Translate In Your Language

New Videos

سقوط بولان ... غلام محمد بلوچ

سقوط بولان  ... غلام محمد بلوچ

اچانک کمرے میں ایک اجنبی شخص نمودار ہوا طیب اصغر نے میراتعارف ان سے کیا مجھ سے انکی پہچان کرائی یہ ہیں کرنل ایوب صاحب پروٹوکول آفیسر مجھے اس رابطہ پر حیرانگی نہیں ہوئی کیونکہ میں اس بازگشت کی خبر چند دوستوں سے پہلے سن چکا تھا۔ 
بول کے لب آزاد ہیں تیرے
اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
سقوط بولان کے ساتھ ساتھ جواب شکوہ بھی نظر سے گزرے حقائق کو رد کرتا یا جھٹلانا واقعی ناممکن ہوتا ہے اخلاقی جرات کا تقاضا ہے کہ ہر باضمیر فرد جو سچائی کا پیرو کار خود کو گردانتا ہوسچائی کے سانے سرتسلیم خم کرلے حق کی خاطر منصور کی طرح سولی چڑھ جائے یا سچ کی خاطر سقراط بن کرزہر کا پیالہ نوش جان کرلے مگر منافقت و فریب کا پیکر بن کر سورج کی روشنی کو ہتھیلی سے چھپانے کی بے سود جتن سے گریز کرے ۔
سقوط بولان سے چوڑیوں کی کھنگ اور پازیب کی جھنکار کی گونج جب میرے کانوں پر پڑی جیسے امراؤ جان ادا بے بسی کی عالم میں اد فروشی کے کھوٹے پر رقصان ہو اس کیفیت کو ضبط کرنا محال سہی لیکن کف افسوس مل کر بھی تسکین روح میسر نہیں آتا کبھی کبھار انسان کو اپنی ضمیر کی صدا کو زبان بنا کر قلم کی نوک سے لب کشائی کا ہنر آزماتا پڑتا ہے شاید ابہام کو طشت ازبان کر کے صداقت کی شعاعوں سے ماحول کو منور کرنا ممکن ہوسکے تو ماضی کے دریچوں کو تکتے ہی عجیب منظر کی کربنا کیاں برسوں کی وفاداری کو پل پھر میں بے وفائی کی صورت دے بڑااعصاب شکن ہوتا ہے ۔
جب عہد وپیمان کے بعد1998ء میں بی این ایم کی مرکزی کونسل سیشن کا جشن تھم چکا تو طیب اصغر کراچی چلے گئے تو چند روز بعد میرا وجود بھی کراچی واردہواان سے ملنے جاگیردار ہوٹل چلا گیا ، تو باتوں باتوں میں وہ مجھ سے ہمدرانہ انداز میں مخاطب ہوا کہنے لگے غلام محمد ہم نے تو زندگی کے بہت مزے لوٹے ہر لذت امروز سے بہرہ مند ہوئے ایک تم ہی ہو کہ بے گھر ، بھوکے اورپریشان حال ہو ، میں تمہاری طرح پاگل نہیں بنوں گا ، جب تک بی این ایم کی گاڑی چلتی ہے تو ہم شان سے ڈرائیونگ کرتے رہیں گے جس موڑ پر رک جائے تو خدا حافظ کہہ کر چابی دوستوں کے حوالے کریں گے ، جب خلوص کا یہ روپ دیکھا تو مجھے گفتار فیض آگیا جو کچھ میرے اور کچھ فیض کے جذبات کی آمیزش کی رنگ میں ڈھلا ۔
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
دردبے فیض سے لذت تو خوب نہ مانگ ۔
میں مرگ وزیست کے نظریاتی رشتے کے تقدس کی اس قدر پامالی پر حیران رہ گیا اس صدمہ کا احساس لئے طیب اصغر کے شفیقانہ لہجے میں چھپی قہر کی شدت کو پرکھ ہی رہا تھا پھر بولے کہ ایک دوست کے ہاں کھانے پر جانا ہے مغرب و عشاء کا درمیانی وقت تھا اچانک کمرے میں ایک اجنبی شخص نمودار ہوا طیب اصغر نے میراتعارف ان سے کیا مجھ سے انکی پہچان کرائی یہ ہیں کرنل ایوب صاحب پروٹوکول آفیسر مجھے اس رابطہ پر حیرانگی نہیں ہوئی کیونکہ میں اس بازگشت کی خبر چند دوستوں سے پہلے سن چکا تھا مگر یقین نہ تھا جب اپنی آنکھوں سے اس آشنائی کو دیکھا تو سمجھ گیا کہ دام اسیری کا ماہر یہی ملا ہے ۔ جودانہ ڈال کر ضمیروں کے سوداگروں کی دہلیز ضمیر فروشوں کی رسائی کا زینہ ہے خاکم بدھن کہیں ہمارا سیاسی زرال اسی مراسم کا شاخسانہ نہ ہو پھر ہم تینوں نیچے چل دیئے سوچا کہ چلو اہل خرد کا کچھ تماشہ ہم بھی دیکھیں گے سڑک کے کنارے ایک خوبصورت کار کھڑی تھی جب میں طیب اصغر کے بعد کار کی پچھلی نشست پر بیٹھ گیا تو سندھی ٹوپی پہنے ایک باریش شخص کو اگلی نشست پر پایا تو اس حضرت کا بھی تعارف ہوا تو ذہن میں ماضی کے دھندلے نقوش اتر آئے تہنجو ساتھی مہنجو سا تھی جونہ جانے نذیر عباسی کی آخری خواہش کا جنازہ اٹھائے ترک دنیا کر گئے کب سے کارروانہ ہوئی مختصر فاصلہ طے کرنے کے بعد ( پرل کانٹرکانٹ ) پر رک گئی تو ہم سب اترے لفٹ کے ذریع اوپر چلے ایک مخصوص انتظار گاہ پر پہنچے اورہم سب تشریف فرما ہوگئے اچانک ایک خوش پوش سرخ و سفید رنگت کا نوجوان جوبالوں کے اسٹائل سے ( جوان ) لگ رہا تھا ایک ہاتھ میں جام لئے ہمارے قریب آیا ہمیں آفردی اور ہم سب نے معذرت کرلی سائیں نے گفتگو چھیٹری سخن ور سیاست دوران یہ گوہر افشانی میں مگن رہے ، سائیں نے کہاکہ صوفی ازم ہی حقیقی سندھی قوم پرستی ہے میں نے اس لئے صوفیانہ بھیس بدلی ہے کیونکہ صوفیانہ خصلتوں کو اپنانے سے قلب وروح دونوں کوپاکیزگی ملتی ہے سبحان اللہ نو سوچو ہے کھا کر بلی جج کو چلی ملک میں لبرلزم کے رجحانات کے فروغ اور اصلاحات کی نوید بھی تھی جو آخر کار جنرل مشرف کے سات نکاتی ایجنڈے کے سراب کی صورت میں وقوع پذیر ہوا کرنل صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ آپ بھی کچھ کہیں تو میں نے کہاکہ جی میں صرف سنتا ہوں کرنل جو این ایس ایف کے ترقی پسندانہ دوست سیاست کے فارغ التحصیل ہیں سخنوری کا دور ختم ہوااور ہم طعام گاہ چلے گئے وہ پلیٹ چھری کانٹا چمچہ لئے مختلف قسم کے کھانوں کو نوش جان کرنے لگے میں نے ایک پلیٹ میں تھوڑے سے چاول اور بھنی ہوئی مچھلی کا ایک ٹکڑا ڈال کر اپنی اوقات میں رہنا ہی مناسب سمجھا رعنائیوں سے نکل کر جاگیردارانہ نظام کی طرح بوسیدہ وبدنما جاگیردار ہوٹل پہنچے یوں لگا جیسے ’’ اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں ‘‘ ۔
حواوث و اتفاق کا سلسلہ ستم درستم میرا پیچھا کرتا گیا مجھے سدھانے کا عمل جاری تھا اس ضمن میں ایک دن کوئٹہ میں ’’ مولائی ‘‘ صاحب کو بھی زحمت اٹھانی پڑی مجھ سے کہاکہ چند سیاسی معاملات پر گفتگو کرنی ہے تو چل دیئے گاڑی میں بیٹھا تو طیب اکبر براجمان تھے گاڑی چھاؤنی کی طرف رینگتی گئی پل بھر میں کیفے چائنا منزل کی صورت نمودار ہوا اندر داخل ہوئے تو ٹیبل سجے تھے اہتمام معمول سے مختلف تھا ایک نوجوان جو بلوچ تھا مانوس سا چہرہ تھا مگر یادنہیں تھا میزبانی کے فرائض انجام دے رہا تھا ہم ٹیبل کے گرد بیٹھے تو سوپ کے بڑے پیالے پیش کئے گئے سوپ پینا شروع کیا تو ’’ طیب اکبر ‘‘ یوں گویا ہوئے کہ بلوچ قوم اور بلوچستان کے لئے آپ جو جذبہ رکھتے ہیں ہمارے بھی یہی ارمان ہیں لیکن ریاست بہت طاقتور ہے اور ہماری قوت انتہائی کمزور ان سے بیر (دشمنی) ہم مول نہیں لے سکتے ۔ یہ بڑے ظالم ہوتے ہیں ان کی مرضی ومنشاء کے بغیر کوئی کچھ کر ہی نہیں سکتا اسٹیبلشمنٹ کو چھیڑنے سے ہمیں احتیاط کرنا ہوگی کیفے چائنا کا ماحول خوشگوار تھا خوفزدگی کی کوئی وجہ نہ تھی میں سکون کے ساتھ سوپ پیتا رہا اور بات کو سنتا رہا ’’ طیب اکبر ‘‘ اور مولائی بھانپ گئے ان کی حکایتیں مجھ پر کارگار ثابت نہیں ہورہیں تو چلنے کا ارادہ کیا یوں بزم دوستاں کسی نتیجے پر پہنچے بغیر برخاست ہوگئی جب باہر نکلے تو میں نے مولائی کا ہاتھ پکڑ کر کہاکہ آپ سے تو یہ امید نہ تھی جب میں بارہ برس کا تھا تو مجھے قومی غلامی سے نفرت اور بلوچ قوم کی آزادی کا در س دیا جس کا میں ہمیشہ ورد کیا کرتاہوں اب کے تیور کسی پنجابی کے ہوتے تو کوئی قباحت نہیں تھی بلوچ قومی جدوجہد سے انحراف اور غداری سکھانے کی ملازمت آپ میں کسی کو شوبا نہیں دیتا ’’ ہم تو سمجھے تھے کہ تو بے خوددرخشاں بے حیات ‘‘’’ قصہ مختصر احساس تجسس کا ابھار ہے کہ اس معجزہ کو بلا سبب نہیں مانتا کبھی یورپ پر کمیونزم سے اوجھل رہتے ہوئے ہمارے آشیانہ کو جلانے کیلئے پتوں کو ہوا دینے لگا ہو ، گوادر پورٹ کی تعمیر ہو ساحل بلوچ سے لے کر سینٹرل ایشیاء تک رسائی اور خطے کے تیل و گیس ودیگر معدنی ذخائر پر دسترس حاصل کرنے کا منصوبہ سرمایہ دارنہ نظام کی وسعت پذیری کے امکانات کو صداقت کا روپ دینے کیلئے عالمی قوتوں کے مابین حصہ داری کے مسئلہ پر کشمکش بلوچ معاشرہ اور بلوچ قومی سیاست میں نئی صف بندی اثر انداز نہ ہوتا کیونکر ممکن نہ ہو بلوچستان میں اپنے مفادات ومنشاء کے منافی پیش رفت کی راہ میں رخنہ اندازی کے حربوں کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے اپنے پر وردہ مہروں کو حق نمک ادا کرنے کیلئے متحرک نہ ہو یہ تو ممکن ہی نہیں ۔
طیب اصغر اور میرنادر کی حکمت و منطق جو حواس باختگی کے زمرے میں آتی ہے عاری سنگباری جو انضمام و اتفاق کے سیاسی اصولوں ، مقاصد ہم آہنگی اور قومی شرائط سے بے نیاز انضمام کی وکالت کرکے سب مٹی پلید کرنے پر تلے ہوئے ہیں شہید وطن فدا احمد بلوچ اور بلوچستان کے بے شمار عظیم شہیدا کی قربانیوں کو کیوں پاؤں تلے روند رہے ہیں چند ٹکے ، ٹھیکے ، وزارت کی کرسی کی خاطر حکم حاکم پر ننگ وطن کو پامال کرنا کیسی قوم دوستی ہے شہید وطن کی شہادت کے بعد آپ کو جو وراثت ملی تو کیا گل کھلائے آپ نے شہید وطن کی تمام سیاسی اقدار کو پامال کر کے پارٹی کے سیاسی فکری اور عملی کردار کو رفتہ رفتہ نیست و نابود کر کے صرف مفاد پرستی اور خود غرضی غیر سیاسی پن روایتی طرز سیاست کے جاہلانہ رجحانات کو رواج دیکر اپنی موقع پرستانہ فطرت کے مطابق منحرف ہوگئے بزرگوں نے سچ کہا تھا کیچ کا ثبوت مٹی کے منڈھیر کی مٹی کا وہ ٹکڑا ہے جو نشانے تک پہنچنے سے پہلے بیرونی دباؤ کی شدت سے راستے ہی میں بکھر کر ریزہ رہزہ ہوجا تا ہے طیب اصغر میں بے گھر بھوکا پریشان حال سہی آپ نے زندگی کی پرتعیش لذتوں کی فردوس سے آشنائی کی ہے اور ہم لاکھوں بے گھر بھوکے پریشان حال بلوچ قوم کے مفلوک الحال فرزندوں سے مماثلت تو رکھتے ہیں ۔یہی غینمت ہے ہم جب راتوں کو اپنے سوئے ہوئے معصوم بچوں کو خالی پیٹ بھوکا سویا ہوا پاتے ہیں تو آنکھیں پرنم ہوجاتی ہیں ذات بہک جانے کو اکساتی ہے مگر ہماری ذات پر ضمیر حاوی رہتا ہے جب انسان پر ذات حاوی ہوجائے تو ضمیر کا قتل لمحوں میں ہوجاتا ہے ہم نے اپنی ذات اپنے ضمیر پرحاوی ہونے نہیں دی یہ الگ بات ہے کہ آپ کا تخیل مختلف ہے شاید ملا فاضل کی شرارت کی طرح بہکاؤے میں آگئے ۔ جب ملا عزت پنجگور سے مہرک کی خوبصورتی کا تذکرہ کیا تو ملا عزت ملا فاضل کی زبانی مہرک سے صفات بنکر شیدا ئی ہوا اور آج تک ایک یاد بن کر پنجگور میں عزت اکیڈمی منتقل ہوئے بلوچ قوم وطن پر شاید ہماری شیدائی بھی کسی شرارت کا نیتجہ ہو دکھ تو اس بات پر ہے کہ سرخیل اپنے ہی قول سے مکر گئے ، ہمیں خدا ملا نہ وصال صنم اس شیدائی میں بی این ایم کی راکھ کے ڈھیر کو پھونکتے رہیں گے شاید کوئی دبی چنگاری دھکتا ہوا شعلے بن جائے ۔
***

Share this Post :

Post a Comment

Comments

News Headlines :
Loading...
 
Support : Copyright © 2018. BV Baloch Voice - All Rights Reserved