Translate In Your Language

New Videos

سیاسی موبلائزیشن ,, جلال بلوچ

سیاسی موبلائزیشن ,,  جلال بلوچ

سیاسی عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنا اور سیاسی مقاصد حاصل کرنا ہر تنظیم کا نصب العین ہوتا ہے۔غلام ، قبائلی اور نیم قبائلی سماج جہاں لوگ شخصیات کے شکنجے میں جھکڑے ہوئے ہوتے ہیں ایسے معاشروں میں اثر و رسوخ چونکہ شخصیات کا ہو تا ہے جس کی وجہ سے سیاسی حوالے سے لوگوں پہ جمود کی سی کیفیت کا طاری ہونا فطری عمل ہے ۔ ایسے ماحول میں انقلابی بنیادوں پہ لوگوں کو متحرک کرنا یقینامشکل عمل ہوتا ہے جہاں روایات اورعقیدے کو نظریا ت پہ ترجیح دی جائے۔لیکن وقت کی رفتار اور حالت بدلتی ہے اور عوام میں سے ہی چند ایسے افراد اس سماجی خول سے نکلنے میں کامیاب ہوتے ہیں جو سماجی ارتقاء کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہے سماج کے اندر یہیں سے جدلیاتی عمل شروع ہوتاہے جو جمود کے شکار معاشرے کو ترقی کی راہ پہ متحرک کرنے کا بنیادی وجہ بنتی ہے۔اور یہیں سے نئی سیاسی سوچ پروان چڑھتی ہے جو آگے چل کے معاشرتی اور سیاسی ترقی کی راہیں ہموار کرتی ہیں۔
سیاسی عمل میں اسی جمود کو توڑنے کا عمل یا موبلائزیشن ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے ۔ انقلابی اور سیاسی تحریکوں کی کامیابی کا سارا دارومدار عوام پہ ہوتا ہے کیونکہ عوام ہی سب بڑی طاقت ہوتی ہے ۔جہاں اور جس سماج میں سیاسی جماعتیں عوام کو اس کے صحیح مقام پہ رکھ کے اور انہیں سیاسی مقاصد کے لیے متحرک کرنے کے عمل کو بنیادی اہمیت دیں توانہیں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا،جبکہ ان معاشروں کو ہمیشہ ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں عوام کو پس پشت ڈال کے شخصی سیاست کے ذریعے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سیاسی عمل میں کام کی ربط اور تسلسل کاسارا دارومدار سیاسی موبلائزیشن کے سہرا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ کسی بھی سیاسی کارکن کے لیے ضروری ہے کہ وہ موبلائزیشن کے عمل کے خد وخال کو سمجھے جس میں اسکی اضرورت ،اہمیت اور طاقت، اصول اور طریقہ کار وغیرہ ہیں انہیں سمجھنے کے بعد سیاسی عمل کا پہیہ کامیابی سے منزل کی جانب رواں ہوتی ہے۔آگے چل کے ہم موبلائزیشن کے ان خدو خال پر تفصیلی روشنی ڈالنے کی کوشش کرینگے۔
Mobilisationموبلائزیشن کی تعریف
1:۔موبلائزیشن ایک عمل ہے جس کے تحت لوگوں کو شعوری بنیاد پہ ان کے حقوق و فرائض کا احساس دلایا جاتاہے ۔
2:۔موبلائزیشن ایک لانگ ٹرم پراسس long term procesہے جس کے تحت لوگوں کو شعوری و فکری بنیاد پر ایک پلیٹ فارم کے تحت جہدِعمل کے لئے آمادہ کرنا ہے ۔
3:۔ موبلائزیشن سے مراد جمود کے شکار سماج کو مقاصد حاصل کرنے کے لیے متحر ک کرنا۔
بات ہورہی ہے موبلائزیشن کی تو درج بالا تعریفوں سے جس امر کی نشاندہی ہوتی ہے ،وہ یہ ہے کہ لوگوں کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے آمادہ کرنا۔ کیونکہ کسی بھی سیاسی جماعت کو جو انقلابی بنیادوں پہ کام کرنا اور اپنے مقاصد حاصل کرنے ہوں وہ عوامی طاقت اور اہمیت سے بخوبی آگا ہوتے ہیں اورانہیں اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ عوامی تعاون اور یکجہتی کے بغیر وہ مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتے ، انہیں اس بات کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مقاصد کے حصول ،سیاسی ساخت کو مضبوط بنانے اور تنظیم کی جڑہوں کو عوامی سطح پہ پیوست کرنے میں موبلائزیشن کیوں ضروری ہے؟انہیں اس بات کا ادراک بھی ہوتا کہ سیاسی عمل میں قدم قدم پر جماعت کو قوتِ مخالف سے مزاحمت کرنا پڑیگا۔کامیابی کی کنجی چونکہ اس جماعت کے حصے میں آتی ہے جس کے ساتھ عوامی قوت ہو۔عوامی قوت کو یکجاء کرنے کے عمل کوسیاسی تنظیمیں جو پیشہ ورانہ ہوتے ہیں بخوبی جانتے ہیں کہ یہ ایک Long Term Process ہے اسی لیے دنیا میں وہی سماج کامیاب ہوئے ہیں جنہوں اس صبر آزما ء عمل کوجانچتے، پرکھتے اور سمجھتے ہوئے ثابت قدم رہیں۔ ذیل میں ہم وقتاٌ فوقتاٌ اس کے چیدہ نکات پہ روشنی ڈالیں گے۔لیکن اس سے اگر ہم ڈاکٹر مبارک علی کے ان خزینہ الفاظ پہ غور کریں تو تبدیلی کے تمام محرکات کوسمجھنا سہل ہوتا ہے۔ کہ
"مزاحمتی تحریکیں کامیاب ہوں یا ناکام، ان کے سماج پر گہرے اثرات ہوتے ہیں۔اوال یہ سماج کے جمود کو توڑ کر مایوسیوں کا خاتمہ کرتی ہیں۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب لوگ تبدیلی سے نا امید ہوجا تے ہیں ایسے ماحول میں یہ اس احساس کو دور کرتی ہے۔ حالات کبھی تبدیل نہیں ہونگے یا ظلم و نا انصافی کی جڑیں اسی طرح سے سماج کے نظام میں پیوست رہیں گی۔ مزاحمتی تحریکیں لوگوں میں حوصلہ ، جذبہ اور جوش پیدا کرتی ہیں۔ اور اس کا دوسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ مسائل جن کے بارے میں لوگوں کی معلومات یا تو کم ہوتی ہیں ، تحریک کے ذریعے وہ مسائل سامنے آتے ہیں۔ لوگ ان کی اہمیت سے واقف ہوتے ہیں، ان میں مسائل کے حل کا شعور آتا ہے"۔
موبلائزیشن کی ضرورت کیوں؟ Why Mobilisation?
1:۔ عوام ہی سب سے بڑی طاقت :۔
دنیامیں اگر بات طاقت کی کی جائے، تو عوامی طاقت ایک ایسی طاقت ہوتی ہے جس کے سامنے کوئی بند باندھا نہیں جاسکتا۔عوام ہی وہ طاقت ہوتی ہے جو کسی بھی ہمالیہ کو سر کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔دنیا میں جہاں بھی کامیاب تحریکیں چلی ہیں ان کے پیچھے عوامی طاقت کارفرما ہوئی ہیں، وہ چاہے چینی تحریک آزادی میں لاکھوں افراد کا۹۰۰۰ کلومیٹر لانگ مارچ ، ویتانامیوں کا امریکہ مخالف جذبہ اور اس کے خلاف تحریک سے اظہار یکجہتی اور اسی جنگ میں امریکی عوام کاوہ تاریخی احتجاج جو انہوں نے ویتنامیوں کے ساتھ مل کے اپنے ہی ملک کے خلاف کیابعدمیں جو امریکی فوج کی پسپائی کی ایک بڑی وجہ بنی۔یا بنگالیوں کا پاکستان کے خلاف اپنی آزادی کی جنگ میں وہ جذبہ حب الوطنی جس میں ۳۰ لاکھ انسان اپنی آزادی کی خاطر قربان ہوئے اور آج ان کی انہی قربانیوں کے صلے میں ان کی سرزمین دنیا کے نقشے میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی۔ ان کے علاوہ جہاں کہیں بھی آزادی کی تحریکیں اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے وہاں ان کے رکھوالوں کو اس بات کا بخوبی ادراک ہوا ہوگا کہ کسی بھی تحریک کی کامیابی کا دارو مدار عوام کے سر ہوتا ہے۔
منزل تک کامیابی سے پہنچنے کے لیے آج بلوچ جد و جہد میں برسر پیکار جہد کاروں کو سب سے زیادہ عوام کی جانب اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیے اور عوام کو دشمن کے خلاف ذہنی طور پہ مسلح کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کیونکہ آج اگر عوام ذہنی اور نظریاتی حوالے سے مسلح ہوگا تو آنے والا وقت جو یقیناًآج کے دور سے زیادہ پر آشوب ہوگا جو آج کی نسبت زیادہ قربانیوں کی امید کرتا ہوگا تب جا کے ہی وہ تحریک کی خاطر کسی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرینگے ۔لہٰذا آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عوامی طاقت کو سمجھ ، جانچ اور پرکھ کے عوام کو متحرک کریں اور انہیں ہی تحریک کی کامیابی کا اہم ستون گردانے کیونکہ تحریک کی کامیابی کا سارا دارومدار ہی عوام کو موبلائز کرنے کے عمل سے وابستہ ہے۔ورنہ ماضی پھر سے خود کو دہرائی گی بلکہ اس بار اگر خدانخواستہ ہمیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو ممکن ہے کہ ہم اپنے قومی شناخت سے بھی ہاتھ دو بیٹھیں۔
2:۔عوام کوحقیقت سے روشناس کیا جائے ۔
"سقراط کا جرم یہ نہیں تھا کہ وہ سوچنا جانتاتھا اور اس کی سوچ خطرناک تھی۔ اس کا قصور یہ تھا کہ وہ سوچنا سکھاتا بھی تھا۔ اس کے زیر اثر ایتھنز کے نوجوان اپنے زنگ آلود عقائد اور دیمک زدہ روایات پر سوالات اٹھانے لگے تھے۔ عقائد اور روایات پر جب ضرب پڑتی ہے تو حکمرانوں کے ایوان ضرور لرزتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ سقراط کو زیر کا پیالہ پینا پڑا۔ مگر اس سے پہلے وہ ایسی دانش گاہ قائم کرچکا تھا جس کے فیض سے افلاطون اور ارسطو نے جنم لیا، جن کے خیالات اور افکار اگلے ڈیڑھ ہزار سال تک ہر انسانی علم ، سوچ اور فن کی بنیاد ٹھہرے"۔
ہر انقلابی سیاسی موبلائزر خوداپنی ذات میں سقراط ہوتا ہے جس طرح سقراط نے عوام کو سوچنا سکھایا جسکی پاداش میں اسے زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ غلام اور فرسودہ معاشرے میں قبضہ گیر اور اشرافیہ کی وجہ سے جہاں روایات جڑ پکڑ چکی ہوتی ہیں وہاں عوام کو حقیقت سے روشناس کرانے میں یقیناًسیاسی کارکنوں کو شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات ان سقراطی ذہنوں کواپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے ۔ذہنی اور نظریاتی طور پہ پختہ قومی جذبے سے سر شار سیاسی کارکن اپنی زندگی کو اپنے عظیم مقصد پہ قربا ن کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ کیونکہ وہ اس بات کی اشد ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ قوم کو حقیقت سے روشناس کرایا جائے، وہ حقیقت نو آبادیاتی ریاستوں میں عوا م کو غلامی کا احساس دلانا، انہیں قبضہ گیر کے مقاصد سے آگاہی دلانا، طبقاتی نظام میں اشرافیہ کے مقاصد، عوام اور عوام کو پسماندہ رکھنے کی وجوہات ، سماج کومنتشر کرکے عوامی ذہنوں کو محدود رکھنا اور ان کے سوچنے کی صلاحیت کو گھٹانے جیسے عمل یاعوام کو بشر سے حیوان بناکے انہیں اپنی رعیت سمجھنا الغرض سماج اور عوامی استحصال کے تمام پہلووں سے انہیں روشناس کرانا تاکہ انہیں اپنی راہوں کا تعین کرنے میں کسی قسم کی دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑیں۔
3:غصبِ حقوق کا احساس دلانا:۔
قبضہ گیر ذہنیت جہاں اور جس معاشرے میں ہو ں ان کے مفادات یکساں ہوتے ہیں، وہ چاہے عوام کا مالی استحصال ہو جہاں انکی دولت اور بیش بہا خزانوں سے حقیقی باشندوں کو محروم کرکے ان سے اپنے لیے تاج محل ، قطب مینار یا سرائے رائیونڈ بنانااورجن کی دولت لوٹی جارہی ہو انہیں بارشوں میں ٹپکتا ہوا چھت بھی نصیب نہ ہو،جسکی واضح مثال بلوچستان میں بلوچستا ن کے بیش بہا خزانے جیسے گیس، سونا، کوئلہ، سنگ مرمر،فولاد اورسینکڑوں قسم کی مدنیات کی لوٹ مار شامل ہیں۔ اس سر زمین کے حقیقی باشندوں کو انسانیت سے کچھ اس طرح گرانا کہ ان کے بچوں کو جنہیں آباد کار جب چاہے دہشت گرد کا نام دے کر شہید کرناجیسے معصوم چاکر جان ، شیر خوار بختی اور نہ جانے کون کون ،اور جو بچ جائیں انہیں چار لفظ پڑھانے کے لئے استاد نہ ہوں ، اگر کہیں غلطی سے کو ئی فرشتہ صفت انسان ، انسان کو انسان سمجھتے ہوئے آ بھی جائے تو تپتی دھوپ میں بیٹھنے کے لیے کہیں سایہ درخت نصیب نہیں اور اگر وہ اپنی قوم کو ہر حالت میں جہالت سے نکالنے کا تہیہ کر لیں تو انجامِ شہید صباء ، شہید استاد علی جان،شہید ماسٹر مقصود جان اور دیگر بلوچ اساتذہ کی شہادت کی صورت میں قوم کو نصیب ہوتی ہیں۔اور دوسری جانب آبادکاروں کے طفلِ بے گناہوں کے لیے کیمبرج ، پریسٹن اور انفارمیشن ٹیکناولوجی کے درسگاہوں کی تعمیرتعلیم کے نام پر انسانی استحصال کی بدترین شکل ہیں۔ان کے علاوہ جو سب سے اہم اور بنیادی بات جو عوامی استحصال کی وجہ بنتی ہے وہ اقتدارِ اعلیٰ کا غصب ہو نا۔ ایسی حالت میں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ نقلابی کارکن عوام الناس کی صحیح سمتوں میں راہنمائی کرکے انہیںیہ احساس دلادیں کہ ان کے حقوق کہاں اور کیسے غصب کی جارہی ہیں اور انہیں کیسے حاصل کی جاسکتی ہیں تا کہ عوام متحرک ہو ں اور سیاسی عمل میں سیاسی کارکنوں کے شانہ بشانہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرسکیں ۔
4:۔درست سمت میں عوام کی رہنمائی :۔
جب تک راہوں کا تعین نہ ہوں سیاسی عمل پروان نہیں چڑھ سکتی اور اگر راہ واضح ہو تو عوام کو مقصد کے لیے موبلائز کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی ۔ اگر سمت ہی درست نہ ہو،وہ سمت چاہے مقصد کے حوالے سے ہو یا موبلائزیشن کے اصوالوں کے حوالے سے تو سماج میں بسنے والوں کو متحرک کرنا ممکن ہی نہیں اور جب عوام کو صحیح معنوں میں موبلائزنہ کیا جائے تو ان کے لیے مقاصد حاصل کرنے میں کامیابی ناممکنات میں سے ہوتی ہے۔کسی تحریک کے لیے حد درجہ لازم ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے عوام کو وقت و حالات کے مطابق ہمہ وقت تیارکرکے عمل کا حصہ بنائیں ۔بلوچ سماج میں قوم کے ساتھ ماضی میں سیاست اور حقوق کے نام پہ ہونے والے دھوکہ دہی ثابت کرتا ہے کہ ماضی میں بلوچ اپنے اہداف جو حاصل نہ کرسکا وہاں بھی یہی ناکامی کی وجوہات بنیں کیونکہ ہم مقصد کے حوالے سے اپنی راہوں کا صھیح تعین نہ کرسکے تھے ، کبھی ون یونٹ کا خاتمہ ، کبھی صوبائی خودمختیاری تو کبھی سوشل ازم کے نعروں سے عوام کو تاریکی میں رکھتے گئے اور سب سے بڑھ کر عوام کو منظم کرنے کے لیے تنظیم سازی کے عمل کو پس پشت ڈالنا اور شخصیت پرستی کو پروان چڑھانا، جس سے عوام میں احساس غلامی کا جذبہ نہ ابھر سکا۔
5:۔ احساس ذمہ داری : ۔
موبلائزیشن کے عمل کے ہی ذریعے لوگوں میں قومی ذمہ داریوں کا احساس ابھرتا ہے جس سے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے جمود کا شکار معاشرہ عمل کا حصہ بنتی ہے۔ کیونکہ کسی بھی تحریک کی کامیابی عوام کو ذمہ داریوں کا احساس دلانے اور انہیں متحرک کرنے سے وابستہ ہے ۔لہٰذا عوام کو ان کے فرائض اور ان کی ذمہ داریوں کا ہر وقت اور تحریک کے ہر مرحلے پہ احساس دلایا جائے تا کہ مقاصد کے حصول میں دشواریوں سے گلوخلاصی ممکن ہوں ۔
6:۔ تنظیم کی ساخت بہتر ہو۔
جسطرح کسی ذی روح کو متحرک کرنے کے لیے ریڑھ کی ہڈی بنیادی کردار ادا کرتی ہے ۔ اسی طرح کسی تنظیم کی ساخت کو فعال بنانے کے لیے موبلائزیشن کا کردار بھی وہی ہوتا ہے جو انسانی جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی ہوتی ہے ۔تنظیم اگر فعال ہوگی تو اندرون اور بیرون ملک مقاصد کے حصول کے لیے کام کرنے اور لوگوں کو متحرک کرنا سہل ہوگا اور اگر تنظیم غیر منظم ہو تو ہمیشہ پیچید گیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے مقصد کی راہ میں خلل پڑتی ہے ۔ لہٰذا تنظیمی ساخت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ موبلائزیشن کے علم کو پروان چڑھایا جائے ۔
7:۔لوگوں کو ایک پلیٹ فارم کے تحت یکجا کرنا ۔
درج بالا سطورجن میں عوامی طاقت کی اہمیت اور مقصد کو حاصل کرنے کا اہم ستون، انہیں حقیقت سے روشناس کرانا، ان کے حقوق کا احساس دلانا، بات ہو عوام کو درست سمت دینے یا انہیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی ،اگر جائزہ لیا جائے تو ان میں ان راہوں کا تجزیہ کیا گیا ہے جو کسی تنظیم کی مضبوطی اور عوام کو تنظیمی پلیٹ فارم پہ لانے کے لیے ضروری ہیں ۔اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں ہندوستانی سماج جو ذات پات میں بٹی ہوئی سماج تھی میں وہ تمام کمزوریاں نظر آتی ہے جو ان کو کسی ایک پلیٹ فارم کے تحت یکجا ء کرنے میں رکاوٹ تھیں۔اسی لیے انہیں ۷۱۲ء عربوں کے حملوں سے لیکرجو ہندستانی سماج پہ آرین حملوں کے بعد قبضہ کرنے کی پہلی کڑی تھی، جہاں کچھ ہی عرصے میں ملتان تک کا علاقہ ان کی دسترس سے چلاگیا جو آگے چل کے ، غزنوی، خلجی، لودھی ، سوری ، مغل اور انگریزوں کی آماجگاہ بن گئی۔اس کے علاوہ روسی، زارانِ روس کے ظلم و جبر کے باوجود اس ظلم سے جلدی چھٹکارہ پانے میں کامیاب نہ ہوسکے، یا ویتنامی ۱۷ء صدی سے غیروں کی تیمارداری کرتے رہے ۔ ایسا بھی نہیں کہ ان حالات میں انہوں نے اپنی آزادی کے لیے جد و جہد نہیں کی۔ تحریکیں تو اس دور میں بھی چلتی رہی پر مختلف غیر منظم گروہی صورتوں میں جہاں عوام کو کسی ایک پلیٹ فارم پہ لانے کی بنیادی اہمیت ثانوی حیثیت اختیار کر گئی جو ان تحریکوں کی ناکامی کی بنیادی وجہ تھیں۔ اور جوں ہی ان معاشروں میں جمود ٹوٹا جو عوام کو یک پلیٹ فارم د لانے کی وجہ بنی وہ اپنی منزل کی جانب کامیابی سے چل پڑیں۔
دیگر معاشروں کی طرح اگر ہم بلوچ سماج کا جائزہ لیں تو ماضی میں اپنی ریاست کو مضبوط نہ کرنے کی وجوہات(جیسے سرداروں کی حیثیت جدا عوام کی جدا، اور پھر ان سرداروں میں بھی ان کے اختیارات میں فرق ، قومیت سے زیادہ قبائلیت کو پروان چڑھانے کی یہ پالیسی)یا آباد کاروں کے خلاف تحریک میں ماضی کے فارمولے پہ جن میں تنظیمیوں کو پسِ پشت ڈال کے شخصیت پرستی کو پروان چڑھائی گئی جو عوام کو ایک پلیٹ فارم مہیاکرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔
گزشتہ تجربات اور دنیا سے آشنائی نے آج بلوچ کی سوچ بدل دی ہے اور وہ اس بات کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں کہ جب تک ہم کسی ایک سیاسی پلیٹ فارم جو عوام کے ساتھ کے ان کے شانہ بشانہ، سیاسی اصولوں کو ذات پہ ترجیح دیکرکام نہیں کریں گے تب تک اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب و کامران نہیں ہونگے اسی لیے آج بلوچ تحریک اب ان فرسودہ روایات کو خیر باد کہہ کے آگے بڑھ رہی ہے، سماج سے یہ بغاوت عوام کو کسی ایک پلیٹ فارم پہ لانے کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے ۔ایسا بھی نہیں کہ اس راہ میں روڑے اٹھکانے والے نہیں پر اس انقلاب کو جو آج پک کے لاوا بن چکاہے روکناکسی صورت ممکن نہیں۔آج بلوچ نیشنل موومنٹ عوام کے ساتھ مل کے عوامی تحریک کی کامیابی کے لیے عوام کو سیاسی پلیٹ فارم پہ لانے کی انتھک کوششیں کررہی ہے ۔جس میں آج وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئی ہے جوگوادر سے لیکر کوہِ سلیمان اور بیرون ملک بلوچوں کا بڑے پیمانے پر بلوچ نیشنل موومنٹ میں شرکت اور مقصد کو آگے لے جانے کی جد و جہدسے ظاہر ہوتاہے۔
موبلائزیشن کی طاقت/ اہمیت Power of Mobilization
1:۔ جمود کو توڑنے کا ذریعہ :۔
تحریکوں کی کامیابی کا تعلق اس بات سے وابستہ ہوتی ہے کہ عوامی اور بین القوامی سطح پہ تحریک کے کارکن تحریک کی کامیابی کے لیے موبلائزیشن کی اہمیت سے واقف ہوں اور انہیں اس بات کا ادراک ہوناچاہیے کہ عوام کے جمِ غفیر کو یکجا کرنے اور جہدِ مسلسل کے لیے آمادہ کرنا موبلائزیشن کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ کسی بھی تحریک میں موبلائزیشن کی اہمیت سے روگردانی ممکن نہیں کیونکہ موبلائزیشن ہی وہ عمل ہے جو جمود کو توڑ کے لوگوں کو اپنے حقوق کے لئے جہدِمسلسل پہ آمادہ کرتی ہے ۔
2:۔سیاسی بیداری کاجذبہ اجاگر ہونا:۔
خوابِ غفلت کا شکار کسی بیمار معاشرے کا علاج سیاست کا لقمانی علاج یعنی موبلائزیشن کے ذریعے ہی ممکن ہے جس میں سیاسی کارکن اجتماعی سوچ کے ذریعے علاج کرتے ہوئے سماج میں ایسی حرارت پیدا کرتا ہے جس سے عمل کے اس محدود دائرے کو اتنی وسعت ملتی ہے جو ہر فرسودہ نظام اور غلامی سے نجات کا ذریعہ بنتی ہے۔سیاسی بیداری کے اسی جذبے کے تحت لوگ تحریک کی شجر کاری کرتے ہیں جس سے تحریک بلندیوں کی ہمالیہ سرکرتا ہوا تعمیر و ترقی کی راہیں کھولتی ہیں۔
3:۔اقوام کی تقدیر بدلنے کا سہرا موبلائزیشن ہی کی مرہونِ منت ہے ۔
جد ت جسے کسی زمانے میں وہ سماج بھی قبول نہیں کرتے تھے جو آج آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہیں ، جن میں اگر ہم یورپ کے عہد سطیٰ کے زمانے کو دیکھیں جہاں یورپ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا ۔اپنی اسی جہالت کی وجہ سے انہوں نے گلیلو جیسے فلاسفرکو بھی کوسولی پہ چڑھایا۔ لیکن گلیلو اور ان جیسے نہ جانے کتنوں کو یہ احساس تھا کہ جب تلک عوام تک صحیح معنوں میں پیغام نہ پہنچایا جائے یا جب تک عوام کی سوچ میں میں بنیادی تبدیلی نہ لائی جائے توانسان کی تقدیر نہیں بدلے گی ۔ اور آج ان عظیم ہستیوں جن میں گلیلو، جس کی وجہ سے سائنس کے میدان میں انقلاب برپا ہوا، سپارٹکس جن کی قربانی یورپ میں غلامانہ سماج کی جڑیں کھوکھلا کرنے کا سبب بنی ا ور نہ جانے کتنے جان نثاروں کی معاشرتی جمود کو توڑنے کی محنت اور لگن سے آج دنیا کے کتنے اقوام آسمان کی بلندیوں پہ پہنچے ہونگے ۔ اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے نہ جانے اور کتنوں نے موت کوبخوشی گلے لگایاہوگا اورماضی قریب میں دنیا میں کوئی "ماؤ "اور اس کے ساتھیوں کی طرح اپنے آپ پہ تکلیفیں برداشت کیں توبنیادی وجہ یہی تھی کہ انہیں عوام کو متحرک کرنے کی اہمیت اور مقصد میں کامیابی کے لیے عوامی ہمراہ داری کی اہمیت کا ادراک تھا۔اور بلوچ جہد میں بلوچ تحریک سے وابستہ تحریک کے کارکنان وہ چاہے شہید غلام محمد بلوچ ،شہید ڈاکٹر منان بلوچ، شہید رسول بخش مینگل ،شہید اکبر خان، شہید بالاچ، شہید لالا منیر، شہید شیر محمد، شہید رضا جانگیر،شہید حاجی رزاق بلوچ، شہید کریم جان،شہیدحمید شاہین، شہید رحمت شاہین،شہید مجیداول و ثانی، شہید قمبرچاکر، شہید علی شیر کرد اور ان جیسے ہزاروں فرزندوں کی قربانی ہوں جو انہوں نے بخوشی قوم پہ قربا ن ہونے کے لیے جانوں کے نذرانے دیے۔۔انہیں لہو بہانے سے عوام کو متحرک کرنے کی اہمیت کا بخوبی اندازہ تھا، یا عقوبت خانوں میں ذاکر جان، زاہد کرد، غفور جان، ڈاکٹر اکبر مری اور ہزاروں فرزندوں کا خود پہ سہنے والی جسمانی اور ذہنی اذیتیں" ماماقدیر، بانک فرزانہ ، بانک سمی، ننھا علی حیدر" اور ان کے کارواں میں شامل ہستیاں جو خود پہ اذیتیں سہہ رہی ہیں یا تحریک سے وابستہ دیگر بلوچ ، آج اگر تحریک کو عوامی اور بین الاقوامی سطح پہ پذیرائی ملی ہے یہ سب انہی سیاسی ہستیوں کی سیاسی کوششوں کا نتیجہ ہے ۔
سیاسی موبلائزیشن کے اُصولPrinciples of Mobilisation
کوئی بھی تحریک اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتاجب تک عوامی اور بین القوامی سطح پہ اس تحریک کے پاس موبلائزیشن کا کوئی موثر نظام نہ ہو۔ تحریک کی کامیابی کا سارا دارومدار عوامی اور بین القوامی سطح پہ اس کی مقبولیت سے وابستہ ہے اور عوام کو متحرک کرنے کا سارا دارومدار سماجی جمود کو توڑنے یا عوام کو موبلائزکرنے سے وابستہ ہے لہٰذا ضروری ہے کہ تحریک سے وابستہ افراد موبلائزیشن کے اصوالوں سے بلد ہوں ورنہ کام میں ربط یا کام میں مہارت نہ ہونے کی وجہ سے تحریک کو عوامی اور بین القوامی سطح پہ وہ مقبولیت نہیں ملتی جس کی توقع کی جارہی ہوتی ہے جس سے ممکن ہے کہ تحریک پہ جمود کے بادل چھاجائیں۔
ذیل میں موبلائزیشن کے اصولوں پہ نظر ڈالتے ہیں۔
1:۔مشاہداتی دورانیہ :
پولیٹیکل ورکر کوجب کسی ایسے علاقے میں جہاں کے بارے میں انہیں یا اسے آگاہی نہ ہومشاہداتی عمل کے تجربے سے گزرنا پڑتا ہے ۔مشاہدہ کرنا سیاسی موبلائزیشن کا بنیادی اصول ہے ۔اس عمل کو پس پشت ڈال کے کوئی بھی سیاسی کارکن اپنے مقاصد حاصل نہیں کرپاتا۔ سیاسی موبلائزیشن کے عمل میں مشاہدہ کرنے کے دو اہم طریقہ کار ہیں ۔
۱: ۔ قومی سیاسی پارٹیوں کا محور خاص تحریک میں جس کے لیے جد و جہد کی جارہی ہوتی ہے قوم ہوتاہے۔قومی بنیاد پہ سیاست کرنے کی وجہ سے پارٹی میں قریباٌ ہر علاقے کے لوگوں کی نمائندگی ہوتی ہے ۔اس لیے سیاسی پارٹیاں مشاہدہ کرنے کے پہلے مرحلے میں اپنے پروفیشنل اور Core کمیٹی کا اجلاس بلا کے ان علاقوں کی صورتحال کا مشاہدہ کرتے ہیں جہاں انہوں نے کام کرنا ہوتاہے۔
۲:۔ مشاہدے کا پہلا مرحلہ مطلوبہ معلومات جو موبلائزیشن کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ہوتاہے،مطلوبہ معیار پوری نہیں کرسکتی اسی لیے مطلوبہ معلوتات کو حاصل کرنے کے لیے دوسرا مرحلہ جہاں سیاسی ورکر کو کام کرنے کے لیے علاقے مختص کی جاتی ہیں انہیں وہاں جا کے عملی طور پہ سماج کا مشاہدہ کرنا ہوگاتا کہ مطلوبہ عمل میں دشواریوں کا سامنا نہ کرناپڑیں۔
2:۔پولیٹیکل ایکٹیوسٹ کی تلاش :
کسی پارٹی کی ساکھ کے لیے موبلائزیشن کا یہ عمل انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔اکثر و بیشتر سیاسی ورکر کو سیاسی رضا کار علاقائی مشاہدے سے مل جاتا ہے یا کبھی کبھار ذاتی جان پہچان یا کسی سیاسی ہمراہ کی نشاندہی سے مل جاتا ہے۔سیاسی ورکر کو سیاسی رضا کارکی خصوصیات ،اسکی اہمیت اور تنظیم کی ساخت میں اس کے کردار سے بخوبی آگا ہ ہونا چاہیے کیونکہ آگے چل کے اسی رضاکار نے تنظیم کے عملی کام میں براہ راست شرکت کرنا ہوتا ہے۔سیاسی کارکنان کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ بعض لوگ اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے پارٹی کارکنا ن یا پارٹی کی ہمراہی کرتے ہیں ۔اگر اس مرحلے میں سیاسی رضا کی بجائے کوئی مفاد پرست آجائے تو اس سے سیاسی تنظیم کی ساخت شدید متاثر ہوتی ہے۔ یہ عمل عموماََان علاقوں میں کی جاتی ہے جہاں پہلے سے پارٹی کی سیاسی سرگرمیاں نہ ہو ںیاوہاں بھی جہاں سیاسی ورکر پارٹی اصولوں کی پاسداری نہ کرتے ہوں اور دیگر کوئی نعم البدل نہ ملتا ہو ۔
3:۔نقشہ کشی :
سیاسی عمل میں موبلائزیشن کا تیسرا اصول جہاں کام کرنا ہوتا ہے یا سیاسی کارکنوں کو جوعلاقے مختص کی جاتی ہیں ان کا نقشہ بناناہوتا۔اس عمل سے سیاسی کارکنوں میں سماج کے جغرافیائی حدود کے بارے میں مکمل آگاہی آتی ہے جو آگے چل کر منصوبہ بندی کے عمل میں موثر ثابت ہوتا ہے ۔ سیاسی پارٹیوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ جب تک کام میں ربط اور تسلسل نہیں لایا جاتا کام اپنے تکمیل تک پہنچ نہیں پاتی۔ لہٰذا انتہائی ضروری ہے کہ اپنے کام میں ربط اور تسلسل لانے کے لیے سیاسی پارٹیاں اور ان کے کارکن جہاں انہوں نے کام کرنا ہوتا ہے اس کیMapping پہ خصوصی توجہ دیں۔ نقشہ کشی سے سیاسی ورکر کے لیے کام کہاں سے شروع کرنا ہے ، اس میں کتنی مدت لگ سکتی ہے اورعلاقے کے مکینوں کے بارے میں مکمل آگاہی مل جاتی ہے۔جس کی مددسے وہ بہتر منصوبہ سازی کرسکتا ہے۔
نوٹ: اس حوالے سے سیاسی کارکنوں کو اس بات کو مدِ نظر رکھنا چاہیے کہ نقشہ بنانے کے عمل میں سیاسی رضا کار کی اور علاقے کے لوگوں کی مددلی جاتی ہے بشرطیکہ سیاسیکارکن علاقے کی جغرافیہ سے مکمل آگاہی نہ رکھتا ہو۔
4:وقت اور مدت کا تعین :
جب علاقے کی Mappingکا مرحلہ مکمل ہوتو کارکنوں کو مختص کیے گئے کام کے حوالے سے کام کے وقت اور مدت کا تعین کرنا چاہیے۔ اس عمل میں کام کی مناسبت سے وقت اور مدت کاتعین کیا جاتا ہے ۔ مثلاً ماہانہ ، سہہ ماہی، ششماہی اور سالانہ کی بنیاد پہ۔سیاسی کارکن جنہیں تنظیم کی جانب سے انفرادی حوالے سے ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں وہ انفرادی حوالے سے اپنے کام کی بابتSeasonal Calendar مرتب کرے گا اورجنہیں اجتماعی بنیاد جن میں تنظیم کی اکائیاں جیسے یونٹ، زون، ریجن اور مرکز تمام اپنے مستقبل میں ہونے والے کام کی مدت کا تعین کرنے اور اسے ترتیب دینے کے لیے Seasonal Calendarبنائیں گے۔
5:۔علم رکھتا ہو:۔
بقول کم ال سنگ "علم ہر انقلابی کے لیے ضروری ہے "تحریک کے کارکنوں کا تعلق سماج کے ہر طبقہ فکر سے ہوتا ہے اسی لیے سیاسی موبلائزر کے لئے ضروری ہے کہ جہاں وہ کام کرہا ہو وہ اس سماج میں بسیرا کرنے والوں کی نفسیات، عقیدہ، تاریخ ،جغرافیہ ،زبان اوررسم و رواج سے آگا ہی رکھتا ہو ۔اگر وہ اپنے کام میں کامل نہیں ہوگا تو سیاسی موبلائزیشن کے اس اصول کی پاسداری نہیں ہوگی اور وہ عوام کو علم نہ رکنے کی وجہ سے قائل کرنے سے قاصر ہوگا،جسکی وجہ سے تحریک کے لیے عوام کی توجہ حاصل کر نا ممکن نہیں ہوگا ۔
6:۔مقاصد واضح ہوں تاکہ لوگوں کو سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔
جہاں کہیں کوئی بھی تحریک چلتی ہے، اس کے پیچھے مقاصد کارفرما ہوتے ہیں جن کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کی جاتی ہے۔سیاسی موبلائزیشن کا مقصد چونکہ عوام کو تحریک سے وابستہ کرنا ہوتا ہے۔ اگر اس حوالے سے تحریک کے مقاصد واضح نہ ہوں تو مقاصد کا حصول ممکن نہیں۔ لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ تحریک کے مقاصد واضح ہوں تا کہ عوام کو انہیں سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔
تنظیم
عوام کو موبلائز کرنے یا ان کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے کسی پلیٹ فارم کا ہونابنیادی اہمیت کا حامل ہوتاہے ۔ جب مولائزیشن کا بالا عمل مکمل ہوتا ہے تب جا کے عوام میں تنظیم سازی کاعمل شروع ہوتا ہے۔اگر ہم موبلائزیشن کے اصولوں کو پس پشت ڈال کے یا یوں کہے کہ شارٹ کٹ مارنے کی کوشش کریں (کام میں ڈنڈی مارنا) تب بھی تنظیمیں بن توجاتی ہیں پر وہ مختصر عرصے کے بعد غیر فعال ہوجاتی ہیں جس سے عمل (تحریک ) پرمنفی اثرات پڑنے کے خدشات بڑھنے کے قویامکانات ہوتے ہیں۔
جب عوام کو اکائیوں کی صورت(یونٹ اور چھوٹے مفاداتی گروہوں) میں منظم کرنے کا عمل پروان چڑھتی ہے تو پارٹی منظم انداز میں عوامی جد و جہد کو آگے بڑھانے میں تاریخی کردار ادا کرتا ہوا منزل کی جانب کامیابی سے گامزن ہوتی ہے۔
سیاسی موبلائزیشن کے طریقہ کار Methodos of Political Mobilization
1:۔احتجاج (جلسہ جلو س غیرہ):۔
آج دنیا ترقی کے جس شاہراہ پہ ہے اس سے وہ سکڑ کے عالمی گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے جس کی وجہ سے دنیا کے کسی بھی علاقے میں آج اگر کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو پل بھر میں اس کی خبر دنیا میں پھیلتی ہے۔ دنیا میں پھیلنے والی ان خبروں میں سے بعض دنیا کی توجہ کا مرکز بنتی ہے ۔ سماج میں سیاسی پارٹیوں کا مقصدعوام اور دنیا تک پارٹی کا پیغام اور اس کے مقاصد پہنچانااور عوام اور دنیاکو متحرک کرکے کے ان کی
توجہ حاصل کرنا۔ جس کے لیے سیاسی تنظیمیں احتجاج ریکارڈکراتے ہیں۔ اپنے اجتماعی مقاصد حاصل کرنے کے لیے سیاسی پارٹیاں احتجاج کے بہت سارے طریقے وقت و حالات کو مدِ نظر رکھ کر بروئے کار لاتے ہیں۔جیسے ہڑتالیں جن پہیہ جام، شٹرڈاؤن، بھوک ہڑتال،ریلیاں اور عوامی اجتماعات وغیرہ۔آزادی کی تحریکیں اگر موبلائزیشن کے ان طریقہ کار پہ عمل کرتے ہیں تو ان کا بھی بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ دنیا کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرانا ہے۔
2:۔کارنر میٹنگز:۔
عوام تک پارٹی پیغام پہنچا کے انہیں متحرک کرنے کے لیے کا رنر میٹنگز منعقد کیے جاتے ہیں۔ جو دو طرح سے ممکن ہے، Formal اورFormal Informal ۔Farmalکارنر میٹنگز کا انعقاد پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت ہوتی ہے ۔جہاں سیاسی کارکن افراد کے کسی گروپ کے ساتھ بات چیت کے ذریعے پارٹی کا پیغام اور مقاصد ان تک پہنچاتے ہیں۔Informal وہ طریقہ کار جہاں پروگرام کے انعقاد کے لیے پہلے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوتی لیکن وقت و حالات تقاضا کرتی ہیں کہ عوام کو پارٹی مقاصد سے آگاہی دلایا جائے۔
3:۔فوکس گروپ ڈسکشن:۔
غلام معاشرے میں انقلابی راہنما جنہیں خود اپنا لفظ ادا کرنے سے محروم کردیا گیا ہے لوگوں کو منظم کرنے کے عمل میں دراصل کائنات کو تبدیل کرنے اور اسے نیا نام دینے کے تجربے کی ابتداء کرتے ہیں۔ یہ سیکھنے کا ایک مستند اور سچا طریقہ ہے اس لئے یہ مکالماتی بھی ہے۔چنانچہ اس تجربہ میں راہنما نہ صرف اپنا لفظ تنہا ادا نہیں کرتے بلکہ ان پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ عوام کے ساتھ مل کر اپنا لفظ اداکریں۔وہ راہنما جو مکالماتی عمل کے برعکس صرف اپنے فیصلے نافذ کرنے پر اصرار کرتے ہیں وہ عوام کو منظم نہیں کرتے --- انہیں سازباز کے ذریعے استعمال کرتے ہیں نہ ہی وہ خود آزاد ہوتے ہیں اورنہ ہی وہ آزاد کرتے ہیں:وہ دراصل جبر کرتے ہیں۔سیاسی عمل میں موبلائزیشن کایہ مکالماتی طریقہ کا بڑی اہمیت کا عامل ہے عوام سے براہ راست مکالمہ اور گفت و شنید سے ایک تو عوام سے قربت بڑھتی ہے دوسری عوام کے مدعا کو سمجھنے میں آسانی ہو تی ہے سوئم تعلقات اور روابط سے غلط فہمیوں کا ازالہ ہوتا ہے جس سے تنظیم کی ساخت بہتر ہوتی ہے۔ مکالماتی عمل کے اس طریقہ کار میں تین اجزاء شامل ہیں ۔ فوکس یعنی مرکزِ نگاہ ایک ہو اس سے مراد موضوع ، گروپ افراد کا گروہ ، تیسرا ڈسکشن یعنی مکالمہ کرنا۔ کسی مخصوص گروہ کے ساتھ سیاسی عمل میں کسی مخصوص موضوع پہ تبادلہ خیال ، معلومات جمع کرنا یا ان کی غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے موبلائزیشن کے اس طریقہ کار کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔سیاسی موبلائزرکو اس عمل میں چند بنیادی باتوں کا خیال رکھنا چاہیے ۔۱: افراد کا گروہ آٹھ (۸)سے کم اور بارہ (۱۲)سے زائد نہ ہوں۔۲:۔سیاسی وکارکنوں کی تعداد دو(۲)ہوں۔جسکی وجہ اگر گفت و شنید کے دوران ایک کارکن عوام کو کسی خاص مدعا پہ مطمئن نہ کرسکے تو دوسرا رکن اس کی ماونت کریگا۔ ۳:۔ گفت و شنید اور بحث و مباحثے فقط منتخب کردہ موضوع پہ کی جائے۔۴:۔ موضوع پہ مکمل دسترس حاصل ہوں۔۵:۔تمام افراد کو مباحثے میں شامل کرنے کا ہنر جانتا ہو۔۶:۔ وقت ڈیڑھ سے دو گھنٹے ہوں اور۷:۔ جب سیاسی کارکن چلے جائیں تو لوگوں کے ذہنوں میں سوچنے کے لیے مثبت خیالات نقش کریں ۔
4:۔میڈیا(سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا):۔
فتح ہمیشہ ان کے قدم چھومتی ہیں جنہوں نے وقت و آلات کے استعمال کا ہنر سیکھا ۔آج زمانہ میڈیا کا ہے اور بہت ساری جنگیں میڈیا کے ذیعے لڑی جارہی ہیں۔ میڈیا کے اس تیز رفتار دور میں جہاں پیغام رسانی کے آلات ایک بڑی اکثریت کو میسر ہوں وہاں پیغام رسانی کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں ختم ہوجاتی ہیں۔اب بات فقط استعمال کی رہ جاتی ہے کہ ہم میڈیا کے اس جن کو جو ہمارے قابو میں ہے ،کس طرح سے اسے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے بروئے کار لاتے ہوئے اپنے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔
سیاسی موبلائزیشن میں عوام اور دنیا کو متحرک کرنے میں میڈیا کا کردار آج کے دور میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور سیاسی جماعتوں کو میڈیا کے ذریعے عوا م کو متحرک کرنے کا گر سیکھنا چاہیے کیونکہ آج میڈیا پر نٹ (اخبارات، جرائدو رسائل)الیکٹرک(ریڈیو اور ٹیلیوژن) تک محدود نہیں رہا بلکہ بات اب سوشل میڈیا تک پہنچ گئی ہے جہاں ایک بٹن کے ذریعے آپ پل بھر میں دنیا کو اپنے حالات سے باخبر کرسکتے ہیں اور باخبر رہ سکتے ہیں۔ اگر سیاسی موبلائزر سیاست ، تنظیم سازی ، اس کی اہمیت اور سیاسی موبلائزیشن کی اہمیت اور تحریک کی کامیابی میں اس کی طاقت و اہمیت سے واقف اور اپنے مقاصد سے آگاہ اور کاز کے ساتھ مخلص و ایماندار ہوں تو میڈیا کے ذریعے عوام اور بیرونی دنیا کو دشمن کے خلاف متحرک کرنا اور انہیں تحریک کا حصہ بنانے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا۔
آج کے اس دور میں پارٹی کارکنوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ عوام اور دنیا کو اپنی تحریروں اور میڈیا کے ذریعے گفت و شنید سے متحرک کریں اس حوالے سے ضروری ہے کہ کارکنان قومی تعمیری سوچ کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔
بلوچ جہد میں میڈیا کے استعمال کی اس کمزوری کو شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے ، وہ چاہے پرنٹ میڈیا ہو جہاں اس ۱۴---۱۵ سالہ تحریک میں لکھاریوں کی رفتار جس تیزی سے بڑھنا چاہیے تھا ایسا نہیں ہو پا رہا، الیکٹرانک میڈیا میںSangar Publication نے " سنگر ریڈیو پروگرام کی کامیاب شروعات کی ہے ۔لیکن اسے وہ تسلسل دے نہیں پایاجسکی امید کی جارہی تھی یا بلوچ نیشنل موومنٹ کی جانب سے زرمبش ریڈیو نشریات کا آغاز توکافی جوش و خروش سے ہوا لیکن یہاں بھی انجام سنگر ریڈیو بلکہ اس سے بھی بدتر ہوا کہ ایک مختصر عرصے میں پروگرام روبہ زوال ہوا۔ پارٹی اور اداروں کو اس جانب سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ ان پروگراموں کی نا کامی کی وجوہات کیا تھیں تا کہ کمزوریاں عیاں ہوں اور آنے والے وقتوں میں بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ ایسے پروگراموں کی شروعات کی جائے جنہیں پایہ تکمیل تک پہنچنے یا پہنچانے میں دشواریوں اورناکامیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ 



Share this Post :

Post a Comment

Comments

News Headlines :
Loading...
 
Support : Copyright © 2018. BV Baloch Voice - All Rights Reserved