائے ملیں گے جن میں پنجابیوں کوزبان، مذہب اور شکل وشبا ہت کے لحاظ سے آریاؤں سے الگ ’’داس ‘‘یا ’’داسو‘‘بتا یاگیاہے ۔گرس ولڈ کا کہنا ہے کہ ’’داس یا داسوں پنجاب کے قدیم ترین باشندے اور موجود ہ پنجابیوں کے جدا مجدتھے۔‘‘
دوہزارقبل مسیح میں جب آریائی لوگ ارد گردکے علاقوں میں پھیلتے ہوئے پنجاب میں وارد ہوئے تو انہوں نے’’داسوں ‘‘سے نفرت کا اظہار کیا۔ کیونکہ داسو ں کی طرز معاشرت بری خصلتیں ، موقع پرستی اور روایات انتہائی حقارت آمیزتھے ۔’’رگ وید‘‘آریاؤں کی قدیم کتاب ہے جوکہ برصغیر میں قدیم ترین ومحفوظ ترین دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے ۔جسے ہندومت میں الہامی کتاب کا مقام بھی حاصل ہے اس کتاب میں چار ہزار سال کے حالات، واقعات و کیفیات کی عکاسی کی گئی ہے اس کتاب میں اکثر جگہوں پر ’’داسوں ‘‘کاذکران الفاظ میں ملتا ہے ۔’’سیاہ رنگت کے یہ اناس (بغیر ناک والے یعنی بے شرم )شیطان صفت،موقع پرست،بری زبان بولنے والے، لنگم کی پرستش کرنے والے افراد پر مشتمل تھے ۔‘‘
سنسکرت زبان میں تجارتی لین دین،مول،اُجرت اور سکے کو پن کہتے ہیں ۔ اسی نسبت سے تجارتی اجناس کو پینہ کہاجاتا ہے ۔قدیم زمانے میں داس یا داسوں اپنے تجارت پیشہ افراد کو ’’پنی ‘‘ کہتے تھے ۔(جوغالباًبعد میں پنجابی کی وجہ تسیمہ بن گیا) مہا بھارت اور یونانی مورخین کے ہاں داسوں اوران کے اس تجارتی طبقہ ‘’’پنی ‘‘ کے بارے میں ذکران الفاظ میں کیاگیا ہے ۔’’یہ موقع پرست ،لالچی اورپیشہ ورلوگ ہیں ۔ان کی عورتیں عریاں حالت میں گلے میں پھو لوں کا ہارڈالے گلیوں اورکھیتوں میں گھومتی ہیں ۔اور گھوڑوں کی طرح ہنہناتی ہو ئی حماموں کی طرف بھاگتی ہیں ۔‘‘
اسی طرح ’’مدیا مدر ‘‘قبائل کاتعلق بھی داسوں سے تھا۔ جن کا مرکزی شہر ساکلا یعنی موجود سیالکوٹ تھا۔ ان کاذکرمہابھارت اوریونانی مورخین کے ہاں ان الفاظ میں ملتا ہے ۔‘‘مرد اور عورتیں خوبصورت اورالہڑ تھیں ۔جن کی صحبت کی داستا نیں نہ صرف اردگرد کی ریاستوں بلکہ دور درازتک پھیلی ہوئی تھیں ۔وہ کندھوں پر ایک کمبل نما چادر اوڑ ھتیں ‘وہ پاکبا زنہیں ۔بے شرم تھیں۔
مردنہ صرف اپنی عورتوں کے ذریعے طاقتور اقوام کے افراد اور بیرونی حملہ آوروں کو پھانس کراپنا مطلب نکالتے بلکہ گھروں میں ماں باپ،بیٹے بیٹیاں،سالے سالیاں،رشتہ دار،داماد، دوست اورمہمان ایک دوسرے کے ساتھ آزادانہ میل ملاپ کرتے ۔‘‘
’’تاریخ پنجاب ‘‘سید محمد لطیف کی پنجاب کی تاریخ پر لکھی گئی وہ واحد کتاب ہے جونہ صرف پنجاب کے تعلیمی نصاب میں شامل ہے بلکہ اس کو واحد مستندتاریخی تحقیق شمار کیاجاتاہے ۔اس میں بھی مندرجہ بالا باتوں کی تصدیق کی گئی ہے۔
پنجابی نے تاریخ کے ہرموڑ پر حملہ آوروں کو خوش آمدید کہاہے اور ساتھ ہی ان کی دلجوئی بھی کی ہے اس لیئے پنجابی نسل کے بارے میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہ انواع واقسام کی نسلوں پر مشتمل ہے مختلف نسلوں کا خون اس کی رگوں میں دوڑ رہا ہے ڈائیااپنی تحقیق کی بنیاد پر یہ کہتاہے کہ پنجابی قبائل راجپوت، جاٹ ،گو جراو آہیروسط ایشیاء کے حملہ آوروں کے ساتھ ملاپ کا نتیجہ ہیں ۔ ‘‘چونکہ پنجابی نے ان بیرونی حملہ آورو ں کونہ صرف خوش آمد ید کہابلکہ خدمت گذاری میں ان حدوں کو بھی پارکیا کہ یہ حملہ آور عرصہ دراز تک پنجاب میں سکونت پذیر رہے ۔شاید اسی بات کو سامنے رکھ کر اشفاق سلیم مرزانے اپنے مقالہ پنجاب کے قدیم باشندے کی تمہید لکھی ہے کہ پنجاب کے کسی بھی بڑے شہر میں اگر کوئی اجنبی کسی پررونق چورا ہے پر کھڑ ے ہوکر آتے جاتے ہوئے لوگوں پر نظر ڈالے تو وہ جگہ ایک تماشا گاہ دکھائی دے گی ۔ ہررنگ وجسمانی ساخت کے انسان وہاں نظر آئیں گے ۔ مورخین لکھتے ہیں کہ جب سن 2عیسوی میں سا کاقبائل نے پنجاب کارخ کیا تو پنجاب کے باسیوں نے ان کے خلاف مزاحمت کرنے کی بجائے ان کی اتنی آؤبھگت کی کہ آگے بڑھنے کی بجائے ان کی اکثر یت نے پنجاب کے مغربی علاقوں میں مستقل سکونت اختیار کی ۔
جرنیلی سڑک جوکابل کودہلی سے منسلک کرتی تھی ۔پنجاب کے وادی گنگا سے ہوکر پنجاب کے
دیگر علاقوں سے گذرتی تھی جوبیرونی حملہ آوروں کیلئے گزرگاہ اور پنجاب کیلئے آمدن کا ذریعہ تھی ۔سکندر اعظم کے لشکر نے اسی گذرگاہ سے گذر کر مختلف علاقوں کوتاخت وتاراج کیا۔ اس رہگذر پہ پنجاب کے تجارتی مراکزا ٹک ‘جہلم اور گجرات کے باشندوں نے ان کی نہ صرف آگے بڑھنے میں رہنمائی کی بلکہ ان کی آؤبھگت بھی خوب کی ۔
گیارہویں صدی میں غز نوی حکمرانوں نے لاہور کواس لئے اپنادارالسلطنت بنایاکہ اس علاقے کے باشند ے انتہائی طا بع فرما ن تھے ۔ یہاں ہرقسم کاسامان تعیش بھی میسر تھا۔ لا ہور کو اکبر ، جہا نگیر اور شاہ جہان کے دور میں انتہائی عروج حاصل ہوا۔ یہاں ان حکمرانوں کی ولجوئی کا خاص اہتما م ہوا کرتاتھا ۔یہاں کے باشندے اپنے موقع پرستانہ خصلت کی بناء پر نہا یت فر مانبر دار تھے ۔ اکبر نے 1584 ء سے 1598 ء تک افغانستان اور کشمیر پر فوج کشی کی مقصد سے لاہورمیں دربار منعقد کی ۔جہانگیر 1622ء سے تادم مرگ لاہور میں قیام پذ یر رہا شاہ جہاں نے بھی اپنی عیاشیوں کیلئے 1642ء میں لا ہور میں شالا مارباغ کی تعمیر شروع کی ۔
1821 ء سے رنجیت سنگھ کی سربراہی میں سکھوں نے اپنی حکومت قائم کی ۔ باقی پنجابی سکھ پنجا بیوں کی اس حکومت سے ناخوش تھے ۔اس لیئے 1849 ء میں انگریزوں کی پنجاب کوفتح کرنے سے باقی پنجابیوں کو انتہائی خوشی حاصل ہوئی ۔انہوں نے جی وجان سے انگر یزوں کو خوش آمد ید کہا ۔ ڈاکڑ مبارک علی لکھتے ہیں کہ ’’انگریزوں کی پنجاب کو فتح کرنے کے بعد پنجاب ان کا سب سے وفادار صوبہ بن گیا‘‘۔
انگر یزوں کی دور حکمرانی پر پنجاب میں انگریزوں کے نمائندہ آئین ٹالبوٹ(Ian Talbot) نے ایک کتاب Punjab and The Raj 1849) ء تا 1947 ( لکھا ہے ۔جس میں تفصیل سے پنجابیوں کی وفاداری کا ذکر موجود ہے ۔وہ لکھتا ہے ۔’’انگر یز سمندری راستے سے ہندوستان میں داخل ہوئے بنگا ل،مدراس اور بمبئی کے بعد 1841 ء سے 1849 ء کے درمیانی عرصے میں سکھوں سے لڑائیوں کے بعد پنجاب پر قبضہ کرلیا ۔تواہل پنجاب نے جشن مناکر انگریزوں کو خوش آمدید کہاپھر1857 ء کی جنگ آزادی کے دوران پنجابی کی وفاداری نے انگریزوں کے دلوں میں پنجابی پراعتماد میں اس قدر اضافہ کردیا کہ وہ انگر یز کیلئے سب سے بڑ ے وفادار و ایجنٹ بن گئے دوسری بات یہ کہ پنجاب اس لئے بھی انگر یزوں کیلئے مزید اہمیت اختیار کرتا چلاگیا کہ یہاں سے انہیں مقامی ایجنٹ بڑی تعداد میں میسر آئے ۔جن پروہ ہرگھڑی اعتماد کرسکتا تھا۔ انگریزوں کے نوآبادیاتی انتظامیہ کے ساتھ استوار ہوجانے والے اس غیر رسمی تعلق نے بعدازاں اداروں کی شکل اختیار کی ۔چنانچہ پہلے تو یہاں انگریزوں کے وفادار سیاسی گروہوں کی تشکیل ہوئی بالاخر سیاسی جماعتوں کا روپ اختیار کرگئے ۔ان سیاسی جماعتوں میں تنظیم اور عوامی حمایت کاٖغیر معمولی فقدان تھا۔ پھر 1923 ؁ء میں اس نے یونینسٹ پارٹی کی شکل میں ایک باقاعدہ سیاسی جماعت کاروپ اختیار کیا۔ جوفضل حسین کی سربراہی میں برطانیہ حکومت کے وفادار زمینداروں پرمشتمل تھی ۔یونینسٹ پارٹی کوانگیریزوں نے اتنی قوت بخشی کہ یہ بیس سال تک صوبے کی سیاست پرچھا ئی رہی 1923 ء سے 1939ء تک یونینسٹ پارٹی نے انگریزوں کو دیہاتوں میں سماجی کنٹرول کو برقرار رکھنے میں مدددی ۔اورسامراج کے خلاف اُبھر نے والے تناؤکوبڑھنے نہ دیا ۔
پھر جب انگریز نے مسلم لیگ بنا کر اس کے سرپر ہاتھ رکھا ۔تو پنجابی 1944 ء سے جوق در جوق اس میں ا سلئے شامل ہوئے کہ انگریزوں کے منصوبے کے تحت مسلم لیگ کامطا لبہ پاکستان ان کی پنجابی اسٹیٹ منزل تھی ۔اس لیئے 1946 ء میں ایک باقاعدہ منصوبے کے مطالبہ تحت عام انتخابات میں یو نینسٹ پارٹی کو نہ صرف شکست سے دوچار کردیاگیابلکہ اس پارٹی کو پنجابیوں نے ختم کردیا ۔اسی دن سے ہی پنجاب کو مسقتبل کے پاکستان کادل قرار دیا جانے لگا ۔بلکہ جناح نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’پنجاب ہی پاکستان کابنیادی پتھر ہے ۔‘‘
1857 ء کے بعد پنجاب انگریزحکومت کااتنا مطیع وفر مانبردار رہاکہ ہندوستان کے دیگر علاقے کھلے عام صدائے احتجاج اور باغیانہ رویوں کے امین رہے جبکہ پنجاب کی فرمانبرداری اس قدر تھی کہ یہ خطہ انگریزوں کے ہندوستانی فوج کا گھر اور عیا شیوں کااڈہ بن گئی۔انگریزوں کو اپنی فوج کیلئے موزوں ترین رنگر وٹ (Recruits ) یہیں سے میسر آئے ۔ پنجابیوں کی غالب اکثریت پر مشتمل اس رضا کارفوج نے وسیع استعماری مفادات کی تکمیل کیلئے ناقابل فراموش خدمات سرانجام دی ۔جس کے نتیجے میں نہ صرف ہند وستا ن میں بر طانو ی راج کو استحکا م حاصل ہوا بلکہ مشرق وسطی اورجنوب مشرقی ایشیا ء میں انگریزاثر ور سوخ کی ترویج میں بھی اس فوج نے مرکزی کردار ادا کیا ‘‘۔
امیرشریعت حضرت سید عطا ء اﷲشاہ بخاری
کی کتاب ’’سلطعہ‘‘ سے ایک نظم پنجاب کے بارے میں
نہ دید م کشورے دمرودومرتاب
میں نے ایسی مردود اور لعنتی زمین کہیں نہیں دیکھی
بشو مسیہا ئے کفر آباد پنجاب
جیسی کہ نحو ستو ں اور کفر سے بھر ی ہوئی زمین پنجاب کی ہے ۔
چہ ملکے ننگ وعا مفت کشور
یہ کیا ملک ہے سات براعظموں کا ننگ دعا رہے۔
زشرق وغرب بادش خاک برسر
مشرق و مغرب کی خاک اس سرپر پڑے۔
خمیر طنینش مردم کشیہا
اس کی مٹی کاخمیر انسانوں کاقتل عام ہے ۔
زمل سین باشد خو سیہا
مسلمانوں کے قتل عام میں بھی پنجاب کی خوشی ہے ۔
چہ پیرانش میدان فرنگی
پنجاب کے پیر فرنگیوں کے مرید ہیں ۔
لقبکافورذات پاک زنگی
یہ باہر سے اجلے اجلے ہیں لیکن اندر سے کالے ہیں ۔
زبوب ورئیسا نش چہ پرسی
پنجا ب بڑ ے لوگوں کے بارے میں کیا پوچھتے ہو۔
سگ وسگ زادگان کر سی بہ کرسی
یہ کتوں کی اولا داور نسل درنسل کتے ہیں ۔
چناں فرزند نا ہموار زید
جیسا کہ پنجابی ولد لزناپیدا ہوتے ہیں ۔
کہ از خر قیمتش بر تر نیاید
توانکی قیمت گدھے جتنی بھی نہیں ہوتی ۔
چکرازلالہ اش خو ن مسلماں
پنجابیوں کے چہرے مسلمانوں کا خون پی کرلا ل ہیں۔
اذونالا ں حجاز ہ مصروایراں
پنجابیوں کی وجہ سے حجاز مقدس،مصر اورایران ہم سے ناراض ہیں ۔
جواناش غلامان فرنگی
پنجا ب کے جوان فرنگیوں کے غلام ہیں ۔
پناہ شاں بدامان فرنگی
انکی پناہ گاہ فرنگیوں کے دامن میں ہے ۔
چہ پنجاب آں فرنگی رامعسکر
پنجاب کیاہے ؟عالمی سامراج کی چھا ؤنی ہے
معسکر راغلام احمد پیمبر
اس چھاؤنی کا لیڈر غلام احمد قادیانی ہے۔
فرنگی را معسکرہست پنجاب
سامراج کی چھاؤنی پنجاب ہے ۔
ضلالتہ را پیمبرہست پنجاب
گمراہی کا پیغمبر بھی پنجاب ہے ۔
فضائش کفرر یز وکفر یبزست
پنجاب کی فضاکفر بکھیر تی ہے اور کفر اگاتی۔
بائین الہی ورستیز است
پنجاب اﷲکے دین سے ہمیشہ جنگ کرتاآیا ہے
بملک ہند شدارض الجوایس
برصغیر میں پنجاب ہی جاسوسوں کی سرزمین ہے
نہ جان محفوظ ونے مسوں نرامیس
پنجاب میں نہ جان محفوظ ہے اور نہ ہی عزت محفوظ ہے۔
زمینے فتنے زائے فتنہ خیز ے
پنجاب کی زمین فتنوں کی زمین ہے
کہ شیطا ن پیش سجدہ یز ے
پنجاب کے سامنے توشیطان بھی سجدہ ریز ہے ۔
اگرہم پنجا بیوں کیلئے بننے والی ریاست پاکستان کے قیام کاجائزہ لیں تب بہت سی سازشوں سے پردہ اُٹھ جائے گا۔
1600ء میں قائم ہونے والی ایسٹ انڈیا کمپنی ’’تجارتی سرمایہ داری نظام ‘‘کی پالیسیوں کا ایک حصہ تھی جس کے تحت انگلستا نی تجارت کی نظریں ایسی ملکی و غیر ملکی منڈیوں کی تلاش میں رہنے لگیں ۔جہاں سے سستامال خرید کردوسرے منڈیوں میں مہنگی فروخت کی جاسکے ۔اس سلسلے میں دیگر یورپی تجارتی بھی میدان میں نکل کھڑے ہوئے تھے ۔یورپی تجارتی کمپنیوں کی منڈیوں پراجارہ داریاں قائم کرنے کے سلسلے میں ڈچ، پر تگیزی،فرانسیسی وبرطانوی یورپی اقوام کے مابین زبردست تجارتی وسیاسی کشمکش شروع ہوئی اور یہ ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے لگے اس دوران ’’تجارتی سرمایہ دار یت‘‘ پہ’’ صنعتی سرمایہ دار یت ‘‘نے غلبہ پالیا ۔اب مفادات اوراستحصالی پالیسیوں میں تبدیلی آئی اورسامراج کی نظریں محکوم ومظلوم اقوام کے علاقوں اوروسائل میں گڑھ گئیں تاکہ صنعتی سرمایہ کاری کیلئے خام مال حاصل کیا جاسکے ۔پرتگال ،اسپین اورولندیز ی اپنے داخلی جاگیرداری نظام اور کیتھولک چرچ سے چمٹے رہنے کی وجہ سے تجارتی ، صنعتی و سامراجی دوڑ میں پیچھے رہ گئے صرف برطانوی اور فرانسیسی ایک دوسرے سے نبردآزما ر ہے ۔ آخرکار دوسو سالہ جنگ و کشمکش کے بعد 1763 ؁ ء میں انگریز زبردست عالمی طاقت بن کراُبھر ے اسی اثناء میں انگریز نے انڈ یاپہ تسلط جمایا ۔1772 ؁ء میں وارن ہسٹنگر گورنز جزل انڈیا بنتے ہی،انگر یز دانشوروں سے مقامی قانون ،تاریخ وزبان کامطالعہ کروایا ۔’’لڑاؤاورحکومت کرو’’کی اپنی سامراجی پالیسی کے مطابق ہند وؤں اور مسلمانوں کیلئے الگ الگ قوانین مرتب کروایا ۔اس سے قبل ہندواور مسلمان آپس میں بنا کسی اختلا ف کے باہم اتفاق سے مل کررہ رہے تھے ۔جن قوتوں سے انگریزں کوخطرہ تھا ان کو کمزورومنتشر کرنے کیلئے رجعت پرست قوتوں کو بڑھا وادیا ۔اس طر ح آزادی پسند وقوم پرست قوتوں کے مقابلے میں مذ ہبی بنیاد پرستی واحیاء کی تحر یکوں کو متحرک کروایا ۔ہندومسلم اختلافات ونفر ت کی بیج بونے کے ساتھPermanent Revenue System قائم کر کے موروثی جاگیر داروں کاا یک طبقہ پیدا کیا۔انگریزوں کے اس وفادار طبقے نے اپنے ہم وطن آزادی پسندوں اورقومی تحریکوں کوناکام بنانے کیلئے انگریزوں کی بھر پورمدد کی ۔
اس دوران برطانوی سامراج نے بلوچ سرزمین کارُخ کرلیا اور 1839 ء کو اس سرزمین پر قبضہ کرلیا کیوں کہ بلوچستا ن جوکہ برصغیر سے الگ ایک خود مختارریاست تھا یہ بلوچ ریاست اوراس کا ہمسا یہ ملک افغانستان دونوں جغر افیا ئی لحاظ سے انگریزوں کے توسیع پسندانہ عزائم کیلئے نہایت موزوں تھے ۔ دوسری بات یہ کہ امریکہ بھی انگریز کے ہاتھوں سے نکل کرتیزی سے ترقی کی جانب گامز ن تھا ۔اور روس بھی 1935ء سے تیزی سے اپنے فاروڈپالیسی کے تحت بلوچ سرزمین کی جانب پیش قدمی کررہاتھا جس کی نگاہ ساحل بلوچ پرتھی اورافغان حکومت نے انگریز کی نسبت روس کیلئے اپنی سرحدیں کھول رکھی تھی ۔ساتھ ہی انگریز ی کی نظر یں چین،روس وسط ایشیا ء میں بھی لگی ہوئی تھیں ۔یورپ میں خودفرانس بر طانیہ کیلئے رکاوٹیں کھڑی کررہاتھا ۔بر صغیر میں 1857 ء کی جنگ نے بھی انگریز کی آنکھیں کھول دی تھیں اس لئے انگریز نے 1870ء میں جسمانی غلامی کے بجائے ذہنی غلامی کی حکمت عملی پہ کام شروع کردیا ۔
اس حکمت عملی پہ عمل کرتے ہوئے انگریز نے ہندوستان میں اپنی گماشتوں کے ذریعے انگریزی تعلیم دلاکر اپنے مفادات پیدا کرنے کی ابتداء کردی سر سید احمد خان نے اس وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے علی گڑھ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی اس یونیورسٹی کے پرنسپل ہمیشہ انگر یز رہے ۔ عملے کی اکثریت بھی انگر یزہی تھے جس کانصاب یورپ سے درآمد شدہ تھایہی کالج ہندو مسلم فرقہ پر ستی کی بنیادبن گیا۔ اور انگریز وں نے کا نگریس کے بجائے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور اپنے پالے ہوئے ایجنٹ محمد علی جناح کو آگے کیا جوکہ خود مسلمان نہ ہوتے ہوئے مسلمانوں کی نمائندگی کرنے لگا حالا نکہ اسی جناح نے شروع میں پاکستان کی تصور کامذاق اُڑایا تھا جس کا حوالہ دیتے ہوئے سری پرکاش نے جو نومبر دسمبر 1934 ء کے عام انتخابات میں کانگر یس کی ٹکٹ پہ سینٹر ل لجسلٹیواسمبلی کاممبر منتخب ہواتھا ۔اپنے ایک مضمون ’’پاکستان کاتصور ‘‘میں لکھتے ہیں کہ ’’مجھے یاد ہے کہ اسمبلی کے پہلے اجلاس میں انگریزوں کی جانب سے کیمبرج سے شائع شدہ ایک پمفلٹ بعنوان ’’پاکستان ‘‘ ممبر وں میں تقسیم کروایا گیا جس میں ’’پ‘‘ سے مراد پنجاب، ’’الف‘‘سے مراد افغانستان ‘ ’’ک‘‘سے مراد کشمیر اورانڈیا کے صرف دواور مسلم اکثر یت کے صوبوں کو شامل کیاگیا تھا جس سے لفظ پاکستان مکمل ہوتاتھا ۔(واضح رہے کہ بلوچستان کا برصغیر سے الگ ایک خود مختیار ریاست ہونے کی وجہ سے اس پمفلٹ میں کوئی ذکر نہیں تھا) سرہنری کر یک جواسمبلی ممبر تھے اس کو پڑھ کر ہنسنے لگے مجھے خوب یادہے کہ مسٹرجناح نے سب سے زیادہ دیرتک اس تصور کامذاق اڑاتے ہوئے ہنستے رہے ‘‘۔
یہ اسمبلی1937 ء میں ختم ہوجاتی لیکن پاکستان کے وجود کو حتمی شکل دینے اور ہندو مسلم فسادات کوبڑھاوا دینے کیلئے یہ اسمبلی 1945 ء تک بر قراررہی اور مسٹر جناح برطانوی مفادات کے تحت کام کرتے ہو ۔ئے پاکستان کیلئے راہ ہموار کرتے رہے جس میں انہیں امریکی سامراج کا تعاون بھی حاصل رہاکیوں کہ قیام پاکستان کے ٹھیک تین ماہ اورسولہ دن پیشتر یکم مئی 1947 ؁ء کو منصو بے کے مطابق جناح سے بمبئی میں دوامریکی نمائندوں امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی ایشیا ئی امور کے شعبہ کے سربراہ ایمنڈاے ہیئر اور انڈ یا میں امریکی سفارت خانے کے سکنڈ سیکر یٹری تھا مس ای ویل نے ملاقات کی اور مستقبل کاپلان طے پاگیا۔یہ ملک امریکی مفادات کے تحت سوویت یونین کے خلاف اہم کردار اداکرے گا ۔
اپنی حکمت عملی کے تحت برطانوی ماہرین برصغیر کے اقوام کے نفسیات کا بھی بغور جائزہ لیتے رہے کہ مستقبل میں جواِن کے مفادات کے تحفظ اور اس علاقے میں انتشا ر پھیلا تے ہوئے سامراجی حربوں کیلئے کون سی قوم راہ ہموار کر سکتا ہے اس طرح ان کی نگاہ انتخاب پنجابی قوم پہ پڑ گئی بعد ازاں جب انگلستان جنگ عظیم کے بعد معاشی حوالے سے دیوالیہ پن کا شکار ہوا تو اس نے امریکی سرپرستی میں پناہ ڈھونڈلی اوراقوام کو ’’آزادی ‘‘دینے کے نام پہ خطوں کو تقسیم سے دوچار کردیا تاکہ مستقبل میں بھی ان علاقوں میں وہ اپنے مفادات کے تحت فائدہ اٹھاسکے۔اس طرح 14 اگست 1947ء کو پنجابیوں کاپاکستان بنا اور 1948 ء میں بلوچ سرزمین کوانگر یز ساز ش اور پنجابی منا فقت کے تحت جبری طو ر پہ اس پنجابی ملک میں شامل کرلیاگیا ۔
ازاں بعد جب استعماری مفادات کے تحت پاکستان کا قیا م عمل میں لایاگیا ۔ تواس ریاست نے عالمی سامراج امریکہ اوراس کے حواری برطانیہ کی خدمت گزاری میں اس حد تک آگے بڑھ گیا کہ اب پوری دنیا اس کی شیطانیت ‘کمینگی ‘سازشوں سے آگاہ ہے ۔آج بھی ساری دنیا میں امریکی مفادات کو تقو یت پہنچا نے کیلئے پاکستانی پٹھو فوج اپنا کر دار ادا کررہی ہے۔ آج بھی افغانستان اور عراق میں امریکی مفادات کو تقویت پہنچا نے کیلئے پنجابی پیش پیش ہے ۔حال ہی میں اسی بنا ء پر عراق میں مزاحمت کاروں نے دوآئی ایس آئی کے ایجنٹوں کا سرقلم کردیا ۔
بہرحال اس تاریخی بحث سے قطع نظراب ہم پنجاب کے دانشوروں کے تذبذب پہ ایک نظر ڈالتے ہیں کہ وہ اپنی تحریروں میں پنجاب کے اس تاریخی کردار پہ وضا حتیں کرتے پھر رہے ہیں ۔ احمد بشیر،فخر زمان، احمد سلیم ،حنیف رامے ان دانشوروں میں سرفہر ست کیوں نظر آتے ہیں کہ جواپنی ہر تحریر میں یہ وضاحت کرتے نظر آتے ہیں کہ پنجاب نے مزاحمت کی ہے ۔ لیکن ان کی وضاحت دلا ئل کے بجائے صرف لفاظی پہ مشتمل ہے ۔بلکہ حنیف رامے نے پنجاب کامقدمہ میں ایک جگہ پہ تحریر کیاہے ۔’’بیل چونکہ قدیم پنجاب کی علامت ہے ۔اس لیئے آج بھی پنجابیوں کو بیل کہہ کر پکار ا جاتاہے ۔’’جبکہ دنیا میں بیل صرف فرمانبر داری کی علامت ہے ۔جو مالک کے اشاروں پر آنکھیں بند کرکے کو لہو پہ گھومتا رہتا ہے ۔اسی لیئے تو شاید حنیف رامے کو اس بات کا احساس ہوگیاتھا کہ آگے چل کر اس نے لکھا ہے کہ ’’پنجابی اپنی حقیقت کو پہچا نیں۔ اپنی شناخت تلاش کریں کہ وہ کیاہیں اور تاریخ میں انہوں نے کیاکردار ادا کیا ہے ‘‘۔
اگر ہم پنجابی کی تاریخی کردار پہ بحث کریں تو یہ مزید طویل کھینچتا جائے گا ۔ اسلئے اب ہم آتے ہیں اس سوال پر کہ کیا بلوچ اپنی مرضی سے اس پنجابی کا نونیل سسٹم میں شامل ہواتھا؟
محل وقوع اورتجارتی وفوجی اہمیت کے حوالے سے ایشیا ء میں ایک اہم ترین ریاست کی حیثیت حاصل رہی اس سرزمین پہ ہزاروں سالوں آباد بلوچ قوم کا رشتہ اس سے اتنا گہرا ہے کہ اس سرزمین کی اہمیت کی وجہ سے با جبروقت قو موں کی ہر وقت اس میں نظریں گڑھی رہی ہیں ۔لیکن بلوچستان کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے تمام بلوچ غیر بلوچ تاریخد ان اُس بات کے معترف ہیں ۔کہ اس قوم نے ہمیشہ اپنے سرزمین کی حفاظت وتقد س کیلئے کسی قسم کی قر بانی سے دریغ نہیں کیا ہے ۔بلوچ کی تاریخ مزاحمت کی داستانوں سے بھر ی پڑی ہے۔اگر ہم بلوچ تاریخ پر لکھی گئی تمام کتابوں کا مطالعہ کریں تو ان کا مختصر خلاصہ یہ نکلے گا کہ ۔’’بلوچ سرزمین کی جغر افیائی وتجارتی اہمیت کی وجہ سے ہمیشہ سے بلوچوں کو اپنے سے زیادہ طاقتور و جابر ریاستوں سے ٹکرانا پڑاہے ۔بلوچوں نے کبھی بھی آرام سے بیٹھ کربزم آرائی نہیں کی ہے،بلکہ میدان رزم کی گرم بازاری ہی ان کے حصہ میں آتی رہی ہے ۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی زندگی مزاحمتی جنگ وجدل میں گزاری ہے ۔بلوچ مزاحمتی تاریخ انتہائی طویل ہے ۔لیکن یہاں ہم مختصراً صرف پنجابی ریاست کے خلاف بلوچ قومی مزاحمت کی تاریخ بیان کریں گے ۔تاکہ یہ بات کھل کر سامنے آئے کہ بلوچ اپنی مرضی سے اس ریاست میں شامل نہیں ہواتھا ۔
3 جون 1947ء کو لا رڈ ماؤنٹ بیٹن وائسرائے ہند نے برصغیر کی تقسیم کے ساتھ تمام ریاستوں کے آزادی کااعلان کیا۔ تو 17 جون 1947 ء کو جناح کا یہ بیان اخباروں میں شائع ہوا ۔ ’’آئینی وقانونی طورپر برطانوی زیر تسلط ریاستیں برطانوی اقتدا ر اعلیٰ کے ختم ہوتے ہی آزاد وخود مختیار ریاستیں ہونگی ۔ اوراپنے لیئے اپنی پسند کے مطابق لائحہ عمل اختیار کرنے میں آزاد ہونگی ۔‘‘
اسی طرح 4 اگست 1947 ء کو ایک کانفر نس زیر صدارت لارڈماؤ نٹ بیٹن ہوئی ۔اس کانفرنس میں میرا حمد یار خان کے علاوہ جناح اور لیاقت علی خان نے بھی شرکت کی ۔جس میں یہ فیصلہ کیاگیا کہ ’’11 اگست 1947 ء کو بلوچ ریاست کی وہ خودمختار حیثیت بحال ہوجائے گی جوکہ 13 نومبر 1839ء سے قبل تھی ۔اس دوران خان قلات میراحمد یارخان، جناح اور لیاقت علی کے درمیان ایک معاہدے پر بھی دستخط ہوئے ،جو بعد میں ایک اعلامیہ کی صورت اگست کوشائع ہوا ۔ جسکا پہلا نقطہ یہ تھا کہ حکومت پا کستان (جو کہ خود بھی دس روز بعد 14 اگست کووجود میں آرہا ہے ۔) ریاست قلات کو ایک خود مختیارریا ست کی حیثیت سے، جس کے معاہد اتی تعلقات برا ہ راست حکومت برطانیہ سے ہیں ۔اور جس کامنصب ومرتبہ ہندوستان کے دیگر ریاستوں سے مختلف ہے تسلیم کرتی ہے ۔‘‘
اگست 1947کق بلوچ ریاست کی سابقہ آزاد حیثیت بحال ہوگئی لیکن کالو نیل ایجنٹ پنجابی نے پہلے ہی سے اس کو ہڑپ کر نے کا تہیہ کیا ہوا تھا ۔
اکتو بر 1947کو جنا ح نے خان قلات میرا حمد یارخان کو کراچی بلاکر باقاعدہ دھمکی دی کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کردے ۔ورنہ نتائج اچھے نہیں ہونگے ۔بعد میں ستمبر اور دسمبر1947میں با التر تیب ’’دارالعوام ‘‘اور ’’دار الا مرا ء ‘‘ میں اس پر بحث ہوئی تو بلوچ عوام کے منتخب نمائندوں اور بلوچ قبائل کے سردار وں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی بھر پور مخالفت کی ۔ تونہ صرف جناح خود سبی آئے بلکہ دوسری جانب سے پاکستانی فوج کے کوئٹہ میں موجود بریگیڈ کو قلات پر حملے کی تیاری کا حکم بھی دے دیا گیا۔ پھر سازش کے تحت خاران، لسبیلہ اور ازاں بعد 17 مارچ 1948ء کو مکراں کے پاکستان کے ساتھ الحا ق کا اعلان کردیاگیا ۔اسی طرح یکم اپریل 1948ء کو پاکستانی فوج کوقلات میں داخل ہو کر خان قلات کو نظر بند کر نے کا حکم ملا۔ تو خان نے الحاق کے معاہد ے پر دستخط کرنے پر رضا مندی ظاہری کی اور یکم اپریل سے قبل 30 مارچ کوکراچی جاکران پہ دستخط کردیئے ۔
آغا عبدالکر یم خان نے اس جبری الحاق کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے اپنے سات سوساتھیوں سمیت افغانستان کارُخ کیا اور اپنی حکمت عملی ترتیب دینے کے بعد مئی1948 ء میں واپس آکر پاکستانی فوج کے خلاف چھا پہ مارکار روائیاں شروع کی لیکن سازشی پنجابی فوج نے چال چلی ۔ اور جنرل اکبر خان اور خان میر ا حمد یار خان کو قر آن پا ک دیکر پہاڑوں میںآغاعبدالکر یم خان کے پاس میڑ ھ بھیجا ۔تو آغا صاحب قرآن کی حلف پہ پہاڑ وں سے نیچے اُتر ے ۔لیکن پنجابی چالبازوں نے قرآن کے حلف کو پس پشت ڈال کر آغاعبد لکریم خان سمیت دوسو بلوچ سرفر وشوں کو گرفتار کر لیا ۔اور آغا صاحب کو دس سال کیلئے جیل بجھوایا ۔1955ء میں اپنی رہائی کے بعد آغاعبدالکریم خان نے ’’استمان گل ‘‘کی بنیاد رکھ دی ۔
بلوچستان میں آزادی کیلئے جدوجہد کا تسلسل جاری رہا ۔بلوچ قوم میں غلامی کے خلاف بے چینی بڑھتی رہی ۔تو پنجابی فو ج نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے 6 اکتوبر 1958ء کو بلوچستان پر دوبارہ چڑھائی کردی ۔خان قلات کو اس کے محل سے گرفتار کرلیاگیا۔ اور اس کے اگلے روز 7 اکتوبر کو پاکستان میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا۔ تو پورے بلوچستان میں پاکستان کے اس فوج کے خلاف بغاوت کردی گئی۔جس نے ریاست قلات کے مال خانہ واسلحہ خانہ پہ ہاتھ صاف کیا تھا میراحمد یار خان اپنی خود نوشت کتاب اور خوانین بلوچ میں اس کاروائی کا ذکر کرتے ہوئے جب اذان فجر کے لئے اللہ اکبر کی آواز گونج رہی تھی تو پاکستانی فوج نے توپوں سے ان میناروں کو نشانہ بنایا اور میرے گھر کی چاردیواری پھلانگ کر اندر داخل ہوئی مجھے گرفتار کرنے کے بعد میرے آباو اجداد کی نشانیاں یعنی پگڑی، تلواریں، خنجر اور دوسری قیمتی چیزوں کو قبضہ لے لیا گیا اور تمام قیمتی اشیاء غائب کردئے گئے اس دوران تین سوقبائلی وسیاسی عمائد ین کوگر فتار کرلیاگیا ۔اور کلی کیمپ میں اذ یتیں دی گئیں ۔مر ی،‘بگٹی،ساروان اورجھالا ون کے قبا ئیلیوں نے پاکستانی فوج کے خلاف چھا پہ مارکار روائیاں شروع کردیں ۔سب سے بڑا دستہ نواب نور خان زرکزئی کا تھا ۔جس میں سات سوقبائلی شامل تھے ۔اورنواب نوروز خان کی عمر اس وقت نوے سال تھی ۔ایک سال تک پورے بلوچستان میں ان چھاپہ مارحملوں کی وجہ سے پاکستانی فوج کو حزیمت اُٹھانا پڑی ۔آخر ناکام ہوکر اس نے وہی پرانی چال چلی اور اپنے چند حواری سرداروں کو قرآن پاک دیکر نواب نوروز خان کومیڑھ کرکے پہاڑوں سے اُتارا ۔اور پھر حلف پہ قائم نہ رہتے ہوئے انہیں گرفتار کیا نواب نوروزخان اور ان کے چند رفقاء کو عمر قید کی سزادی گئی اور میر سبزل خان زرکزئی،میر بہا ول خان موسیانی ،میرولی محمد زرکزئی،میر جمال خان نیچا ری،میر مستی خان موسیا نی،میر بٹے خان زرکزئی ، میر غلام رسول نیچاری کو پھانسی کی سزادی گئی ۔جیل حکا م کے مطابق ان جیا لوں کو جب تختہ دار کی جانب لے جایا گیا تو جیل کی دورود یوار’بلوچستان زندہ باد ‘اور ’آزادبلوچستان‘ کے نعروں سے گونج اُٹھے۔اور ساتھ ہی انہوں نے اپنے گلے میں قرآن مجید کا نسخہ بھی ڈال رکھاتھاان کا کہنا تھا کہ پنجابی حکمرانو ں نے قرآن پر کئے اپنے عہد کوتو ڑا ہے ۔لہٰذا قرآن کو بھی ہمارے ساتھ پھا نسی دی جائے ۔
ازاں بعد میر علی محمد مینگل،میر نیک محمد مینگل،میر وز یر خان مری،میر نوریز خان بڈھانی مری اور دیگرہزاروں بلوچ سر فروشوں نے 1967ء تک پنجابی بزدل فوج کے خلاف چھاپہ مار جنگ کو جاری رکھا۔اسی طرح 1970 ء کی دہائی میں پنجابی فوج اور ایرانی حکمرانوں کے سازش کے تحت بلوچ سرزمین پر خون کی ہولی کھیلی گئی ۔کیونکہ ان کو یہ خوف دامن گیرتھاکہ بلوچ قومی تحریک ایک مخصو ص رفتار سے آگے بڑ ھ رہی ہے ۔اور ایشیا ء پہ اس کے واضح اثرات مرتب ہونگے اور اس قوم کے سرزمین پر موجود وسائل سے انہیں ہاتھ دھونا پڑ یں گے ۔اسلئے 1973ء میں80 ہزار پنجابی فوج بلوچستان میں داخل ہوئی جن کوایرانی فوج کی کمک بھی حاصل تھی اور ایران پائیلٹ جن کے پا س امریکا کے عطا کردہ کو برا ہیلی کا پٹر بھی تھے ۔ بلوچ سرزمین پرظلم وستم کے پہاڑ توڑے لیکن بلوچ قوم کے حوصلے پست نہیں ہوئے اور بلوچ مسلح جدوجہد پہ یقین رکھنے والے آزادی پسندوں نے1973 ء سے 1977 ء تک پنجابی فوج کے خلاف چھاپہ مارجنگ کی ۔ خود پنجابی حکمران اس بات کااقرار کرتے ہیں کہ اس چھاپہ مار جنگ میں انہیں اس قدر نقصان اُٹھا ناپڑاکہ جس قدر انہوں نے انڈیا کے ساتھ تین جنگوں میں بھی نہیں اُٹھا یاتھا ۔1999 ء میں ایک پھر بلوچ نے ترقی یافتہ دور کے ساتھ قومی آزادی کے لئے جاری اس جنگ کے تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے گوریلا جنگ بہترین حکمت عملیوں کیساتھ شروع کی حالات اور وقت کے ساتھ سیاسی میدان بھی اترے اپنی مزاحمتی اور سیاسی پختگی کی بدولت پاکستانی ریاست کو ہوش باختہ کیا ۔ اب ایک بار پھر ملٹی نیشنل کمپنیوں،گو ادر کی اہمیت،بلوچ سرزمین پر موجود وسائل اور امریکی سامراج کے اس خطے میں دلچسپی کے باعث اور بلوچ سرزمین بلوچ قومی تحریک آزادی کے منظم طریقے سے آگے بڑھنے کی وجہ سے پنجابی کوخطر ے کی بو محسوس ہورہی ہے ۔اور ایک بار پھر فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ ظلم و جبر کی نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے ہزاروں بلو چ بدنام زمانہ آئی ایس آئی ، ایم آئی پاکستانی فوج اور ایف سی اور دیگر ایجنٹوں کے ذریعے اغواء کئے گئے سینکڑوں بلوچوں کی مسخ لاشیں ویرانوں بازاروں میں پھینکی گئیں اور تاحال یہ سلسلہ زوروں سے جاری ہے۔اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیااب بھی بلوچ اس پنجابی کے ساتھ اس کی غلامی میں گزارسکتے ہیں جو خودغلاموں کا غلام رہا ہے؟اب فیصلہ بلوچ قوم کی ہاتھ میں ہے کہ وہ مستقبل کیلئے کونسی راہ متعین کرے گا؟
پنجابی کی غلامی.........؟یاقومی آزادی.......؟

............................
(یہ مضمون بی این ایم کے ترجمان ’’زرمبش‘‘ کے جولائی2011 سے لیا گیا ہے ،ادارہ)
***

Share this Post :

Post a Comment

Comments

News Headlines :
Loading...
 
Support : Copyright © 2018. BV Baloch Voice - All Rights Reserved