skip to main |
skip to sidebar
بلوچستان میں گمشدگی کا مسلہ انتہائی گھمبیر مشکل اختیار کرچکا ہے.ماماقدیربلوچ
کوئٹہ: لاپتہ بلوچ اسیران، شہدا کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3109 دن
ہوگے- اظہار یکجہتی کرنے والوں میں جھاؤ سے ایک وفد لاپتہ افراد ، شہدا کے
لواحقین سے اظہار یکجہتی کی - وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیر مین
ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کے پاکستانی خفیہ اداروں کے
دست راست اور اپنے شیطانی چہرے پر قوم پرستی کا جھوٹا نقاب چڑیا ہوا کچھ
لوگ جھاؤ کولواہ آواران میں اپنے مکرو عزائم استمال کررہے اپنے نوجوانوں
بچے بوڑھوں لاپتہ کیا جاتا تھا- لیکن اب وہ عورتوں کو اُٹھا کر لاپتہ
کراتے ہیں اور ایف سی اور خفیہ اداروں کے کیمپ میں بند کروا کر اُن پر پہلے
عصت دری کرنے کے بعد اُن پر تشدد کیا جاتا ہے- اور بیوشی کی حالت میں اُن
کو جنگلوں میں پھنک دیاجاتا - میں اُن کو کہنا چاہتا ہوں کہ بنگلہ دیش
نہیں یہ بلوچستان ہے- بلوچ خواتین کی بے عزتی دور کی بات اُس کو ہاتھ
لگانا بھی جرم ہے- لیکن اُس کا بدلہ ضرور لیا جائیگا- اُن بے غیرت
بلوچوں کی طرح سارے بلوچ بے غیرت نہیں - ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ جوں جوں
پاکستان کے پارلیمانی انتخابات قریب آتے جار ہے ہیں - پاکستانی گماشتے
اپنی وفاداری ثابت کرنے اور آقاوں کے سامنے اپنی قیمت بڑھانے کے لئے
بلوچوں کے خلاف ہرزہ سرائی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڈ میں کچھ
زیادہ ہی جست لگارہے ہیں - جیسا کہ جانتے ہیں کہ بلوچستان میں گمشدگی کا
مسلہ انتہائی گھمبیر مشکل اختیار کرچکا ہے پہلے گمشدگیوں کا سلسلہ مردوں سے
اب خواتین کا سلسلہ تواتر سے جاری و ساری ہے - پھیلا لاپتہ خواتین زرینہ
مری سے شروع ہوا - 2001 سے لیکر آج 45000 کارکن گمشدہ ہیں - جو خفیہ
اداروں کے حراست میں ازیت ناک مراحل سے گزر رہے ہیں- ان میں سے دس ہراز سے
زائد ماورائے قانون شہید کردیئے گئے ہیں- یہ سب کے سیاسی کارکن طالبعلم
ڈاکٹرز استاتزہ تھے- اور ہزاروں بلوچ ابھی تک عقبوت خانوں میں قید ہیں -
لیکن ابھی تک گمشدہ افراد کی بازیابی میں کوئی بھی پیش رفت نہیں ہوئی ہے
Post a Comment