Translate In Your Language

New Videos

نیتاجی........سبھاش چندر بوس

نیتاجی........سبھاش چندر بوس

نیتاجی........سبھاش چندر بوس
ہندوستان کے جہد آزادی کے عظیم رہنما سبھاش چندر بوس کی سوانح عمری،فکر و نظریات
(.....ایک قسط وار سلسلہ.....)

تحریر : شری چمن لال آزاد پیش کردہ : ادارہ سنگر

’’نیتا جی‘‘ہندوستان کے جہد آزادی کے عظیم رہنماشری سبھاش چندر جی بوس کی سوانح عمری ، جدجہد ،فکرو نظریات اورتعلیمات پر مبنی یہ ایک تاریخی و دستاویزی کتاب ہے جسے شری چمن لال آزاد نے تحریر ہے۔یہ کتاب اقوام عالم میں جاری جدو جہد آزادی کی تحریکات کیلئے ایک عظیم اثاثہ ہے جس کی رو سے وہ اپنی جدو جہد کیلئے بہتر رستے متعین کرکے انہیں کامیابی سے ہمکنار کرسکتے ہیں کیونکہ یہ کتاب جدو جہد کی ایک عظیم تاریخ و تجربت رکھتی ہے ۔ہم بلوچ قومی تحریک آزادی کے جہد کاروں سمیت بلوچ حلقوں کیلئے اس کتاب کو قسط وار شائع کرنے کا اہتمام کررہے ہیں تاکہ وہ سبھاش چندربوس کی تعلیمات ، فکرو نظریہ اور تجربت سے استفادہ کرسکیں ۔چونکہ یہ کتاب بہت نایاب ہے اور عام لوگوں کی دسترس میں نہیں ہے اسی لئے اسے اپنے قارئین ، بلوچ حلقوں اور بلوچ جہد آزادی کے جہد کاروں کے لئے پیش کیا جارہاہے ۔(ادارہ سنگر )

(قسط 3)
پھر جیل میں
23جنوری 1930ء کے روز شری سبھاش بوس کے خلاف بغاوت کے الزام میں مقدمے کا فیصلہ سنادیا گیا۔ اور انہیں ایک سال کی سزا دی گئی۔ جس روز مقدمے کا فیصلہ سنایا جانا تھا۔ عدالت کے احاطہ اور کچہری کی طرف جانے والے تمام راستوں بلکہ عدالت کے چھت تک پر ڈپٹی اور اسسٹنٹ کمشنران کے ماتحت مسلح پولیس کا پہرہ تھا۔ جونہی مجسٹریٹ کمرہ عدالت میں داخل ہوا۔ ہجوم نے "انقلاب زندہ باد" اور جمہوری حکومت قائم کرو"۔ کے فلک شگاف نعرے بلند کئے۔
اسی روز کلکتہ ہائی کورٹ کے جسٹس پیٹرسن کے اجلاس میں درخواست گزاری گئی۔ کہ تا فیصلہ اپیل شری سبھاش بوس کو ضمانت پر رہا کردیا جائے۔ سرکاری وکیل نے رہائی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا۔ 26"جنوری کو یوم آزادی منایا جائے گا۔ اور نامعلوم اس روز مظاہرے کیا ضرورت اختیار کریں۔ سابقہ تجربہ یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر انقلابی جھنڈوں سے جلوس نکالا جاتا ہے۔ اور ایسے موٹو لکھے جاتے ہیں۔ جن کا پابند قانون اور پرامن شہریوں پر اثر پڑے۔ موجودہ حالات میں صرف اسی صورت میں ضمانت منطور کی جاسکتی ہے کہ شری سبھاش بوس یہ وعدہ کریں کہ وہ اس قسم کے کسی جلوس میں شریک نہ ہوں گے۔ اور نہ ہی کوئی تقریر کریں گے۔"
س بھاش کے وکیل نے کہا۔ "مجھے خاص طورپر ان کی طرف سے ہدایت ہے کہ اس قسم کا کوئی اقرار نہ کیا جائے۔" اس پر ججوں نے کہا کہ وہ اپنے موکل سے مشورہ کرکے پونے پانچ بجے پتہ دیں۔ اس کے بعد احکام صادر کئے جائینگے۔
اس اثنا میں جونہی شری سبھاش کی سزایابی کی خبر شہر میں پھیلی۔ ایک بھاری ہجوم عدالکت کے احاطہ میں پہنچ گیا۔ کچہری سے لے کر سینٹرل جیل تک تمام بازار لوگوں سے کھچا کھچ بھرا پڑا تھا۔ لوگوں نے پانچ گھنٹے تک بڑے صبر سے انتظار کیا۔ آخر پانچ بجے ہائیکورٹ سے بھر آگئی اور "شری سبھاش بوس" انقلاب زندہ باد"اور حکومت برباد" کے فلک شگاف نعروں کے درمیان قیدیوں کی گاڑی میں سوار ہوگئے۔ جیل جانے سے پیشتر وکلاء نے سبھاش کے گلے میں ہار پہنائے۔ اور پنجابیوں کی ایک بڑی بھاری تعداد عدالت کے باہر نعرے لگاتی رہی۔ ان کی گاڑی پر سینکڑوں ہار پھینکے گئے۔ جب گاڑی روانہ ہوئی تو ہجوم سینٹرل جیل تک پیچھے پیچھے گیا۔ جیل جانے سے پہلے آپ نے بنگالیوں کے نام ایک پیغام جاری کیا۔ جس میں درج تھا-:
"یہ امر واضح ہے کہ گورنمنٹ صریحاً تشدد کی پالیسی پر عمل کررہی ہے جب گورنمنٹ منظم اور اپنے فیصلہ پر کاربند ہے۔ تو ہمیں بھی اتنا ہی منظم اور حصول آزادی کے لئے اپنے فیصلے پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ اس وقت ہمیں نہایت نازک صورت حالات کا سامنا ہے۔ تشدد کا چکر ہمیں پیس کررکھ دینا چاہتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ گورنمنٹ یہ سمجھتی ہوکہ وہ ہمیں 26جنووری سے پہلے جیل میں بند کرکے لوگوں کو یوم آزادی منانے سے روک سکتی ہے۔ اس لئے میں لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ یہ دن اس بڑے شہر کی شان کے مطابق منایا جائے۔ جس کے شہری ہونے کا ہمیں فخر حاصل ہے۔"
جونہی سبھاش بوس کی سزایابی کی خبر لندن میں پہنچی۔ کنزروئیو حلقوں میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے۔ اخبار "مارننگ پوسٹ" نے یہ رائے ظاہر کی کہ "جب تک سازشیوں سے بھی ایسا ہی غیر جانبدارانہ انصاف نہ کیا جائے گا۔ ہندوستان میں ا من قائم نہیں ہوسکتا۔" بعدازاں اخبار مذکورہ نے شری سبھاش بوس کو سزا دینے والے مجسٹریٹ کی تعریف کی ۔ اور حکومت ہند کی پالیسی پر اعتراض کیا کہ وہ مہاتما گاندھی اور دیگر انتہا پسندوں کو کیوں گرفتار نہیں کرتی۔
جہاں برطانیہ کے رجعت پسند حلقوں میں سبھاش کی سزایابی پر گھی کے چراغ جلائے گئے۔ وہاں ان کی سزا یابی سے ہندوستان کے سیاسی حلقوں میں ہیجان برپا ہوگیا۔ اس صمن میں پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک بیان جاری کیا جس میں درج تھا-:
"مکمل آزادی کے ریزولیوشن کا پہلا ثمرہ یہ ملا ہے کہ شری سبھاش بوس اور ان کے ساتھیوں کو ایک جلوس میں شریک ہونے کی پاداش میں ایک سال قید کی سزا دی گئی ہے۔ اس دفعہ پھر جنگ آزادی میں بنگال بازی لے گیا اور بنگال کے سپوت صحیح طورپر فخر کرسکتے ہیں کہ ہندوستان کی ہر اول بننا ان ہی کے حصے میں آیا ہے۔ اس تازہ چوٹ کا ہماری طرف سے یہ جواب ہونا چاہیے کہ ہم منظم ہوکر مکمل آزادی کے نصب العین کی طرف زبردست ہلہ بول دیں۔" شری سبھاش بوس کی گرفتاری کے متعلق انڈین نیشنل کانگریس کی لندنی برانچ نے مندرجہ ذیل خیالات کا اظہار کیا۔
"مہاتما جی کے شری سبھاش بوس کو کانگریس ورکنگ کمیٹی سے نکال دینے کے مجرمانہ فعل نے ہی گورنمنٹ کا حوصلہ بڑھایا کہ وہ انہیں قید کردے۔"چنانچہ لندن کے کانگریسیوں نے ایک عام اجلاس میں گاندھی جی کی پزور مذمت کی۔
ہائیکورٹ نے اپیل پر شری سبھاش بوس کی سزا میں تخفیف کردی۔ اور آپ ایک سال کی بجائے صرف نوماہ جیل میں رہے۔ یہ نوماہ کا عرصہ ہندوستان کی تاریخ میں انتہئائی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ ان ایام میں ہی کانگریس نے پھر ستیا گرہ اور سول نافرمانی کا اعلان کردیا۔ اس سے پیشتر کہ ہندوستان کے اس تاریخی دور کا مختصر ذکر کیا جائے۔ مناسب ہوگا کہ جیل میں شری سبھاش بوس کی زندگی کے پرآشوب واقعات بیان کئے جائیں۔
آپ جس جیل میں قید کئے گئے، وہاں مچھوا بازار بم کیس کے زیر سماعت قیدی بھی بند تھے۔ 11 اپریل کے روز بم کیس کے زیر سماعت قیدیوں نے صدر ٹریبونل کی وساطت سے سیکریٹری پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ گورنمنٹ بنگال کو ایک درخواست دی کہ جیلروں نے وارڈروں کے ساتھ مل کر انہیں زدوکوب کیا۔ اور کہ جب شری سبھاش بوس نے مداخلت کرنے کی کوشش کی تو انہیں بھی گالیاں دی گئیں۔
چند روز بعد شری سبھاش بوس نے بھی انسپکٹر جیل خانہ جات بنگال کو سیاسی قیدیوں سے توہین آمیز سلوک کے متعلق لکھا، لیکن حکام جیل نے یہ خط روک لیا اور کلکتہ میں افواہ پھیل گئی کہ آپ پروٹسٹ کے طور پر بھوک ہڑتال کرنے والے ہیں۔ اس کے بعد 22 اپریل کو علی پور جیل میں جو واقعہ ہوا۔ اس سے سارے ہندوستان میں سنسنی پھیل گئی۔ جب مچھوا بازار بم کیس کے زیر سماعت قیدیوں کو عدالت میں لایا جارہا تھا تو ان میں سے بعض نے جیل کی گاڑی میں بیٹھنے سے انکار کردیا۔ اس پر یورپین وارڈروں اور سپاہیوں نے ان پر ڈنڈوں سے حملہ کردیا۔ حادثہ کی اطلاع پاکر شری سبھاش بھی موقعہ پر پہنچ گئے۔ چنانچہ ان پر بھی ڈنڈوں سے حملہ کردیا گیا، جس سے وہ تین گھنٹے بیہوش رہے۔ شام کے وقت آپ کو چوٹوں کی وجہ سے سخت بخار ہوگیا۔ اگلے روز شہر میں یہ افواہ پھیل گئی، کہ شری سبھاش بوس مارپیٹ کی وجہ سے سور گاش ہوگئے ہیں۔ جونہی لوگوں کو یہ اطلاع ملی۔ کلکتہ کے تمام اسکول، کالج اور بازار بند ہوگئے۔ اور لوگوں کا ایک بھاری ہجوم علی پور جیل کے باہر جمع ہوگیا۔ چنانچہ اس افواہ کی تردید کرنے کے لئے بنگال گورنمنٹ کو ایک خاص بیان جاری کرنا پڑا۔ جس میں درج تھا :۔
’’شری سبھاش بوس اور ان کے ساتھی زندہ ہیں۔ اور ان کی صھت ویسی ہی ہے جیسی کہ جیل میں داخل ہونے کے وقت تھی۔ یہ اعلان پولیٹیکل قیدیوں کی بھوک ہڑتال کی تردید کرتا ہے۔ غلط افواہوں کی بنیاد یہ ہے کہ کل صبح چند ستیا گروہیوں نے جیل اسٹاف کے احکام کی نافرمانی شروع کردی۔ اس سے ہمدردی کرتے ہوئے زیر سماعت قیدیوں نے جیل کی چھتوں اور سلاخوں پر چڑھ کر خلاف قواعد نعرے بلند کرنے شروع کردیئے۔ ان کو نیچے اتار کر مقفل کمروں میں بند کردیا گیا۔ اس فعل سے مخصوص درجے کے قیدی برانگیختہ ہوگئے۔ انہوں نے جیل کے وارڈروں پر پتھر پھینکنے پھینکنے شروع کردیئے۔ اس پر سپرنٹنڈنٹ جیل نے ان مخصوص قیدیوں کو کوٹھریوں میں بند کرنے کا حکم دیا۔ اس حکم کو سنکر مخصوص قیدی جیل کے دروازے کی طرف بڑھے۔ اس سپرنٹنڈنٹ نے خود موقعہ پر پہنچ کر جیل اسٹاف کی مدد سے ان قیدیوں کو مقفل کمرے میں بند کردیا۔ سبھاش بابو گر پڑے۔ اور چند زیر سماعت قیدیوں کو خفیف چوٹیں آئیں۔ آج اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جیل میں گئے۔ لیکن شری سبھاش بوس اور ان کے ساتھیوں نے بیان دینے سے انکار کردیا۔‘‘
ظاہر ہے کہ بنگال گورنمنٹ کے اس سرکاری اعلان سے لوگوں کی تشویش کم نہ ہوئی۔ سرکاری اعلان پر رائے زنی کرتے ہوئے شری بی ۔ سی رائے نے کہا۔ ’’حکومت کا بیان غلط بیانیوں کا پلندہ ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ حملے کے بعد شری سبھاش کو قدرے بخار ہوگیا تھا۔ یہاں تک کہ سر پی ۔ سی ۔ مترممر انچار جیل ڈیپارٹمنٹ نے بھی اس بات کو تسلیم کرلیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ شری سبھاش کو چوٹیں آئیں۔‘‘
کلکتہ کے ایک اخبار میں اس واقعہ کے متعلق ذیل کی خبر شائع ہوئی:۔
’’آج صبح 9:30 بجے جب مچھوا بازار بم کیس کے ملزم کھانا کھا رہے تھے انہوں نے خطرے کی گھنٹی سنی۔ اس پر تمام قیدی موقع پر پہنچ گئے۔ انہوں نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو پٹھانوں کے ایک دستے کے ساتھ جیل میں آتے دیکھا بیان کیا جاتا ہے کہ یہ پٹھان قیدیوں پر ٹوٹ پڑے اور انہیں بندوقوں کے زیریں حصوں سے پٹیا گیا۔ دو قیدی اس قدر پیٹے گئے کہ وہ بیہوش ہوکر گر پڑے۔ تین چار دیگر قیدی بھی اسی طرح بے ہوش ہوئے۔ پٹھانوں نے ایک قیدی کو گردن سے پکڑ کر زمین پر دے مارا۔ اس وحشیانہ زدوکوب کے بعد پٹھان سپیشل وارڈ میں داخل ہوئے۔ اور سبھاش بوس ودیگر قیدیوں پر حملہ کریدا۔ یہاں پر بھی دو تین آدمی بے ہوش ہوگئے۔ کئی ایک کو چوٹیں آئی۔ جب پولیٹیکل قیدیوں نے اس وحشیانہ حملے کے خلاف پروٹسٹ کیا۔ تو پٹھانوں کے گروہ نے شری سبھاش اور ان کے ساتھیوں کو گھونسوں سے پیٹا۔ پھر انہیں سپرنٹنڈنٹ جیل کے حکم سے زبردستی تنہائی کی کوٹھڑیوں میں بند کردیا گیا۔‘‘
چند روز بعد خود شری سبھاش بوس کے بیان سے ہی سرکاری اعلان کی قلعی کھل گئی۔
ڈاکٹر بی۔ سی رائے اور لفٹننٹ کرنل وائٹ نے گورنر بنگال کی اجازت سے سبھاش اور ان یک ساتھیوں سے ملاقت کی۔ ڈاکٹر رائے نے ملاقات کے بعد بتایا کہ جب میں نے شری سبھاش بوس سے ملاقات کی تو وہ بیمار تھے۔ جیل میں ان کے وزن میں 23پونٹ کمی ہوگئی ہے۔ مارپیٹ کے واقعہ کے متعلق میرے سوال پر انہوں نے بتایا کہ 22اپریل کو وہ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ انے یارڈ کے دروازہ کے نزدیک کھڑے تھے۔ کہ پٹھان وارڈ، کچھ قیدی اور سپرنٹنڈنٹ دوڑے ہوئے آئے اور انہیں کوٹھڑیوں کے بلاک کی طرف زبردستی دھکیلنا شروع کردیا۔ سبھاش سیڑھیوں پر گر پڑے۔ اور ان کے سرکار پچھلا حصہ زور سے سیڑھیوں پر لگا۔ بعدازاں انہیں کچھ قیدی اٹھاکر اوپر لے گئے اور آپ دو گھنٹے سے زائد بے ہوش رہے۔
ڈاکٹر بی۔ سی رائے اور کرنل وائٹ نے اس حادثے کے متعلق ایک مشترکہ بیان جری کیا تھا جس میں درج ہے-:
"شری سبھاش بوس کے دماغ کے پچھلے حصے میں ابھی تک کمزوری کی علامت پائی جاتی ہے۔ آپ کے دماغ کو صدمہ پہنچا ہے۔ دیگر قیدیوں نے شکایت کی ہے کہ انہیں کئی گھنٹے تک کوئی طبی امداد نہ پہنچائی گئی۔"
مسٹر بوس کی حالت کے متعلق دونوں ڈاکٹروں نے رپورٹ کی کہ ان کے پھیپھڑوں کا ایکسرے لیا جائے۔ اسی روز شری سبھاش بوس کی ماننا اپنے سپتر سے ملاقات کرنے کیلئے جیل گئیں۔ سپرنٹنڈنٹ جیل نے کہا کہ ملاقات صرف ان کے کمرے میں ہی ہوسکتی ہے۔ شری سبھاش بوس نے کہا کہ میرے کمرے میں ملاقات کرائی جائے۔ کیونکہ میں بیمار ہوں لیکن فرعون مزاج سپرنٹنڈنٹ جیل رضا مند نہ ہوا۔ اس پر شری سبھاش نے سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں ملاقات کرنے سے انکار کدیا۔
26جولائی کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ 24پرگنہ نے جیل میں سبھاش بوس سے ملاقات کی بھوک ہڑتال کی وجہ سے ان کی حالت نازک ہوچکی تھی۔ اس سے پیشتر انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات بھی آپ سے مل چکے تھے۔ چنانچہ ان ہر دو افسروں کے یقین دلانے پر آپ نے 28جولائی کو بھوک ہڑتال ترک کردی۔
جیل کی چار دیواری کے پیچھے سبھاش بوس جو مصائب برداشت کررہے تھے۔ لوگوں پر ان کا گہرا اثر پڑا۔ چنانچہ 22اگست کو کلکتہ کارپوریشن کے ممبروں نے آپ کو کارپوریشن کا میئر منتخب کرلیا۔ ان دنوں گاندھی جی رہنمائی میں ستیاگرہ اور عدم تعاون کی تحریک خوب زوروں پر تھی۔ لوگ کونسلوں اور اسمبلیوں کا بائیکاٹ کرکے جیل جارہے تھے۔ ان حالات میں بظاہر یہ بات عجیب دکھائی دیتی تھی۔ کہ شری سبھاش بوس نے میئر کے انتخاب کے لئے اپنے نام کی منظوری کس طرح دے دی۔ لیکن جو لوگ سبھاش کو سمجھتے ہیں۔ ان کے لئے اس میں کوئی نئی بات نہ تھی۔ وہ سوراج پارٹی کے ایک سرکردہ رکن کی حیثیت سے اس سے پیشتر بھی گاندھی جی کے خلاف بغاوت کرچکے تھے۔ یہ درست ہے کہ لاہور کانگریس کے بعد انہوں نے کارپوریشن اور کونسل کی ممبری سے استعفےٰ دے دیا تھا۔ لیکن ان کا تازہء ایکشن گاندھی جی کے پروگرام اور پالیسی کے خلاف ایک خاموش پروٹسٹ تصور کیا جاسکتا ہے۔ وہ ایک انقلابی ذہنیت رکھنے والے جنگجو لیڈر ہیں وہ ایک بہادر سپاہی کی طرح میدان جنگ سے پیچھے ہٹنا بزدلی سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس ان دنوں گاندھی جی ستیا گرہ کرکے قانون کی دھجیاں اڑارہے تھے۔ لیکن ساتھ ہی ہروقت سرکار انگریزی سے مصالحت کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ شری سبھاش بوس اس قسم کی پالیسی سے متنفر تھے۔ لہٰذا انہوں نے دنیا پر یہ بات واضح کرنے کیلئے کہ انہیں گاندھی جی کا پروگرام اور پالیسی پسند نہیں۔ کارپوریشن کا میئر بننا پسند کرلیا۔ اس انتخاب کے ایک ماہ بعد اپنی پوری سزا کاٹ کر 23ستمبر کی شام کو علی پور جیل سے رہا کردیئے گئے۔ اگلے روز جب آپ کلکتہ کے میئر کی حیثیت سے کارپوریشن میں گئے۔ تو ممبران نے آپ کا شاندار سواگت کیا۔ جب آپ اپنی جگہ پر بیٹھے تو آپ پر پھولوں کی ورشا کی گئی۔ شری سبھاش نے اس استقبال اور ہمدردی کے لئے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا-:
"میں نے وہی پروگرام اختیار کیا ہے۔ جو شری دیش بندھوسی۔ آر داس نے تیار کیا تھا۔ میرا یقین ہے کہ ہمیں اس پروگرام میں اس چیز کا مرکب ملیگا۔ جو موجودہ یورپ سوشلزم اور فاسزم کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ہم اس میں انصاف۔ مساوات اور محبت دیکھتے ہیں جو موجودہ سوشلزم کی بنیاد ہیں۔"
سلسلہ تقریر کو جاری رکھتے ہوئے آپ نے کہا-:
"مجھے ایک آزاد ہندوستان کا خواب آرہا ہے۔ جس کے مجلسی نظام اور سیاسیات کی بنیاد و انصاف، محبت اور مساوات کے عالمگیر اصول پر ہوگی میں تو اس دن کی انتظار میں ہوں۔ جب ہندوستان میں آزادی ہوگی اور تمام دنیا میں شانتی۔ میںیہ بات دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ جب تک ہندوستان آزاد نہ ہوگا۔ دنیا میں امن نہیں ہوسکتا۔"
سزا کے بعد ابھی شری سبھاش کو جیل میں گئے دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ گاندھی جی نے ستیاگرہیوں کا پہلا جتھاسابرمتی آشرم سے نکلا۔ ستیاگرہ کے لئے یہ موقع کیوں منتخب کیا گیا؟ اس سوال کے جواب میں گاندھی جی اور شری سھاش کے درمیان فرق کا راز مضمر ہے۔ گاندھی جی لوگوں کے جذبات سے کھیلنا جانتے ہیں۔ وہ کسی خاص موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ اول درجے کے موقع شناس ہیں۔ تو اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ وہ جن لوگوں کی قربانیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ان کی ہی مذمت کردیتے ہیں۔ لیکن شری سبھاش بوس اس کمزوری، سیاسی غلطی اور بے انصافی کے مرتکب نہیں ہوسکتے وہ نوجوانوں کی قربانیوں کی قدر کرتے ہیں۔ اور جانتے ہیں کہ سرپھرے دیش بھگتوں اور جاں بازوں کی قربانیاں دیش کی سیاسی ترقی کی بنیاد کو مضبوط کرتی ہیں۔
بات دراصل یہ تھی کہ ان دنوں سردار بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف لاہور میں سازش کا مقدمہ چل رہا تھا۔ اور شری جتیندر داس طویل بھوک ہڑتال کے بعد جیل میں پران تیاگ چکے تھے۔ ان واقعات سے نوجوانوں میں آگ لگ چکی تھی۔ ملک کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک بے پناہ جوش پایا جاتا تھا اس موقع پر گاندھی جی اور پنڈت موتی لال نہرو نے جہاں ملک میں انقلابی سرگرمیوں کی بڑھتی ہوئی لہر کو باڑ لگادی۔ وہاں ان نوجوانوں کی قربانیوں کو اپنی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے لئے بہت بری طرح استعمال بھی کیا۔ دکھ کی بات تو یہ تھی کہ ایک طرف یہ لیڈر نوجوانوں کی قربانیوں کا فائدہ اٹھارہے تھے۔ اور دوسری طرف پبلک جلسوں اور تقریروں میں ان نوجوانوں کی قربانیوں کی مذمت کرتے رہتے تھے۔ شری سبھاش بوس کو یہ دورخی پالیسی پسند نہ تھی۔ اس کے علاوہ کانگریس نے ملک کے سامنے سول نافرمانی کا جو پروگرام پیش کیا۔ وہ بھی ادھورا تھا۔ شری سبھاش بوس نے لاہور کانگریس میں یہ تجویز پیش کی تھی۔ کہ ستیاگرہ اور سول نافرمانی کا اعلان کرنے کے بعد ملک میں متوازی گورنمنٹ قائم کی جائے۔ اگر یہ ترمیم منظور ہوجاتی تو 1930ء کی تحریک کو انقلابی شکل مل جاتی۔ لیکن گاندھی جی اس حد تک بڑھنے کیلئے تیار نہ تھے۔ وہ پنڈت موتی لال نہرو اور پنڈت مدن موہن مالویہ جیسے اعتدال پسند اور ماڈریٹ لیڈروں کے چنگل میں پھنسے ہوئے تھے۔ اگر آپ دیش کے سامنے کونسلوں اور لیجسلیچروں کے بائیکاٹ کا پروگرام رکھتے ہیں تو پھر اس پروگرام کے LOGICAL CONCLUSION سے کیوں گھبراتے ہیں۔ جہاں متوازی گورنمنٹ کا پروگرام لوگوں میں انقلابی ذہنیت پیدا کرسکتا تھا۔ وہاں اس پالیسی سے گورنمنٹ کی مشینری کو بھی عارضی طورپر فیل فیل کیا جاسکتا تا۔ اس سے ظاہر ہے کہ گاندھی جی کے پروگرام کی نسبت شری سبھاش بوس کا پروگرام نوجوانوں کے لئے زیادہ باعث کشش ثابت ہوسکتا تھا۔ اس طرح جب کانگریس ایک انقلابی طاقت بن جاتی تو حکومت کو بھگت سنگھ اور ان یک ساتھیوں کو پھانسی پر لٹکانے کی کبھی جرأت نہ ہوتی۔ لیکن جرأت نہ ہوتی۔ لیکن جب گورنمنٹ یہ دیکھتی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کا رہنما دہشت پسندوں کی مذمت کررہا ہے۔ تو وہ ایک منٹ سوچے بغیر تمام دہشت پسندوں کو تختہ دار پر لٹکاسکتی ہے۔ کیونکہ اسے اپنے فعل میں ملک کی سب سے بڑی جماعت کی بلاواسطہ یا بالواسطہ حمایت حاصل ہوجاتی ہے۔
چنانچہ گاندھی جی کی تحریک ان دو کمزور بنیادوں پر شروع ہوئی۔ اور تیسری کمزوری نے تو اسے ابتداء میں ہی جڑ سے کھوکھلا کردیا۔ وہ کمزوری تھی۔ حکومت سے مصالحت کی پالیسی۔ ایک طرف ستیاگرہ اور سول نافرمانی کی مہم جاری کی گئی۔ تو دوسری طرف حکومت سے صلح کا دروازہ کھلا رکھا گیا۔ آپ شری سبھاش بوس جیسے انقلابی لیڈر سے ایسی حرکتوں کی توقع نہیں رکھ سکتے۔ وہ ایک مرد مجاہد کی طرح میدان جنگ میں لڑتے لڑتے موت سے بغلگیر ہونا جانتے ہیں۔ لیکن کوئی ہندوستانی ان سے یہ امید نہیں رکھ سکتا۔ کہ وہ دو قدم آگے بڑھ کر فوراً دس قدم پیچھے ہٹنے کیلئے تیار ہوجائیں۔ بس اس بنیادی فرق کے ستھ گاندھی جی کی تحریک شروع ہوئی اور رفتہ رفتہ کافی زور پکڑگئی۔ اس سے نہ صرف انقلابی تحریک کچل ہی دی گئی بلکہ نوجوانوں کے جوش کا رخ SIDE TRACKکردیا گیا اور وہ نمک بنانے کانگریس کے نعرے لگانے اور پکٹنگ کرنے میں مصروف ہوگئے۔
جب گاندھی جی اپنے آشرم سے ستیاگرہ کے لئے روانہ ہوئے تو چند اخبار نویسوں نے آپ سے ملاقات کی۔ جس کے دوران گاندھی جی نے اعلانیہ کہہ دیا کہ میں اپنی تحریک محض اس لئے شروع کررہا ہوں۔ تاکہ ملک بھر میں تشدد کی طاقتوں کو اپنے قابو میں کرلوں۔
یہ اشارہ نہ صرف گورنمنٹ کو ہی بلکہ نوجوانوں کو بھی گاندھی جی کو سمجھنے کے لئے کافی تھا۔ گورنمنٹ خوش تھی کہ ملک کی توجہ جیلوں میں چند سرپھرے نوجوانوں کی طرف سے ہٹ کر نمک بنانے اور پکٹنگ کرنے کی طرف تبدیل ہوگئی ہے۔
گاندھی جی کے اس بیان کے فوراً بعد گورنمنٹ نے مقدمہ سازش لاہور کو جلد از جلد ختم کرنے کیلئے اسپیشل تریبونل مقرر کردیا۔ ادھر گاندھی جی نے نوجوانوں کے جذبات سے کھیلنے کیلئے اعلان کردیا کہ یا تو میں سوراج لے کر واپس آؤں گا۔ ورنہ میری لاش ڈانڈی کے کنارے سمندر میں تیرتی نظر آئے گی۔
بظاہر یہ کتنا دلفریب اعلان ہے۔ لیکن ایسے اعلانوں کی حقیقت جاننے والے ان اعلانوں پر ہنس دیتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ گاندھی جی اور گونمنٹ میں درپردہ مصالحت کے لئے بات چیت کی کوششیں جاری ہیں۔ اورہ وہ دن دور نہیں جب گاندھی جی ناکام اور نامراد واپس لوٹنے والے ہیں۔ اس طرح چلتے چلاتے، نعرے لگاتے، بیان دیتے اور نوجوانوں کے جذبات سے کھیلتے ہوئے 12اپریل کو گاندھی جی ڈانڈی سمندر کے کنارے پہنچ گئے۔
ڈانڈی پہنچنے سے چند روز پیشتر گاندھی جی اعلان کرچکے تھے کہ گورنمنٹ مجھے گرفتار نہیں کرتی۔ اس میں کوئی راز ہے۔ وہاں پہنچنے کے دو دن بعد گاندھی جی نے ایک اور اعلان جاری کیا۔ جس میں درج تھا۔ اگر قانون نمک کی خالف ورزی سے گورنمنٹ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ تو میں اسے نیچا دکھانے کیلئے کوئی اور طریقہ اختیار کرونگا۔ اسی روز ایک تقریر کے دوران گاندھی جی نے فرمایا-:
"مجھے معلوم ہوا ہے۔ کہ کل عورتوں نے پولیس والوں کو گالیاں دیں۔ یہ بہت برا ہے۔ اگر لوگوں نے فساد برپا کیا۔ یا اپنی غلطیوں کی اصلاح نہ کی۔ تو میں آگ میں جل کر مرجاؤں گا۔"
اس وقت نامعلوم کسی نے گاندھی جی سے یہ کیوں نہ پوچھا کہ آپ نے ملک میں امن وامان قائم رکھنے کا ٹھیکہ لے لیا ہے۔۔۔۔۔۔!۔۔۔۔۔۔ فسادات کو روکنا اور دبانا تو پولیس کا کام ہے۔ آپ ملک کے سب سے بڑے نیتا ہیں۔ ملک کی رہنمائی کیجئے اور فسادات کو روکنے کا کام گورنمنٹ کے ذمے چھوڑ دیجئے۔۔۔!
اس اثناء میں ہندوستان بھر میں گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ ملک کے طول و عرض میں پکڑ دھکڑ خوب زوروں پر تھی۔ 40اپریل کو پنڈت جواہر لال نہرو بھی گرفتار کرلئے گئے۔ اسی روز کراچی میں فساد ہوگیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کانگریسی لیڈروں کی گرفتاری سے مشتعل ہوکر ہجوم نے مجسٹریٹ کی عدالت پر حملہ کردیا۔ ان کے کمرے کی کھڑکیاں توڑ ڈالیں۔ اور کاغذآت بکھیر دیئے۔ اس پر پولیس نے گولی چلادی۔ اور گرفتار شدہ لیڈروں کو فوجی پہرہ میں جیل پہنچادیا گیا۔
18اپریل کی رات کو بنگال میں ایک عجیب گھٹنا ہوئی۔ انقلابی نوجوانوں کے ایک مسلح گروہ نے سرکاری اسلحہ خانہ پر چھاپہ مارا۔ اور بہت سارا اسلحہ لے کر فرار ہوگئے۔ اس حادثے کے دو دن بعد دو انگریز اور تین ہندوستانی سرکاری افسروں کو قتل کردیا گیا۔ نیز پولیس اور ریلوے ہیڈ کوارٹروں کو آگ لگادی گئی۔ جب اطلاع ملنے پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ چچٹاگانگ موقع کی طرف روانہ ہوئے تو راستہ میں ان کی موٹر پر بھی فائر کئے گئے۔ اس واقعہ سے سرکاری حلقوں میں سنسنی پھیل گئی۔ چنانچہ 20اپریل کو گورنر جنرل کی منظوری سے تمام صوبہ بنگال میں ایک آرڈیننس نافذ کیا گیا اس کے ذریعے لوکل گورنمنٹ کو بلاوارنٹ گرفتاریاں کرنے اور خاص عدالتوں کے ذریعے مقدمات کی سماعت کا پورا اختیار دے دیا گیا۔ اس سے چند روز بعد پشاور میں بھی لیڈروں کی گرفتاریوں پر فساد ہوگیا۔ اور پولیس کی مشین گنوں سے بیس آدمی ہلاک ہوئے۔ اس حادثے کے متعلق ایک خاص بات یہ تھی۔ کہ جب ہجوم پولیس کے قابو سے باہر ہوگیا۔ تو حکام نے فوج بلالی اور فوجی سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ نہتے ہجوم پر گولی چلائیں۔ لیکن چند گڑھوالی سپاہیوں نے ہجوم پر گولی چلانے سے انکار کردیا اس پر وہ گڑھوالی سپاہی گرفتار کرلئے گئے۔
انہی دنوں پریزیڈنٹ پٹیل نے اسمبلی کی صدارت سے استعفےٰ دے دیا۔ اور وائس رائے کو ایک خط میں لکھا۔
"میں جنگ آزادی سے الگ نہیں رہ سکتا۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے لئے موزوں جگہ کرسی صدارت نہیں بلکہ جیل خانہ ہے۔"
اب حالات دن بہ دن بگڑتے جارہا تھے۔ نوجوان پھر گاندھی جی کے ہاتھ سے نکل رہے تھے۔ ملک کے اس نازک ترین دور میں قوم پرست اخباروں نے نہایت سرگرمی سے حکومت کی مخالفت کی۔ چنانچہ بنگال میں آرڈیننس کے نفاذ کے بعد ہندوستان بھر میں اخبارات کا گلاگھونٹنے کیلئے پریس آرڈیننس جاری کردیا گیا۔
اب سوال یہ ہے کہ چٹاگانگ اور پشاور میں تشدد کے واقعات کا گاندھی جی پر کیا اثر ہوا۔ اس سلسلے میں ایک امریکن جرنلسٹ نے ان سے طویل ملاقت کی جس کے دوران گاندھی جی نے فرمایا-:
"اس میں شک نہیں کہ بنگال میں میرا اثر کمزور ہے۔ میں ہندوستان کی تشدد پسند پارٹی کو قابو میں نہیں رکھ سکا۔ اس پارٹی کو قابو میں رکھنا گورنمنٹ کا فرض ہے۔"
کیا یہ بیان انقلاب پسندوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرنے کے لئے گورنمنٹ کو ایک دعوت تھی۔۔۔۔۔۔!
لیکن 5مئی کو گاندھی جی خود ہی گرفتار کرلئے گئے اور انہیں یرودا جیل میں نظر بند کردیا گیا۔ اس پر ہندوستان کے طول و عرض میں زبردست مظاہرے ہوئے۔ اور شولاپور و دہلی میں گولی چل گئی۔
گاندھی جی کی گرفتاری کے بعد کانگریس ورکنگ کمیٹی خلاف قانون قرار دے دی گئی۔ اور ممبران ورکنگ کمیٹی بھی گرفتار کرلئے گئے۔ اس طرح پنڈت موتی لال نہرو بھی جیل بھیج دیئے گئے۔ لیکن ابھی گاندھی جی جیل میں چند دن ہی رہنے پائے تھے کہ سرتیج بہادر سپرو اور مسٹر جیکر نے گورنمنٹ کے ایماء پر ان سے صلح کی بات چیت شروع کردی۔ چنانچہ وائس رائے کی اجازت سے ہر دو اصحاب نے جیل میں گاندھی جی اور پنڈت موتی لال نہرو سے کئی ملاقاتیں کیں۔
انہی دنوں انقلاب پسندوں نے انسپکٹر جنرل پولیس بنگال اور سپرنٹنڈنٹ پولیس ڈھاکہ پر گولی چلادی۔ اور سرچارلس ٹیگارٹ پولیس کمشنر پر بم پھینکے۔ ادھر بنگال میں یہ واقعات ہورہے تھے۔ ادھر سرحد میں آفریدیوں نے گڑبڑ مچادی اور کچھ عرصہ تو پشاور کے گردونواح میں ان کی سرگرمیاں تشویشناک حد تک پہنچ گئیں۔ ماہ اگست میں پشاور پر حملہ آور آفریدیوں کے ایک لشکر پر برطانوی ہوائی جہازوں نے زبردست بمباری کی۔
ان دنوں مقدمہ سازش لاہور کیس کا فیصلہ سنادیا گیا۔ اور سردار بھگت سنگھ۔ راجگورو اور سکھدیو کو پھانسی کی سزا ملی۔ غرضیکہ دونوں طرف سے تشدد کا زور تھا ہر روز نت نئی بم پھٹنے کی واردات ہوجاتی تھی۔ ادھر سرکاری ترشدد بھی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ کئی شہروں میں ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے لاٹھی چارج اور فائرنگ ہوئے۔ ادھر ہمارے کانگریسی نیتاگورنمنٹ سے مصالحت کی کوشش کررہے تھے۔ آئرلینڈ میں آزادی ہند سے ہمدردی رکھنے والوں کا ایک جلسہ ہوا۔ کارروائی کے آغاز میں صدر کی طرف سے ایک ریزولیوشن پیش کیا گیا۔ جس میں برطانوی ملوکیت پرستی کیخلاف ہندوستان کی جنگ آزادی سے آئرلینڈ کی یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ اور ہندوستانیوں کو یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ برطانوی سیاستدانوں کے جھانسوں میں نہ آئیں۔ اور مکمل آزادی سے کم کوئی چیز قبول نہ کریں۔ آئرش شہید میکسوینی کی سپتری نے تقریر کرتے ہوئے کانگریس لیڈروں کو انتباہ دیا کہ "مصالحت کی پالیسی مہلک ہے۔ آدھی آزادی کوئی چیز نہیں۔"
اس طرح آئرش دیش بھگت ہندوستانیوں کو سمجھوتہ نہ کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ لیکن ہندوستان سے چند "ٹوڈی اور جی حضوریے"گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے روانہ ہوگئے۔ چونکہ کانگریس سے سمجھوتے کی بات چیت ابھی سرے نہ چڑھی تھی۔ اس لئے پہلی گول میز کانفرنس میں کانگریس کے نمائندے شریک نہ ہوئے۔
8دسمبر کو بنگال میں ایک اور سیاسی قتل ہوا۔ تین بنگالی نوجوانوں نے انسپکٹر جنرل جیل خانہ نجات لفٹیننٹ کرنل سمپسن کو ان کے دفتر میں داخل ہوکر گولی سے اڑادیا دو حملہ اؤر اسی جگہ خودکشی کرکے مرگئے۔ لیکن تیسرا نوجوان ونیش گپتا موقع پر ہی گرفتار کرلیا گیا۔ نامعلوم اگر ہمارے نیتا گاندھی جی جیل سے باہر ہوتے تو وہ اس قتل کی کن الفاظ میں مذمت کرتے۔ لیکن لندن کے ایک اخ۶ار "مانچسٹر گارڈین" نے اس سلسلے میں رائے زنی کرتے ہوئے جو کچھ لکھا وہ قابل غور ہے۔
" دلیل دی جائے گی کہ کرنل سمپسن کے قتل سے اس بات کی ضرورت ظاہر ہوتی ہے کہ قانون اور انتظام برطانوی ہاتھوں میں رہنا چاہیے۔ لیکن درحقیقت اسے ہندوستان کے عام مسئلے سے کوئی تعلق نہیں۔ جب تک قوم پرست ہندوستانیوں میں شکوہ کرنے کی سمجھ ہے۔ دہشت انگیزی کے طریق استعمال ہوتے رہیں گے۔ چاہے قانون اور انتظام کا ذمہ دار کوئی بھی کیوں نہ ہو۔ حکومت کی بے انصافی سے دہشت انگیزی کو زندگی ملتی ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستان سے بے انصافی کا فاتحہ پڑھ دیا جائے۔"
شری سبھاش بوس ان دنوں جیل سے باہر تھے۔ اس واقعہ کے متعلق کارپوریشن کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے آپ نے کہا۔
"اس قسم کے واقعات موجودہ پرامن تحریک کی ناکامی کا ثبوت دیتے ہیں۔" اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ نوجوان گاندھی جی کا ساتھ دینے کوتیار نہیں، اور کہ انہیں گاندھی جی کی لیڈر شپ میں اعتماد نہیں۔
23دسمبر کو پنجاب یونیورسٹی کانووکیشن کے سلسلے میں گورنر پنجاب طلباء کو ڈگریاں دینے کیلئے گئے۔ ایک نوجوان ہری کشن نے ان پر ریوالور سے فئار کئے۔ جس سے گورنر پنجاب تو بال بال بچ گئے۔ لیکن ایک سب انسپکٹر پولیس مرگیا۔ اس واقعہ سے ہندوستان بھر میں سنسنی پھیل گئی۔

(جاری ہے )
***


Share this Post :

Post a Comment

Comments

News Headlines :
Loading...
 
Support : Copyright © 2018. BV Baloch Voice - All Rights Reserved