Translate In Your Language

New Videos

شہید نورالحق سے 2008 میں میری ملاقات..تحریر ،،سگار بلوچ خاران.

شہید نورالحق سے 2008 میں میری ملاقات..تحریر ،،سگار بلوچ خاران

کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ چھوڑ کر چلے جائے تو لگتا ہے کہ پوری دنیا ہی اجڑگٸ۔ وہ لوگ نایاب ہوتےہیں کیونکہ عام طور پر ہر کسی میں یہ صفت نہیں ہوتا کہ وہ ہردلعزیز ہو لیکن خدا تو رحمن ہے کہ کسی نہ کسی بندے کو یہ صفات بخش دیتا ہے۔ انہی لوگوں میں ایک نورالحق المعروف بارگ بھی تھا۔ جسے خدا نے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ انتہاہی نڈر ، راست گو، نرم مزاج اور ہردلعزیز شخصیت کا مالک نورالحق جسے قوم و وطن کی محبت نے آج ہمیشہ کیلئے سرخرو کردیا یقیناً وہ کامیاب ہوا کیونکہ بے مقصد جینا بےشعوری اور ناکامی کے سوا کچھ بھی نہیں؛ خدا نے تو ہمیں بے مقصد پیدا ہی نہیں کیا۔ لیکن نورالحق نے اپنے زندگی کو ایک اہم مقصد کے نام وقف کیا تھا جس کا مقصد تھا کہ اپنے وطن سے بھیڑیوں کو ماربھگانا جو ہماری سرزمین کو نوچ رہےہیں لیکن اسکی عظمت کو وہی جان سکتے ہیں جو وطن سے عشق کا مطلب جانتےہوں۔ سرزمین بھی عشق ہے جسکے زرہ زرہ میں محبت کے سوا کچھ بھی نہیں جسکی قدر عاشقوں کے سوا اور کون جانے وطن کے عشق میں اپنی جان کی بازی لگاؤ اور نمیران ہو جاؤ۔
شہید نورالحق سے 2008 میں میری ملاقات اس وقت ہوئی جب تقریباً میری عمر گیارہ سال تھی جس وقت آزادی پسند دوست خاران کے عوام کو آزادی کی نعمت اور غلامی کی لعنت سے آگاہی دےرہے تھے عین اسی وقت خاران کے پریس کلب میں میری ملاقات شہید بارگ سے ہوئی پریس کلب میں عواام آگاہی کیلئے شاہد کوئی احتجاجی کیمپ لگا ہوا تھا مجھے بھی کچھ ھم عمر و ہم خیال دوستوں سے پتہ چلا میں بھی پریس کلب پہنچ گیا تو شہید بھی وہاں موجود تھا میں نے سب کو سلام کیا اور ایک کونے میں بیٹھ گیا چونکہ وہاں انتہاہی رش تھا بچے، بڑے سب موجود تھے اور تحریک آزادی بلوچستان اور بلوچ قوم کی حالت اور بزگی کے متعلق گفتگو ہورہی تھی شہید بھی کسی دوست کے ساتھ محو گفتگو تھا پھر کافی دیر بعد لوگ جانے لگے اور رش کافی کم ہوئی تو نورالحق کی نظر مجھ پر پڑی مجھے خاموش دیکھ کر اپنے پاس بلا کر بٹھا دیا اور تعارف پوچھا میں نے اپنا نام بتایا پھر انھوں نے خود ہی اپنا تعارف کیا اور مجھ سے باتوں ہی باتوں میں پوچھا کہ تم کیا بنوگے میں نے یک دم سےکہا سرمچار پھر پوچھا کہ کتاب پڑھتے ہو میں نے نفی میں جواب دیا بارگ جان نے مسکرا کر کہا کہ کیسے سرمچار بنوگے جب کتاب ہی نہیں پڑھتے ہو میں حیران رہ گیا کہ بھلا جنگ کو کتاب کی کیا ضرورت؟ جنگ تو بندوق سےہوتی ہیں مجھے خیالوں میں دیکھ کر کہا میرے چھوٹے بھائی پریشان نہ ہوجاٶ پھر مجھے دوسرے قوموں کے اور ان کی تحریک سےمتعلق کچھ واقعات بتائے جنھیں شاہد میں کھبی نہ بھول پاٶں حقیقتاً وہ ایسے واقعات تھے جو کتابوں سے سنگت نے پڑھے تھے جو کسی بھی گوریلا جنگجوں کو کتابوں کی اہمیت اور اہم وقت پر اہم فیصلے کرنے کی رہنمائی کرتےہیں ان واقعات میں ایک واقعہ کسی انقلابی شاعر کے بارے میں تھا جو کہ اپنے قوم کی بزگی اور درپدری سے متاثر تھا اور قوم کو شعور دینے کیلۓ متاثرکن اور جزباتی ، قوم دوستی، وطن دوستی شاعری کا سہارا لیتا تھا اور اس مقصد کیلۓ اپنے انقلابی کتابچے چھاپ کر قوم میں تقسیم کرتاپھرتاتھا جسکی وجہ سے بےشمار نوجوان تحریک سے جڑ رہےتھے اور یہ بات اس ظالم اور قابض دشمن کو ہضم نہیں ہورہی تھی اسلۓ وہ ہر حال میں اس انقلابی شاعر کو اپنے رستے سے ہٹاناچاہتاتھا اس نے اپنے جاسوسی نیٹورک کا جال بچادیاتھا اور فوجی گشت بھی بڑھادیاتھا تو ایک دن قابض حکومت کو اطلاع ملی کہ وہ انقلابی شاعر آج رات دریا پار کرکے اس شہر سے نکلنے کی کوشش میں ہے تو ایک دم سرکاری مشنری حرکت میں آئی اور دریا کے اردگرد پولیس اور فوج کو الرٹ کرکے نگرانی شروع کردی لیکن رات کو وہ شاعر بیس بدل کر پہنچ گیا تو دیکھا ہر طرف نگرانی سخت ہیں وہ ہمت نہ ہارا اور آگے بڑھا لیکن ایک پولیس والے نے اسے روک دیا وہ پولیس والا اسی شاعر کے قوم سے تعلق رکھتاتھا اس نے اس پولیس والے سے عام گفتگو کی اور اسے شعر سنانے لگا تو وہ انتہاہی مسرور ہوا اور کہا واہ بھائی واہ آپ تو بہت اچھے شاعر ہو چلو کچھ اور سناٶ تو وہ انقلابی شاعر اسے اور شعر سنانےلگا جب وہ مطمئن ہوا تو اسنے اب اپنے اصل مقصد کی طرف لوٹ کر دیرے ،دیرے اس کو انقلابی اشعار سنانے شروع کردیۓ اب اس نے اسے قوم کے بزگی، بےبسی اور محکومی کے درد سے بھرے جوشیلے ،اثرانگیز اشعار سنائے یہ سب حقیقت سن کر اس پولیس والا بے تحاشہ رویا تو اس نے موقعہ کا فائدہ اٹھاکر اس سے پوچھا کہ تم ادھر کیوں کھڑے ہو ؟ پولیس والے نے کہا ایک انقلابی کو پکڑنے کی خاطر ہمیں اطلاع ملی ہے کہ آج رات وہ کسی بھی وقت یہ دریا پارکر شہر سے نکلنا چاہتا ہے تو اس شاعر نے پوچھا کے کہ اب کیا ارادہ ہے اگر اس سے سامنا ہوا تو پکڑوگے پولیس والے نے کہا اب نہیں اگر سامنا ہوا تو اسے خود دریا پار کراٶنگا انقلابی شاعر نے کہاں وہ میں ہی ہوں تو وہ شاعر کے سامنے جھک گیا اور انتہاہی عاجزی سے گڑگڑا کر درخواست کی کے مجھے بھی لے چلو نہیں چائیے مجھے یہ نوکری لیکن انقلابی نے اسے سمجھایا کے تم بس اب تبلیغ شروع کرو یہ کام کرو میرے ان کتابچوں کو تقسیم کردو وہ مان گیا اور انقلابی کو دریا بھی پارکرادیا۔ اور دوسرا واقعہ کچھ یوں تھا کہ کہی ایک انقلابی تھا جو اپنے ملک و حکومت کے نظام سے خوش نہیں تھا اسلیۓ اس نے اس نظام کے خلاف مزاحمت کا راستہ اپنایا اور گوریلا کاروائیاں شروع کی اور اکیلے ہی آغاز کردیا کبھی بجلی کا کھمبا اڑاتا کبھی ریل کی پٹھڑی اور کبھی بڑے شہروں میں حکومتی املاک کو نقصان پہنچاتا تو کبھی کچھ اور۔ حکومت ان کاروائیوں سے تنگ آچکاتھا اور وہ ہر حال میں امن کو برقرار رکھنا چاہتاتھا اس کیلۓ حکومت نے طرح، طرح کے جال بچھائے لیکن وہ انقلابی ہاتھ نہ آیا اور اپنے منصوبہ بندیوں کو عملی جامہ پہناتا رہا۔ ایک دن اچانک وہ کئی کارواہی کی نیت سے بم لےجارہاتھا کہ حادثاتی طور پر وہ بم پٹھ گیا اور اس انقلابی کی زندگی ہمیشہ کیلۓ غروب ہوا۔ کچھ عرصہ خاموشی چھائی۔ حکومت پریشان رہا کہ آخر اصل ماجرہ کیا ہے ؟ پھر تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ سب کاروائیاں وہ اکیلا کرتاتھا چونکہ اس کا کوئی ساتھی بھی نہیں تھا اور وہ بھی انتہائی رازداری سے کام کرتاتھا۔ اس لیئے وہ ہمیشہ کامیاب ہوا اور کسی کو اس پر شک بھی نہ ہوئی تھی آخرکار حکومت بھی اس کی جدوجہد کی معترف نکلی اور اسے ہیرو تسلیم کرلیا۔ تیسرے واقعہ میں ایک غریب ریڑھی والے کا ذکر تھا کہ جس نے اکیلا انقلابی سفر کا آغاز کیا اور پارلیمنٹ کے سامنے بیٹھ گیا لیکن لوگ اس کی جرات دیکھ کر اس کے ساتھ شامل ہوۓ اور اس عمل نے ایک انقلاب کا رخ اختیار کرلیا۔ایسے واقعات کے سنانے کے بعد شہید نورالحق اس انقلابی دیوان کو ختم کرکے چلے گئے جو میری پہلی ملاقات تھی اس انجان دوست سے اس کے علاوہ بعد میں میری متعدد بار ملاقاتیں ہوئی اور اسکی گفتگو نے مجھے بچپن میں ہی انقلاب، آزادی اور گوریلا جنگ کا مطلب سمجھادیا جو کے اس کی محنت کتاب دوستی اور وطن دوستی کا نتیجہ تھا۔ جسکی دیوان میں گویا بیٹھتے تو اٹھنے کو جی نہیں چاہتاتھا ایسا شفیق استاد مخلص سنگت شاید کوئی اور بھی ہو لیکن نورالحق لاثانی تھا جب اچانک ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو میں کچھ لمحوں کیلۓ سہم گیا یقین نہیں ہورہاتھا میرا پورا جسم ساتھ چھوڑ رہاتھا رات بھر کروٹیں بدلی نیند نہ آئی اگلے دن پھر وہی حالت رہی لیکن پھر اپنے آپ کو سنبھالا اور حقیقت کو تسلیم کرنے کی کوشش کی پھر آج لکھنے کو ہمت کی کہ شاید کچھ بوجھ ہلکا ہو لیکن میں مایوس نہیں ہوں کیونکہ مایوسی کفر ہے۔ شہید نورالحق اور شہید نثار جان اور انکے کاروان کے مخلص دوستوں کی محنت اور محبت نے آج خاران کے نوجوانوں کو تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لے آئی ہیں۔ اور اب خاران قابض فورسز اور ریاستی دلالوں کیلۓ پریشانی کا باعث بنا ہے۔ وطن کے دلالوں سے کہتاہوں اب دیر ہوچکی یہ جنگ انشاالللہ ہم ہی جیتیں گے۔ اور آخر میں شہداۓ تراسانی کو لال سلام پیش کرتا ہوں کیونکہ بلوچ جہد میں یہ اپنی نوعیت کا ایک اہم جنگ ہے۔ کہ دو جانثار فکری ساتھی وطن کی آزادی کی خاطر دشمن سے دوبدو جنگ کے بعد گولیوں کے ختم ہونے پر بیک وقت ایک ہی فیصلے پر اتفاق کرتےہیں اسکے بعد وہ دشمن کے ہاتھوں گرفتاری قومی رازوں کو ہمیشہ کیلئے اپنے سینے میں مدفون کرکے دشمن کے سامنے افشاء نہ کرنے ، اور بزدل و مکار دشمن کے سامنے لغوری پر انقلابی موت کو ترجیع دیکر ماتین وطن سے اپنی محبت کا اظہار اپنی جان دے کر کرتے ہیں اور تاریخ میں سرخرو بنتے ہیں۔۔۔۔۔ کر چلے ہم فدا جان و تن ساتیھوں, اب تمہارے حوالے وطن ساتھیوں۔

Share this Post :

Post a Comment

Comments

News Headlines :
Loading...
 
Support : Copyright © 2018. BV Baloch Voice - All Rights Reserved