skip to main |
skip to sidebar
خاران کابلبل زہری کا چٹان،؛تحریر زمرک زہری

یہ دن پوری ی دنیا کے مسلمانوں کا تہواری دن تھا، دنیا کے کونے کونے میں
عید کی تیاریاں اور خوشیاں منایا جارہا تھا، بازاروں میں رنگ برنگیاں سجھی
ہوئی تھی، ہر طرف ایک میلا نما سا منظر بنا ہوا تھا. پوری دنیا کے
مسلمانوں کیلئے خوشی کی لہر تھا.
ہم بلوچ بھی مسلم ہیں مگر ہم دنیا کے باقی مسلمانوں سے کچھ مختلف دکھائی دے رہے تھے.
دنیا کے چاروں طرف عید کی تیاریاں ہو رہی تھی مگر یہاں میرے دیس میں ہر گھر پر عید ایک غم کا آندھی لےکر آرہا تھا.
کیونکہ بلوچستان وہ واحد خطہ ہے جہاں ہر گھر سے ایک یا ایک سے زائد فرزند
پاکستانی فوج ہاتھوں جبری اغواء ہوا ہے یا پھر شہید کردیا گیا ہے.
بلوچستان میں یہ تہوار دنیا سے کافی مختلف تھا اور اسی مختلف منظر نے ہمیں بچپن سے ستاتے ہوئے آیا ہے اور تب ہی سے ہم منتشر ہیں.
عید بھی ہوگئی سب نے عید بھی منایا لوگ دوستوں اور عزیزوں کے میل جُل میں
مگن تھے مگر میں خود کو خوش قسمت بھی کہتا ہوں اور بد قسمت بھی.
خوش قسمت اس لئے کہ اس تہوار کے دورانیہ میں میرا ملاقات وطن کے دو بہادر
سپوتوں سے ہوا. اور بدقسمت اس لئے کہ میرے گمان تک میں یہ نہیں تھا کہ یہ
ان سے پہلی اور آخری ملاقات ہوگی اور وہ دو ہیرے اس بدقسمت راج سے بچھڑ
جائیں گے.
میرا شہر کبھی باغیوں کا گڑھ کہلایا جاتا تھا مگر نہ جانے کس بلا کا
سایہ اس پر پڑی کہ سب کے زندگیوں پر غلامی کا بسیرا ہوگیا ہم کھل کے یہاں
اپنے وطن، راج، ثقافت اور تہذیب پر گپیں لڑاتے تھے مگر اب حالات یہ ہیں کہ
مجھے اپنے وطن کے عاشقوں سے دور دور پہاڑوں سے گنجان اور پسماندہ علاقوں
میں جاکر ملنا پڑتا یے.
میں ایک معاشرے کےگھٹن زدہ روایات و کردار سے ستایا ہوا بچے کی طرح اکثر
سوچا کرتا تھا کہ میں تو اس اندھیری رات کی سفر جیسے بھی کاٹ چکا ہوں مگر
آنے والے نسلوں کا بھی یہی حال ہوگا کیا؟
جب سے ہوش سنبھالا ہے میرا وطن جھلسا ہوا مجھے نظر آرہا ہے، ہر روز ایک نوجوان کی مسخ شدہ لاش ملتی ہے یا پھر جبری طور اغوا ہوتا ہے.
بابا اور بھائی کبھی بھی آکر ان کے متعلق بات تک نہیں کرتے جیسے کہ ہر گھر کے پیچھے ایک فوجی کیمپ قائم ہے.
آزاد بلوچستان تو دور صرف بلوچستان کا نام آپ کبھی بھول کر بھی لب سے ادا
کرے تو آس پاس موجود لوگوں کی نظریں آپ کی طرف اس گمان سے ٹک جاتے ہیں کہ
یہ کون ہے اس بھیڑ میں اتنا کچھ کہے جا رہا ہے اور اسے جان کا خطرہ بھی
محسوس نہیں !
ایسا لگتا ہے آقا ڈنڈا ہاتھ میں لیئے ہمارے سرپر کھڑا ہے.
ان حالات نے مجھے دماغی طور پر منتشر کردیا.
فطرت کچھ اور کہے جا رہا تھا جبکہ حقیقت کچھ اور بن چکا تھا۔
تبھی سے ہم انگاروں میں جلنے کا ٹھان لیا اور اپنی سنگتوں کی متلاشی بنے.
اس تلاش میں کافی وقت لگا شاید یہ میری کمزوری تھی کہ میں اپنی جزبات کو سامنے نہیں لارہا تھا.
مگر جنھوں نے میری جزبات کو سمجھا تھا انہوں نے کمال کردیا.
میں تو چند الفاظیں بھی کسی محفل میں کھلے بازار میں آزادی کیلئے ادا نہیں
کرسکا تھا مگر کاریگر چہرہ شناسوں نے ہم چہروں کو پڑھنے والوں نے کمال
کردکھایا.
نہ جانے میں کہاں بھولے سے بلوچستان اور بلوچ راج کے حق میں کچھ لکھا یا
بیان کیا تھا کہ مجھے بہت کم وقت میں ایک سنگت کا پیغام آ پہنچا.
کچھ دن کے روابط میں مجھے وہ جانشینوں نے اپنے کاروان کا ایک حصہ قرار
دے دیا اور مجھے ملاقات کیلئے بلایا اور مجھ جیسا ایک ستایا ہوا کم علم
انسان کی کیفیت ہی بدل گئی ایسا لگا کہ برسوں کے پیاسے کو دریا مل گئی.
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر میں پہلے پیش قدمی کرتا تو شاید میرے وطن کے فرزند پہلے مجھے اپنے دیوان میں بُلاتے.
مگر دیر ہی سہی ایک ملاقات تو میرے زندگی کے کسی حصے میں شمار ہوا.
جب دلجان کے ایک سنگت کا مجھ سے اچانک رابطہ ہوا تو اس نے کہا سنگت اگر
آپ چاہو تو ہم آپ سے ملاقات کی طلبگار ہیں. میں برسوں سے ملنے کیلئے ترسا
ہوا انسان کیسے انکار کرسکتا.؟ میں نے کہا جب آپ چاہو ہم ملنے کیلئے آئیں
گے.
ہائے یہ تنگ دستی ۔۔۔۔کچھ معاشی مشکلات کی وجہ سے فورا ملاقات نہ ہوا۔
مگر جس کو راہ ڈھونڈنے ہو اور وی راہ آزادی کا ہو تو اس کیلئے سارے ذریعے کھل جاتے ہیں.
میں نے کہیں سے بھی رابطے کا ذریعہ نکال کر سنگتوں سے رابطہ جاری کیا تب
مجھے دلجان اور نورالحق سے ملاقات کا موقع دیا گیا. میں اپنی شہر سے نکل کر
گھنٹوں کی سفر طے کرکے اس نگری میں جا پہنچا جہاں مجھے ان جانبازوں سے
ملنا تھا.
کل مجھے ان دو ہستیوں سے ملنا ہے جو آج شہداء تراسانی کا پہچان اپنے نام کرکے امر ہوگئے.
میں نے کسی رازدار دوست کے زریعے رازونیاز دل کی بات ھنینا دلجان کو پیغام
بھیجا اس کے بعد ہمارے دل و جان کا پیغام آیا، روایتی حال احوال کے بعد اس
نے دوسرے دن ہمارے ملاقات کیلئے مناسب سمجھ کر کہا کہ کل ملتے ہیں.
2011سے یہی میری خواہش تھی کہ سنگتوں سے ملنا ہیں۔ تاکہ ان کی درسِ دیوان
میں شمولیت کا موقع حاصل ہو.ان سے کچھ سیکھنے کو ملے اور اپنی وطن کی محبت
کو عشق میں بدلنے کی صلاحیت ان سے حاصل کر سکوں آخر وہ دن میرے زندگی کی
خوبصورت ترین لمحہ بن گیا۔جب مجھے وطن کے دو عظیم سپوتوں سے ملاقات کا عین
میرے خواہش کے مطابق موقع مل گیا.
رات بھر ہزاروں خیالوں میں گم رہا سوچتا رہا کہ کل جب اُن سے ملاقات ہو
جائے گی تو ان سے کچھ سوالات ضرور پوچھوں گا اور بے شمار سوال میرے زہن میں
گردش کر رہے تھے
صبح جب آنکھ کھلی تو دیکھا وہ پہاڑی سے گنجان علاقہ میرے نظر میں ایک جنت
کا منظر پیش کر رہا تھا شاید اس لئے کہ میرے برسوں کی خواہش آج اس بنجر
علاقے میں پوری ہونے والا تھا.
ہم اس جگہ روانہ ہوئے جس کو سنگت دلجان نے انتخاب کیا تھا، میں نے گھر سے
نکلنے کا پیغام سنگت کو ارسال کیا کہ ہم نکل چکے ہیں. سنگت کا پیغام تھوڑی
دیر بعد آیا کہ آپ آجائیں ہم بھی ادھر آپ سے ملیں گے.
اب راستے میں سفر کے دوران سینکڑوں باتیں مجھے ستانے لگے کہ کیسے سنگتوں سے
ملوں گا کیسے سلام دعا کروں گا اور اپنے جزبات و وطن سے محبت کی شدت ان کو
کسیے شیئر کروں گا؟
ہم ان سے پہلے وہاں پہنچ گئے پھر جاکر کسی جگہ پر ان کا انتظار کرنے لگا.
ایسے حالت میں انتظار انسان کیلئے موت کی گھڑی ہوتی ہے مگر یہاں انتظار ایک عجیب سی پس منظر پیش کررہا تھا.
قابض تو اکثر دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ ہم نے بلوچستان کو سب سہولیات فرہم
کیا ہے مگر اس دن بجلی نہ ہونے کی وجے سے روزمرہ زندگی کے کاموں میں زیادہ
مشکلات کاسامناہوا۔ تب مجھے سمجھ آیا کہ میرے مادر وطن پر قابض پنجابی کی
مہربانیاں کیسی اور کس طرح کا ہے ؟
خیر جیسے بھی ہوا ان سے رابطہ جاری رہا.
اچانک ھنینا دلجان کا پیغام پہنچا کہ ایک مخصوص جگے پر آنے کا مجھے کہا اور
میں اپنے زاتی اشیاء دوست کے حوالے کرکے اکیلے سنگتوں کے جانب بڑھنے لگا.
یہاں ہر شخص مشکوک ہے جب میں سنگتوں کے جانب بڑھنے لگا تو میرا دوست مجھے
عجیب نگاہوں سے گھور رہا تھا جیسے اس کی آنکھیں مجھ سے مخاطب ہیں کہ کہاں
جا رہے ہو اور کس سے ملنے.
کیونکہ یہاں جان کا خطرہ بھی کسی کیلئے خالی نہیں شاید وہ مجھے اکیلے جاتے
ہوئے یہی محسوس کر رہا تھا کہ اکیلے کئی بھی جانا خطرے سے خالی نہیں مگر
وطن کی عشق نے مجھے مسلسل آگے بڑھنے پر مجبور کیا.
میں وہاں سے تھوڑا آگے نکل گیا کہ دیکھتا ہوں دو بندے جن کا چہرہ رومال سے ڈھکا ہوا تھا۔ موٹرسائیکل پر آکر میرے قریب کھڑے ہوگئے.
روایتی مصافحہ اور حال حوال کے فوراً بعد میں سنگتوں کے ہمراہ وہاں سے نکل
کر کسی محفوظ و مخصوص جگہ پر کسی سائے دار درخت کے نیچے پہنچے.
آج میں اور وہ درخت تو باقی ہیں مگر وہ دو جانباز نہیں رہے جس کو اس درخت نے سخت گرمی میں اپنے گنھی سایہ میں پناہ دی تھی.
آج میرے سینے سے ایک درد اور ایک فخر ایک ساتھ نکل رہے ہیں حیران ہوں کہ درد کی ہوجاؤں یا فخریہ لمحات کی طرف ؟
ہم تینوں جاکر ایک طرف بیٹھ گئے بلوچی روایت کے مطابق پھر سے علاقائی
حال احوال ہوا سنگت نے مجھ سے تعارف پوچھا ایک دوسرے سے اپنا تعارف بھی
کروایا.
میرے زندگی کا یہ پہلا دن تھا ان جانبازوں کے درمیان خود کو پاکر عجیب سی مسرت محسوس کر رہا تھا.
میرے جتنے بھی سوالات تھے سب نے دم تھوڑ دیئے.
اور ہمارا اُستاد دلجان آزادی کے متعلق باتیں کرنا شروع کیا میں بس ایک
نالائق شاگرد کی طرح اسے سنتا رہا. ایسا لگ رہا تھا میں عمل کی دنیا میں
کسی عالمی ادارے کے کسی پروفیسر کا لیکچر سُن رہا ہوں تب عجیب خیالات میرے
زہن میں ابھرے کہ پہاڑوں میں رہنے والے دن رات دشمن سے قوم راج اور خود کو
حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ یہ کیا نہیں سیکھتے ؟
قوم کے خیرخواہوں سے لیکر غداروں تک سب کے متعلق بارکی بینی اور
غیرجانبداری سے بتاتا گیا. اور عین اسی وقت بارگ وائرلیس پر مجھ جیسے نکمے
کو گائیڈ کر رہا تھا
قوم کے دو استاد ہم سے بچھڑ کر اس قوم کو نیند سے جگایا اور خود امر ہو گئیں.
لیکچر سناتے سناتے جیب سے سگریٹ کا پاکٹ نکالا اور بارگ سے ماچس لیکر سگریٹ
سلگایا، تب مجھے کیوبا کا ہیرو چی گویرا یاد آیا. مگر ہمارا دلجان
بلوچستان کا چی گویرا تھا اور بارگ اس کا ہمراہ پختہ فکری و ہمراز ساتھ ہی
بیٹھا ہوا تھا.
ان کی زندگی کا گزر بسر ہم سے کافی مختلف تھا. مٹی پر بیٹھنا ان کا شیوا بن
چکا تھا. ان کی باتوں کا انداز جیسے کوئی مفکر محوگفتگو ہو. نہ زات پر اکڑ
پن ہے نہ خود کی جہد پر غرور.
اُن کے بیٹھنے اور باتیں کرنے کا انداز آج بھی میرے نگاہوں میں گھوم رہا ہے.
وطن سے محبت کرنے والوں کو کسی ریشم کی کالین یا صوفہ کی ضرورت نہیں وطن کی
مٹی ان کیلئے کسی ریشم سے کم نہیں یہ بھی مجھے دلجان اور بارگ نے اس دن
سکھا دیا.
سنگتوں کی اس ملاقات نے میرے بند آنکھوں کو کھول دیا کہ آپ کے وطن آپ سے
کیا چاہتا ہے ؟ اور آپ میں وہ سارے صلاحتیں ہیں جو کسی انقلابی سوچ کے مالک
کے پاس ہونے چائیے.
آپ بھی اپنے دوست اور دشمن میں فرق کر سکتے ہو بس آپ کو آگے بڑھنا ہے وطن کے خاطر بلوچ راج کی خاطر اپنے آنے والے نسلوں کی خاطر.
آپ کو بھی اپنے اندر یہ خوبی جگانا ہوگا کہ بلوچ ماں بہنوں اور وطن کی عزت
کو کس نے تار تار کیا اور کس غدار نے اپنے آقا کے احکامات پر عمل پیرا ہوکر
اپنے راج کے آشیانوں کو جھلسا دیا؟ اورانھیں ہر جگہ آگ لگا رہا ہیں.
اور سنگتوں کی اس لمحہ کی ملاقات نے مجھے ہمیشہ کیلئے بدل دیا.
مجھ جیسے ہزاروں نوجوانوں کو جگانے کیلئے شہید دلجان اور شہید بارگ آگے بڑے
تھے تاکہ مجھ جیسے غافلوں کو اپنے ساتھ لیکر ساتھ لے چلے ۔مگر قسمت کا
ہمارے ساتھ کیھل ومزاق آج کا نہیں برسوں سے رہا ہے.
ابھی تک امتیاز کا زخم بھرا نہیں تھا کہ ہم نے دو اور جانبازوں کو کھودیئے.
مگر آج دلجان اور بارگ زندہ ہیں مجھ جیسے ہزار نہیں سینکڑوں نہیں کم از کم دسیوں، بیسوں کو تو دلجان و شہید بارگ نے سنبھالا ہوگا.
اگر ان دسیوں، بیسوں سے دو بھی اس کاروان کا حصہ بنیں دلجان اور بارگ کا یہ
قومی جدوجہد اپنے کامیاب منزل کو ضرور پہنچے گا۔ جس کیلئے وہ اپنا جان
ہتھیلی پر رکھ کر زہری جیسے علاقے میں پہنچ گئے.
اس ملاقات کے اختتام کے بعد مجھے اپنے وہی جگے پر پہنچا دیا اور واپسی میں یہی کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے کہ
رخصت اف اوار ان سنگت
Post a Comment