Translate In Your Language
New Videos
ٹک تیر ( شہید دلجان) – مرید بلوچ
آج سے تقریبا ۰۳ سال قبل بلکل ایسی ہی خوشی کا احساس ایک ماں کو ہوا گا جب اسنے ایک شخص ضیاء کو جنم دیاہوگا اور اس خوش نصیبی کا احساس اس والداور اس کے خاندان کو ضرور ہوا ہوگا تب ہی تواس نام ضیاء پر متفق ہوئے ہونگے اور اس سر زمین کا سر فخر سے اس وقت کس قدر بلند ہوا ہوگا جب ضیا کا سایہ زمین پر پڑھ کر زمین کو روشن کیا ہوگا اوراس زمین کے سامنے چرخ کہن بھی شرمندہ ہوا ہوگا کہ کاش اس شخص کے پاوٗں کی دھول اسے بھی مہکا دیتا اس ضیا کا سایہ اسے بھی روشن کر دیتا۔
دشمن جانتا تھا کہ ٹک تیرصرف ایک خطاب نہیں بلکہ
ٹک تیر سنگت ضیا دلجان بلوچ زندگی کی اس حقیقت سے بخوبی واقف تھا کہ زندگی کبھی بھی دغا دے کر ساتھ چھوڈ سکتی ہے اور انسان دنیا سے ہمیشہ کے لئے مٹ جاتا ہے مگر مٹنا تو عام لوگوں کی صفت ہے اور عظیم شخص تو امر ہو جاتے ہیں تو ٹک تیر کیوں نا امر ہوتا۔ا س امر کی چاہت نے، زمین کی محبت نے ایک بار پھر ٹک تیر کو مجبور کر دیا کہ اسی زمین پر قدم رکھے جہاں وہ پیدا ہوا تھا، جہاں اسکا بچپن گزرا تھا جہاں کی زمین اب پیاسی تھی اور اس پیاس کو ضیا ہی بجھا سکتا تھا دلجان ہی بجا سکتا تھا ٹک تیر ہی بجھا سکتا تھا۔انیس فروری کی صبح ایک بار پھر ضیا ہنستے مسکراتے سنگتوں کے ساتھ خوش گپیاں کرتے اس سرزمین پر پہنچ گیا جہاں مادر وطن کے ساتھ ساتھ دشمن بھی اسکے انتظار میں تھے۔ضیاء دلجان کو مادروطن سے اپنی محبت کا اظہارکرتے ،اسکی خوبصورتی، اسکی مہک،اس سے ہمکلامی سے لطف اندوزی میں تھوڈا ہی دیر گزرا تھا کہ دشمن بڑی تعداد میں ناپاک ارادوں کے ساتھ حملہ آور ہوا کہ شاہد اس بار دشمن کو کامیابی ملے اور کوئی سنگت یا تنظیمی راز اسکے ہاتھ لگے گا مگر سنگت ٹک تیر اور بارگ جان کے حوصلے اور بہادری نے دشمن کو حواس باختہ کر دیا اور دشمن کو ایک بار پھر زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا۔سنگت ٹک تیر اور سنگت بارگ جان نے اکٹھے دشمن کی اتنی تعداد اور جدید ہتھیاروں کا مقابلہ اس وقت تک کیا جب تک انکے بندوق کی ایک ایک گولی دشمن کا سینہ چھیرتی نا گئی ۔مقدس تنظیم کی طرف سے ملی ہر ایک گولی کا قرض ادا کرنے کے بعد دونوں جانبازوں نے تنظیموں رازوں کو دشمن کی شر سے محفوظ رکھنے اور اپنے سینے میں دفن کرنے کے لئے اس آخری گولی جو ہر سرمچار کی امانت ہوتی ہے بندوق میں ڈال کر ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکراتے ،دشمن کی ہار کا جشن مناتے، آزادی کے خواب لئے وطن کی ہواوٗں میں اپنی مہک چھوڈ کر سرزمین کی پیاس اپنے لہو سے بجھاتے تاریخ میں امر ہو گئے اور ہمارے لئے ایک سوال چھوڈ گئے کہ
Related Posts :
Labels:
Articles
Comments
News Headlines :
Loading...
Post a Comment