skip to main |
skip to sidebar
نیتاجی ........ سبھاش چندر بوس
نیتاجی۔۔۔۔سبھاش چندر بوس
ہندوستان کے جہد آزادی کے عظیم رہنما سبھاش چندر بوس کی سوانح عمری،فکر و نظریات
(.....ایک قسط وار سلسلہ.....)
’’نیتا جی‘‘ہندوستان کے جہد آزادی کے عظیم رہنماشری سبھاش چندر جی بوس کی
سوانح عمری ، جدجہد ،فکرو نظریات اورتعلیمات پر مبنی یہ ایک تاریخی و
دستاویزی کتاب ہے جسے شری چمن لال آزاد نے تحریر ہے۔یہ کتاب اقوام عالم میں
جاری جدو جہد آزادی کی تحریکات کیلئے ایک عظیم اثاثہ ہے جس کی رو سے وہ
اپنی جدو جہد کیلئے بہتر رستے متعین کرکے انہیں کامیابی سے ہمکنار کرسکتے
ہیں کیونکہ یہ کتاب جدو جہد کی ایک عظیم تاریخ و تجربت رکھتی ہے ۔ہم بلوچ
قومی تحریک آزادی کے جہد کاروں سمیت بلوچ حلقوں کیلئے اس کتاب کو قسط وار
شائع کرنے کا اہتمام کررہے ہیں تاکہ وہ سبھاش چندربوس کی تعلیمات ، فکرو
نظریہ اور تجربت سے استفادہ کرسکیں ۔چونکہ یہ کتاب بہت نایاب ہے اور عام
لوگوں کی دسترس میں نہیں ہے اسی لئے اسے اپنے قارئین ، بلوچ حلقوں اور بلوچ
جہد آزادی کے جہد کاروں کے لئے پیش کیا جارہاہے ۔
(قسط 1)
پیدائشی باغی
شری سبھاش چندر جی بوس 1897ء میں کٹک میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے پتا رائے
بہادر جانکی ناتھ بوس کئی سال تک کٹک میں سرکاری وکیل رہے۔ ان کے آٹھ
سپتروں میں سے شری سبھاش چندر بوس۔ ڈاکٹر سرت چندر بوس اور ڈاکٹر سنیل چندر
بوس کے نام خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ ان کے پتا ایک نہایت اونچے اور متمول
گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ان کے خاندان کا شمار بنگال کے بڑے بڑے
گھرانوں میں ہوتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے تمام سپتروں کو اعلیٰ تعلیم
حاصل کرنے کی غرض سے یورپ بھیجا۔
1913ء میں شری سبھاش چندر بوس کٹک کے ایک ہائی اسکول سے میٹریکولیشن کا
امتحان پاس کرنے کے بعد پریزیڈنسی کالج کلکتہ میں داخل ہوئے۔ ان دنوں آپ کا
رجحان زیادہ تر سوشل سروس کی طرف تھا۔ اور آپ اپنا وقت اپاہجوں کی سیوا،
اور دکھیا بندوں کے کشٹ دور کرنے میں صرف کیا کرتے تھے۔ جب آپ ایف۔ اے میں
تعلیم پارہے تھے۔ تو آپ کی زندگی نے پہلی بار پلٹا کھایا۔
ہندوستان کے مہاپرشوں اور مہاتماؤں کے جیون چرترکا آپ پر گہرا اثر پڑچکا
تھا۔ اچانک ایک روز آپ نے دنیا کو ترک کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اور چپ چاپ گھر
بار اور دنیا وہی سکھ چھوڑ کر گوروں کی تلاش میں گھر سے نکل کر ہر دوار
کارخ کیا۔ ان حالات میں اگر یہ کہا جائے کہ آپ پیدائشی باغی تھے۔ تو اس میں
چنداں مبالغہ نہ ہوگا۔ بچپن میں ہی دنیا کے بندھنوں کو کاٹ پھینکنے والا
سبھاش اگر باغی نہیں تو اور کیا کہلاسکتا ہے؟
وہاں سے آپ بنارس۔ برندابن اور دیگر متبرک مقامات کی یاترا پر روانہ ہوگئے۔
اس دوران میں آپ نے بہت سے سادھوؤں اور نام نہاد مہاتماؤں سے ملاقات کی۔
لیکن ان کا طرز زندگی انہیں پسند نہ آیا۔ یہ سادھو اور مہاتما نہایت شان و
شوکت سے رہتے تھے۔ اور گوشتہ نشینی کی آڑ میں لوگوں کو بے وقوف بناکر خود
اپنا تمام وقت عیش و عشرت میں گزارتے تھے، بھلا ایسے پاکھنڈی سادھو شری
سبھاش جیسے سچے متلاشی کی زندگی پر کس طرح اثر انداز ہوسکتے تھے چنانچہ آپ
بہت سوچ وچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ انسان دنیا کی کشمکش میں حصہ
لیتے ہوئے ہی خدمت خلق سے اپنی زندگی کے مشن کو پورا کرسکتا ہے۔ دنیا کی
برائیوں کو دیکھ کر دنیا کو ترک کرنا بزدلوں کا کام ہے۔ اور کہ انسان کا
فرض ہے۔ کہ وہ دنیا ترک کرنے کی بجائے دنیا کی جدوجہد میں حصہ لیتے ہوئے
تمام برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کرکے اپنے جیون کو سپھر کرے۔
شری بوس ڈھوٹگی سادھوؤں اور پاکھنڈی مہاتماؤں کے چنگل سے نکل کر پھر اپنے
گھر لوٹ آئے۔ اور 1914ء میں کالج میں داخل ہوگئے۔ 1915ء میں آپ نے اول
ڈویجن میں ایف اے کا امتحان پاس کرلیا۔ اور بی اے میں داخل ہوئے۔ ان دنوں
ایک انگریز مسٹر روٹن پریزیڈنسی کالج کلکتہ میں پروفیسر تھے۔ اس انگریز
پروفیسر کو ہندوستانی کلچر اور تہذیب و تمدن سے انتہائی نفرت تھی۔ وہ اکثر
طلباء کے احساسات و جذبات کو مجروح کرنے سے باز نہ آتے تھے۔ شری سبھاش ان
کے گندے خیالات سن کر آگ بگولا ہوجایا کرتے تھے۔ آپ نے اس انگریز پروفیسر
کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا۔ اور تمام طلباء کو ہڑتال کی ترغیب دی۔ لیکن
جب اس بددماغ پروفیسر پر ہڑتال کا بھی کوئی اثر نہ ہوا۔ تو سبھاش نے اس کی
مرمت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اور ایک روزاسے پیٹ ڈالا۔ اس پر آپ کالج سے نکال
دیئے گئے۔
دوسال بعد 1917ء میں کلکتہ یونیورسٹی نے آپ کو پھر کالج میں داخل ہونے کی
اجازت دے دی۔ آپ سکاٹش چرچ کالج میں داخل ہوگئے۔ اور بی اے کا امتحان بھی
اول ڈویجن میں پاس کرایا۔ پھر 1919ء میں ولایت چلے گئے۔ وہاں آپ انڈین سول
سروس کے مقابلے میں شریک ہوئے اور بہترین پوزیشن میں کامیابی حاصل کرلی۔ اب
آپ کے لئے دنیاوی سکھ و عیش و آرام کا راستہ کھل گیا۔ کیونکہ انڈین سول
سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ بہترین سرکاری ملازمت حاصل کرسکتے تھے۔
آپ چاہتے تو کسی ضلع کے ڈپٹی کمشنر بن کر لاکھوں روپیہ کمالیتے۔ لیکن
پرماتما نے ان کے دل میں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھردیا تھا۔ اور
ولایت کے سفر نے تو ان کے سینے میں آزادی کی روح پھونک دی تھی۔ ایک طرف بڑے
بڑے سرکاری عہدے انہیں جاہ و حشمت اور دنیاوی شان و شوکت کا پیغام دے رہے
تھے۔ دوسری طرف غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی بے بس اور بیکس بھارت ماتا
انہیں دیش خدمت کا سندیشہ دے کر مصائب اور کٹھن زندگی کی راہ دکھارہی تھی۔
یہ ذہنی کشمکش کافی دیر جاری رہی۔ ایک طرف دنیاوی سکھ اور عیش آرام۔ دوسری
طرف جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑی اور ہتھکڑیوں کی جھنکار۔
آخر اس کشمکش کا نتیجہ یہ نکلا کہ شری سبھاش بوس کی زندگی نے دوسری بار
پلٹا کھایا۔ اور غیر ملکی حکمرانوں کی طرف سے پیش کردہ سرکاری عہدوں کی
نسبت غلامی کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے بھارت ورش کی کشش زیادہ قومی ثابت
ہوئی۔ اور آپ نے نہایت سرگرمی سے سیاسیات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے
اپنے اجڑے ہوئے دیش کو غیروں کے آہنی پنجرے سے نجات دلانے کا تہیہ کرلیا۔
ان دنوں پہلی عالمگیر جنگ ختم ہوچکی تھی۔ جنگ کے دوران برطانوی حکومت نے
ہندوستانیوں سے جو وعدے کئے تھے۔ جنگ کے خاتمہ پر انہیں بھلادیا گیا۔ حکومت
کیخلاف ہندوستانیوں کے دلوں میں غم و غصے کی آگ بھڑک چکی تھی۔ اب انہیں
حکومت برطانیہ کی نیک نیتی پر شک ہونے لگا۔ جلیا نوالہ باغ امرتسر میں
ہزاروں پرامن اور نہتے ہندوستانیوں کے قتل عام سے ملک کے طول و عرض میں
بغاوت کے شعلے بھڑک اٹھے۔ اس اثناء میں انڈین نیشنل کانگریس میں بھی رجعت
پسندوں کا اثر زائل ہوچکا تھا۔ اور لوگ یہ سمجھ چکے تھے۔ کہ حکومت سے محض
درخواستیں کرنے اور پروٹسٹ کے ریزولیوشن پاس کرنے سے ملک کو آزادی نصیب نہ
ہوگی۔ 1920ء میں انڈین نیشنل کانگریس کے ناگپور سیشن میں ہندوستانیوں نے
عملی کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے حکومت سے عدم تعاون کا ریزولیوشن پاس
کردیا تھا۔ جلیا نوالہ باغ کے حادثے سے لوگوں کے جذبات سے قدر مشتعل ہوچکے
تھے۔ کہ مہاکوی شری رابندر ناتھ ٹیگور نے "سر" کا خطاب ترک کردیا۔ اور
وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر سرسنگرن نائر نے بطور پروٹسٹ کونسل کی
ممبری ٹھکرادی۔ کانگریس نے حکومت کے بہرے کانوں میں دیش کی صحیح آواز
پہنچانے کے لئے عدم تعاون اور سول نافرمانی کی مہم شروع کردی اس پر ملک کے
طول و عرض میں گاندھی جی کے فرمان پر لوگوں نے سرکاری خطابات ترک کردیئے۔
وکلاء عدالتؤں سے نکل آئے۔ طلباء نے اسکولوں اور کالجوں کا بائیکاٹ کردیا۔
اور ہندوستان بھر میں وسیع پیمانے پر گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
جونہی یہ تحریک شروع ہوئی۔ حکومت برطانیہ گھبراگئی۔ وائسرائے ہند لارڈ
ریڈنگ نے کانگریس لیڈروں کو گول میز کانفرنس کی دعوت دی۔ لیکن گاندھی جی نے
یہ کہتے ہوئے کہ جب تک جیلوں کے دروازے نہ کھولے جائیں گے کانگریس حکومت
سے کوئی گفت و شنید نہ کرے گی۔ مصالحت کے لئے لارڈ ریڈنگ کی پیشکش ٹھکرادی
ان دنوں مسٹرسی۔ آر داس بنگال کے بے تاج بادشاہ تصور کئے جاتے تھے۔ لوگوں
کے دل میں ان کے لئے اتنی زبردست عقیدت اور شردھاتھی۔ کہ لاکھوں بنگالی، ان
کے ایک اشارے پر اپنے آپ کو قربان کرنے کیلئے تیار تھے۔
ان کی اپیل پر ہزاروں طلباء اسکول اور کالج چھوڑ کر کانگریس کے جھنڈے تلے
آگئے۔ شری سبھاش بوس بھلا ایسے نازک موقع پر کب خاموش رہ سکتے تھے۔ آپ
انڈین سول سروس سے استعفیٰ دے چکے تھے۔ اب آپ دیش بندھو شری سی۔ آر داس کے
ایک لیفٹیننٹ کی حیثیت سے تحڑیک میں شامل ہوگئے۔ پہلے پہل آپ بنگال نیشنل
کالج کے پرنسپل بنائے گئے۔ پھر آپ نیشنل والنٹیئر کور کے کمانڈر بنائے گئے۔
اور اس حیثیت میں پہلی مرتبہ گرفتار کرکے چھ ماہ کے لئے جیل بھیج دیئے
گئے۔ رہائی کے بعد آپ نے ریلیف کے کام میں سرگرم حصہ لینا شروع کردیا۔ ان
دنوں شمالی بنگال میں طغیانی سے لوگوں کا بھاری نقصان ہوا تھا۔ سیکریٹری
بنگال ریلیف کمیٹی کی حیثیت سے آپ نے ہزاروں بے خانماں لوگوں کی امداد کی۔
1922ء میں آپ نے دیش بندھو شری سی۔ آر داس کے ہمراہ انڈین نیشنل کانگریس کے
گیا سیشن میں شمولیت کی۔ کانگریس میں دو دھڑے بن چکے تھے ایک کونسلوں سے
فائدہ اٹھانے کے حق میں تھا۔ دوسرا کونسلوں کا بائیکاٹ کرنا چاہتا تھا۔ شری
دیش بندھوسی۔ آر داس کونسلوں کے حامی تھے۔
انہوں نے اپنے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سوراج پارٹی کی بنیاد
رکھی۔ شری سبھاش بوس نے ایک سچے ہیرو کی طرح اپنے سیاسی گوروشری دیش دیش
بندھو سی۔ آر داس کا ساتھ دیا۔ اور الیکشن پراپیگنڈا میں رات دن ایک
کردیئے۔ بعدازاں آپ سوراج پارٹی کے اخبار "فارورڈ" کے چیف ایڈیٹر بنائے
گئے۔ اور اپریل 1924ء میں کلکتہ کارپوریشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بن گئے۔
اس حیثیت میں انہیں ڈیڑھ ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ لیکن انہیں
عہدے پسند نہ تھے۔ وہ جلد اس راز کو بھانپ گئے کہ کرسی نشین سیاستدان صحیح
معنوں میں دیش کی سیوا نہیں کرسکتے۔ یہ عہدے اور ملازمتیں تو صرف ابن الوقت
سیاست دانوں کو ہی اپنے جال میں پھنسا سکتی ہیں۔ چنانچہ آپ نے استعفےٰ دے
دیا۔ 1924ء میں بنگال میں پھر سخت گیری کا دور شرفوع ہوا۔ حکومت سوراج
پارٹی کی سرگرمیوں سے گھبرا اٹھی تھی۔ اسے اس بات کا احساس ہوا کہ اگر
بنگال میں بڑھتی ہوئی بے چینی کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی لہروں کو بند نہ لگایا
گیا۔ تو حالات خطرناک صورت اختیار کرجائیں گے۔
تقسیم بنگال کے دنوں میں بنگالیوں کے جوش و خروش۔ قربانی اور جذبہ حب
الوطنی کی صدا ابھی تک حکومت کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ اس لئے احتیاطی
اقدام کے طورپر حکومت نے بنگال آر ڈیننس پاس کردیا۔ اس آرڈیننس کے رو سے
حکومت کسی شخص کو محض شبہ کی بناء پر مقدمہ چلائے بغیر نظر بند کرسکتی تھی۔
اس آرڈیننس کا پہلا دار شری سبھاش چندر بوس اور سوراج پارٹی کے کئی دیگر
سرکردہ لیڈروں پر ہوا۔ سبھاش پھر گرفتار کرلئے گئے۔ اور بغیر مقدمہ چلائے
نظر بند کردیئے گئے۔ شری دیش بندھو سی۔ آر داس نے ان گرفتاریوں کی سخت مذمت
کی۔ اور کلکتہ کارپوریشن میں منعقدہ ایک پروٹسٹ میٹنگ میں تقریر کرتے ہوئے
کہا۔
"اگر دیش سے محبت کرنا جرم ہے۔ تو میں بھی مجرم ہوں۔ اگر شری سبھاش بوس مجرم ہیں۔ تو نہ صرف میں بلکہ ہر بنگالی مجرم ہے"۔
مانڈلے جیل میں
25اکتوبر 1924ء کو سبھاش علی پور سینٹرل جیل میں نظر بند کردیئے گئے۔ وہاں
سے بہران پور جیل منتقل کئے گئے۔ لیکن وہاں صرف چند ماہ رکھے گئے۔ حکومت
انہیں خطرناک سمجھتی تھی اور اسے یہ گوارا نہ تا کہ شری سبھاش چندر بوس
ہندوستان کی کسی جیل میں رہتے ہوئے خفیہ طور پر کسی تحریک کی رہنمائی کرتے
رہیں۔ پس انہیں مانڈلے (برما) جیل میں بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس ضمن میں کافی عرصہ حکومت ہند اور بنگال گورنمنٹ میں خط و کتابت ہوتی رہی
لیکن مانڈلے جیل میں تنہائی کی قید سے آپ کی صحت پر ناقص اثر پڑا۔ اور وزن
میں چالیس پونڈ کمی ہوگئی۔ آخر تین سال کی طویل نظر بندی کے بعد آپ کی صحت
نے جواب دے دیا۔ اپریل 1927ء میں آپ بستر علالت پر دراز ہوگئے۔ جب
بنگالیوں کو اپنے محبوب لیڈر کی علالت کا علم ہوا۔ تو سارے بنگال ملیں
کہرام مچ گیا۔ پریس اور پلیٹ فارم کے ذریعہ خوب ایجی ٹیشن ہوئی۔ جس کا
نتیجہ یہ ہوا کہ گورنمنٹ کے میڈیکل آفیسر ڈاکٹر سیتل چندر بوس نے آپ کا
معائنہ کیا اور اپنی رپورٹ میں گورنمنٹ کو شری سبھاش بوس کی خطرناک حالت سے
مطلع کردیا۔ اس پر بنگال گورنمنٹ کی طرف سے سبھاش کو یہ پیشکش کی گئی کہ
وہ اپنی صحت بحال کرنے کے لئے سوئیٹزر لینڈ جاسکتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ
شرط لگادی کہ وہ مانڈلے جیل سے براہ راست یورپ کو روانہ ہوں۔ اور کہ انہیں
کلکتہ یا ہندوستان کی کسی دوسری بندرگاہ پر اترنے کی اجازت نہیں دی جائے
گی۔ شری سبھاش بوس نے یہ پیشکش ٹھکرادی۔ انہی دنوں آپ نے اپنے بھائی شری
سرت چندر بوس کو جیل سے ایک خط لکھا۔ جو اس بہادر دیش بھگت کے دلی جذبات کی
صحیح ترجمانی کرتا تھا۔ خط میں درج تھا۔ "میں اس وقت مکمل طورپر دماغی
سکون اور شانتی محسوس کررہا ہوں اور اپنے دیش کے لئے تمام مصائب خندہ
پیشانی سے برداشت کرنے کو تیار ہوں۔ میرے خیالات امر ہیں۔ جیل کی تنگ و
تاریک کوٹھڑیاں اور بیڑیاں ان خیالات کو ہرگز نہیں کچل سکتیں۔ یہی خیال
مجھے اپنے وطن اور عزیز و اقارب سے دور مانڈلے جیل کی تنہائی کوٹھڑیوں میں
زندہ رکھنے کیلئے کافی ہے۔ بندے ماترم"۔
آخر گورنمنٹ بنگال کو جھکنا پڑا۔ اور اس نے شری سبھاش کی غیر مشروط رہائی
کا فیصلہ کرلیا۔ اچانک ایک روز اخبارات میں یہ شائع ہوئی کہ آپ رنگون کے
ایک سٹیمر کے ذریعے کلکتہ لائے جارہے ہیں۔ چنانچہ وقت مقررہ سے کافی دیر
پہلے درشن ابھلاشیوں کا ایک بے پناہ ہجوم گھاٹ پر جمع ہوگیا۔ لیکن سٹیمر کو
راستے میں ہی روک لیا گیا۔ تھوڑی دیر بعد گورنر بنگال کا ذاتی اگن بوٹ اس
سٹیمر کے پاس پہنچا اور سبھاش سٹیمر سے گورنر کے اگن بوٹ میں منتقل کردیئے
گئے۔ وہاں ایک گھنٹہ آرام کے بعد چار سرکردہ ڈاکٹروں کے ایک بورڈ نے آپ کا
معائنہ کیا۔ اس بورڈ ملیں گورنر بنگال کے ذاتی فزیشن ہیجرہنگن، لفٹیننٹ
کرنل سینڈیز، سرنیل رتن سرکار اور ڈاکٹر بی۔ سی۔ رائے شامل تھے۔
معائنہ کرنے کے بعد ڈاکٹروں نے یہ متفقہ رائے پیش کی کہ شری سبھاش بوس کی
حالت خطرناک ہے۔ اس اتنا میں شری سرت چندر بوس کو بنگال گورنمنٹ کی طرف سے
مندرجہ ذیل تارملا۔ "گورنمنٹ بنگال نے شری سبھاش چندر بوس کی غیر مشروط
رہائی کے احکام جاری کردیئے ہیں۔ہ براہ مہربانی انہیں سٹیمر سے اپنے مکان
پے لے جائیں"۔
چنانچہ شری سبھاش طویل نظر بندی کے بعد رہا کردیئے گئے۔ اس روز کلکتہ کے
باشندے خوشی کے مارے پھولے نہ سماتے تھے۔ ان کا محبوب لیڈر اور بہار رہنما
پھر اپنے وطن میں واپس آگیا تھا۔ لوگوں ین شہر میں چراغاں کی۔ پبلک جلسوں
میں آپ کی قربانیوں کا اعتراف کیا گیا۔ اور مندروں میں آپ کی بحالی صحت کے
لئے پرارتھنا کی گئی۔ ہندوستان کے کونے کونے سے آپ کو مبارکبادی کی چٹھیاں
موصول ہوئیں۔ ان دنوں بمبئی میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا اجلاس ہورہا
تھا۔ اس اجلاسکی طرف سے بھی شری سبھاش بوس کو مبارکبادی کا پیغام بھیجا
گیا۔
شری سبھاش بوس زیادہ دیر بستر علالت پر بیمار رہنا پسند نہ کرتے تھے۔ جونہی
آپ کی صحت نے اجات دی۔ آپ پھر میدان عمل میں نکل آئے۔ 1928ء میں انڈین
نیشنل کانگریس کا 43واں اجلاس کلکتہ میں بلایا گیا۔ مسٹر بوس استقبالیہ
کمیٹی کی طرف سے والنٹیئر کور کے جنرل آفیسر کمانڈنگ مقرر کئے گئے۔
کلکتہ کانگریس سے پہلے پنڈت موتی لال جی نہرو نے ایک رپورٹ تیار کی تھی۔ جس
میں حکومت سے ایک سال میں درجہ نوآبادیات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اسے نہ
ورلورٹ کہتے ہیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو اور شری سبھاش بوس اس رپورٹ سے مطمئن
نہ تھے۔ وہ مکمل آزادی کے حامی تھے۔ لیکن گاندھی جی نے ان کی ایک نہ چلنے
دی، اور ان دونوں کو اس رپورٹ کی تائید کیلئے تیار کرلیا۔
اس ضمن میں کانگریس کے کھلے اجلاس میں گاندھی جی نے خود مندرجہ ذیل ریزولیوشن پیش کیا۔
"آل پارٹیز کمیٹی کی رپورٹ پر غور کرنے کے بعد کانگریس اس رپورٹ کو
ہندوستان کے سیاسی اور فرقہ وارانہ مسائل کے حل کی جانب ایک اہم اقدام کے
طورپر خوش آمدید کہتی ہے۔ سیاسی صورت حالات کی ضروریات کے مطابق عمل کرنے
کی آزادی کو محفوظ رکھتے ہوئے یہ کانفرنس اس کانسٹی ٹیوشن کو منظور کرے گی۔
بشرطیکہ برطانوی گورنمنٹ 31دسمبر 1929ء تک یا اس سے پہلے اس کانسٹی ٹیوشن
کو کلیتاً منظور کرلے۔ لیکن اگر اس تاریخ تک اس قومی مطالبے کو منظور نہ
کیا گیا۔ تو ملک کو ٹیکس دینے سے انکار کرنے اور بلاتشدد و عدم تعاون کی
مہم جاری کرنے کا مشورہ دیا جائیگا۔
شری سبھاش بوس نے اس ریزو لیوشن میں مندرجہ ذیل ترمیم پیش کی۔ "یہ کانگریس
اعلان کرتی ہے کہ مکمل آزادی ہندوستان کے لوگوں کا منتہائے مقصود ہے۔ اور
یہ رئے رکھتی ہے کہ جب تک برطانیہ سے تعلقات منقطع نہ کئے جائیں۔ ہندوستان
میں مکمل آزادی قائم نہیں ہوسکتی۔ یہ کانگریس نہرو رپورٹ کو درجہ نوآبادیات
کے سفارش کردہ آئین کی بنیاد قائم کرتے ہوئے یہ رائے رکھتی ہے کہ اس
کانسٹی ٹیوشن میں جو دیگر سفارشات کی گئی ہیں۔ وہ ملک کی سیاسی ترقی کی طرف
ایک عظٌم قدم ہے۔ اور کانگریس اس رپورٹ کی تفاصیل کو منظور نہ کرتے ہوئے
ان کو عام طورپر منظور کرتی ہے"۔ جونہی شری بوس تقریر کرنے کیلئے کھڑے
ہوئے۔ حاضرین نے پرجوش تالیاں بجائیں۔ اور جب آپ نے اپنی ترمیم میں یہ
اعلان کیا کہ "جب تک برطانیہ سے تعلقات منقطع نہ ہوں۔ اس وقت تک ملک میں
مکمل آزادی قائم نہیں ہوسکتی"، تو حاضرین نے اس اعلان کا فلک شگاف نعروں سے
سواگت کیا۔
شری سبھاش بوس کی ترمیم کی تائید کرتے ہوئے پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا کہ
درجہ نوآبادیات کا مطالبہ کرنا اس کے سوائے اور کچھ بھی نہیں کہ حکومت
برطانیہ کے دروازے پر پہنچ کر اس سے بھیک مانگی جائے۔
بعدازاں گاندھی جی نے حسب معمول ایک زبردست جذباتی تقریر کی۔ اور رائے
شماری کے بعد شری سبھاش بوس کی ترمیم گرگئی۔ اور یہ رپورٹ قومی مطالبے کی
صورت میں کلکتہ کانگریس کے اجلاس میں منظور کرلی گئی۔ لیکن ساتھ ہی حکومت
برطانیہ کو یہ الٹی میٹم دے دیا گیا کہ اگر اس نے ایک سال کے اندر ہندوستان
کو درجہ نوآبادیات نہ دیا تو پھر مکمل آزادی یعنی برطانیہ سے قطع تعلق کا
ریزولیوشن پاس کردیا جائے گا۔ کلکتہ کانگریس کا اجلاس ختم ہوا اور مہاتما
گاندھی نے شری سبھاش بوس کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں کانگریس
ورکنگ کمیٹی میں لے لیا۔ ان دنوں سائمن کمیشن ہندوستان کا دورہ کررہا تھا۔
ہندوستان کے تمام بڑے بڑے شہروں میں اس کمیشن کا جو استقبال کیا گیا۔ وہ اب
تاریخ کا ایک جزو بن چکا ہے۔ لوگوں نے ہر جگہ سیاہ جھنڈوں اور "سائمن گو
بیک" کے نعروں سے اس کمیشن کا استقبال کیا۔
جب کمیشن کے ممبران لاہور پہنچے۔ تو ریلوے اسٹیشن کے باہر لالہ لاجپت رائے
جی کی رہنمائی میں لاکھوں ہندوستانیوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر مخالفانہ
مظاہرے کے لئے موجود تھا۔ اس موقع پر سورگیہ لالہ لاجپت رائے پولیس کی
لاٹھیوں سے ہلاک ہوئے۔
کچھ عرصہ بعد چند نوجوانوں نے سورگیہ لالہ لاجپت رائے کی مرتیو کا انتقال
لینے کیلئے ان پر لاٹھی چارج کرنے والے انگریز اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس مسٹر
سانڈرس کو گولی کا نشانہ بنادیا۔ بعدازاں سردار بھگت سنگھ اور مسٹر بی۔ کے
دت نے مرکزی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایک بم پھینکا۔ چنانچہ سارے
ہندوستان میں پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی۔ اور مقدمہ سازش کی تیاریاں ہونے لگیں۔
کلکتہ کانگریس کے بعد ملک میں بے چینی کی آگ روز بروز بڑھتی گئی۔ اسے روکنے
کیلئے گورنمنٹ نے وسیع پیمانے پر گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ اور
مرکزی اسمبلی میں پبلک سیفٹی بل پیش کردیا۔ 20مارچ 1929ء کے روز پولیس نے
ہندوستان بھر میں بالشویکوں کی تلاس میں چھاپے مارکر درجنوں کمیونسٹوں کو
گرفتار کرلیا۔ ان اصحاب کے خلاف میرٹھ میں ملک معظم کے خلاف بغاوت کے الزام
میں مقدمہ چلایا گیا۔
سخت گیری کے اس دور کے متعلق شری سبھاش کے کیا خیالات تھے اسے جاننے کے لئے
ذیل میں رنگ پور می منعقدہ بنگال پراونشل کانفرنس کے اجلاس میں آپ کی
صدارتی تقریر درج کی جاتی ہے۔
شروع سے لے کر بنگال آج تک ترقی کی طرف بڑھتا جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر
بنگالی کو انقلاب پسند سمجھا جاتا ہے۔ ہندوستان میں سوشلزم کا خیال کوئی
نیا خیال نہیں ہے۔ کارل مارکس کی تعلیم کا اس سے کوئی تعلق نہیں سواملی
وریکانند اور شری رام کرشن پرم ہنس سوشلزم کے زبردست پرچارک تھے۔ اس وقت ہم
سیاسی تحریک کے تیسرے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ پہلا مرحلہ سودیشی تحریک
کے زمانے میں آیا۔ دوسرا انقلاب پسندوں کا زمانہ تھا۔ اور تیسرا عدم تعاون
اور سوشلزم کا ہے۔ تازہ گرفتاریوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے کہا۔ یہ دور
استبداد بے چینی کو دبانے کیلئے شروع کیا گیا ہے۔ مگر گرفتاریوں سے بے چینی
کم نہ ہوگی۔ بلکہ روز بروز مزید اضافہ ہوتا جائے گا"۔
شری سبھاش بوس کی پبلک سرگرمیوں کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جارہا تھا۔
چنانچہ لوگوں کے اصرار پر آپ بنگال کونسل کے امیدوار کھڑے ہوگئے۔ اور
بنگالیوں نے آپ کو بلامقابلہ کونسل میں بھیج کر آپ سے گہری عقیدت اور شردھا
کا ثبوت دیا۔
آگے بڑھو!
13جولائی 1929ء کو بالیسال پولیٹیکل کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے آپ نے کہا۔
"میں مادر ہند کا خادم ہوں۔ وطن کو جب کبھی میری خدمات کی ضرورت ہوگی مجھے
اس کی خدمت بجالانے میں کبھی دریغ نہ ہوگا۔ جس دن سے میں ہندوستان کے متعلق
سوچنے لگا ہوں۔ مجھے ایک آزاد ہندوستان کے خواب آتے ہیں۔ کل کا آزاد
ہندوستان میرے سامنے ایک ایسی ہی حقیقت ہے۔ جیسا کہ آج کا محکوم ہندوستان۔
میں مکمل آزادی چاہتا ہوں۔ اس کے علاوہ میں کسی آزادی کا خٌال بھی نہیں
کرسکتا۔ جب تک مجلسی اور اقتصادی غیر مساوات کی حالت دور نہ ہوجائے۔ ہمیں
کوئی حقیقی آزادی حاصل نہیں ہوسکتی۔ مگر ایسی حالت تک پہنچنے کیلئے وقت اور
تیاری درکار ہے۔ میں پیچھے ہٹنے کے خلاف ہوں میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی
کے اس فیصلے کی کہ کونسلوں کا بائیکاٹ کردیا جائے حمایت نہیں کرسکتا۔ میرا
خیال ہے کہ عدم تعاون کی پالیسی کی موجودہ طرز سے ہندوستان کو درجہ
نوآبادیات تو حاصل ہوجائے گا۔ مگر اس سے مکمل آزادی حاصل نہ ہوگی۔ اگر درجہ
نوآبادیات مل گیا۔ تو وہ لوگ جن کا یہی آدرش ہے ریٹائر ہوجائینگے۔ مگر
لیڈروں اور کارکنوں کا ایک نیا دستہ مکمل آزادی کی مشعل لے کر آگے بڑھے گا۔
اور دیش کے کونے کونے میں مکمل آزادی کی روح پھونک دے گا"۔
کلکتہ کانگریس کے فیصلہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے کہا-:
"اگر درجہ نوآبادیات کا مطالبہ 30دسمبر تک منظور نہ کیا گیا تو مجھے امید
ہے کہ لاہور کانگریس میں مکمل آزادی کا ریزولیوشن پاس ہوجائے گا اور ہمیں
سول نافرمانی اور عدم ادائیگی ٹیکس کے ذریعے آنے والی جدوجہد کے لئے اپنی
تمام قوت صرف کرنی ہوگی"۔
27جولائی 1929ء کو الٰہ آباد میں آل انڈیا کانگریس کا اجلاس بلایا گیا۔ اس
سے پیشتر شری سبھاش بوس باریسال کانفرنس میں کونسلوں کے فیصلے کی مخالفت
کرچکے تھے۔ اس مسئلے پر کانگریس ورکنگ کمیٹی میں شدید اختلاف پیدا ہوچکا
تھا۔ چنانچہ اس اجلاس میں دونوں گروپوں میں ایک سمجھوتہ کی بناء پر کونسلوں
سے مستعفی ہونے کا سوال لاہور کانگریس تک ملتوی کردیا گیا۔ اس ریزولیوشن
پر تقریر کرتے ہوئے شری سبھاش بوس نے کہا-:
"ملک کی تاریخ یک اس نازک مرحلے میں ہم کانگریس کو منقسم کرنے کی توفیق
نہیں رکھتے۔ ہمیں غیر ملکی دفتری حکومت کے ساتھ لڑائی لڑنے کے لئے تمام
قوتوں اور وسائل کی ضرورت ہے۔ میری پالیسی ہمیں یہی رہی ہے کہ ہمیں اپنے
دشمن کے ساتھ ہر محاذ پر لڑائی لڑنی چاہیے۔ کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے اب
جو قدم اٹھایا ہے۔ وہ دانشمندانہ ہے۔ اس سے کانگریس پھوٹ سے بچ گئی ہے"۔
ان دنوں لاہور میں سردار بھگت سنگھ اور دت کے خلاف اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس
مسٹر سانڈرس کو قتل کرنے کے الزام میں مقدمہ سازش چلا رہا تھا۔ سردار بھگت
سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے جیلوں میں سیاسی قیدیوں سے انسانیت سلوک کے خلاف
پروٹسٹ کے طورپر بھوک ہڑتال کردی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ قیدیوں سے بہتر
سلوک کیا جائے۔ رفتہ رفتہ مقدمہ سازش کے ایک ملزم شری جتیندر ناتھ داس کی
حالت نازک ہوگئی۔
یکم اگست 1929ء کو شری جتیندر داس کی بھوک ہڑتال کا اکیسواں روز تھا۔ اسی
روز شری داس کے چھوٹے بھائی نے شری سبھاش بوس کو مندرجہ ذیل تار بھیجی۔
"لاہور جیل میں بھائی کی حالت سخت خراب ہے۔ نبض کی حرکت 45ہوگئی ہے۔ ڈاکٹر خاموش ہیں۔ بذریعہ تار ہدایات بھیجئے"۔
اسی طرح پنڈت جواہر لال جی نہرو کو بھی ایک تار بھیجی گئی۔ جس میں درج تھا۔
"مقدمہ سازش کے بھوک ہڑتالیوں کی حالت سخت نازک ہے اور موت ناگزیر ہے۔ آپ کی موجودگی ضروری ہے"۔
آج سے پندرہ سال پہلے کے ان واقعات کی جب یاد آتی ہے۔ تو ہر شخص کا دل تڑپ
اٹھتا ہے۔ اس لئے یہ بات جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ جن دنوں
ہندوستران کے یہ مایہ ناز سپوت جیل کی تنگ و تاریک کو ٹھڑیوں میں گھل گھل
کر مررہے تھے۔ اس وقت ہمارے ہم وطنوں کے جذبات کیا تھے۔ اس کی ایک جھلک
"پرتاپ" کے ایک ایڈیٹوریل میں دیکھئے۔
"ملک کی آن پر مرنے والے" کے عنوان سے 4اگست 1929ء کے "پرتاپ" میں درج ہے-:
"کسی نے درست کہا ہے کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو زندہ کہلاتے
ہوئے بھی مردہ ہیں۔ اور دوسرے وہ جو مرکز بھی زندہ رہتے ہیں۔ دوسری قسم کے
لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ لیکن یہ کم لوگ ہی ہیں جنہیں ایک مہاتما کے
الفاظ میں "SALT OF THE EARTH" کہا جاسکتا ہے۔ سنسار کے اتہاس میں ایسے لوگ
ملتے ہیں۔ جنہوں نے جان دینا قبول کیا۔ لیکن اپنی آن نہ چھوڑی ان لوگوں کے
آدھار پر ہی دنیا قائم ہے۔ لیکن ان لوگوں کا کیا کہنا۔ جو ملک کی آن پر
مرمٹنے والے ہیں۔ ان لوگوں کے لئے تو سورگ سے بھی پرے کوئی جگہ ہونی چاہیے۔
حق تو یہ ہے۔ اگر ایسے لوگ نہ ہوتے۔ تو دنیا رہنے کے قابل نہ ہوتی۔ لاہور
میں بھی آج کل اس قسم کا دریشہ ہمارے سامنے ہے بھگت سنگھ۔ دت جتیندر اور ان
کے دیگر ساتھیوں نے ایک بھاری یگیہ رچا رکھا ہے۔ اور اس میں وہ اپنے جیون
کی آہوتی دے رہے ہیں۔ جو لوگ جلتی آگ ملیں کود کر ایک ہی بار اپنی زندگی کا
خاتمہ کرلیتے ہیں۔ وہ بھی مبارک ہیں۔ لیکن وہ لوگ اور بھی مبارک ہیں جو
اپنے جسم کا ایک ایک ٹکڑہ کاٹ کر اگنی دیوتا کی بھینٹ کرتے ہیں۔ ان
نوجوانوں نے معیار بلیدان بلند کردیا ہے۔ وہ اپنے دیش کی آن کو قائم رکھنے
کیلئے مرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے مرنے کیلئے ایسا طریقہ اختیار کیا ہے۔
جو نہایت ہی کٹھن ہے۔ انہوں نے یہ گھور تپسیا کیوں گرہن کی۔ اس لئے کہ دیش
سیوا اخلاقی جرم نہ رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں پولیٹیکل قیدیوں سے
امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ہندوستان کے سیاسی قیدی اس سلوک کے کیوں حق
دار نہیں۔ یہ نوجوان اپنی بلی دے کر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے مطالبہ
میں وزن ہے، بھارت ماتا کے نوجوان سپوت ہماری نظروں کے سامنے گھل گھل کر
مررہے ہیں۔ اور ہماری بے بسی کا یہ عالم ہے کہ ہم انہیں بچا نہیں
سکتے"۔۔۔۔!!!
چنانچہ اس بھوک ہڑتال سے سارے ہندوستان میں کہرام مچ گیا۔ شری جتیندر داس
کی تشویشناک حالت کی اطلاع پاکر پنڈت جواہر لال جی نہرو 8اگست کو لاہور
پہنچے اور انہوں نے بھوک ہڑتالیوں سے ملاقات کی۔ لیکن بھوک ہڑتالیوں نے
پنڈت جی کو صاف کہہ دیا۔ کہ جب تک ان کے مطالبات منظور نہیں ہوتے وہ بھوک
ہڑتال ترک نہیں کریں گے۔ شری سبھاش بوس یہ خبر سن کر بے چین ہورہے تھے۔
انہوں نے بنگال کے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ بھوک ہڑتالیوں سے اظہار
ہمدردی کے لئے 11اگست کو پرامن مظاہرہ کریں۔ چنانچہ کلکتہ میں ایک بھاری
جلوس نکالا گیا۔ جلوس کے ساتھ "سرمایہ پرستی مردہ باد" اور "انقلاب زندہ
باد"کے پوسٹر تھے۔ ابھی یہ جلوس کچھ دور ہی آگے بڑھا تھا کہ پولیس سے ٹکر
ہوگئی۔ پولیس نے لوگوں پر لاٹھی چارج کیا۔ جس سے بہت سے اشخاص مجروح ہوئے۔
اور چار مظاہرین گرفتار کرلئے گئے۔ جلوس کے بعد ایک جلسہ ہوا جس میں شری
سبھاش نے تقریر کرتے ہوئے لاہور کے ہڑتالی ملزمان کو یقین دلایا کہ جب تک
ان کے مطالبات منظور نہیں ہوتے۔ بنگال میں ا یجی ٹیشن جاری رہے گی۔ 16اگست
کو مسٹر داس کی حالت نہایت نازکپ ہوگئی۔ انہوں نے حکام سے کہا۔ "میں نے
گورنمنٹ کو کافی مہلت دی ہے۔ لیکن وہ فیصلہ نہیں کرتی۔ اب زیادہ عرصہ زندہ
نہ رہوں گا۔ میں نے فیصلہ کرلیا ہے۔ کہ جتنی جلدی مرجاؤں اچھا ہے۔" انہوں
نے یہ خواہش بھی ظاہر کی کہ ارتھی کے ساتھ "رام رام" نہیں بلکہ "انقلاب
زندہ باد" کے نعرے لگائے جائیں۔ اسی روز حکام جیل کی طرف سے شرمی جتیندر
داس کے پتاکو تار دے دی گئی۔ کہ ان کے سپتر کی حالت نازک ہے۔ وہ جلد پہنچ
جائیں۔
ادھر پنجاب گورنمنٹ کو بھی ایجی ٹیشن سے سخت تشویش ہورہی تھی۔ گورنمنٹ کی
خواہش تھی کہ یہ بھوک ہڑتال کسی نہ کسی طرح ختم ہوجائے۔ چنانچہ جیلوں کی
حالت بہتر بنانے کیلئے ایک جیل کمیٹی بنائی گئی۔ 2ستمبر کو اس کمیٹی کے
ممبران کے اصرار اور شری جتیندر داس کی نازک حالت کے پیش نظر سردار بھگت
سنگھ، مسٹر دت اور ان کے ساتھیوں نے بھوک ہڑتال ترک کردی۔ لیکن شری جتیندر
داس نے بھوک ہڑتال ترک کرنے سے انکار کردیا۔ اس اثنا میں شری سبھاش کی
رہنمائی میں بھوک ہڑتالیوں سے اظہار ہمدردی کے لئے بنگال میں جو زبردست
ایجی ٹیشن ہورہی تھی۔حکومت ہند اس سے گھبرا گئی۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا
گیا۔ 11اگست کے روز سیاسی قیدیوں کا دن منانے کے لئے کلکتہ میں ایک زبردست
جلوس نکالا گیا تھا۔ جسے پولیس نے لاٹھی چارج کے بعد منتشر کردیا تھا۔ شری
سبھاش نے اس روز ایک پبلک جلسہ میں شری جتیندر داس کی بھوک ہڑتال کے سلسلے
میں ایک تقریر کی تھی 4ستمبر کے روز ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ علی پور کی طرف
سے ان پر ایک سمن کی تعمیل کرائی گئی۔ جس کے ذریعے زیر دفعہ 124الف
(سڈیشن) انہیں 9 ستمبر کو عدالت میں حاضر ہوکر جوابدہی کرنے کی ہدایت کی
گئی۔
5ستمبر کو بستر مرگ پر دراز شری جتیندر داس نے جن کی شمع زندگی کا ٹمٹماتا
ہوا چراغ اچانک بجھنے والا تھا۔ جیل حکام سے یہ درخواست کی کہ موت کے بعد
ان کی لاش کلکتہ لے جائی جائے۔ اور ان کی ماتا اور بہن کی چتاؤں کے پہلو
میں ان کی چتا جلائی جائے۔
جب شری سبھاش کو بذریعہ تار جتیندر داس کی آخری تمنا سے مطلع کیا گیا۔ تو
آپ نے لاش کو لاہور سے کلکتہ لے جانے کیلئے شری جتیندر ناتھ داس کے بھائی
کو چھ صد روپیہ بھیج دیا۔ اس روز کلکتہ میں فری پریس کے ایک نمائندے کے
ساتھ ملاقات کے دوران شری سبھاش نے گورنمنٹ کو چیلنج دیا کہ "اگر تشدد کے
ذریعہ وہ آزادی کی تحریک کو دبانا چاہتی ہے۔ تو وہ اپنی انتہائی کوشش
کردیکھے۔ میں سچے دل سے اس تشدد کی پالیسی کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ کیونکہ
گورنمنٹ کی یہ پالیسی میرے ہم وطنوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے میں مفید
ثابت ہوگی۔ اور لوگ نئے پروگرام کے لئے تیار ہوجائیں گے۔"
6ستمبر کو جتیندر کے بھائی نے شری سبھاش بوس کو مندرجہ ذیل تار بھیجا-:
تیرے بھائی موت کی آخری گھڑیاں گن رہے ہیں۔ وہ کسی وقت بھی مرسکتے ہیں پریس رپورٹ کاانتظار کیجئے۔"!
اس تار کے ایک ہفتہ بعد 13ستمبر کو 63دن کی بھوک ہڑتال کے بعد شری جتیندر
داس کی زندگی کا ٹمٹماتا ہوا دیپک بجھ گیا۔ اور آپ نے بورسٹل جیل لاہور میں
پران تیاگ دیئے موت کی خبر آناً فاناً ہندوستان بھر میں پھیل گئی۔ لاہور
میں ا ن کی لاش کا جو جلوس نکالا گیا۔ اس کی نظیر دنیا بھر کی تاریخ میں
نہیں ملتی۔ 15 ستمبر کو صبح 6بجکر دس منٹ پر مسٹر داس کی نعش بذریعہ لاہور
ہوڑہ ایکسپریس کلکتہ روانہ کردی گئی۔ جب یہ ٹرین کلکتہ پہنچی تو ریلوے
اسٹیشن پر پچاس ہزار بنگالی شری جتیندر داس کے چرنوں میں عقیدت کے پھول پیش
کرنے کیلئے موجود تھے۔ دیگر لیڈروں کے علاوہ شری سبھاش بوس نے بھی شہید کے
چرنوں میں شردھا نجلی پیش کی۔ کچھ دنوں بعد آپ ڈسٹرکٹ پولیٹیکل کانفرنس
ہوڑہ کے صدر منتخ۶ کئے گئے۔ اس کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے آپ نے شہید وطن
شری جتیندر داس کی قربانی کو خراج عقیدت ادا کیا۔ کلکتہ کانگریس کی طرف سے
گورنمنٹ برطانیہ کو الٹی میٹم کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے کہا۔ الٹی میٹم کی
میعاد ختم ہونے والی ہے۔ گورنمنٹ نے اب تک ہندوستان کے لئے درجہ نوآبادیات
کا اعلان نہیں کیا۔ اگلے سال ملک کے طول و عرض میں وسیع پیمانے پر تحریک
چلانے کا فیصلہ ہوگا۔ اس لئے طلباء کو ایک دفعہ پھر اسکولوں اور کالجوں کو
چھوڑ دینے کیلئے تیار رہنا چاہیے۔
(جاری ہے)
***
Post a Comment