Translate In Your Language

New Videos

تحریک توسمندرکی مانند ہے؟ ......... بجاربلوچ

 تحریک توسمندرکی مانند ہے؟ ......... بجاربلوچ

 

بلوچ قومی تحریکِ آزادی کی نئی ابھارسے قبل 1980-90ء کی دہائیوں میں سابق بی این ایم ڈاکٹرحئی گروپ اور بی این ایم اخترمینگل گروپ کی قیادت بلوچ قومی تحریک آزادی کے علمبردارتھے اورپاکستانی پارلیمانی سیاست والیکشنزمیں شرکت کوآزادی کی جدوجہدمیں محض ایک حربہ قراردیتے تھے۔ 1996ء میں پاکستانی پارلیمانی انتخابات سے قبل بی این ایم اخترمینگل گروپ نے میر غوث بخش مرحوم کے پی این پی کی باقیات کے ساتھ انضمام کرکے بلوچستان نیشنل پارٹی کے نئے نام سے پُرانے نعروں پرسیاست جاری رکھا۔1996ء کے پاکستانی پارلیمانی الیکشنزمیں بی این پی نے بزرگ رہنماسردارعطاء اﷲمینگل کی سربراہی میں پوری تیاری کے ساتھ حصہ لے کرمقبوضہ بلوچستان کی کھٹ پتلی اسمبلی میں اکثریتی جماعت کے طورپرجگہ بنائی جبکہ بی این ایم حئی بری طرح شکست کھاگیا۔بی این پی نے شہیداکبرخان بگٹی کی جے ڈبلیوپی اورکچھ آزادارکان اسمبلی کے اشتراک سے صوبائی حکومت بنائی جس میں سرداراخترمینگل وزیراعلیٰ بنا تاہم 28مئی 1998ء کوجب پاکستان نے مقبوضہ بلوچستان کے پہاڑی سلسلہ راسکوہ میں جوہری بموں کے تجربات کئے توبی این پی کے برے دن شروع ہوگئے۔ بھان متی کایہ کنبہ اپنی پہلی قومی کونسل سیشن میں ہی اختلافات کاشکار ہوکربی این پی مینگل اوربی این پی عوامی گروپوں میں تقسیم ہوگیا۔بی این پی کی تقسیم اوراخترمینگل حکومت کے خاتمہ کے بعدبی این پی مینگل نے اپنی سیاست اورنعروں میں قوم پرستی کی طرف زیادہ جھکاؤ دکھانے کی کوشش کی اسی حکمت عملی کے تحت بی این پی نے بعض پختون وسندھی نام نہادقوم پرست جماعتوں وگروپوں کے ساتھ مل کر پونم PONAM یعنی پاکستان اوپریسڈنیشنزموومنٹ کے نام سے ایک اتحادتشکیل دی بی این پی کی اس سیاسی حکمت عملی کامقصد ایک جانب پُرکشش نعرہ بازی کے ذریعے بلوچ عوام کے اندراپنے کھوئے ہوئے سیاسی ساکھ کوبحال کرناتھاتودوسری جانب اسلام آبادپر دباؤ ڈال کراپنی اہمیت جتانا بھی تھاتاہم 1999ء میں پاکستان میں جنرل پرویزمشرف کی سربراہی میں فوجی بغاوت ومارشل لاء کے نفاذ نے ایک جانب پاکستانی سیاست کانقشہ بدل دیاتودوسری جانب جنوری2000ء میں مقبوضہ بلوچستان کی ہائی کورٹ کے جج جسٹس نوازمری کے قتل کے مقدمہ میں قوم دوست بلوچ بزرگ رہنماسردارخیربخش مری کی گرفتاری،نیوکاہان کوئٹہ میں سکیورٹی فورسزکے چھاپوں ،بڑی تعدادمیں گرفتاریوں،پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں میرعبدالنبی بنگزئی کی جبری گمشدگی اورکوئٹہ چھاؤنی پربی ایل اے کے راکٹ حملے بلوچ قومی تحریک آزادی کے حوالے سے ایک نئی آغازکی طرف اشارہ کررہے تھے جس میں بلوچ قومی تحریک کے نام پرمبہم اورمنافقانہ سیاست کوبے نقاب ہوناتھا۔بی این ایم حئی گروپ کی قیادت کوبلوچ قومی تحریک آزادی کے حوالے سے سیاست میں رونماہونے والی نئی تبدیلیوں کااحساس وادراک ہوگیاتھااسلئے انہوں نے بڑی عجلت میں حاصل بزنجواورسردارثناء اﷲزہری کی بی این ڈی پی کے ساتھ اکتوبر 2003ء میں انضمام کرکے نیشنل پارٹی کی بنیادرکھی تاکہ نئی صف بندی میں اپنے مقام اورکردارکاتعین کرسکیں کیونکہ وہ جان گئے تھے کہ بلوچ تحریک آزادی کے نام پران کی جھوٹی ومنافقانہ سیاست کے دن اب ختم ہوگئے تھے۔ اس جماعت نے بلدیاتی نظام کے تحت ڈکٹیٹر جنرل پرویزمشرف کابھرپورساتھ دیا۔این پی کے بلدیاتی ناظمین جنرل پرویزمشرف کے چہیتوں میں شمارہوتے تھے ۔مئی2004ء میں جب بلوچستان لبریشن فرنٹ نے گوادرڈیپ سی پورٹ پرکام کرنے والے چند چینی انجینئرزکوایک کاربم دھماکہ میں ہلاک کیاتوجولائی 2004ء میں پاکستانی فوج نے سائیجی اوردڑامب کے پہاڑی سلسلہ ہامیں بی ایل ایف کے خلاف ایک بڑی فضائی اورزمینی آپریشن کیااس آپریشن کے حوالہ سے بی ایل ایف نے این پی سے تعلق رکھنے والے کیچ وگوادرکے ضلع ناظمین ،این پی کے مرکزی رہنمااورمنشیات کی کاروبارکے ایک بے تاج بادشاہ امام بھیل پر فوجی آپریشن میں فوج کے ساتھ تعاون کاالزام لگایاگوکہ نیشنل پارٹی بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف پاکستانی فوج اورخفیہ اداروں کے ساتھ تعاون کی تردیدکرتارہاتاہم 2013ء میں ڈاکٹرمالک بلوچ کی سربراہی میں مقبوضہ بلوچستان میں مخلوط صوبائی کھٹ پتلی حکومت تشکیل دینے کے بعداین پی نہ صرف فوج اورخفیہ اداروں کے ساتھ تعاون کی تردیدکرنے کی پوزیشن میں نہیں رہابلکہ اب وہ کھل کرایک منحرف جماعت سے زیادہ ایک آزادی مخالف گروہ کے طورپرکام کرنے لگاجبکہ بی این پی مینگل نے کبھی تندوتیزتو کبھی ریاست کیلئے نرم نعروں کے ساتھ اپنی مبہم سیاست جاری رکھا جب پاکستانی فوج اورخفیہ اداروں نے سیاست اورحکومتی امورمیں پہلے سے حاصل اپنی بالادستی کوآئینی شکل دینے ،اپنے اختیارات واثرورسوخ کوبڑھانے،انسانی حقوق کی پائمالی کو نام نہادپاکستان پروٹیکشن ایکٹ اورنیشنل ایکشن پلان کے تحت قانونی تحفظ دینے کامنصوبہ پیش کیاتواین پی اوربی این پی نے کل جماعتی کانفرنسوں اورربڑاسٹمپ پارلیمنٹ سے مذکورہ کالے قوانین کو منظورکرانے میں فوج کاساتھ دیا۔اسی طرح 2015ء میں ضرب عضب فوجی آپریشن کومقبوضہ بلوچستان منتقل کرنے کیلئے 02جون 2015ء کوپاکستان آرمی کے اس وقت کے سربراہ راحیل شریف کی موجودگی میں وزیراعلیٰ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کی زیرصدارت جب کُل جماعتی کانفرنس منعقدکی گئی تو این پی اوربی این پی مینگل نہ صرف اس کانفرنس میں شریک ہوئے بلکہ دیگر پاکستانی پارٹیوں کے ساتھ یک زبان ہوکربلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف ضرب عضب فوجی آپریشن میں پاکستانی فوج اورخفیہ اداروں کے ساتھ بھرپورتعاون کی قراردادبھی منظور کی ۔مذکورہ کانفرنس میں شریک جماعتیں بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف فوجی آپریشن کو وسعت دینے کا مطالبہ اور فوج کے ساتھ تعاون کی قراردادمنظورکر کے بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف پاکستانی فوج کی کاؤنٹرانسرجنسی پالیسی میں اعلانیہ فوج اورخفیہ اداروں کاشریک کاراورآلہ کاربن گئے۔ مذکورہ بالاکانفرنس کے بعد26 جون 2015ء کوڈاکٹرعبدلمالک بلوچ کی زیرصدارت اپیکس کمیٹی کے ایک اجلاس میں ’’ پرامن بلوچستان ‘‘ کے پُرفریب نام سے ایک خونی منصوبے کااعلان کیاگیاجس میں بلوچ سرمچاروں کوہتھیارڈالنے کے بدلے کچھ نقدرقم اورمقدمات سے معافی کی پیشکش قبول کرنے بصورت دیگربڑے پیمانے کی تباہی کا سامناکرنے کیلئے تیاررہنے کی دھمکی دی گئی پُرامن بلوچستان پروگرام میں کسی بھی لحاظ سے کوئی نئی اورانوکھی بات نہیں تھی بلکہ ’’ایک ہاتھ میں گاجراوردوسرے ہاتھ میں ڈنڈا‘‘دکھانے والاوہی پراناگھساپٹافارمولاتھاجسے استعماری قوتیں اپنے نوآبادیات میں قومی تحاریک آزادی کے خلاف اورڈکٹیٹرزجمہوری اورانقلابی قوتوں کے خلاف آزماتے رہے ہیں پرامن بلوچستان پروگرام کے اعلان کے ساتھ ہی مقبوضہ بلوچستان کے طول وعرض میں بلوچ عوام کے خلاف بڑے پیمانے کی فوجی آپریشنزمیں شدت لایاگیا۔دیہی آبادیوں پرزمینی فوجی دستوں کا یلغارکرنا،گھروں کونذرآتش کرنا،مال مویشیوں کوہانکنا یاہلاک کرنا،گھروں میں موجودقیمتی اشیااوراثاثوں کولوٹنا،فوجی آپریشنزکے دوران لوگوں کوبلاامتیازگرفتار اورجبری لاپتہ کرنا،شک کی بنیادپر یاپھر خوف وہراس پیدا کرنے کی غرض سے عام نہتے افراداورسکیورٹی اداروں کے ہاتھوں جبری لاپتہ بلوچ فرزندوں کوجعلی مقابلوں میں قتل کرکے ان شہادتوں کومقابلہ بتا نا ، قومی آزادی کے حوالے سے سیاست اورسیاسی سرگرمیوں پرقدغن لگانا،آزادی پسندبلوچ سیاسی رہنماؤں وکارکنوں کو شہیداورجبری لاپتہ کرنا،بی این ایم اوربی ایس اوآزاد جیسے آزادی پسندسیاسی تنظیموں کوسیاسی سرگرمیوں سے بزورطاقت روکنا،انسانی حقوق کیلئے سرگرم کارکنوں اور میڈیاکی آوازکودبانا،پرائیویٹ لشکر militias کھڑی کرنا،مذہبی شدت پسندعناصرکی فوجی تربیت وسرپرستی اورمذہبی جنونیت کی ترویج کرنانام نہاد ’’ پُرامن بلوچستان‘‘ پروگرام کے نمایاں خط وخال کے طورپردیکھنے میں آرہے ہیں۔این پی ایک حکمران جماعت کے طورپراس کاؤنٹرانسرجنسی پالیسی میں فوج اورخفیہ اداروں کے ایک سرگرم شریک کاراورآلہ کارکے طورپراُبھرکرسامنے آیا۔آج این پی بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف فوج اورخفیہ اداروں کی کارروائیوں کیلئے سیاسی وقانونی حمایت فراہم کررہاہے اس کی قیادت،کیڈرز اور کارکنوں کی ایک بڑی تعدادفوج اورخفیہ اداروں کیلئے انٹیلی جنسintelligence معلومات فراہم کرنے،جاسوس اورمخبربھرتی کرنے میں ملوث ہیں۔ این پی کاکرداربلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف پاکستانی فوج وخفیہ اداروں کوسیاسی وقانونی حمایت اورانٹیلی جنس معلومات فراہم کرنے تک محدودنہیں بلکہ سردارزادہ علی حیدرمحمدحسنی،راشدپٹھان ،امام بھیل وملابرکت جیسے این پی کے رہنماؤں کی قیادت میں پرائیویٹ لشکر اورریاستی ڈیتھ اسکواڈ بھی بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف پاکستانی فوج وخفیہ اداروں کے شانہ بشانہ مسلح کارروائیاں کررہے ہیں۔ عملاً آج این پی بلوچ قومی تحریک آزادی کا ایک منحرف گروہ ہی نہیں بلکہ تحریک آزادی کے خلاف پاکستانی فوج اورخفیہ اداروں کی کاؤنٹر انسرجنسی پالیسی کاایک سرگرم شریک کاراورآلہ کارہے۔ 12 دسمبر2016ء کوجب بی ایل ایف نے این پی تربت سیکریٹریٹ پرحملہ کیاتوحملے کی وجہ این پی کے اسی قوم دشمن کردارکو بتایا مگر این پی کے صدرحاصل بزنجواورسابق وزیراعلیٰ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے اپنے بیانات میں این پی کی کردارسے متعلق بی ایل ایف کے بیان کی تردیدنہیں کی ۔حاصل بزنجونے حملے کوغیرملکی ایجنٹوں کی کارستانی بتایاجبکہ ڈاکٹرمالک نے حملے کوبرادرکشی اور این پی کوجمہوری سیاست سے بازرکھنے کی کوشش قراردیا۔این پی کے دونوں رہنماؤں کے بیانات حقیقت سے چشم پوشی پر مبنی محض کھوکھلے روایتی بیانات تھے حقیقت تویہ ہے کہ غیرملکیوں کاایجنٹ بی ایل ایف نہیں بلکہ این پی ہے جوبلوچستان پرجبری قابض غیرملکی پاکستانی فوج اورخفیہ اداروں کاآلہ کاربناہوا ہے ۔اسی طرح بی ایل ایف پربرادرکشی کاالزام بھی غلط ہے درحقیقت برادرکشی جیسے گھناؤنے عمل میں تواین پی ملوث ہے جوقابض پاکستانی فوج اورخفیہ اداروں کی بلوچ نسل کش کارروائیوں میں ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے آج این پی بلوچوں کابھائی نہیں بلکہ پاکستانی فوج کا دست وبازو ہے ۔ڈاکٹرمالک،حاصل بزنجواوراین پی ترجمان کے ایسے بے شماربیانات،انٹرویوزاورتقاریر ریکارڈپرموجودہیں جن میں وہ این پی کوپاکستانی قابض فوج اورخفیہ اداروں کے ساتھ ایک صفحہ page پر بتاکربلوچ قومی تحریک آزادی کونقصان پہنچائے جانے کے اپنے سیاہ کارناموں کوبڑے فخرسے بیان کرتے رہے ہیں۔ اگراین پی کی قیادت تن آسانی کے باعث جدوجہدآزادی کی پُرخارراستے پر چلنے کااہل نہیں رہاتھا،یاآزادی کی جدوجہد کیلئے درکارقربانیاں ان کوبڑی اوربھاری قیمت لگنے لگے تھے،یاوہ اپنی بے ہمتی وبزدلی کے باعث پاکستانی فوج وخفیہ اداروں کی وحشی پن اوربربریت سے خوفزدہ ہوکر بلوچ قومی تحریک آزادی سے منحرف ہوگئے تھے توان کا یہ عمل سیاسی و اخلاقی لحاظ سے ضرورایک جرم سمجھاجاتا مگروہ قابل گردن زنی نہیں ٹھہرتے کیونکہ قومی آزادی کی پُرخار جدوجہدمیں شریک ہوکرقربانیاں دیناایک قومی فرض وضرورت توہے تاہم یہ ایک رضاکارانہ عمل ہے اس میں کوئی جبرنہیں لیکن بلوچ قوم کی نسل کشی کرنے والے قابض پاکستانی فوج اورخفیہ اداروں کے ساتھ ایک صفحہ pageپر ہونایقیناًقابل معافی نہیں ہوسکتا ۔اسی طرح ڈاکٹرمالک کاجمہوریت اورجمہوری عمل سے وابستگی کادعویٰ پُرفریب لفاظیت سے زیادہ کچھ نہیں بلدیاتی ناظمین کے ذریعے جنرل پرویزمشرف جیسے ڈکٹیٹرکے ساتھ پینگیں بڑھاکرفوجی رجیمregime کے ساتھ تعاون کرنے،2013ء کے پاکستانی پارلیمانی انتخابات میں دھونس، دھمکیوں اورجعلی ووٹ بھگتائے جانے کے باوجودصفرسے تین فیصدووٹ لے کرحکومت بنانے والے کسی بھی عنوان سے جمہور کے نمائندہ اورجمہوریت پسندنہیں ہوسکتے۔ اگراین پی جمہوریت پریقین رکھتی توجمہوری اقداراورجمہورکی رائے کااحترام کرتے ہوئے 2013ء کے پارلیمانی الیکشنزکے نتائج کے بعد اس کے نمائندے اسمبلیوں میں ہرگزنہ جاتے کیونکہ بلوچ عوام نے الیکشنزکے نام پراس پاکستانی ڈھونگ کو مستردکرتے ہوئے اس بے سودمشقexercie کاحصہ نہیں بنے تھے مگراس کے برعکس این پی کے ارکان نے نہ صرف بلوچ عوام کی مینڈیٹ کے بغیراسمبلیوں میں بطورارکان اسمبلی حلف اٹھائے بلکہ کھٹ پتلی حکومت تشکیل دے کر بلوچ تحریک آزادی کے خلاف پاکستانی فوج وسکیورٹی اداروں کے شانہ بشانہ کھڑے بھی ہوگئے۔ 2016ء میں اپنے ملک کی یوم آزادی کے موقع پرجب بھارتی وزیراعظم جناب نریندرمودی نے مقبوضہ بلوچستان میں بلوچ قوم کے خلاف پاکستانی ریاستی دہشتگردی کوعالمی سطح پربے نقاب کرنے کاارادہ ظاہر کیاتوانسانی حقوق کے پاکستانی چیمپئن محترمہ عاصمہ جہانگیر،بلوچ دوستی کے علمبردارصحافی حامدمیرسے لے کر جنرل راحیل شریف تک سارے پاکستانی اس کے خلاف محموداورایازکی طرح ایک ہی صف میں کھڑے ہوکریک زبان ہوہی گئے مگربھارتی وزیراعظم کی اس راستگوئی کے خلاف بیانات،مظاہروں اورریلیوں کے ذریعے این پی نے اپنے آقاؤں سے بھی زیادہ تکلیف کااظہارکیا ۔آج این پی کوئی قوم دوست اورجمہوری جماعت نہیں بلکہ بلوچ تحریک آزادی کے منحرفین،جرائم پیشہ عناصراورڈرگ مافیہ پرمشتمل ایک کھچڑی ہے جوپاکستانی فوج اورخفیہ اداروں کامعاون وآلہ کار بنی ہوئی ہے ۔این پی کی اس قوم دشمن کردارکی روشنی میں اس کے تربت سیکریٹریٹ پر بی ایل ایف کاحملہ ہرمحب وطن بلوچ کوسمجھ میں آناچاہیئے ہے مگرلگتاہے کہ بی این پی کے سمجھ میں نہیں آیا۔تربت میں این پی کے دفترپرحملہ کے خلاف بی این پی مینگل نے بھی بی ایل ایف کے خلاف بیان دے دیا ۔راقم کولگتاہے کہ کافی عرصہ سے بی این پی مینگل بی ایل ایف کے خلاف بیان بازی کیلئے مواقع کی تلاش میں رہتاہے کہیں بھی کسی مخبر،جاسوس،ریاستی آلہ کار اور قومی غدارکے خلاف کوئی کارروائی ہوتوبی این پی مینگل متعلقہ شخص کواپنارہنماوکارکن بتاکربی ایل ایف کے خلاف بیان داغ دیتاہے جیسے کہ بی ایل ایف کے خلاف بیان بازی اس کے فرائض منصبی میں شامل ہو۔کچھ عرصہ قبل بلوچ قوم دوست رہنماڈاکٹراﷲنذربلوچ نے جب شہید لونگ خان مینگل کے فرزندکمبرمینگل اور اور 1970ء کی دہائی کے ایک سرمچارمولابخش محمدحسنی کے قوم دشمن کرادارکوبے نقاب کیا تو مدعی سست گواہ چُست کے مصداق بی این پی مینگل نے مذکورہ دونوں افراد کی وضاحت کاانتظارکئے بغیر ڈاکٹراﷲنذربلوچ اوربی ایل ایف کے خلاف بیان داغ دیا جس میں کمبرمینگل اورمولابخش محمدحسنی کی خاندانوں کے ماضی کی قربانیوں کو گنواتے ہوئے دونوں کواپنا کارکن بھی بتایا مگردوسرے ہی دن کمبرمینگل نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے نہ صرف کسی بھی پارٹی سے تعلق کی تردیدکی بلکہ خودکوایک سچااورمحب وطن پاکستانی قرار دیدیا۔ اب اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شہیدمیرلونگ خان مینگل پاکستانی نہیں بلکہ ایک سچے ،محب وطن اورباغیرت بلوچ تھے جس نے قابض پاکستانی فوج سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کی تھی۔ ویسے بھی کسی فرد یاخاندان کی ماضی کی قربانیاں سراورآنکھوں پرمگر ماضی کی قربانیاں کسی بھی شخص کیلئے دشمن کادلال اورآلہ کاربننے کی اجازت نامہ ولائسنس تونہیں ۔ کمبرمینگل نے اسلحہ اپنے شہید والد کی طرح کسی عظیم قومی مقصدکیلئے نہیں اٹھایاہے بلکہ ششک جیسے ایک فرسودہ جاگیردارانہ ٹیکس کیلئے اٹھایاہے اوراب تک درجنوں بلوچوں کا خون بھی بہاچکاہے ۔کمبر مینگل کاجرم یہاں تک محدودنہیں بلکہ اب وہ قابض پاکستانی فوج کے ساتھ مل کربلوچ سرمچاروں کے خلاف برسرپیکار ہوگیا ہے ایسے قومی مجرم کے قومی جرائم کی مخالفت کرنے کے بجائے ڈاکٹراﷲنذرجیسے قومی رہنمااور بی ایل ایف جیسے قومی تنظیم کے خلاف بیان بازی بی این پی مینگل کے دوغلے پن ومنفی کردار کوظاہرکرتاہے ۔اب تک توبی این پی دوکشتیوں کی سواری کررہاتھاابہام اس کی سیاسی حکمت عملی تھی مگراب یہ ابہام اس سے سنبھالے نہیں سنبھلتااور وہ اپناتوازن کھوتے ہوئے سرکاری کشتی کی جانب لڑھکتا جارہا ہے کیاقابض پاکستانی فوج کے آلہ کارکے طور پر شراکت اقتدارکیلئے اگلی باری بی این پی مینگل کاہے؟بی این پی مینگل کے بارے میں اس گمان وتاثرکواس بات سے بھی تقویت ملتاہے کہ نام نہادپاکستان پروٹیکشن ایکٹ اورنیشنل ایکشن پلان کی منظوری میں پاکستانی فوج کی خواہش کے مطابق ووٹ دینے اور02جون 2015ء کوکوئٹہ میں بلوچ تحریک آزادی کے خلاف کل جماعتی کانفرنس میں شرکت ،مقبوضہ بلوچستان میں جاری فوجی آپریشن کووسعت دینے اور اس کی شدت میں اضافہ کرنے کی قراردادکی منظوری کے بعد سے بی این پی پاکستانی فوج کے ہاتھوں بلوچ نسل کش کارروائیوں پرخاموشی اختیارکی ہوئی ہے حالانکہ ماضی میں ریاستی اداروں کے ہاتھوں چھوٹی چھوٹی زیادتیوں اورعلاقائی مسائل پر ہڑتال،احتجاجی جلسے، جلوس اورمظاہرے کرنا اس پارٹی کاخاصہ رہاہے ۔ماضی کے برعکس اب بی این پی مینگل پاکستانی فوج اور سکیورٹی اداروں کی بلوچ نسل کش کارروائیوں پر توخاموش رہتا ہے مگرفوج وسکیورٹی اداروں کے مخبروں،جاسوسوں اورقومی غداروں کے خلاف سرمچاروں کی کارروائیوں کی مخالفت میں پیش پیش ہے اب کوئی بھی صورت ہوحقیقت کودیر تک چھپائی نہیں جاسکتی کیونکہ تحریک تو سمندرکی مانندہے جیسے سمندرتطہیری عمل کے ذریعے گندی اورمردہ اجسام کواپنی تہہ میں جگہ نہیں دیتابلکہ جلد باہرنکال کر انھیں ساحل پرپھینک دیتاہے اسی طرح تحریک بھی منحرفوں،منافقوں وغداروں کوتطہیری عمل کے ذریعے بے نقاب کرکے نکال باہرکرتا ہے ۔

Share this Post :

Post a Comment

Comments

News Headlines :
Loading...
 
Support : Copyright © 2018. BV Baloch Voice - All Rights Reserved