skip to main |
skip to sidebar
شہیدچیئرمین غلام محمدبلوچ حالات زندگی -- ابراہیم بلوچ
آزادی کی قومی جد وجہد میں فرد اپنی شہا دت میں ایک ادارہ تخلیق
کرتے ہوئے اپنے پیچھے روایات اورسچی قوم دوستی کے عظیم جذ بات چھو ڑجاتا ہے
۔آج ہم مقبوضہ بلوچستان میں غلام سانسیں لے رہے ہیں اس پر زندہ رہنے کی
چند شرطیں ہیں ۔اپنا قرض چکا ؤ ۔آزادی کے لیے اپنا فرض اداکریں آنے والی
نسلوں کے روشن مستقبل کے لیے قربا نیاں دیں کیونکہ یہ سرزمین شہیدوں،بہا
دروں کی سرزمین ہے ۔
مزاحمت آزادی اور جدوجہد ،حق کے لیے قربانیاں یہ تمام صورتیں ظلم وجبر کی
ہی پیدا وار ہیں ۔اگر جبر نہ ہوتا تو انسانی تاریخ بہت سے واقعات بہت سے
بڑے ناموں سے محروم ہوتی ۔دنیا کے ان بڑے ناموں میں سے ایک نام شہید چیئر
مین غلام محمد بلوچ کا ہے ۔
آپ 1 جنوری 1959 ء کو مند ’’سورو‘‘ میں واجہ محمد ایوب بلوچ کے گھر میں
پیدا ہوئے ۔والد صاحب متوسط طبقے کے زمیندار تھے شاعری اور علاقائی سیاست
میں بھی آپ سرگرم رہتے تھے آپکے والد صاحب نے چھ شادیاں کی تھیں ۔پہلی زوجہ
سے اولاد نہ ہونے کی سبب آ پ نے دوسری شادی کی ۔ ان سے تین لڑکے محمد یوسف
،عبدالرزاق اور واجہ غلام محمدپیداہوئے اور ایک لڑکی نے جنم لیا ۔
آپکے ایک بھائی عبد الرزا ق جو درمیانی عمریعنی 26 سال کی عمر میں وفات
پاگئے عبد الرزاق بھی بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سرگرم رکن رہے ۔تیسری
بیوی سے دو لڑکیاں ۔چوتھی سے ایک لڑکا عبدالخالق پانچویں بیوی سے دو لڑکے
اور دو لڑکیاں جبکہ چھٹی بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔والدصاحب خود شاعری
سے لگا ؤ رکھتے تھے اس لئے شاعری اور فنون ادب سے ذوق شہید نے ورثے میں
پایا ۔
ابتدائی تعلیم مند سو ر وسے حاصل کی ۔دوران اسکول آپ تمام سیاسی سرکلوں میں
باقاعدگی سے شامل ہوتے رہے ۔ 1974 ء بھٹو کا آمرانہ دور بلوچ تاریخ میں ہر
کسی کو یاد ہوگا بلکہ بلوچ تاریخ کا جابرانہ باب جہاں ہزاروں بلوچ شہید
کیے گئے ۔خواتین اور معصوم بچے تک اذیت گاہوں میں تشدد سہتے رہے۔
اسی دوران بلوچستان کے علاقے مند میں ایک ایسا نوجوان سیاسی پرورش پا
رہاتھا جس نے تاریخ اورمورخ کے قلم کو اپنی جانب مڑنے پہ مجبور کیا ۔جی
ہاں، واجہ غلام محمد نے ایوبی بھٹوآمر یت کے خلاف سیاسی محا ذ پر بڑھ چڑ ھ
کر حصہ لیا اور1975 میں آپ نے 16 سال کی عمر میں وہ تاریخی نظم’’ماتی ساہ
ءَ منی دلجم ببئی ، مرگ لوار ءِے کشت نہ کنت‘‘ لکھی جو آج ہر بلوچ ماں
وفرزند کے لیے سبق ہے ۔
بقول آپکے والد ہ بی بی حیرانسا ء کے حالات سنگین تھے یہ سب اشتہاری ہوگئے
تھے کبھی رات کو دیر سے آنا تو کبھی کسی رشتہ دار کے ہاں رُکنا میں پریشان
ہوتی تھی جب ایک شام سورج ڈھلنے کے بعد کافی دیر سے وہ آ ئے تو میں نے کہا
کہ اپنا خیال رکھو اور جلدی گھر آیا کرو تو کچھ دن بعد غلام محمد نے یہ نظم
سنائی اُس وقت میں اِس نظم کی گہر ائی نہیں سمجھ سکی مگر آج سینہ فخر سے
چوڑا ہوجاتاہے ۔ (نوٹ، یہ الفاظ شہید چیئرمین کے والدہ محترمہ نے 2010 کو
بتائے تھے،اس وقت وہ حیات تھیں)
76 - 1975 ء میں آپ دوران اسکول ایک بالغ سیاسی ورکر بن چکے تھے ۔آپکی
سیاسی سرگرمیوں اور محنت کی وجہ سے مند یونٹ کو زون میں تبدیل کیاگیا 1976 ء
میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن مند زون کا افتتاح کیاگیا توآپ جنرل سیکر
یڑی منتخب ہوئے ۔اجلا س میں شہید فدا احمد بلوچ نے بلوچستان کی سیاسی
صورتحال اورانقلابی ومزدور نظریہ پر لیکچر دیا۔
جنر ل سیکر یڑی منتخب ہونے کے بعد آپ نے اس ذمہ دار ی کو بخوبی نبھایا۔ آپ
نے مند اور قرب وجوار میں پارٹی کو منظم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی آپ
اسکول کے زمانے سے بہترین شاعروں کی صف میں شامل ہوگئے اور افسانہ نگاری
بھی کرنے لگے ۔سیاست اورنیشنلزم تو آپکا اوڑھنا بچھونا بن چکا تھا
آپ نے اپنی سیاسی جدوجہد کی ابتدا ہی میں منداور تربت میں پارٹی کو منظم وفعال بنانے کے لیے بنیادی کردار ادا کیا۔
میٹرک کے بعد آپ نے مزید تعلیم کیلئے کراچی کارخ کیا بلوچ نیشنلزم آپکے خون
میں رچ بس گیا تھا اور آپ نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنا ئز یشن کے پلیٹ فارم سے
اپنے قومی فریضہ کو کراچی میں بھی بخوبی نبھایا۔
1981 ء کے آخر میں آپ نے کراچی سند ھ مسلم کالج میں داخلہ لیا۔ اس دوران
کراچی کے سیاسی گرم ماحول میںآپ نے زور شور سے حصہ لیا 1982 ء میں کراچی
زونل جنر ل سیکرٹری منتخب ہوئے ۔انضمام کے بعد1984 ء میں آپ سندھ کے صدر
منتخب ہوئے اس دوران آپ باقاعدگی سے اسٹڈی سرکل اور دیگر پر وگرام کو خود
ذمہ داری سے ما نیٹر کر تے تھے ۔A.M.O چا کیواڑہ کے تاریخی جلسہ میں جب
پویس نے مدا خلت کی توآ پ اور میربز بخو کو گرفتارکیاگیا دوران حراست آپ کو
تشد د کانشانہ بنا یاگیا اور ایک ہفتے بعد آپ رہا ہوئے یہ آپکی پہلی سیاسی
گرفتاری تھی۔
20 نومبر 1982 کو آپ کے والد صاحب انتقا ل کرگئے ۔
1986 ء میں آپ جو نیر وائس چیئرمین منتخب ہوئے ۔اسی سا ل آپ نے شادی کی اور پہلی زوجہ سے آپکے تین بچے ہیں ۔
جن کے نام مہرجان ،ایوب بلوچ، بالا چ بلوچ ہیں۔
اسی دوران کہورخان اختلا فات زور وشور سے جاری تھے، آپ نے بے انتہا کو شش
کی کہ اختلا ف ختم کیے جائیں مگر اسٹبلیشمنٹ جوہر وقت بلوچ قومی تحریک میں
دراڑ یں ڈالتی چلی آرہی تھی اس وقت بھی کامیاب ہوگئی1987 ء میں اختلا فات
کے بعد آ پ قائم مقام سینئر وائس چیئرمین کے طور پر تنظیم میں اپنے فرائض
انجام دیتے رہے ۔
1988 ء میں مرکزی جنرل سیکر ٹری منتخب ہوئے اس دوران آپ بلوچستان یونیورسٹی
میں زیر تعلیم تھے ۔آپ طالب علمی کی سیاست کے دوران اپنے دور کے بہتر ین
لیڈ ر ثابت ہوئے۔اسٹڈ ی سر کل اور پارٹی آئین، قوائد و ضوابط کے پابند قائد
ین میں سے تھے ۔
1990ء میں آپ بلوچ طلبا تنظیم بی ایس او کے چیئرمین منتخب ہوئے ۔اکتوبر
1991 ء میں خضدار زرعی کالج کے مسئلے پر آپ سراپا احتجاج بن گئے اور پنجابی
سامراج اوراختیارداراداروں کا جینا حرام کردیا تو آپ کو گرفتار کرلیاگیا
اورچند دن بعد عوامی طلبا طاقت کے آگے سرکارڈھیر ہوگئی اور آپ کورہا
کردیاگیا۔
1992 ء میں ایک بار پھر B.S.O کو اختلا فاتی سیاست کا شکار بنایا گیا آپ نے
بابا خیر بخش اور سردارعطا اﷲمینگل سے رابطے کرکے اختلافا ت ختم کرنے کی
بے انتہا کو ششیں کیں ۔مگرنتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا۔
یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے 1993 میں چیئر مین شپ کی مدت پوری
ہونے کے بعد طلبا سیاست کا راستہ آنے والے نوجوانوں کے لیے چھوڑ دیا اور
خودبلوچستان نیشنل موومنٹ (B.N.M) میں شمولیت کی اورکیچ کے صدر منتخب ہوئے ۔
بی این ایم میں شمو لیت کی اہم وجہ کامریڈ فدا احمد کی فکر اورنظریاتی
پختگی اور قابض ریاست کا جبرتھا جس نے آ پ کو ایک انقلابی بنایا، غلامی و
محکومی کو آپ نے اس عمر میں محسو س کیا جسے ہم معاشرتی زبان میں کھیلنے
کودنے کے دن کہتے ہیں۔آپ نے بلوچستان یونیورسٹی سے ایم اے اورایم اے بلوچی
میں کیا۔
اوریہی وجہ تھی کہ آپ نے بی این ایم میں شمولیت کی اور قومی جہد حاکمیت اورقومی بیداری کا بیڑ ا اُٹھا یا۔
بی ایس او سے فارغ ہونے کے بعد چند ساتھیوں نے مشورہ دیاکہ آپ ان لوگوں کے
ساتھ ایڈ جسٹ نہیں ہوسکتے یہ لوگ پارلیمانی نظام اور پاکستانی سیاست کی
جانب گامزن ہیں آپ کو ساتھیوں نے الگ پارٹی بنانے کا مشورہ دیا جبکہ آپ نے
دوستوں کو کہا کہ یہ فد ا کے ساتھ غد ا ری ہوگی کہ میں اُسکی بنائی ہوئی
پارٹی اورراستے کے ساتھ دغا کروں البتہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے انقلاب کے
نعرے لگائے ان کی صفو ں میں شامل ہوکر بی این ایم کو بچا ناگا چو نکہ یہ
میر ی پارٹی ہے ۔آپ کا روز اول سے پارلیمانی سیاست سے اختلا ف تھا ۔
1994 ء میں آپ سنٹر ل کمیٹی کے ممبر97 19میں مرکزی جونیئر نا ئب صدر رہے اس
دوران آپ جب جونیئر نائب صدر تھے تو اختلا فات واضح ہوگئے تھے آپ نے عبد
الحئی ،ڈاکٹر مالک ،دشتی ودیگرسے سوال کیاکہ آپ لوگوں نے 93 19اور 1995 کے
الیکشن میں حصہ لیا جسکی وجہ آپ لوگوں نے پارٹی میٹنگوں اوراپنی محفلوں میں
یہ بتائی کہ ہم پارلیمنٹ کو ایک حربے کے طور پر استعمال کرینگے ۔یعنی (حق
خوداراد یت ) جسکے تحت ہم صوبائی اسمبلی میں بل پیش کرینگے کہ ہم پاکستان
کے ساتھ نہیں رہ سکتے اور نہ صرف دنیا بلکہ اقوام متحدہ کو بتائیں گے کہ ہم
اس قابض ریاست کے ساتھ نہیں رہ سکتے مگریہ تو صرف باتیں ثابت ہوئیں ۔
(پارلیمنٹ کو ایک مشق اور حربے کے طورپر پر استعمال کرینگے ) یہ الفاظ آج
خود بھی پاکستانی سیاست دان ڈاکٹرمالک ودیگر مانتے ہیں کہ انہوں نے کہے تھے
۔لیکن غلام محمد کو بی این ایم کی قیادت اورتھنک ٹینک کوئی خاطر خواہ جواب
دینے کی بجاے یہ کہتے کہ (سرگوں سنگا ں میڑینگ نہ بیت ) تو اختلا فات واضح
ہوجاتے ہیں ۔2000 ء میں آپ پارٹی عہدہ نہیں لیتے جبکہ دوسری جانب
ڈاکٹرمالک ودیگر لابی آپکے خلاف اپنی مہم تیز کر دیتے ہیں ۔2002 ء کے سیشن
میں آپ واضح فیصلہ کرتے ہیں کہ اب پارٹی کو غیر پارلیمانی سیاست کی جانب لے
جائینگے ۔آپ اپنے ساتھیوں اورخیرخواہ نظر یاتی ساتھیوں سے صلاح ومشورہ
کرتے ہیں ۔دوسری جانب ڈاکٹرمالک ودیگر کو بخوبی اسکا علم ہوجاتاہے اورآپ
عبد الحئی کے مقابلے میں صدارتی الیکشن لڑتے ہیں ۔پاکستانی سیاست پار لیمنٹ
پر ست آسائش اور زر کے داعی بی این ڈی پی کے ساتھ انضمام کرکے نیشنل پارٹی
بنا لتے ہیں، جبکہ آپ مرد آہن کی طرح اپنے چند ساتھیوں سمیت بی این ایم کے
وجود کو قائم رکھتے ہیں ۔بالکل ان 6 آئر شوں کی طرح جو آزاد آئر لینڈ کے
قیام کا اعلان کرتے ہیں اور چند دنوں بعد سرکار اُنہیں پھانسی پہ لٹکاتی ہے
۔مگر انقلابی ابتدائی عمل کو وہ پھانسی نہیں دے سکتے، سینکڑ وں سال بعد
آئر ش ان 6 رہنما ؤں کی جہد کو تکمیل کی طرف لے جا تے ہیں اور آزاد وطن کے
مالک بن جاتے ہیں ۔2003 ء کے انضمام بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بی این ڈی
پی اور دیگر نوآبادیاتی نظام کے رکھوالے نیشنل پارٹی کے نام سے اپنی الگ
پارٹی بنا لیتے ہیں اور چیئرمین غلام محمد چند نظر یاتی وانقلابی ساتھیوں
کے ساتھ بی این ایم کے وجود کو انقلابی عمل کے ساتھ زندہ رکھتے ہیں ۔واضح
انقلا بی نعرے کے ساتھ (غیر پارلیمانی سیاست اور مسلح جد وجہد کی حمایت )
2002 ء میں آپ 1998 ء والی داستان مضمون کی شکل میں ’’ سقوط بولان ‘‘ کے
عنوان سے زیر قلم لاکرعوام کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔آپ بار ہا 1998 ء کے بعد
کوشش کرتے ہیں کہ خود کو سابقہ انقلابی کہنے والے یہ منحر ف واپس بلوچ
قومی دھار ے میں آجا ئیں اور غیر پارلیمانی جہد برائے آزادی کاساتھ دیں
۔مگر یہ ممکن نہیں ہوا ۔
جب مالک نے وفا قیت متوسط طبقہ اور پاکستانیت کے نعرے کے ساتھ بلوچ سرزمین
پہ نو آبادیاتی نظام کو مضبوط کرنے کا بیڑا اُٹھا یا تو آپ نے اپنے رفقا کے
ساتھ بلوچ نیشنل موومنٹ کی آرگنا ئزنگ باڈی تشکیل دی ۔
2004 ء کے کو نسل سیشن سے پہلے آپ ہر طبقے کے دوستوں کے پاس آزادی کے واضح
پیغام کے ساتھ گئے لیکن 80کی دہائی کے بعد مالک اور دیگر مخصو ص ٹولے نے
لوگوں کے ذہن سے آزادی کے نعر ے کو تقریباًمٹادیا تھا اور بیشترلوگ آسائش
پرست بن چکے تھے ۔آپ کو پاگل کا خطاب دیاگیا ۔30 اپریل تا2 مئی 2004بلوچ
نیشنل موومنٹ کے کونسل سیشن میں آپ پارٹی صدر منتخب ہوئے اورواضح قومی
آزادی کے پروگرام کے تحت قومی تحریک میں نئے روش باب کا اضافہ کیا۔
حسب معمول جس طرح دیگر انقلابی تحریکوں میں کا ؤنٹر فور س یا سرکاری بی ٹیم
جوکام کرتی ہے یہاں بھی ان پارلیمانی نظام سے جڑے پاکستانی بلوچوں نے آپ
کے خلاف میڈیا وار اور پروپیگنڈہ وار کا باقاعدگی سے آغاز کیا۔ مگر آپ
سرزمین کے عشق میں انتہا کو پہنچ چکے تھے ۔بلوچستان کے ہرکونے میں آپ نے
آزادی کے واضح پیغام اور مسلح جدوجہد کو اہم مرحلے تک پہنچایا ۔ڈاکٹر مالک
،یا سین، جان محمد بلیدئی ،مولا بخش دشتی ،نسیم جنگیان ،احسان شاہ اور کئی
دیگر لوگ یہ پر وپیگنڈ ہ کرتے پھرتے کہ جناب غلام محمد تو سینٹ کی کرسی کے
لیے الگ ہوئے تھے ۔
حالانکہ رو ز نامہ انتخاب میںآپکا شائع شدہ مضمون(سقوط بولان) آج بھی بلوچ
قومی تحریک اورتاریخ کا حصہ ہے جس میں آپ کس طر ح 1998 ء میں ان نام نہا
دقوم پرستی کے دعو یداروں کوننگا کر تے ہیں جہاں یہ عناصر سرزمین کے ساتھ
آپکا سودا کرنا چا ہتے ہیں ۔
1999 ء نواب خیر بخش کی گرفتاری کے بعد آپ نے پارٹی کے نام نہا دقوم پرستوں
سے رابطہ کیا کہ آئیں کو ئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کریں آج بلوچ قومی
رہبر پس زندان ہے مگریہ لوگ تو اسٹبلشمنٹ کے داعی تھے۔
20 نومبر 2000ء کو آ پ اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں،۔
’’آج ایک معتبر شخص نے بتایا کہ تم لوگ اس طرح جھک گئے ۔حکومت وقت جو فوجی
جنتا کی ہے اسکی شہہ پر اپنی سیاسی بساط کا ستیاناس کیوں کرنے لگے ہو عجیب
سوال تھا؟مگر با معنی تھا اس بات پر ذہن میں حقیقت حال کا نقشہ اُبھر
آیا۔سیاسی و نظریاتی رشتہ جو ناقابل تسخیر ہوا کرتا ہے ،کانچ کی طرح ٹوٹا
ہو ا پا یا وہ ایک شخص (بابا خیر بخش مری ) جوکبھی ہماری پوری قیادت کیلئے
باعث فخر شناخت کی حیثیت رکھتا تھا۔ آج تنہا فوجی حکومت کی سازش کے تحت پس
زندان ہے لیکن تمام جیالے جو سیاسی قیادت کی دعویداری کرتے ہیں خاموش ہیں
خوف کے مارے ہر کسی کو اپنی جا ن بخشی کی فکر ہے ۔ وہ زندہ رہا یاشہید
ہوگیا ،پھر بھی امر رہے گا جو میدان چھوڑ کر اپنی زندگی بچانے کی کوشش کر
ینگے وہ تاریخ میں ناقابل معافی مجر م ٹھہر ینگے،،
یہ الفاظ اس عظیم آزادی پسند رہنما چیئرمین غلام محمد کے 20 نومبر 2000 ء
کے ہیں جس نے بلوچ جہد آزادی میں نئی رو ح پھونک دی توجنا ب پاکستان پر ست
سیاستدان جواب دیں کہ 1998ء اور 2000 ء میں کو نسی سینٹ کی کر سی تھی
۔افسوس کہ اپنی غلطیوں کو چھپا نے کیلئے یہ لوگ تاریخ کو مسخ کرنے کے در پے
ہیں مگر سچ تو وقت کے ساتھ خود عیاں ہوہی جاتاہے ۔
15 اگست 2000 ء کو آپ نے دوسر شادی کی اور آپکے دوبچے بہاول بلوچ اورماہ
جان ہیں آپکے زوجہ بانک سلمی بھی بلوچی شاعری کرتی ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ
ہوگا کہ آپکا تعلق ایک پڑھے لکھے گھرانے یایوں کہیں کہ شاعری آپکے خاندان
کے ہر فرد میں رچ بس چکی ہے ۔آپکے بڑے بیٹے ایوب بلوچ بھی بلوچی شاعر ہیں ۔
جب آپ نے بلوچ نیشنل موومنٹ کے پلیٹ فارم سے بلوچ قومی آزادی کا بیرک بلند
کیا تو آپکی زوجہ بانک سلَمی بلوچ نے ہر قدم پہ آپکا ساتھ دیا آپ بلوچ قومی
تحریک میں پہلی بار بلوچ خواتین کو نہ صرف قومی سیاسی دھارے میں لے آئے،
بلکہ یہ آغاز آپ نے اپنے گھر سے کیا ۔ریلیوں اور مظاہروں میں آپکی زوجہ چند
خواتین کے ساتھ رونما ہوئی تومخالفین نے یہاں بھی باتیں کیں مگر ارادے
پختہ ہوں تو کوئی روک نہیں سکتا بالآخر پورے بلوچستان سے خواتین کا روان
آزادی کا حصہ بن گیں ۔ چیرمین غلام محمد اور شیرمحمد بلوچ کو 3 دسمبر 2006 ء
کوحیدری بلوچ فٹبال کلب کے دفترکلری لیاری سے اس وقت گرفتار کرکے لاپتہ
کیاگیا جب وہ شہید نواب اکبر بگٹی کی یاد میں منعقد ہونے والے جلسہ عام سے
خطاب کرنے کیلئے آئے تھے۔30 پولیس موبائلوں I.S.I ملٹری انٹیلی جنس کے
اہلکاروں نے انہیں اغوا کیا۔ تو آپ کی بوڑھی والدہ زوجہ اور چھوٹے بچوں نے
بھوک ہڑتالی کیمپوں مظاہروں ریلیوں کی سربراہی کرتے ہوے دنیا کے تمام عالمی
اداروں کی توجہ اس طرف مبذو ل کرانے کی کوشش کی کہ غلام محمد جو اقوام
متحدہ کے قوانین کے مطابق اپنی قوم کی آزادی کے لیے بر سر پیکار ہے اسے
پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے اغوا کیا ہے جبکہ اہل خانہ نے تربت ، مند
،کوئٹہ،کراچی میں علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے، دوسری جانب پارٹی نے
مظاہروں اور پارٹی پروگرام کو بخوبی انجام دیا۔10 اپریل 2007 کو کراچی میں
بھوک ہڑتال کے 25 ویں روز آپ کی والدہ محترمہ نے صحافیوں سے بات کرتے ہو ہے
کہا کہ ’’بلوچ قوم کے لیے بیٹے کی جدو جہد پر فخر کرتی ہوں گرفتاری سے
کوئی خوف نہیں ہے پاکستانی ظلم و جبر سے متعلق دنیا کو آگاہ کرونگی۔‘‘ قوم
اور پارٹی کے ساتھ خاندان اور گھر والوں کے قدموں میں ذرا بھی لرزش نہیں
آئی۔10 مہینے 17 دن آپ کو شد ید تشدد کا نشانہ بنایا گیا 20 ستمبر2007کو
سبی کے مقام پرخفیہ اداروں نے آپ کوظاہر کیا ،اگلے روز انھیں خضدار اور پھر
وہاں سے تربت لئے جایا جاتا ہے 29 ستمبر تربت تھانے سے ڈسٹرکٹ جیل تربت
منتقل کیا گیا ۔ بقول چیئر مین غلام محمدکے’’ گھنٹوں ہاتھ اوپر کرکے ایک
ٹانگ پر کھڑاکرتے ۔بلآخر میری ٹانگیں جواب دے جاتیں میں گرتا پھر یہ تشدد
کا نشا نہ بناتے کئی رات سونے نہیں دیتے ۔ہفتوں گزرنے کے بعد ایک دن مجھے
کھڑا کرکے ہاتھ او پر باندھ دئیے گئے چونکہ کمزوری کی وجہ سے میں ہاتھ او
پرکھڑے نہیں کرسکتاتھا ۔لیکن میری ٹا نگیں بھی اب جواب دے چکی تھیں اچانک
میرے دونوں کانوں سے خون کے قطر ے آنے لگے ۔اسی روز شام کو پنجابی فوجی
افسر میرے پاس آیا اور کہا۔ آزادی کے سواکیا چاہئے وزارت ،مال ودولت ۔اگر
یہ سب بھی نہیں تو آپ کا باہر کسی ملک میں بند وبست کرینگے ۔میں نے انہیں
صاف کہا کہ اس کا فیصلہ بلوچ عوام کریگی ۔ہم اقوام متحدہ کے قوانین کے
مطابق آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں ۔تو فوجی افسرنے جواب دیا غلام محمد پاگل
مت بنو تمہارے سارے پرانے رفیق ہمارے ساتھ ہیں اکیلے کچھ نہیں کرسکتے اور
اس نے کہا سوچو پھر جواب دینا ۔سلسلہ تشدد جاری تھا ہردوسرے روز ایک سنتری
آتا غلام محمدسے پوچھتا ’’کیا جوا ب ہے؟‘‘ میں خاموش رہتا ۔ شہید غلام محمد
بتاتے کہ ہمیں کراچی میں 41 دن ٹارچر سیل میں رکھاگیا بعد میں ایک لمبے
سفر پہ ہماری آنکھوں پہ پٹیاں اور ہاتھ باندھے ہوئے تھے ایک اور فوجی کیمپ
میں لے جایا گیا جہاں کئی دن بعد ہمیں پتہ چلا کہ ہم سبی میں ہیں۔پورا
گرمیوں کا موسم ہم نے سبی میں ایک چھوٹے تاریک ٹارچرسیل میں گزارا،
ٹارچرسیلوں میں تقریباتمام بلوچ ہی تھے اور ساری رات ہمیں چیخوں کی آوازیں
آتی تھیں جو یہ ظالم ہمارے بلوچ ساتھیوں کے ساتھ بدترین تشدد کرتے ان کی
آوازیں تھیں۔سبی میں ہم نے ایک 8 سالہ بچے کو بھی دیکھا جسے یہ فوجی اسکے
باپ اور بھائیوں کے ساتھ پکڑ کے لائے تھے۔اس بچے کی آنکھوں پہ بھی پٹی
بندھی ہوئی تھی ، جس سے اسکے بھائیوں کے بارے میں پوچھ گچھ کرتے تھے، جب وہ
کہتا مجھے نہیں معلوم تو یہ ظالم اسے بھی مارتے ہمیں اگر کبھی ان فوجیوں
سے بات کرنے کا موقع ملتا تو یہ سُن کر خوشی ہوتی کہ یہ بزدل فوجی اپنے
تبادلے کی دعاہیں مانگتے تھے۔ ‘‘
دوران حراست خفیہ اداروں کے اہلکا روں نے چیئرمین کو بے انتہا تشد د کا
نشانہ بنایا۔ تربت جیل میں پارٹی ساتھیوں و دیگر سے ملاقات کے دوران آپ نے
قوم اور ساتھیوں کے نام پیغام دیا کہ’’ ہم نے جو یہ سختیاں برداشت کی ہیں
کسی پر احسان نہیں کیا یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے وطن بلوچستان کو غیروں
کی غلامی سے آزاد کرنے کیلئے ہر قسم کی قربانیاں دینے کیلئے تیار ہوںآزادی
حاصل کرنے کے لیے ہم ہزاروں شہید تیار اور صف بندی کرکے اپنے اندر اتحاد
پیدا کریں اور اسے اتنا مضبوط کریں کہ دشمن کا ہر وار سہ سکیں،ہماری منزل
قریب ہے دشمن خوفزدہ ہوچکا ہے اسے صرف ایک بھر پور وار کی ضرورت ہے اور
میرا یہ یقین ہے کہ ہم اپنی منزل بلوچستان کی آزادی حاصل کرکے رہیں گے،قوم
کے فرزندوں کو چاہئے کہ وہ بلوچ سرمچاروں کے ساتھ مل کر گلی گلی ،گاؤں گاؤں
شہر شہر میں دشمن کی ناکہ بندی کریں اور بلوچستان کی آزادی کو اپنی منزل
قرار دے کر جدوجہد میں تیزی لائیں فتح ہمارامقدر ہے اور شکست دشمن کا مقدر،
ہمارے شہیدوں کا لہو کبھی رائیگاں نہیں جائے گا۔‘‘
10 اکتوبر 2007ء کو آپ تربت سے رہا ہوئے ۔ طویل عرصے زندان اور ریاستی تشدد
کے بعدجب آپ تربت سے اپنے آبائی گاؤں مند سورو پہنچے تو پارٹی ساتھیوں اور
گھر والوں نے پھولوں کی پتیوں سے آ پ اور شیر محمد کا پرجوش انداز میں وش
اتک کیا۔ دوران حراست تشدد کی وجہ سے آپ کی جسما نی حالت انتہائی خراب تھی
،ٹانگوں میں حد درجہ تکلیف اور کانوں میں بھی تکلیف تھی آپکو سننے میں بھی
مشکلات پیش آرہی تھیں۔
اپنی زمین پیدا کر اپنا آسمان پیداکر
مانگنے سے زندگی نہیں بنتی اپنے اندر یقین پیداکر
مگر آپ نے اس جسمانی تشدد ایزا رسانی کو کوئی اہمیت نہیں دی، اس لئے کہ آ پ
تو اپنی زمین اپنے آسمان کی کھوج میں تھے اور پریقین تھے ،منزل کی جانب
رواں تھے۔گھر پہنچنے کے اگلے روز ہی آپ نے پارٹی ساتھیوں سے ملاقات میں کہا
کہ’’ جدو جہد میں قید وبند اور زندگی کی کوئی اہمیت نہیں جہد کو تیزکرنا
ہوگا پارٹی کو شعوری بنیادوں پر مضبوط کرکے قومی آزادی کے پیغام کوگھر گھر
پہنچانا ہوگا۔‘‘
دوسری جانب آپ کی رہائی کو پاکستانی پارلیمانی مخبروں سر کاری بی ٹیم نے
ایم آئی ، آئی ایس آئی اور فوج کے ساتھ ڈیل کا نام دیا کہ آپ پاکستانی
ایجنٹ ہو مگر چیئرمین غلام محمد تو اپنی قوم سرزمین کاا یجنٹ تھاکسی پر
وپیگنڈے کو خاطر میں لائے بغیر آپ نے جد وجہد کو مزید تیز کردیا آپ کے ساتھ
پارٹی کی تمام قیا دت بھی زیر عتاب رہی ۔ اسٹڈ ی سر کلز، تر بیتی ورکشاپ،
تبلیغ کا سلسلہ جاری رہا دوسری جانب مزاحمتی تحریک نے بھی بلوچ قوم میں
اپنی جڑیں مضبوط کر لی تھیں یہ کہنا غلط نہ ہوگا چیئر مین غلام محمد بلوچ
کو بلوچ قوم بطور انقلاب کے symbel جانتی تھی۔
13 تا 15جولائی 2008 ء کو ملیرکراچی میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی کونسل
سیشن کا انعقاد ہوا چیئرمین غلام محمد بلوچ پھر پارٹی صدر منتخب ہوئے آپ نے
پارٹی کے ذیلی وبالائی اداروں کو آزادی کا واضح پروگرام عوام تک پہنچا نے
کا عمل مزید تیز ی سے جاری رکھنے کا کہا اور آرام پسندی کا شکار نہیں ہوئے
بلکہ اسٹڈی سرکل سے تر بیتی ورکشاپ ،ریلی ،جلسے، جلوسوں کی قیا دت بلو
چستان کے ہر کونے میں خود کی ۔ بلوچ قومی رہبر نوجوان انقلابی گوریلا لیڈر
بالاچ خان کی شہادت پر آپ نے پارٹی ورکروں و ساتھیوں پر جہدنہ صرف تیز کرنے
پر زور دیابلکہ حکمت عملیوں پر بھی غور کیا اور بالاچ خان کی شہادت کے
ساتھ ایک بار پھر سرخ خون کی سوگند کو دہرایا اور کہا کہ آزادی کے سفر اور
اس کاروان کو آگے بڑھاتے رہینگے اور بلوچ آزادی کا علم بلند رکھتے ہوئے
آزادی کے حصول کے لیے اپنی جد و جہد جاری رکھیں گے۔ آپ نے جون 2008 ء کے
مہینے میں نہ صرف پارٹی کے سنےئر دوستوں کے ساتھ بلکہ اخباری بیان میں
انکشاف کیا کہ خفیہ ادارے مجھے سیاسی جہد سے ہٹانا چاہتے ہیں اس لیے گرفتار
کیا گیا ۔ 3 نومبر 2008 ء کو چیرمین غلام محمدکے قتل کی افواہ پھیلائی گئی
جس پر بی،این،ایم نے کہا کہ پارٹی قائدکے قتل کی افواہ تحریک کے خلاف سازش
ہے۔جبکہ چےئرمین نے اگلے روز اپنے بیان میں کہ دشمن مجھے قتل کر کے
مفادپرستی کی سیاست کو فروغ دینا چاہتے ہیں جو احمقانہ سوچ ہے۔8 فروری 2009
خضدار سینٹرل کمیٹی اجلاس میںآپ نے بلوچ جہد آزادی تیز کرنے کے لیے عوامی
رابطہ مہم کا اعلان کیااور کہا کہ ’’بلوچ جہد آزادی گرفتاریوں سے سبوتاژ
نہیں کی جا سکتی ،بلوچ وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے لیے پاکستانی حکمران اور
سامراجی اتحادی اپنی تمام صلاحیتیں بروے کار لا رہے ہیں B.N.M قومی آزادی
کے لیے کوشاں ہے۔‘‘
رہائی کے بعد پاکستانی ایجنسیوں پارلیمانی کاسہ لیس بلوچیت کے دعوے داروں
نے آپ کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی کئی بار آپ کے گھر پر ایف، سی نے د
ھاوا بولا خواتین و بچوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی مگر انقلابی رہبر کے
گھروالے ہمیشہ ثابت قدم رہے اور انکے قدموں میں کبھی لغزش نہیں آئی بلکہ وہ
چیئرمین غلام محمد کے حوصلے بلند کرتے رہے۔ 2 فروری2009 ء کو بلوچ مزاحمتی
تنظیم بی ایل یو ایف نے اقوام متحدہ کے اہلکارجان سولیکی کو اغوا کیا اور
یہ مطالبہ کیا کہ تمام بلوچ مرد خواتین وبچوں کو پاکستانی خفیہ اداروں سے
رہائی دلائی جائے ۔
مزاحمتی تنظیم نے تین مطالبات رکھے
1۔ 141 خواتین قیدیوں کی رہائی
2۔ چھ ہز ارلاپتہ افراد با زیاب کرائے جائیں
3 ۔بلوچ قومی آزادی کے مسئلے کوحل کیاجائے
جان سولیکی کے بلوچ مزاحمتی تنظیموں کے ہاتھوں اغواکے بعد نہ صرف پاکستانی
ایوانوں بلکہ عالمی دنیا میں بھی بلوچ مسئلے پہ جاری بحث میں تیزی آئی اور
اقوام متحدہ و دیگر عالمی اداروں اور ممالک میں بلوچ جہد آزادی کو پذیرائی
ملی اقوام متحدہ نے براہ راست بلوچ سرمچا روں سے بات کرنے کی کوشش کی مگر
انہوں نے انکار کیا ، بلوچ دوست کمیٹی بنائی گئی جسکی نمائندگی چیئرمین
غلام محمد کررہے تھے ۔جو سرمچا روں سے بات کرکے جان سولیکی کی رہائی کو
یقینی بنائے ۔
اور دوسری جانب پاکستانی ریاست بلوچ مرد وخواتین اسیران کی بازیابی کیلئے
سست روی سے کام لیتے ہوئے خاموش بیٹھی تھی ۔جبکہ چیئرمین غلام محمد اور
ساتھی بلوچ جہد آزادی کواپنے پروگرام کے مطابق آگے بڑھا رہے تھے ۔بلوچ اور
عالمی حلقوں میں غلام محمد کی مقبو لیت کا اب پاکستان کو صحیح اندازہ ہوگیا
تھا ۔جب اقوام متحدہ کی ٹیم نواب خیربخش سے ملا قات کیلئے آئی تو بی این
ایم کے چیئرمین غلام محمد نہ صرف وہاں موجود تھے بلکہ بلوچ قوم کی نمائند
گی کا شرف بھی بابا مری نے انہیں بخشا۔ چیئرمین غلام محمد نے اقوام متحدہ
کی ٹیم کے سامنے واضح کیا کہ بلوچ مسئلے کو عالمی اداروں میں زیر بحث لایا
جائے اور پاکستان پر زور دیا جائے کہ بلوچ خواتین،مر داور بچوں کو بازیاب
کرایا جائے ۔جس پراقوام متحدہ کے ایک اہلکا رنے کہا کہ پاکستان اس جانب
کوئی لچک نہیں دکھا رہاہے ۔
جبکہ بلوچستان مسئلہ پاکستانی عالمی میڈیا کا بھی مو ضو ع بحث بن گیا کہ
اکیسویں صدی کے جدید ترقی یافتہ دور میں ایسی بہتر ین گوریلا حکمت عملی بہت
کم دیکھنے میں آئی ہے جو بلو چ مزاحمت کاروں نے دکھا ئی اورآزادی پسند
سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے کردار کو بخوبی نبھا یا ۔
19 فروری کو چیئرمین غلام محمد بیان دیتے ہیں کہ بلوچ قومی آزادی اقوام
متحدہ کے چارٹر کے مطابق تسلیم کی جائے عالمی ادارے پاکستان کے بلوچستان پر
جبری قبضے اوربلوچ قوم کیخلاف جارحیت اور وحشیا نہ کا روائیوں کے خاتمے
کیلئے کردار ادا کریں ۔
جبکہ 27 فروری کو آئی جی ایف سی میجر جنرل سلیم نواز کے بیان کہ،جان سولیکی
کی بازیابی کیلئے بیک چینل ڈپلومیسی جاری ہے سے ظاہر ہے کہ پاکستان کو ئی
خاص ڈپلو میسی اور طریقہ کارپر غور کررہا تھا ۔
20 مارچ کو اقوام متحدہ کے وفدنے جنیوامیں مہران بلوچ سے ملا قات کی اور
ایک بیان جاری کیا کہ امریکہ نے سولیکی کی بازیابی کے لیے کوششیں تیز کردیں
بلوچ مسئلے کے حل کے لیے ہر ممکن تعا ون کرینگے ۔جبکہ دوسری جانب حکو مت
پرامریکی دبا وبڑ ھتا جار ہا تھا جسکی وجہ سے حکومتی ذرائع نے کہاکہ 45 مرد
اور 35 خواتین جو فوجی اہلکاروں نے اغوا کئے تھے کی نشاند ہی ہوچکی ہے ۔
29 مارچ بلوچ قوم دوست کمیٹی نے بیان دیاکہ سولیکی اورلاپتہ بلوچوں کی
بازیابی کیلئے حکومت مثبت جواب نہیں دے رہی ہے ۔اور اسی روز چیئرمین غلام
محمد کہتے ہیں کہ جنگ آزادی لڑنے والے سرمچاروں نے بلوچ مسئلہ عالمی سطح
پرپہنچا دیاہے،3 اپر یل کو دواہم بیان سامنے آتے ہیں ۔
بی ایل یو ایف نے کہاکہ ’’حکومت پاکستان واقوام متحدہ کی تاخیر جان سولیکی
کو موت کے قریب کرر ہے ہیں جبکہ چیئرمین غلام محمد بیان دیتے ہیں کہ
’’پاکستانی حکومت سولیکی کی رہائی میں رکاوٹ بن رہی ہے ۔‘‘
پاکستا نی ریاست فوج بی این ایم اوراسکی لیڈر شپ کی مقبولیت سے خوفزدہ
ہوجاتے ہیں اور آئی جی ایف سی میجر جنرل سلیم نوازکا چند روز پہلے والابیان
کہ بیک چینل ڈپلو میسی جاری ہے جو بالآخر 3 اپریل 2009کو چیئرمین غلام
محمد ،لالہ منیراور شیرمحمد کی اغوا نماگرفتاری کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔
ایک بات تو واضح ہے کہ پاکستانی فوج اوراسٹیبلشمنٹ چیئرمین غلام محمد کی
شہرت سے خوف زدہ ہوتے ہیں اورآنے والے طوفان کا اندازہ لگا تے ہیں دوسری
جانب وہ یہ چاہتے ہیں کہ بلوچ قومی فوج جان سولیکی کو چیئرمین کی خفیہ
ایجنسیوں کے ہاتھوں اغوا کے بدلے ماردیں اور عالمی اداروں اور میڈیا میں
جنگ آزادی کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جا سکے۔
انقلاب کے نشیب وفر از سے بخوبی واقف بلوچ جہد آزادی کے سرمچار4 اپریل کو
جان سولیکی کو خیر سگالی کے طورپر رہا کردیتے ہیں اور انہیں پنجابی بزدل
قوم کی تاریخ کا بخوبی علم ہوتاہے کہ خدانخوا ستہ وہ ہر دلعز یز بلوچ قائد
چیئرمین غلام محمد کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں ۔چیئرمین غلام محمد، لا لہ
منیر اور شیر محمد کی کئی روز پرانی مسخ لا شیں 9 اپریل کو مرگا پ کے مقام
پر ملیں ۔جنہیں 4 اپریل کو غالباً جان سولیکی کی رہائی کے بعد شہید کیاگیا
۔چیئرمین غلام محمد کی شہادت کے بعد یہ باب ختم نہیں ہو ابلکہ اس کا روان
میں مزید تیزی آئی ر ہنماتو شہید ہوکرا مرہوجاتے ہیں گوکہ وہ ہم سے ظاہری
اور جسمانی نے طورپر علیحد ہ ہوجاتے ہیں مگر انکافکر وفلسفہ عوام اورقوم کے
دلوں میں اس طرح نقش ہوجاتے ہیں کہ جنہیں مٹا نا اور ملیامیٹ کرنا کسی کے
بھی بس کی بات نہیں ہوتا ۔
چیئرمین غلام محمد کی شہادت نے تحریک آزادی کوایک اہم موڑدیا، شد ت غلامی
نفرت میں بد ل گئی ، بلوچ عوام نوآبا دیاتی نظام، آبادکار اور پاکستان کی
ہر نشانی جو بلوچ سرزمین پر انہیں نظر آئی اس کو مٹانے اور سبوتاژ کرنے پر
تل گئے ۔9 اپریل تا 27 اپریل 18 روز بلوچستان مکمل بند رہا ۔ احتجا ج،
ریلیاں ،جلاؤ ،گھیراؤ معمول بن گئے۔ واقعی کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ’’
انقلاب کا کوئی مستقل لیڈر نہیں ہوتا ‘‘
پورا بلوچستان سراپا احتجا ج، نفر ت اور جذبہ انتقام سے لبریز تھا، غلامی
کے احساس کی وجہ سے ہر کوئی خودرہبرو خود رہنماتھا ۔ایک ایسا جنون جس نے
قابض پاکستانی ریاست کے ہوش اڑادیئے 27 اپریل کو بچوں خواتین نے آزاد
بلوچستان کے جھنڈ ے کو ہز اروں کی تعداد میں بندوق تھا مے کرائے کے
پاکستانی فوجیوں کی کیمپ پر لگادیا ،کون کہہ سکتا تھا کہ غلام محمد ہم سے
جدا ہوا، اسی ایف سی کیمپ پر وہ لہرا رہاتھا جس میں موجود پاکستانی فوج نے
خوف سے انہیں شہید کیا مگر وہ تو آج انکے سروں پہ لہرا رہاتھا ۔9اپریل 2009
ء سے 27 اپریل2009 بلوچستان بھر میں عوام اور سرمچاروں (جہدکاروں)نے واضح
پیغام دیا کہ محبوب قائد کی شہادت نے ان میں نئی روح پھونک دی ہے بلوچستان
کے تمام تعلیمی اداروں سے قابض پاکستان کے جھنڈے اتارے گئے اوربلوچی قومی
ترانہ شروع کیاگیا جو نہ صرف تاحال جاری ہے بلکہ آزادی وطن تک جاری رہیگا۔
18 روز میں آپکی شہادت کے بعد 51 پنجابی آباد کا رمخبراور 57 فوجی مارگئے
73 زخمی ہوئے درجنوں سرکاری گا ڑیاں اور تنصیبات تبا ہ کی گئیں ۔
آپکی شہادت نے انقلابی کاروان اور آزادی کی جنگ میں روح پھونک دی اور کاروان میں جوق در جوق نظریاتی و شعوری ساتھیوں نے شمولیت کی۔
شہید غلام محمد کی زندگی کھلی کتاب کی مانند ہے۔آپ ایک بہترین لیڈر اور غضب
کے مقرر تھے آپکی تقاریر اور سرکلز نے قوم کو بیدار کیا اور غلامی کے
احساس کو اجاگر کیا آپ نے مند جلسے میں وہ تاریخی الفاظ کہے (اگرآج میں
ڈاکٹر خالدجان،کے قبرکی زیارت و شہادت پر فخرکرتا ہوں، انھیں سرخ سلام پیش
کرتا ہوں،توجس راستے پر وہ چلے ہم کیوں اس راستے پر چلنے سے گھبراتے ہیں،ہم
خود شہادت کو قبول کرنے سے کیوں گھبراتے ہیں) آپ نے منزل آزادی کے لیے جس
سفر کا آغاز کیا دوران سفر شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوئے اور قومی آزادی
کے کاروان کی اپنے لہو سے آبیاری کی۔
آپکی شہادت کے بعد بھی پارلیمانی پارٹیوں کے زرخرید بلوچ مخبروں کی سربراہی
میں M.I،I.S.I اور F.C نے آپکے خاندان والوں کو نہ صرف زیر عتاب رکھا بلکہ
کئی بار F.C نے �آپکے گھر کو گھیرے میں لیا اور گھر والوں کو شدید ذہنی
کرب میں مبتلا کرنے کی کوشش کی، حوا س با ختگی کے شکار قابض فوجی اہلکار
گھر کو گھیرنے کے بعد چلاتے کہ غلام محمد کو باہر نکالو۔ریاستی قابض فوج
بھول گئی کہ قومی و انقلابی رہبر کو جسمانی طور پر قوم سے جدا کرنے سے وہ
مر نہیں جاتے بلکہ غلام محمد تو ایک سوچ، ایمان، فکر شعور ،رہنماہی کا نام
ہے ،غلام محمد تو B.N.M کا نام ہے قومی آزادی سے جڑے ہر اس عمل کا نام غلام
محمد ہے جو آزاد وطن بلوچستان کے لیے ہو۔غلام محمد کو مارنے کے لیے
انقلابی فکر،شعور اور انقلاب آزادی کو مارنا ضروری ہے اور وہ اس قابض فوج
کے بس کی بات نہیں۔لیکن شہید رسول بخش کی شہادت پر مند میں B.N.Mخواتین کی
نکالی گئی ریلی و مظاہرے پہ قابض وحشی پاکستانی پنجابی ،پشتون فوج نے
خواتین و بچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔شہید غلام محمد کی 7سالہ بچی
ماہ جان تشدد سے شدید زخمی ہوئی تو ماں نے گود میں اٹھایا تو وہ پھر F.C کی
طرف لپکی۔۔۔’’غلام محمد میں ہوں۔۔‘‘ معصوم بچی آنسو بھر ی آنکھوں سے چلاتی
رہی ’’تم آے روز ہمارے گھر پر آ کے چلاتے ہو کہاں ہے غلام محمد۔۔ تو میں
ہوں غلام محمد!!!! میں ہوں !! میں ہوں!!!‘‘ 7 سالہ بچی اور قوم میں احساس
غلامی بیدار کرنے والے شہید چےئرمین کو قابض فوج کی سفاکیت اور درندگی مار
نہ سکی بلکہ ان کی شہادت تو احساس غلامی بیدار کر گئی اور قوم میں جذبہ
شہادت کے ایمان کو مزید پختہ کردیا۔
گزشتہ برس فورسز نے آپکے زوجہ محترمہ سلمی بلوچ کے تمام گھروں میں لوٹ مار
بعد ان کو نذر آتش و منہدم کیا،بی این ایم کی سیاسی جہد کو پابند سلاسل
کرنے کے لیے کارکنوں،رہنماؤں،ہمدرودں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے ساتھ انکے
گھروں میں لوٹ مار بعد ان کو نذر آتش،ومنہدم کرنے کے ساتھ ذریعہ معاش کو
مکمل بند کرنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے،قابض ریاست کی خوف کس عالم کہ بی
این ایم کے کارکنوں ،رہنماؤں کے رشتہ داروں کو بھی شعوری جہد کی سزا میں
تمام مظالم سے گزارا جا رہا ہے۔3 اپریل2009 اور آج3 اپریل2018 نو سال کا
طویل عرصہ ریاستی بربریت و جبر شہید چیئرمین غلام محمد کی انقلابی پارٹی و
نظریہ کوخوف زدہ و ڈھیر نہ کر سکی۔3 اپریل2009 سے آج2018 تک شہید چیئرمین
غلام محمد بلوچ کے انقلابی پارٹی نے مقبوضہ بلوچستان کے ہر گھر میں انقلاب
کے پیغام کو پہنچانے کے ساتھ عوام میں غلامی کے خلاف جہد کرنے کے جذبے کو
ابھار کر شعوری شکل دی۔2010 چیئرمین کی شہادت کے بعد اس سفر کا حصہ رہا،
جہاں بی این ایم کے قائدین ،کارکنوں،ورکروں نے شہید قائد کے نظریہ و سلوگن
کو چیئرمین خلیل بلوچ کی لیڈرشپ میں عملی جامہ پہناتے ہوئے،مقبوضہ بلوچستان
کے کھونے کھونے میں پیغام حق،پیغام انقلاب،پیغام شہید چیئرمین کو پہنچانے
کے ساتھ قوم کو شعوری جہد کے انقلابی ہتھیار سے لیس کرتے ہوئے کسی بھی مقام
پر قربانیوں سے دریغ نہیں کیا۔شہیدقائد کے بی این ایم کو ایک مضبوط
انقلابی پارٹی بنانے میں ہزاروں کارکنوں،ساتھیوں کی شپ و روز کی محنت آج
رنگ لا چکی ہیں،شہید قائد آج یقیناًاپنے پارٹی و کارکنوں کی جہد سے مطمئن
ہو نگے۔شہیدِ قائد حیات ہیں ،بی این ایم کی شکل میں،کارکنوں،لیڈروں کی شکل
میں، پارٹی کے آئین و منشور کی شکل میں،فکر و جہد کی شکل میں،آج وہ بلوچ کی
زندگی و جہد کا انمول حصہ ہیں۔
Post a Comment