آخری گولی، اپنا بندوق،اپنا سر__آہ عشق وطن۔۔!! تحریر : جلال بلوچ

ہم ایک غلام قوم ہیں ......
ایک
غلام قوم میں اگر ایک انسان کے اندر غلامی کا احساس پیدا ہو جائے تو وه
غلام نہیں رہتا ،کیونکہ احساس غلامی ایک جستجو ہے ، جو اگر ایک انسان کے
اندر پیدا ہو جائے تو وه چھین سے بیٹھنے کے بجائے ہر پل اپنی آزادی کیلئے
دوڑ و دوپ کرتا رہے گا.
"غلامی کی زندگی سے آزادی کی موت بہتر ہے__!!
یہ قول اتنی بار سنا ہے کہ دماغ کا کونہ کونہ اس جملے سے واقفیت رکھتا ہے۔
مگر امیر جان سے لیکر اس کے کاروان کے تمام دوستوں کو دیکھ کر ایک اور
فلسفہ نے ہمارے دل و دماغ میں اپنے کیل ٹونک دی ہیں۔ مطلب بات صرف غلامی
اور آزادی کی نہیں ہے۔ یہاں فکری و نظریاتی امتحان دینے کا وقت آچکا ہے۔
ایک ایسا نظریاتی سوچ جس کا معیار صرف اپنا جان دینا نہیں ہے بلکہ ایک فکر
سوچ و نظریہ کو پروان چھڑانا ہے۔
فضول شخصی پیروکاری، درباری روایات
،جذباتی یا گُروہی نمود و نمائش کرنے سے کسی بھی جہد میں شامل ہونے سے بہتر
ہے کہ نظریہ و فکری بنیاد پر مادر وطن کی حفاظت کرکے جان نچھاور کرنا ایک
فکر و نظریہ کو مظبوط حوصلوں سے فتح حاصل کریں یا نہیں مگر سکون کی نیند
ضرور سُلائے گا۔
ایک گولی پر اپنا نام لکھنا اور اپنے ہونٹوں سے بوسہ لیکر اپنے جیب میں ڈالنا اس اُمید سے کہ میرے موت سے دشمن کو شکست ہوگا۔
کیا یاد آتا ہوگا آخری لمحوں میں ان کوہ زادوں کو جو اپنے آپ کو خود فناء
کرنے کے لئے آخری بار چیمبر کرکے اپنے گلے پر رکھ رئے ہوں گے۔ اور اپنے ہی
بندوق کے ٹریگّر کو اپنے ہی انگلی سے دبانے والا ہوگا کیا کیفیت ہوگا۔۔
خیال سے اوپر
گمان سے آگے__!!
یقینا ایک آہ۔۔۔۔۔۔ بھری مسکراہٹ کے ساتھ دنیا عالم کو مہر و محبت بھری نگاہوں سے الوداح کہہ کر ٹریگّر دباتے ہوں گے۔
اُاُف......! کیا لمحہ ہوگا وہ حسین سا جو دشمن سے لڑتے ہوئے گولی ختم
ہوتے وقت آخری گولی اپنے جیب سے نکال کر ایک جہد کار خود پر چلائے گا اور
وہ آخری گولی جابر دشمن کے شکست و زوال کا ہوگا ۔
Post a Comment