Translate In Your Language

New Videos

بلوچستان: اپنے آپ ،جدوجہد اور دشمن کو سمجھنا ہر جہدکار کے لئے لازمی امر ہے ۔چیئرمین بشیر زیب

بلوچستان: اپنے آپ ،جدوجہد اور دشمن کو سمجھنا ہر جہدکار کے لئے لازمی امر ہے ۔چیئرمین بشیر زیب

کوئٹہ:  بلوچ نیشنل موومنٹ کی جانب سے منعقد ہ اسٹیڈی سرکل میں بی ایس او آزادکے سابق چیئرمین بشیر زیب نے ’’ بلوچ جہد آزادی اور ذہنی و فکری تربیت‘‘کے عنوان پر لیکچر دیتے ہوئے کہاہے کہ قومی تحریک میں ذہنی تربیت اور سیاسی علم کے ضرورت ایک دائمی عمل ہے اس عمل کو بہرصورت جاری و ساری رکھنے کی ضرورت ہے ،اپنے آپ کو سمجھنا ،جدوجہدکو سمجھنا اور دشمن کو سمجھنا ہر جہدکار کے لئے لازمی امر ہے کیونکہ شعور اور شعورکی پختگی کے بغیر جہدکار کا اعصاب کسی بھی وقت شکست سے دوچار ہوسکتے ہیں لیکن شعور اور شعوری پختگی سے آراستہ ذہن اور اعصاب جدوجہد میں نشیب و فراز اور تحریکی مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرکے آگے بڑھتے ہیں ۔

چیئرمین بشیر زیب نے کہا کہ دوقومی نظریہ کی بنیاد پر متحدہ ہندوستان یا برصغیر کی تقسیم انگریز سامراج کی توسیع پسندانہ عزائم پاکستان کی غیرفطری وجود اور تشکیل، غیرفطری اس لئے کہ مذہبی منافرت کو ہوا دینا اور پھیلانا یعنی ہندو اور مسلمان کی بنیادی تضاد کی موجودگی کے بغیر انگریز سامراج کی پالیسی اور منصوبہ بندی کے تحت اجاگر کرنا اور ہوا دینا پھر مذہبی سوچ کو دوقومی نظریہ کا نام دینا خود فریب اور تاریخی دھوکے کے سوا اور کچھ نہیں۔ ایک تو سازش کے تحت مذہبی تقسیم یعنی ہندو اور مسلمان کا ہو پھر اس کو دو قومی نظریہ کا نام دینا حالانکہ مسلمان اور ہندو دو قوم نہیں بلکہ دو مذہب ہیں پھر دو قوم اور دو قومی نظریہ کہاں سے آیا ہے؟ اس لیے پاکستان کو غیر فطری ریاست کہنا درست ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ پھر پاکستان کی انگریز کی سازش کے تحت تخلیق کردہ وجود اور روس کی توسیع پسندانہ عزائم اور اثرورسوخ کو کم کرنے کی خاطر اس وقت کے برطانیہ سامراج کے توسیع پسندانہ عزائم اور مقاصد کے حصول کی خاطر بلوچ سرزمین یعنی آزاد بلوچستان بھی قربانی کا بکرا بن گیا۔بلوچ آزاد ریاست کے سربراہ خان آف قلات احمد یارخان کی بزدلی نواب خاران، نواب مکران اور دیگر سرداروں کی خوف اور لالچ پاکستان کی نام نہاد اسلامی نظریہ کا جواز آخر کار پاکستان آزاد بلوچستان کی دو ایوانوں ایوان خاص ایوان زیریں کی پاکستان کے ساتھ الحاق نہ کرنے کی فیصلوں کی تقدس کو پامال کرتے ہوئے پاکستان بزور طاقت آزاد بلوچستان پر قبضہ کیا جو آج تک قائم ہے۔یہاں سے موجودہ بلوچ قومی جدوجہد شروع ہوتا ہے جو ہنوز مختلف نشیب و فراز کے ساتھ جاری و ساری ہے ۔

چیئرمین بشیر زیب نے کہا کہ اس سادہ سیدھا تاریخ کی حد تک سب جہدکار پہلے بھی اور آج بھی باعلم اور واقف ہیں توپھر ذہنی فکری تربیت کی کیا ضرورت؟
یہاں سے ہماری ذہنی و فکری تربیت کی دراصل شروعات ہوتا ہے۔بقوول نواب خیر بخش مری صاحب کے گوریلاجنگ خود تربیت کی ایک یونیورسٹی ہے ،بے شک ہم جنگ آزادی کی پرکھٹن اور گھٹن حالات و واقعات سے تجربہ اور علم حاصل کرکے ذہنی تربیت کے مراحل سے گزرتے ہیں جنگ ہمیں بہت کچھ سکھاتا اگر ہم سیکھنے اور سمجھنے کی مکمل سعی کرے۔البتہ میں یقین اور اعتبار سے یہ آراء قائم کرتا ہوں کہ تربیت جنگ سے ہو تربیت سسٹڈی سرکل سے ہو تربیت لیکچرپروگرام سے ہو تربیت اکیڈمک ماحول و سرکل اور مطالعہ سے ہو ذہنی تربیت کے بغیر کوئی بھی جہدکار مختلف مراحل سے گزر کر نہ خود کو پہچان لے گا نہ دوسروں کو اور نہ دشمن کو صحیح معنی میں پہچان لے گا یہاں سے وہ غلط فیصلوں اور آراء کی صحرا میں گم ہوکر غلط اقدام اٹھانے سے گریزاں نہیں ہوگا۔

انہوں نے مشہورماہر گوریلا جنگ قبل از مسیح سن زوکا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ سن زوکہتاہے کہ’’ خود کو پہچانو اور اپنے دشمن کو صحیح پہچانو ،ایک جنگ نہیں تم ہزار جنگیں جیت سکتے ہو۔‘‘تو قومی جدوجہد کے ساتھ ساتھ خود کی پہچان دشمن کی پہچان کی وہ آلہ اور پیمانہ کیا ہے؟جو جہدکار کے پاس دستیاب ہوکر خود کی اور دشمن کی پہچان ممکن ہو۔وہ علم و شعور اور معروضی اور مو ضوعی حالات کی اداراک اب علم شعور اور ادراک خود انسانی حس اور ذہنی تربیت میں پوشیدہ ہیں جب ذہنی فکری تربیت نہیں ہوگا تو اس وقت تک انسان جوش جذبے کے ساتھ جدوجہد میں فعال اور متحرک ایک حد تک ضرور ہوگا لیکن وہ تاریکی و اندھیرے کا مسافر ہوگا ۔وہ کہیں بھی کسی بھی جگہ کسی اچانک کھائی کا شکار ہوگا ۔
تو علم اور علم سے ذہنی و فکری تربیت وہ حقیقی روشنی جو جہد کاروں کو ہر وقت ہر جگہ اور ہر حالت میں ہمیشہ تاریکی سے محفوظ کرسکتا ہے۔

چیئرمین بشیر زیب نے علم پر بات کرتے ہوئے کہاکہ اب حقیقی علم کیا ہے؟تحریکی علم کیا ہے؟علم بغیر عمل کے بے فائدہ ہے؟جس طرح بقول فلسفی کانٹ کے’’ عقل بغیر ادراک اور ادراک بغیر عقل کے بے فائدہ ہے‘‘ اسی طرح علم بغیر عمل کے اور عمل بغیر علم کے بے فائدہ ہے ۔ڈھیر ساری کتابوں کے نمائش ،ڈھیر سارے کتابوں کا مطالعہ ہرروز اسٹڈی سرکل لیکچر پروگرام اس وقت تک بے فائدہ ہیں ۔جب تک ان پر عمل نہیں ہوگا۔ اس وقت تک جب تک علم کو خود اپنا کر اپنی کردار طرزعمل اور زندگی کو عمل کی سانچوں ڈالنا نہیں ہوگا اس وقت تک اس کی مثال ایسا ہے کہ اگر کوئی حافظ القران قران پاک کو حفظ کرتا ہے مگر وہ اس پر عمل نہیں کرتا ہے تو اس کی زندگی تبدیل نہیں ہوگا۔ اسی طرح قران پاک کو گھر میں رکھنے سے قران پاک آپ کو گائیڈ تو نہیں کرتا ہے، زندگی اور آپ کے اعمال اس وقت تبدیل ہونگے ،جب آپ قران شریف کے ہر پڑھنے والی لفظ پر مکمل عمل کرو گے بالکل اسی طرح لیکچر پروگرام اسٹڈی سرکل کا ہے اگر صرف نشتند گفتند برخاستندوالا فارمولا ہوا تو کچھ فائدہ نہیں ہوگا جس طرح ہر جمعہ نماز میں لوگ جاتے ہیں مولوی صاحب ایک گھنٹہ تقریر بھی کرتا ہے سامعین غور سے سن بھی لیتے ہیں لیکن چند گھنٹے وقفے کے بعد عصر کے نماز میں کوئی نہیں آتا سوائے چند لوگوں کے جنت اور دوزخ کے تصور کے باوجود کیوں؟
اس لیے مولوی سمیت تمام نمازی بس صرف فارملٹی پورے کرتے ہیں مولوی کچھ کہتا ہے اور نمازی سنتے ہیں درمیان سے عمل غائب ہوتا ہے،تو لگن و دلچسپی کے ساتھ سیکھنا سمجھنا پھر عمل کرنا ذہنی و فکری تربیت ہے۔ جب ذہنی فکری تربیت نہیں ہوگا، ایسے جہدکار قوت فیصلہ جذبہ قربانی اور خود اعتمادی سے آخر کار عاری ہوں گے اور اکثر جدوجہد میں غلط فیصلے اور ہمت ہارنے کی پشت میں ذہنی و فکری تربیت کا فقدان ہوتا ہے،علم و عمل سے کمزور جہدکار کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتا ہے وہ کب و کہاں اور کس مقام پر غلط ہاتھوں میں استعمال ہوکر غلط سمت غلط رخ محو سفر ہوگا ۔وہ ہمیشہ حالات ماحول اور کیفیات کا شکار ہوگا نہ کہ وہ حالات ماحول اور کیفیات کو تبدیل کرسکتا ہے بلکہ خود جیسے بھی جو بھی ماحول ہو اس کا ہمیشہ شکار ہوکر آخر کار ذہنی الجھنوں میں کھود پڑتا ہے پھر تحریک میں ہمیشہ کیلئے ایک مثبت اور فعال کردار سے محروم ہوگا۔

ذہنی و فکری نشوونما اور تحریک کے تقاضوں پر بات کرتے ہوئے چیئرمین کا کہناتھا کہ اپنی مکمل انفرادی سوچ کو علم و عمل اور ذہنی و فکری تربیت کے نشوونما سے تحریکی تقاضوں کے مطابق تبدیل کرنا ایک انقلابی کیلئے انقلابی قدم اور لازمی سوال ہے جس کو اپنانا اور اختیار کرنا بہت ضروری ہوتا ہے نہیں تو الجھن ذہنی انتشار سے بچنا کسی بھی صورت ممکن نہیں۔یہ میرا یقین نہیں بلکہ پورا عقیدہ اور مشاہدہ اور تجربہ ہے آپ جتنی بھی محنت کرو تکلیف برداشت کرو قربانی دو دشمن کے خلاف لڑتے رہو جب تک ذہنی و فکری تربیت مکمل نہیں ہوگا سوچ مکمل تحریکی اور جدوجہد کے تقاضو کے مطابق نہیں ہوگا ایک مقام پر ضرور آپ ذہنی حوالے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر ذہنی طور پر منتشر ہونگے
تو تحریک میں ذہنی و فکری تربیت ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے تحریک میں ذہنی و فکری تربیت وہ بہتے ہوئے پانی کی حیثیت ہے جو ذہن کے تمام کچروں کو صاف کرتا ہے تحریک میں ذہنی و فکری تربیت آپ کا وہ حقیقی اور مہربان دوست ہے جو ہر مشکل حالت اور وقت میں آپ کا مددگار ثابت ہوگا تحریک میں ذہنی و فکری تربیت ہر کھٹن راستے میں آپ کو آکسیجن فراہم کرکے توانا رکھتا ہے ۔
تو ہم سب کی ذمہ داری ہے انتہائی خلوص،لگن، دلچسپی اور کچھ سیکھنے سکھانے اور سمجھنے اور عمل کرنے کی نیت سے آگے سسٹڈی سرکل اور لیکچر پروگرام کو صرف فارملٹی سمجھنے کے بجائے تحریکی ذمہ داری اور فرض سمجھ کر شرکت کرنا ہوگا تب جاکر لیکچر پروگرام ہماری ذہنی و فکری تربیت کو ترقی و نشوونما کی جانب گامزن کرے گا۔ صرف خانہ پری اور فارملٹی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
لیکچر کے اختتام پرانہوں نے کہا آج میں صرف مختصر جدوجہد میں ذہنی و فکری تربیت کے افادیت و اہمیت کے حوالے سے کچھ نہ کچھ حد تک سادہ سیدھا اور مختصر اظہار کیا تاکہ میں آپ دوستوں کو بتاوں کہ جدوجہد میں ذہنی تربیت کیوں اور کیسے؟

Share this Post :

Post a Comment

Comments

News Headlines :
Loading...
 
Support : Copyright © 2018. BV Baloch Voice - All Rights Reserved