Translate In Your Language

New Videos

دوھزار تیس اور دُرین سے ملاقات تحریر شہید دلجان بلوچ

دوھزار تیس اور دُرین سے ملاقات:تحریر شہید دلجان بلوچ

گھر میں بیٹھا میں اپنے دھاڑی کو رنگ لگارھا تھا دروازے کی گھنٹی بجی سب سے چھوٹا بیٹھا دروازا کھولنے چلا گیا تھوڑی دیر بعد دیکھا بیٹھے کے پیچھے ایک لڑکی گھر میں داخل ھوئ میں دور سے اتے ھوے اوسے نہ پیچھانا تو اپنے نظر کے چشمے کو انکھوں پر لگا کے غور سے دیکھنے لگا تو وہ چہرا جانا پیچانا نا سا لگا لیکن پھر بھی پیچان نے میں مشکل پیش ائ دماغ پر زور دینے پر لگا کے کوئ جانا پیچانا چیرہ ھیں زہن ماضی کے دوستوں کی طرف گیا تو یاد ایا کے اس کا چیرا سنگت عرفان سے ملتا جلتا ھیں اخر پیچان لیا کے یہ تو شھید عرفان کی بیٹی درین ھیں اس وقت تک وہ بھی میرے قریب پہنچ گئ اور سلام دعا کی بیٹھنے کے بعد میں ماضی کی یادوں میں چلا گیا وہ دن یاد انے لگے جب شھید عرفان فون کے رینج سے واپسی پر بہیت خوش تھا اوتاک میں پونچھتے ھوے کھا یار مجھے بیٹی پیدا ھوئ ھیں میں باپ بن گیا ھوں پر اس کے بعد وہ دن بھی دیکھنے پڑھے جب عرفان بیٹی سے ملنے اور کچھ ادورے کاموں کو مکمل کرنے جارھا تھا کے دشمن سے جھڑپ میں شھید ھوا اور اج اتنے سالوں بعد درین میں عرفان کا عکس نظر ایا مجھے میں نے دیکھا اس کے کپڑے اتنے نیے بھی نہیں ھیں اور ھاتھ میں ایک چھوٹی سی پورانی نوکیا موبائل ھیں میرے داے طرف میری چھوٹی بیٹی بیٹھی تھی جو اپنے ٹیبلٹ موبائل پر گیم کھیل رھی تھی دونوں بیٹھے تھوڑے فاصلہ پر بیٹھ کر اپنے دوستوں کے ساتھ ٹوئٹر او نسٹا گرام پر بات کرھیں تھے درین ان سب کو غور سے دیکھ رھی تھی چاے وغیرہ پینے کے بعد وہ بات تو مجھ سے کرھی تھی لیکن اس کی نظر ادھر اودھر گھوم رھی تھی وہ مجھ سے پوچھنے لگی نکل میرے والد کے شھادت تک تم سب اس کے ساتھ پہاڑوں میں جنگ لڑھ رھیے تھے میرے والد اور بہیت سے بلوچ شھید ھوے میں نے سنا ھیں اس وقت تک تم سب پر امید تھے کے بلوچستان کو ازاد کرینگے پھر اس کے بعد کیا ھوا جو ایک ایک کر کے بہیت سے گھروں کو لوٹ گیے اور پھر چند سال بعد بچھے کچھے تھے وہ بھی عام معافی کا علان سن کر واپس چلے ایے بات کیا تھی اپ سب نا امید ھو گیے یا جو جزبا تھا حب الوطنی کا وہ ختم ھوگیا یا اپ لوگوں کے پاس مزید جنگ کو جاری رکھنے کا کو پلان نہیں تھا یا پھر پھر اپ لوگوں کو اپنے بیوی بچھے یاد انے لگے یا اپنے بچوں کے مستقبل کو اسودہ بنانے کے لیے پہاڑوں سے اتہر کر ارام دہ زندگی بسر کرنے لگے وہ مسلسل بولی جارھی تھی کینے لگی اج یہاں انے کے بعد اپ کی خوش حال زندگی دیکنے کے بعد میں سمجھ گی کے اپ اپنے بچوں کی خاطر واپس چلے اے ھیں اگر اپ لوگوں کو اپنے بچے اتنے عزیز تھے پر پہاڑوں پر کیوں چلے گیے کیوں لوگوں کو ازادی کے خواب دیکھا نے لگے کیوں ھمارے والدین کے ھم سفر ھم سنگر بنے رھیے کیوں ان سے کہیتے رھیے کے ھم مسلسل لڑینگے وہ تو تمھیں اپنا سب سے قریبی ساتھی سمجھتے تھے وہ یہی سوچتے تھے کے ھم جب وطن پر قربا ن ھونگے تو ھمارے پیچھے جو دوست بچینگے وہ ھمارے بندوقوں کو سنبھالینگے اور انے والے نوجوانوں کو تربیت دیے کر جنگ کو جاری رکھنگے اور اپنے بچوں سے زیا ھمارے بچوں کا خیال رکینگے وہ یہی سوچ کر ھر لڑھائ ھر مشن پر اپنے اپ کو دشمن کے بندوق کے اگیے دیتے کے تم دشمن کے گولیوں سے محفوظ رھو اور ھمارے جانے کے بعد اس کام کو اگیے لیجا او کبھی اپ نے یہ سوچا کے اپ کے نام کی گولیاں بھی انھوں نے اپنے سینے پر گھاے تاکے تم تک دشمن پونچھ نہ سکے اور اج ان کی دوستی ان کا مھر ان کی وفا ان کی قربانی ان کا ھم سفری سب تم بھول گیے اور صرف تمھیں تمھارے بچے یاد اے کیا اتنے سالوں میں کبھی تم نے ھم تک پونچھنے یا رابطہ کرنے کی کوشش کی کے ھم کس حال میں جی رھیے ھیں ھم لوگوں کے کیسے کیسے تانے سن رھیے کے تمھارے والد کے لیے کچھ نہیں بچا اس کے سب دوست واپس اپنے گھروں کو واپس اگیے ھیں مفت میں تمھارا والد مارا گیا باقی سب واپس اپنے بچوں کے ساتھ زندگی گزار رھیے ھیں کبھی اپ نے یہ سوچا کے ھم لوگوں کے بیچ میں کس طرح رھیے رھیے ھیں انکل اپ کو پتہ ھیں جب میں چھوٹی تھی تو اپنے ابا جان کو کتنی مس کرتی عید پر بچے اپنے والد کے ساتھ خوشی مناتے میں گلی میں کھڑی حسرت بھری نظروں سے دیکھتا اور سوچتا کے کب میرے ابا جان ائنگے میرے لیے عید پر نی نی چیزے لینگے جب تھوڑی بڑھی ھوئ تو والدہ سے پتہ چلا کے میرا ابا تو ازادی کے راہ میں وطن پر شھید ھوچکا ھیں پھر اکثر بندوق کاندھے پر لٹکاے کسی شخص کی تصویر کو دیکھتا تو اپنے اپ کو لاورث تصور ھی نہیں کرتی سوچتی میرے ابو کے اتنے سارہ دوست ھیں پھر اپ لوگوں سے ملنے کی ارزو دل میں لیے دن گزارتی رھی اگر کبھی امئ سے کہیتی کے ھمارا اس جہاں میں کوئ نہیں تو امی کہیتی نہیں تمھارے والد کے بہیت سے دوست ھیں جو پہاڑوں پر تمھارے والد کے ادھورے کام کو انجام. دینے کی جہدو جہد میں مصروف ھیں اور جب میں بڑھی ھوگی تو پتہ چلا کے میرے ابو کے دوست جو بچھے تھے وہ سب عام معافی کا سن کر گھروں کو چلے گیے ھیں پھر ڈھونڈتنے اپ کا پتہ مل گیا اور یہاں انے کے بعد معلوم ھوا کے اپ تو ان سب کو بھول ھی گیے ھو جن کے ساتھ تم نے ازادی تک سفر کا وعدہ کیا تھا ان سب سے زیادہ عزیز تمھارے اپنے بچے ٹہرے تمھارے لیے انکل اپ کو پتہ ھیں ھم کسی مشکل زندگی گزارھیے ھیں ھمارا تو ایک ھی سارہ تھا میرے والد وہ بھی شھید ھوگیے اس کے بعد ھمارے امیدوں کے مرکز اپ لوگ ھی تھے اپ تو بڑھیے ارام اور خوش خرم زندگی گزارھیے ھیں اپ لوگوں نے میرے والد اور باقی بلوچوں کے شھدت کے بعد جنگ کو جاری رکھنے کی کوشش ھی نہیں کی اپ لوگ اس لیے نئ حکمت عملی نہ بنا سکے کیوں کے اپ تھک چھکے تھے اپ لوگوں کو اپنے گھر بار یاد انے لگے اس لیے اپ لوگوں نے ایک کامیاب تحریک کو بندل گلی میں چھوڑ کر بندوق بیچ کر چادر کاندھیے پر لیے اپنے گھروں کو چلے اے اور ارام کی زندگی جینے لگے لیکن یاد رکھنا جس طرح اٹھاون تیتر کے جنگو کے بعد بلوچ دوھزار میں جنگ لڑھے اب بھی بلوچ اپنی تحریک کو شروع کرینگے

Share this Post :

Post a Comment

Comments

News Headlines :
Loading...
 
Support : Copyright © 2018. BV Baloch Voice - All Rights Reserved