Translate In Your Language

New Videos

نیتاجی ہندوستان کے جہد آزادی کے عظیم رہنما سبھاش چندر بوس کی سوانح عمری،فکر و نظریات

نیتاجی ہندوستان کے جہد آزادی کے عظیم رہنما سبھاش چندر بوس کی سوانح عمری،فکر و نظریات

(.....ایک قسط وار سلسلہ.....)
تحریر : شری چمن لال آزاد پیش کردہ : ادارہ سنگر


’’نیتا جی‘‘ہندوستان کے جہد آزادی کے عظیم رہنماشری سبھاش چندر جی بوس کی سوانح عمری ، جدجہد ،فکرو نظریات اورتعلیمات پر مبنی یہ ایک تاریخی و دستاویزی کتاب ہے جسے شری چمن لال آزاد نے تحریر ہے۔یہ کتاب اقوام عالم میں جاری جدو جہد آزادی کی تحریکات کیلئے ایک عظیم اثاثہ ہے جس کی رو سے وہ اپنی جدو جہد کیلئے بہتر رستے متعین کرکے انہیں کامیابی سے ہمکنار کرسکتے ہیں کیونکہ یہ کتاب جدو جہد کی ایک عظیم تاریخ و تجربت رکھتی ہے ۔ہم بلوچ قومی تحریک آزادی کے جہد کاروں سمیت بلوچ حلقوں کیلئے اس کتاب کو قسط وار شائع کرنے کا اہتمام کررہے ہیں تاکہ وہ سبھاش چندربوس کی تعلیمات ، فکرو نظریہ اور تجربت سے استفادہ کرسکیں ۔چونکہ یہ کتاب بہت نایاب ہے اور عام لوگوں کی دسترس میں نہیں ہے اسی لئے اسے اپنے قارئین ، بلوچ حلقوں اور بلوچ جہد آزادی کے جہد کاروں کے لئے پیش کیا جارہاہے ۔(ادارہ سنگر )

(گذشتہ سے پیوستہ)

( نویں قسط)

حکومت جھک گئی!

شری سبھاش کو یورپ سے روانگی سے پیشتر گورنمنٹ ہند نے انہیں یہ دھمکی دی تھی۔ کہ ان کے جہاز سے اترنے کے فوراً بعد انہیں گرفتار کرلیا جائیگا۔ اور گورنمنٹ ہند نے اس دھمکی کو عملی جامہ پہنا بھی دیا۔ لیکن گرفتاری کے بعد شری سبھاش کی بگڑتی ہوئی صحت اور رائے عامہ کے دباؤ نے گورنمنٹ کو جھکادیا۔ 17مارچ 1937ء کے روز شری سبھاش چند ر بوس میڈیکل کالج اسپتال سے رہا کردیئے گئے۔ رہائی کے احکام ایڈیشنل ڈپٹی سیکریٹری آف بنگال گورنمنٹ نے جاری کئے تھے۔ یہ حکم شری سبھاش کو ساڑھے چھ بجے شام دیا گیا۔ جس کے بعد انہوں نے ڈپٹی کمشنر اسپیشل برانچ سے ملاقات کی۔ اور دو گھنٹے تک ان میں تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔ اپنی ماتا کو رہائی کی اطلاع دینے کے بعد آپ پھر میڈیکل ہال اسپتال ملیں گئے۔ تاکہ وہاں پر اسپتال کا جو اسٹاف ان کا علاج معالجہ کررہا تھا۔ ان کو الوداع کہیں۔ گھر پہنچنے کے بعد کانگریسوں نے مسٹر بوس کے گلے میں پھولوں کے ہار پہنائے۔ ان کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ اور نہایت کمزور دکھائی دیتے تھے۔ جب آپ سے دریافت کیا گیا کہ کیا آپ علاج کے لئے پھر یورپ تشریف لے جائینگے؟ تو شری بوس نے جواب دیا میں نے اس کے متعلق ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

جب پنڈت جواہر لال نہرو کو شری سبھاش بوس کی رہائی کی اطلاع ملی۔ تو آپ نے مندرجہ ذیل تار ارسال کیا۔

"مجھے ابھی ابھی آپ کی رہائی کا علم ہوا ہے۔ یہ خبر سن کر میں بہت خوش ہوا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اگر ڈاکٹروں نے اجازت دی تو آپ نیشنل کانونیشن کے اجاس میں شریک ہونے کے لئے ضروری دہلی تشریف لائیں گے۔"

لیکن ڈاکٹروں نے شری سبھاش کو مشورہ دیا تھا۔ کہ وہ خرابی صحت کے پیش نظر اپنے مکان سے باہر نہ جائیں۔ ان حالات میں آپ نے دہلی کے نیشنل کانونیشن میں شریک ہونے سے معذرت کا اظہار کردیا۔

اسی روز ڈاکٹر نیل رتن سرکار اور ڈاکٹر سنیل چندر بوس نے مندرجہ ذیل بیان جاری کیا۔

آج ہم نے شری سبھاش چندر بوس کا معائنہ کیا ہے۔ ہماری رائے ہے۔ کہ جب تک ان کی ٹمپریچر تبدیل نہیں ہوتی۔ انہیں مکمل آرام کرنا چاہیے۔ اور اپنے کمرے سے باہر نہ جانا چاہیے۔ نہ ہی کسی قسم کے جسمانی یا دماغی کام میں حصہ لینا چاہیے۔ ان کی صحت کے نارمل حالات پر آنے میں بھی کافی عرصہ لگے گا۔"

ماہ اپریل ملیں ڈاکٹروں نے شری سبھاش بوس کو مشورہ دیا۔ کہ وہ صحٹ کو بحال کرنے کیلئے ملبے عرصے کے لئے ڈلہوزی میں قیام کریں۔ چنانچہ آپ ڈلہوزی جاتے ہوئے کانگریسے ورکنگ کمیٹی یک اجلاس میں شریک کیلئے الٰہ آباد اترے۔ الٰہ آباد نواسیوں نے ریلوے اسٹیشن پر آپ کا شاہانہ استقبال کیا۔ اسٹیشن سے شری بوس الٰہ آباد ہائیکورٹ کے سرکردہ بیرسٹرپیارے لال بیزجی کے مکان پر گئے۔ اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد آنند بھون تشریف لے گئے۔ اور وہاں کانگریس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے دو گھنٹے گاندھی جی اور پنڈت جواہر لال نہرو سے تبادلہ خیالات کرتے رہے۔ بات چیت سے پہلے گاندھی جی نے سبھاش بوس کو فعل میں لیتے ہوئے کہا-:

"جب سے مسٹر مہادیو ڈیسائی کلکتہ میں آپ سے ملاقات کرکے آئے ہیں میرے من کو شانتی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ لیکن آج آپ کو دیکھ کر میرا دل اتی پرسن ہوا ہے۔"

الٰہ آباد سے دہلی ہوتے ہوئے شری سبھاش یکم مئی 1937ء کو لاہور پہنچے۔ آپ کی آمد سے بہت دیر پہلے لوگ بھاری تعداد میں ریلوے اسٹیشن پر جمع ہونے شروع ہوگئے تھے۔ بھیڑ اس قدر زیادہ تھی۔ کہ ریلوے حکام نے پلیٹ فارم ٹکٹ بند کردیئے۔ جونہی آپ ٹرین سے باہر نکلے۔ آپ کو پھولوں کے ہار پہنائے گئے اور جلوس کی صورت میں پلیٹ فارم سے باہر لے جایا گیا۔ بعدازاں آپ اپنے لاکھوں مداحوں کو درشن دے کر ڈاکٹر دھرم ویر کی کوٹھی پر تشریف لے گئے۔ اگلے روز ایک نمائندہ پریس نے آپ سے انٹرویو کیا۔ جس کے دوران آپ نے بتایا کہ-:

"میں کسی صحٹ افزا مقام پر چار پانچ ماہ گزارنے کے بعد پالیٹکس میں دوبارہ داخل ہوجاؤں گا۔ میں آج کل ہندوستانی زبان سیکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ میرا ملک کے نام پیغام یہ ہے ۔کہ ابھی تک جدوجہد ختم نہیں ہوئی۔ یہ اس وقت تک جاری رہے گی۔ جب تک ہندوستان مکمل آزادی حاصل نہیں کرلیتا۔"

11مئی کو لاہور سے ڈلہوزی روانہ ہوتے وقت آپ نے اپنے ہم وطنوں کے نام مندرجہ ذیل پیغام جاری کیا-:

"ہمارا اولین فرض ہے۔ کہ ہم کانگریس کی تنظیم کو مضبوط بنائیں تاکہ اس جماعت کا کروڑوں فاقہ کش انسانوں کی اقتصادی ضروریات کے ساتھ گہرا تعلق پیدا ہوسکے۔ اور اس طرح عوام کی اینٹی امپیرئلسٹ جدوجہد زیادہ زور پکڑجائے۔ اگر ہم نے کانگریس کو زیادہ مضبوط بنالیا۔ تو ہم ہنگامی حالات کا نہایت آسانی اور جرأت سے مقابلہ کرسکیں گے۔"

لاہور میں قیام کے دوران آپ نے کوئی پبلک تقریر نہ کی۔ بلکہ ان کی روانگی کو بھی صیغہ راز میں رکھا گیا۔ کیونکہ ان کی کمزور صحت کے پیش نظر لوگوں کے اکٹھا ہوجانے سے ان کی صحت پر خراب اثر پڑنے کا اندیشہ تھا۔ اگلے روز آپ ڈلہوزی پہنچ گئے۔ جب آپ سے دریافت کیا گیا۔ کہ آپ ڈلہوزی رہنا کیوں پسند کرتے ہیں؟ تو آپ نے جواب دیا کہ "کلکتہ میں میرے ڈاکٹروں نے اس مقام کو اس لئے منتخب کیا ہے کہ یہاں کی آب و ہوا خشک اور صحت بخش ہے۔ میں خود بھی ایک ایسے مقام پر رہنا چاہتا ہوں۔ جہجاں سکون اور خاموشی ہو۔"

لیکن گورنمنٹ کی رائے کچھ اور تھی۔ وہ شری سبھاش بوس کی سرگرمیوں کو مشکوک نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔ اسے یہ گوارا نہ تھا۔ کہ وہ پنجاب کے قومی کارکنوں سے صلاح و مشورے کریں۔ چنانچہ "ٹائمز آف انڈیا" میں نہایت عجیب و غریب مضمون شائع ہوا۔ جس میں لکھا تھا-:

"بعض اشخاص کی طرف سے یہ سوال کیا جارہا ہے۔ کہ کیا شری سبھاش بوس نے اتفاقیہ ڈلہوزی کو اپنی صحت بحال کرنے کیلئے منتخب کیا۔ اور کیا انہوں نے لاہور ٹھہرکر "اتفاقیہ"پنجاب کے انقلاب پسند عناصر سے ملاقات کی؟ پنجابی پنڈت جواہر لال نہرو کو پسند نہیں کرتے۔ شری سبھاش بوس کی سرگرمیاں انہیں زیادہ پسند ہیں۔ پراونشل کانگریس ورکنگ کمیٹی نے لاہور میں ورکرز ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوجوان کسانوں میں کمیونزم کا پرچار کریں گے۔ گورنمنٹ ان تمام چیزوں کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔"

اس سے واضح ہے کہ گورنمنٹ شری سبھاش بوس کے ڈلہوزی میں قیام کپو مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ یہ محض سی آئی ڈی افسروں کی غلط رپورٹوں کا نتیجہ تھا۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ سی آئی ڈی گورنمنٹ کے کام اور آنکھ ہے اس سے یہ مراد ہے کہ گورنمنٹ جو کچھ جانتی ہے۔ وہ سی آئی ڈی کے ذریعے ہی سنتی ہے۔ اور تمام افراد کے متعلق گورنمنٹ کا نقطہ نگاہ وہی ہوتا ہے۔ جو سی آئی ڈی کا اگر سی آئی ڈی کی نگاہ میں کوئی شخص خطرناک ہے۔ تو گورنمنٹ بھی اسے خطرناک ہی سمجھتی ہے۔ جب شری سبھاش بوس پنجاب آئے۔ تو قدرتی طورپر وہ سیاسی کارکنوں سے ملے۔ لیکن ہندوستان کے سی آئی ڈی افسروں کی نگاہ میں کسی سیاسی کارکن کا دوسرے سیاسی کارکنوں سے ملنا بھی معیوب ہے۔ پس سی آئی ڈی افسروں نے ان رسمی ملاقاتوں کو خطرناک رنگ دے کر بیماری کی حالت میں بھی شری سبھاش بوس کو پنجاب گورنمنٹ کی نظروں میں مشکوک بنادیا۔

21جولائی کو سبھاش نے ڈلہوزی سے اپنے ایک دوست کو خط لکھا۔ جس میں درج تھا۔

"بنگال سے جو اطلاعات آرہی ہیں۔ ان سے مجھے انتہائی تشویش ہورہی ہے۔ ایک طرف تو سیاسی نظربندوں اور قیدیوں کی رہائی کے متعلق توقعات غلط ثابت ہوئی ہیں۔ دوسری طرف بنگال میں کانگریس کا کام کوئی ترقی نہیں کررہا۔ مجھے معلوم ہے۔ کہ جب میں پھر عملی زندگی میں آؤں گا۔ تو مجھے سخت کام کرنا پڑے گا۔ اس لئے میری عقل کہتی ہے۔ کہ میں اس معاملے میں صبر سے کام لوں۔ جیلوں میں نظر بندوں کی دردناک حالت کے متعلق مجھے کچھ خط ملے ہیں ۔ جن سے میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔۔۔"

اپنی ڈاک پرسنسر کے متعلق شری بوس لکھتے ہیں-:

"میں عرصہ سے دیکھ رہا ہوں۔ کہ میری ڈاک پر کڑی سنسر ہورہی ہے پہلے بھی میرے خطوط کو کھول لیا جاتا تھا۔ مگر وہ میرے پاس فوراً پہنچادیئے جاتے تھے۔ لیکن آج کل میرے خطوط نہ صرف کھولے ہی جاتے ہیں، بلکہ وہ بڑی دیر سے ملتے ہیں۔ ڈاک خانہ سے شکایت کی جاتی ہے تو اس کا کچھ نہیں بنتا۔ میں حیران ہوں۔ کہ ہمارے وزراء کس طرح یہ پسند کرینگے کہ ان کے خطوط کو کھول لیا جائے۔ اور وہ بہت دیر یک بعد ان تک جائیں"۔

صوبوں میں نئی وزارتیں بن رہی تھیں۔ اور لوگوں کو توقع تھی کہ نئی وزارتیں عہدے سنبھالتے ہی سیاسی قیدیوں اور نظر بندوں کو رہا کردیں گی۔ سیاسی قیدیوں اور نظر بندوں کی سب سے زیادہ تعداد بنگال کی جیلوں اور کیمپوں میں بند ترھی۔ بنگال میں فضل الحق وزارت بن چکی تھی۔ 1945ء کے فضل الحق اور 1937ء کے فضل الحق میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان دنوں مولوی فضل الح۔۔۔ لیگیوں کے جال میں پھنسے ہوئے تھے۔ اور "شیربنگال" بننے کے شوق میں کانگریس کو آڑے ہاتھوں لیا کرتے تھے۔ ان حالات میں ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ جیلوں کے دروازے کھول کر صوبجاتی خود مختاری کا آغاز کریں گے۔ فضول تھا۔ لیکن رائے عامہ بڑے بڑوں کے بل نکال دیتی ہے۔ سبھاش بوس نے اس مسئلے کو اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا۔ 23جولائی کو آپ نے سیاسی قیدیوں ا ور نظر بندوں کے متعلق ایک بصیرت افروز بیان جاری کیا۔ جس میں فضل الحق وزارت اور گورنر بنگال سرجان اینڈرسن کے پرخچے اڑائے۔ وہ اہم بیان ذیل میں دیا جاتا ہے-:

"جب میں بنگال سے روانہ ہوا تھا۔ تو میں نے فیصلہ کیا تھا۔ کہ میں اس وقت تک کوئی بیان نہ دونگا۔ جب تک کہ میں سرگرم سیاسیات میں حصہ نہ لوں۔ لیکن بنگال کی روزانہ صورتحالات مجھے پریشان کررہی ہے۔ اور چونکہ مجھے خرابی صحت کے باعث ابھی کافی دیر تک بنگال سے باہر رہنا پڑأ گا۔ اس لئے میں محسوس کرتا ہوں۔ کہ اب وقت آغیا ہے کہ میں اس سکوت کو جو میں نے خود اپنے اوپر عائد کررکھا ہے توڑ دوں چار ماہ کے تجربے نے ثابت کردیا ہے۔ کہ ہندوستان بھر میں سب سے زیادہ رجعت پسند وزارت بنگال میں قائم ہوئی ہے۔ اگرچہ کسی آدمی نے بھی بنگال کے وزیراعظم مولوی فضل الحق سے کسی بڑی بات کی توقع نہیں کی تھی۔ مگر اس انتہائی مایوسی کی جو آج بنگال محسوس کررہا ہے۔ بھی کسی کو توقع نہ تھی۔ انتخابات کے دوران مولوی فضل الحق نے بنگال کے باشندوں سے وعدے کئے تھے۔ کہ وزارت سنبھالنے کے بعد سیاسی قیدیوں کی رہائی کی طرف غور کپیا جائے گا۔ مگر اب وہ تمام وعدے بھول گئے ہیں۔ اور استبدادی قوانین ابھی تک نافذ ہیں۔ بنگال کی جیلیں سیاسی قیدیوں اور نظر بندوں سے بھری پڑی ہیں۔ اور سینکڑوں بنگالی دہشت پسند انڈیمان میں اپنی زندگی کے آخری دن گزاررہے ہیں۔ ان حالات میں یہ کہنا مبالغہ آمیز نہ ہوگا۔ کہ بنگال کی موجودہ اور سابقہ حکومت میں کوئی فرق نہیں۔ اور لوگ یہ باور کرنے کے لئے تیار نہیں کہ بنگال میں صورتحال خود مختاری کا آغاز ہوگیا ہے۔ ہر شخص گورنر مستقل افسروں اور ممبران خفیہ پولیس کی ذہنیت کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ جو ایک عرصہ سے اس پالیسی پر کاربند ہیں۔ جسے بسمارک "کشت واہن" (BLOOD AND IRON) کی پالیسی سے منسوب کیا کرتا تھا۔ لیکن ہر شخص پرجارپارٹی کے لیڈر مولوی فضل الحق کی ذہنیت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ جو بنگالی نوجوانوں کی بلاسماعت مقدمہ نظر بندی کو حق بجانب قرار دینے کیلئے حیلے بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔

اندریں حالات ہمارا کام صاف ہے۔ ہم نے صوبہ بھر میں بنگالی نظر بندوں اور ان کے ساتھ ساتھ سیاسی قیدیوں کی جن میں انڈیمان والے بھی شامل ہیں۔ رہائی کا مطالبہ کرنے کے لئے زبردست جدوجہد شروع کرنی ہے۔ 24جولائی کو بنگال بھر میں یوم نظر بنداں منانے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے میں اس کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ اس پیغام کو ختم کرنے سے پہلے میں گورنر بنگال اور مستقل افسران سے بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ فی الحقیقت صوبجاتی خود مختاری کے ڈھونگ کی آڑ میں اب بھی بنگال کی حکومت وہی چلارہے ہیں۔ حال ہی ملیں گورنر بنگال نے ایک تقریر میں کہا تھا۔ کہ لاء اینڈ آرڈر کے سلسلے ملیں گورنر اور ان کی وزرت میں مطلقاً کوئی اختلاف نہیں۔ اس سے مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ کہ موجودہ وزارت اسی پالیسی پر کاربند ہے۔ جس پر کہ سابقہ حکومت کار بند تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا۔ کہ آئر لینڈ میں جو دہشت پسند سیاسی قیدی رہا کئے گئے تھے۔ ان کی رہائی کے لئے وہ خود ذمہ دار تھے۔ مگر بنگال کے قیدیوں کے متعلق آپ کہتے ہیں۔ کہ یہاں کے حالات آئرلینڈ سے مختلف ہیں۔ میں ان سے دریافت کرتا ہوں۔ کہ کیا آئرلینڈ میں کھلم کھلا بغاوت نہیں ہوئی تھی۔ جس میں ہزاروں برطانوی قتل کردیئے گئے تھے۔ لیکن بنگال میں جب بدترین صورت حالات بھی پیدا ہوئی۔ تو اس تحریک میں زیادہ سے زیادہ چند درجن برطانوی افسران قتل کئے گئے۔ اس کے علاوہ گورنر بنگال اور ان کے دیگر آئی سی ایس افسران جانتے ہیں۔ کہ بنگال کی تحریک دہشت انگیزی اب ماضی کا ایک افسانہ بن گئی ہے۔ میں پولیس افسروں کپی اتھارٹی پر یہ کہہ سکتا ہوں۔ کہ بنگال کے سیاسی قیدی اور نظر بند اب تحریک دہشت انگیزی نہیں بلکہ سوشلزم کی اجتماعی تحریک شروع کرنے کے حق میں ہیں۔ پانچ سال ہوئے، بنگال کے موجودہ گورنر سرجان اینڈ رسن جب انگلستان سے روانہ ہوئے۔ تو انہیں یہ طعنہ دیا گیا تھا۔ کہ آئرلینڈ میں جوابتری پھیلی تھی۔ اس کی ذمہ داری ان پر تھی۔ لیکن اس ریمارک پر انہوں نے برا منایا۔۔۔اور جواباً کہا-:

"کہ آئرش لوگوں کو آزادی دلانے میں بھی تو ان کا ہاتھ تھا۔"

آپ کو بنگال کی گورنری سنبھالنے پانچ سال ہوچکے ہیں۔ اور عنقریب آپ اپنا چارج کسی جانشین کو دینے والے ہیں۔ کیا ساحل ہند سے روانہ وہنے سے پیشتر آپ وہی باتیں بنگال میں بھی نہ دہرائیں گے؟ جو آپ نے آئرلینڈ میں کی تھیں؟ انہیں چاہیے۔ کہ روانگی سے پیشتر بنگال کے سیاسی قیدیوں اور نظر بندوں کو رہا کرکے حکومت کی باگ ڈور صوبہ کے صحیح نمائندوں کے ہاتھ میں سونپ دیں۔"

شری سبھاش بوس کی اس اپیل کا گورنر بنگال اور مولوی فضل الح۔۔۔ پر تو کیا اثر ہونا تھا۔ لیکن بنگال کے نوجوانوں میں اس بیان سے ایک ہلچل مچ گئی۔

4اگست کو بنگال اسمبلی میں انڈیمان کے سیاسی قیدیوں کی بھوک ہڑتال سے پیدا شدہ صورت حالات پر بحث کرنے کے لئے تحریک التواء پیش ہوئی۔ جس وقت مسٹر گوسوامی یہ تحریک پیش کررہے تھے۔ اسمبلی ہال کے باہر دس ہزار طلباء نے انڈیمان کے قیدیوں سے ہمدردی کے طورپر زبردست مظاہرہ کیا۔ نوجوان جلوس بناکر اسمبلی تک آئے۔ اور انہوں نے احاطہ اسمبلی میں زبردستی داخل ہونے کی بھی کوشش کی۔ اس پر وزراء ڈر گئے۔ اور اپنی حفاظت کے لئے پولیس کی امداد طلب کی۔ پولیس نے احاطے کے تمام دروازے بند کردیئے۔ اس کے بعد طلباء "ڈی وزارت مردہ باد" کے نعرے لگاتے ہوئے خود بخود منتشر ہوگئے۔

اپنی دردناک حالت کی طرف اپنے ہم وطنوں کی توجہ دلانے کیلئے انڈیمان کے 200انقلاب پسند قیدیوں نے بھوک ہڑتال کرکے تمام ملک کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی تھی۔ اس معاملے پر تحریک التواء پر بحث کے دوران سرناظم الدین نے کہا تھا۔ کہ انڈیمان کے قیدیوں نے سنگین کی نوک پر اپنے مطالبات پیش کئے ہیں۔ اس پر شری سبھاش بوس نے ڈلہوزی سے بنگال کے ڈمی ہوم منسٹر کو جواب دیتے ہوئے مندرجہ ذیل بیان جاری کیا-:

"بنگال کے چند وزراء کے بیانات کو نفرت کا جذ۶ہ پیدا ہوئے بغیر پڑھنا مشکل ہے۔ اصلاحات سے پہلے کسی بیورو کریٹ نے اتنی غیر ذمہ دارانہ اور منتقمانہ باتوں کی نمائش نہیں کی تھی۔ جتنی کہ یہ وزیر کررہے ہیں۔ سرناظم الدین ہوم منسٹر بنگال نے پچھلے دنوں یہ کہا تھا۔ کہ انڈیمان کے قیدیوں نے سنگین کی نوک پر اپنے مطالبات پیش کئے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ کالے پانی میں قیدیوں کو سنگینیں پیش کی گئی ہیں۔ یا نہیں، لیکن یہ قیمتی ہتھیار تو سرناظم الدین اور ان کے ساتھیوں کی ملکیت ہے۔ میں سرناظم الدین کو بتانا چاہتا ہوں۔ کہ بھوک ہڑتال کے معاملہ پر بیورو کریٹ گورنمنٹ بھی چجھکتی رہی ہے۔ سرناظم الدین کو گاندھی جی کے تاریخی برت کی یاد دہانی کرانے کی ضرورت نہیں۔ مضبوط گورنمنٹیں مراعات دینے سے کبھی نہیں گھبراتیں۔ 1933ء میں انڈیمان میں بھوک ہڑتال سے تین سیاسی قیدی مرگئے تھے۔ اگر موجودہ ہڑتال جاری رہی۔ تو بہت سے سیاسی قیدیوں کی موت یقینی ہے۔ نان حالات میں افوسناک واقعات کو روکنا کانگریسی وزارتوں کے ہاتھ میں ہے۔ انہیں فوراً اپنے اپنے صوبہ کے قیدیوں کو واپس بلالینا چاہیے۔"

،جوں جوں دن گزرتے گئے۔ انڈیمان کے بھوک ہڑتالیوں کی حالت نازک ہوتی گئی۔اس سے ملک بھر میں سنسنی پھیل رہی تھی۔

دوسری طرف گورنمنٹ ہند کا رویہ نہایت افسوسناک تھا۔ سرکاری طورپر اعلان کردیا گیا تھا۔ کہ جب تک بھوک ہڑتال ختم نہ ہوگی۔ حکومت دہشت پسند قیدیوں کی واپسی کے سوال پر غور نہ کرے گی۔ جب حالات زیادہ ناخوشگوار صورت اختیار کرگئے۔ تو ہندوستان کے سرکردہ لیڈروں نے انڈیمان کے بھوک ہڑتالیوں کو ایک تار بھیجا۔ جس میں ان سے بھوک ہڑتال ترک کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ ابھی اس تار کا کوئی جواب نہ آیا تھا۔ کہ 21اگست کے روز اخباری نمائندوں نے سرناظم الدین ہوم منسٹر بنگال کو گھیر لیا۔ اور ان سے متعدد سوالات پوچھے انہوں نے طوطے کی طرح حکومت ہند کی پالیسی بیان کرتے ہوئے یہ یقین دلایا۔ کہ جونہی بھوک ہڑتال ختم ہوجائے گی۔ تمام سیاسی قیدیوں کو انڈیمان سے واپس بلالیا جائے گا۔

بھوک ہڑتال کے اس نازک مرحلے میں جب سینکڑوں محبان وطن ہندوستان سے دور درز انڈیمان کے دوزخ میں زندگی اور موت کی آخری کشمکش میں مصروف تھے۔ بعض کانگریسی لیڈروں نے تشدد اور عدم تشدد کے جھگڑے کو پھر سے زندہ کرکے اپنی کوتاہ اندیشی کا بدترین اور انتہائی ذلیل ثبوت دیا۔ ان نام نہاد لیڈروں کے منہ میں لگام دینے کیلئے شری سبھاش بوس نے کہا۔

"یہ صرف ہندوستان ہی ہے۔ جہاں تشدد اور عدم تشدد کا سوال اٹھایا جاتا ہے۔ کیا یہ امر واقع نہیں کہ کئی ممالک میں اس وقت جولوگ برسر اقتدار ہیں۔ کسی وقت بغاوتر کے الزام ملیں پھانسی کی کوٹھڑیوں میں بند رہ چکے ہیں۔ کیا تاریخ اس بات کی شاہد نہیں۔ کہ جرمنی روس، اٹلی، اسپین اور آئرلینڈ کے موجودہ حکمران کسی وقت دہشت انگیزی کے الزام میں جیلوں میں بند تھے۔ زیکوسلوواکیہ کا صدر اور ٹرکی کا کمال پاشا بھی تو کسی وقت باغی سمجھے جاتے تھے۔ نامعلوم پھر ہندوستان میں عدم تشدد اور تشدد کا مسئلہ کیوں بار بار اٹھایا جارہا ہے۔ جو لوگ اپنے دیش کی خدمت کرتے ہیں۔ چاہے وہ کوئی بھی طریقہ اختیار کیوں نہ کریں۔ میری نگاہ میں بصد احترام کے قابل ہیں۔"

25اگست کو یہ معاملہ مرکزی اسمبلی میں اٹھایا گیا۔ اور وہاں اس مسئلے پر گورنمنٹ کو شکست فاش ہوئی۔ تحڑیک التواء کے خاتمے پر شری بھولا بھائی ڈیسائی مسٹر ستیہ مورتی اور مسٹر موہن لال سکسینہ ممبران مرکزی اسمبلی نے ہوم ڈیپارٹمنٹ گورنمنٹ ہند کی معرفت بھوک ہڑتالیوں کو مندرجہ ذیل بحری تار ارسال کیا-:

"مرکزی اسمبلی نے تمہارے ہندوستان میں واپسی کے حق میں ووٹ پاس کیا ہے۔ مہربانی کرکے اب بھوک ہڑتال ترک کردیجئے۔"

اس تار کے پہنچنے کے بعد سات کے سوائے باقی ماندہ تمام بھوک ہڑتالیوں نے بھوک ہڑتال ملتوی کردی۔ اور دو روز بعد شری سرت چندر بوس و گاندھی جی کی اپیل پر ان سات دیش بھگتوں نے بھی بھوک ہڑتال ترک کردی۔ اس بھوک ہڑتال کے سلسلے میں ایک انتہائی حیرت انگیز واقعہ پبلک کے سامنے آیا۔

گاندھی جی نے بھوک ہڑتالیوں کے مطالبات کی حمایت کرنے سے پہلے گورنمنٹ ہند کے ذریعے انہیں ایک مراسلہ بھیجا۔ جس میں ان سے دریافت کیا گیا تھا۔ کہ کیا اب بھی ان کا وشواس تشدد میں ہے؟جب انڈیمان کے قیدیوں نے جواباً لکھا کہ اب ان کے خیال میں دہشت پسندی کا حربہ بیکار ہوچکا ہے۔ تو اس جواب کے بعد ہی گاندھی جی نے ان کے حق میں آواز اٹھائی۔ خدانخواستہ اگر انقلاب پسند۔ بھوک ہڑتالی گاندھی جی کو یہ لکھ دیتے۔ کہ وہ عدم تشدد کے اصول پر کاربند رہنے کو تیار نہیں۔ تو پھر نامعلوم گاندھی جی کیا قدیم اٹھاتے۔ شری سبھاش بوس کو گاندھی جی کی اس افسوسناک حرکت کا اس قدر افسوس ہوا۔ کہ انہوں نے پبلک طورپر اس قسم کی ذہنیت کی مذمت کی۔ انڈیمان کی بھوک ہڑتال ماہ اگست 1937ء میں ختم ہوئی تھی۔ اگلے ماہ انڈیمان سے قیدیوں کو ہندوستان کو واپسی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

تقریباً پانچ ماہ ڈلہوزی میں قیام کے بعد شری سبھاش بوس 5اکتوبر 1937ء کو کلکتہ واپس جاتے ہوئے لاہور تشریف لائے۔ ان کے آنے کی خبر بالکل خفیہ رکھی گئی تھی۔ لاہور میں پون گھنٹہ قیام کے بعد آپ بذریعہ میل کلکتہ روانہ ہوگئے۔ ڈلہوزی میں قیام سے ان کی صحت پر بہت اچھا اثر پڑا تھا۔ جب آپ سے آپ کی صحت کے متعلق دریافت کیا گیا۔ تو آپ نے کہا-:

"ویسے تو میں بالکل تندرست ہوں۔ مگر ڈاکٹروں کی خواہش ہے۔ کہ ابھی ہیں کہ ہفتے اور آرام کروں۔ تاکہ میری صحت کے خراب ہونے کا امکان نہ رہے۔ اس لئے اب کچھ دنوں کے بعد میں کرسیونگ چلاجاؤں گا۔ اگر میری صحت ٹھیک رہی۔ تو کلکتہ میں ہونے والی آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی میٹنگ میں بھی شامل ہونگا۔

پنجاب کی صورت حالات کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے کہا-:

بنگال منسٹری کی طرح پنجاب کی یونینسٹ وزارت نے بھی جو رجعت پسندانہ پالیسی اختیار کی ہے۔ وہ ناقابل برداشت ہے۔۔۔"

7اکتوبر کو سبھاش بوس کلکتہ پہنچ گئے۔ جب آپ اسٹیشن پر اترے تو بنگال پراونشل کانگریس کمیٹی کی طرف سے آپ کو پھولوں کے ہاروں سے لادیا گیا۔ کلکتہ میں دودن قیام کرنے کے بعد آپ کرسیونگ روانہ ہوگئے۔ دوہفتہ بعد آجپ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے اجلاس کے سلسلے میں پھرکلکتہ تشریف لائے۔ اور چند روز بعد آپ پھر کلکتہ کے میئر چنے گئے۔

نظربندوں کی رہائی کے سلسلے میں شری سبھاش بوس نے بنگال گورنمنٹ کو خوب آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ اور بنگال کی ڈمی وزارت کی جو مذمت کی تھی۔ آخر اس کا نتیجہ نکل آیا۔۔۔ بنگال کی مردہ منسٹری حرکت میں آگئی۔ اور 1100نظر بندوں کی رہائی کے احکام جاری کردیئے گئے۔ لیکن یہ رہائیاں ایک پولیٹیکل فراڈ سے زیادہ اہمیت نہ رکھتی تھیں۔ کیونکہ گاؤں اور گھروں میں نظر بند صرف ان 1100۔ اشخاص کی رہائی کا حکم جاری کیا گیا تھا۔ جو پہلے ہی جیلوں اور کیمپوں سے باہر تھے۔ شری سبھاش بوس گورنمنٹ کے اس پاکھنڈ کو فوراً بھانپ گئے۔ ایک ملاقات کے دوران آپ نے کہا-:

"نظر بندوں کی رہائیوں کے اعلان سے مجھے انتہائی مایوسی ہوئی ہے۔ میں نہیں جانتا۔ کہ مہاتما جی کی اس کے معتلق کیا رائے ہے۔ نظر بندوں کی دو جماعتیں ہیں۔ ایک وہ جو اپنے دیہات، یا گھروں میں نظر بند ہیں۔ اور دوسرے وہ جیلوں یا کیمپوں میں رکھے گئے ہیں۔ مؤخر الذکر جماعت پر اس اعلان کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ پچھلے ماہ جون سے ہم سن رہے ہیں کہ 1100نظر بند رہا کئے جائیں گے۔ لیکن کیمپوں اور جیلوں سے کوئی نظر بند رہا نہیں کیا گیا۔ پچھلے کئی ماہ سے ایک طرف ہمارے اور گاندھی جی کے درمیان اور دوسری طرف گاندھی جی اور گورنمنٹ کے درمیان جو جدوجہد ہورہی تھی۔ اس کا جیہ نتیجہ ہوا ہے۔ کہ محض ان اشخاص کو جو کئی سال سے دیہات اور گھروں میں نظر بند ہیں۔ رہا کردیا گیا ہے۔"

18نومبر کو شری سبھاش بوس بحالی صحت کے لئے پھر یورپ روانہ ہوگئے روانگی سے پہلے آپ نے بتایا-:

"گومیری صحت اچھی ہوگئی ہے۔ لیکن وزن میں کمی ہورہی ہے۔ اس لئے میں یورپ کے طبی ماہروں سے مشورہ کرنے کے بعد بہت جلد ہندوستان واپس آجاؤں گا۔"

اس سے یہ بات واضح تھی۔ کہ آپ محض بحالی صحت کے لئے یورپ روانہ ہورہے ہیں۔ لیکن غیرملکی اخبارات کا کچھ اور ہی خیال تھا۔ امریکن اخبار "شکاگو ٹریبون" کے لندنی نامہ نگار نے قیاس کا ٹٹؤ دوڑاتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا۔ کہ آپ جرمنی اور اٹلی سے ساز باز کرنے گئے ہیں۔

8جنوری 1938ء کو شری سبھاش بوس لندن پہنچ گئے۔ یاد رہے۔ اس سے پیشتر جب آپ یورپ میں دو تین سال رہے تھے۔ تو انہیں حکومت برطانیہ نے انگلستان آنے کی اجازت نہ دی تھی۔ لیکن اب حالات بدل چکے تھے۔ ہندوستان میں یہ عام چرچا تھا۔ کہ آپ کانگریس کے آئندہ صدر بنائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں شری سبھاش بوس کو جوممتاز درجہ مل چکا تھا۔ اس کے پیش نظر برطانوی گورنمنٹ ان کے بارے میں اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئی۔۔۔

انگلستان پہنچنے پر وکٹوریہ اسٹیشن پر ہندوستانیوں نے آپ کا استقبال کیا۔ اور اسٹیشن "سبھاش زندہ باد" کے نعروں سے گونج اٹھا۔ ایک ملاقات کے دوران آپ نے کہا-:

"لندن آنے کا میرا کوئی سیاسی مقصد نہیں۔ لیکن میں ان دوستوں سے تبادلہ خیالات کرنا چاہتا ہوں۔ جنہیں ہندوستانی مسائل سے گہری ہمدردی ہے۔"

ایک اور سوال کے جواب میں آپ نے کہا-:

"اخبارات میں میرے خلاف غلط پراپیگنڈا ہورہا ہے۔ ہٹلر اور مسولینی سے ملاقات کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں۔ جہاں تک بین الاقوامی مسائل کا تعلق ہے۔ ہندوستانیوں کو چین سے گہری ہمدردی ہے۔ اور ہم جاپان کی جارحانہ سرگرمیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔"

11جنوری کو لندن کے ایک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے آپ نے کہا -:

ہندوستان کی قسمت باقی بنی نوع انسان سے وابستہ ہے بہم اس بات کو محسوس کررہے ہیں۔ کہ ہندوستان کی آزادی ڈیموکریسی اور سوشلزم کے لئے دنیا کی اس جدوجہد کا ایک حصہ ہے جس میں آج ایبے سینیا۔ چین اور اسپین بھی شریک ہیں۔ ہندوستان بین الاقوامی مسائل کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ میں یہ ماننے کیلئے تیار نہیں۔ کہ ہماری جدوجہد ختم ہوگئی ہے۔ ہم اس جدوجہد کو خواہ وہ کتنی ہی تلخ کیوں نہ ہو۔ جاری رکھیں گے۔ ہندوستان کا نوجوان طبقہ آزمائشوں کے لئے پوری طرح تیار ہے۔ اگر کانگریس لیڈر ناکام رہے۔ تو ہندوستان فوراً نئے لیڈر تلاش کرلے گا۔"

ادھر آپ لندن میں اعتدال پسند کانگریسی لیڈر شپ کی دھجیاں اڑارہے تھے۔ دوسری طرف کانگریس ہائی کمان آپ کی قربانیوں سے متاثر ہوکر آپ کو انڈین نیشنل کانگریس کے ہری پورسیشن کا صدر بنانے کا فیصلہ کرچکی تھی۔ گاندھی جی جانتے تھے۔ کہ اگر شری سبھاش بوس نے کھلم کھلا کانگریس کے خلاف بغاوت کرکے کسی نئی پارٹی کی بنیاد رکھ دی۔ تو انڈین نیشنل کانگریس سریتج بہادر سپرو کی لبرل فیڈریشن کی طرح نوجوانوں کی نظروں میں ذلیل اور خوار ہوجائے گی۔ ان حالات میں انڈین نیشنل کانگریس کی طرف سے اعلان کردی اگیا۔ کہ آپ باقاعدہ اور بلامقابلہ ہری پوری کانگریس کے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔

(جاری ہے)

***

Share this Post :

Post a Comment

Comments

News Headlines :
Loading...
 
Support : Copyright © 2018. BV Baloch Voice - All Rights Reserved