Translate In Your Language
New Videos
حصہ اول: چے گویراکون تھا اور کس مقصد کے لئے لڑا؟
لینن نے ’’ریاست اور انقلاب‘‘ میں لکھاتھا’’تاریخ کے اس سفر میں جو کچھ آج مارکسز م کے ساتھ ہو رہاہے،یہ ہرگز کوئی نئی بات نہیں ہے؛ہر دور کے انقلابی مفکروں کے نظریات اورعوام کی نجات کے آدرش کیلئے لڑنے والوں کے ساتھ یہی بار بار ہوتاچلاآرہاہے۔سبھی انقلابیوں کی زندگیوں میں استحصالی طبقات وحشی کتوں کی طرح ان پر ٹوٹ پڑنے کو دوڑتے ہیں،ان کے نظریات کو انتہائی غلاظت اور گندگی میں لتھاڑکر پیش کیا جاتا ہے،بدترین بہتانوں اورذلت آمیز دشنام طرازی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیاجاتاہے۔اور جب یہ مرجاتے ہیں تو کوششیں شروع کر دی جاتی ہیں کہ ان کو ایک بے ضررقسم کا انسان بنا کر پیش کیاجائے،ان کے بارے اور ان کے حوالے سے اس قسم کی داستانیں تخلیق کی جاتی ہیں اور ان کو کیا سے کیا بناکے پیش کیا جاتا ہے اور وہ بھی اس انداز میں کہ وہ انسان نہیں کچھ اور شے تھے،اور یوں اس طریقے سے ایسے لوگ سب کچھ قرار پاجاتے ہیں سوائے اس کے کہ انہوں نے اپنی زندگیاں محروم اور درماندہ انسانوں کی زندگیاں بدلنے کیلئے وقف کر دی ہوئی تھیں۔ مقصد اس قسم کی زیب داستان کا ایک ہی ہوتا ہے کہ استحصال زدگان کو دھوکے فریب اور سحر میں مبتلا کر دیا جائے،اور ان بڑے انسانوں کے انقلابی آدرشوں اور نظریات پر مٹی ڈال دی جائے،ان کے انقلابی تشخص کو بیہودہ طریقے سے بگاڑ دیاجاتا ہے۔‘‘ اپنی موت کے بعد چے گویرا سوشلسٹ انقلابی تحریکوں کے ہیرو اور جدید پاپ کلچر کے نمائندے کے طورپر ابھرا؛ البرٹو کورڈا کی بنائے ہوئے چے کے فوٹونے بہت شہرت پائی اور دنیا بھر میں ٹی شرٹوں،احتجاجی بینروں پر یہ فوٹو نمایاں ہوتاجارہاہے اور یوں چے گویرا ہمارے عہد کا معتبر و معروف انسان بن چکاہے۔لینن کی موت کے بعد سٹالن اور زینوویف کی قیادت میں لینن کا تشخص ابھارنا شروع کر دیاگیا۔کروپسکایا(لینن کی بیوی) کی خواہش کے برعکس لینن کی میت کو ریڈسکوائر میں سجاکر مرجع خلائق بنانے کیلئے رکھ دیاگیا تاکہ عوام اس کا آخری دیدار کر سکیں۔کروپسکایا نے بعد میں کہاتھا کہ’’ لینن جس شخصیت پرستی کے خلاف عمربھر لڑتا رہا،اسے مرنے کے بعد اسی شخصیت پرستی کی سولی پر لٹکادیاگیا۔‘‘
ابتدائی زندگی ارنسٹو گویرا ڈی لا سرینا (14جون 1928تا 9 اکتوبر1967ء) نام کا یہ انسان دنیا بھر میں چے گویرا کے نام سے مشہور ومقبول ہے۔وہ ایک ایسامارکسی انقلابی تھا جو پیداتوارجنٹائن میں ہواتھا لیکن اس کے جسم کی رگ رگ اور خون کے ہر ایک ذرے میں بین الاقوامیت رچی بسی ہوئی تھی۔جیسا کہ لاطینی امریکہ میں یہ ایک معمول ہے،اس کے آباؤاجداد مخلوط النسل تھے۔گویرا،باسک گبارا(Basque Gebara)کی ایک ہسپانوی شکل ہے،اس کے خاندانی ناموں میں سے ایک لنچ (lynch)ہے جو کہ آئرش تھا،لنچ خاندان گیلوے کے14قبائل میں سے ایک تھا۔باسق اور آئرش نسلوں کے خون کا یہ اتصال اور ملاپ دھماکہ خیزہوناہی تھا! لاطینی امریکہ کی اکثریت کے برعکس ایک مڈل کلاس گھرانے میں پیداہونے والے چے گویرا کو غربت اور بھوک جیسی بلاؤں سے توپالانہیں پڑا۔لیکن اس کی صحت البتہ ضرور خراب رہتی تھی۔اس کی فطری مہم جوئی اور باغیانہ سرکشی اس حقیقت سے جڑی ہوئی تھی کہ وہ بچپن سے ہی استھماکے عارضے میں لاحق ہوگیاتھا۔ اس مسئلے کو کنٹرول کرنے کیلئے اس نے اپنی ساری زندگی خودکو محدود رکھنے کی تگ ودومیں صرف کر دی۔مشکلات پر قابو پانے کا اس کا آہنی عزم اسی تگ ودو کا ہی نتیجہ سمجھا جاسکتاہے۔انسان دوستی کی اس کی خصلت پہلے اسے میڈیکل کے شعبے کی طرف لے گئی اوروہ ڈاکٹر بن گیا۔اس نے Dermatologyجلد کے شعبے میں سپیشلائزیشن کی۔جلدی بیماریleprosyکا علاج معالجہ اس کی دلچسپی کا محورتھا۔ان دنوں اس کی ذہنی کیفیت وہی تھی جو کسی بھی مڈل کلاس نوجوان کی ہوسکتی ہے۔محنت اور لگن سے ڈگری کا حصول،پھر ایک مناسب ملازمت،اور ممکن ہو تو کسی میڈیکل شعبے میں تحقیق،جدید انسانی علوم پر دسترس کے ذریعے کوئی اہم دریافت کرنے کی جستجو؛اپنی زندگی کے اس حصے کے بارے وہ خود لکھتاہے:
گوئٹے مالا
لیکن یونائٹڈ فروٹ کمپنی اور امریکی سی آئی اے نے کچھ اور ہی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔انہوں نے کارلوس کاسٹیلو آرماس کی قیادت میں امریکی فضائیہ کی مدد سے ایک بغاوت منظم کی۔جس پر گویرا نے کمیونسٹ لیگ کی طرف سے تشکیل دیے جانے والے ایک مسلح ملیشیا کو جوائن کرلیا۔لیکن گروپ کی بے عملی نے اسے بے چین اور مضطرب کر کے رکھ دیا۔بغاوت کے بعد گرفتاریاں شروع کر دی گئیں،جس پر چے کو ارجنٹائن کے قونصل خانے سے رجوع کرنا پڑگیا اور اسے ایک محفوظ کنڈکٹ پاس ملنے تک وہیں رہناپڑا۔اس کے بعد اس نے میکسیکو کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا۔صدر اربینزکے خلاف امریکی بغاوت نے اس کے عزم اور آدرش کو مزید پختہ کردیا۔اور اس نے اس واقعے سے کئی اہم نتائج اور اسبا ق اخذ کئے۔اس نے لاطینی امریکہ ملکوں میں امریکہ کی مداخلت اور اثرات کو دیکھا اور اس سامراجی طاقت کا مشاہدہ کیا جو سارے براعظم کے اندر عوام دشمن رجعتی قوتوں کو پال پوس رہی تھی اور انہیں اپنے مفادات کیلئے بروئے کار لا رہی تھی۔ہر وہ حکومت جو عوام کی خدمت کر کے ان کی حالت بدلنے کی کوشش کرتی تھی،اسے امریکہ اور اس کے گماشتوں کی بدترین دشمنی اور مخالفت کا سامناکرناپڑجاتا تھا۔سی آئی اے کی سرپرستی میں ہونے والی بغاوت کی کامیابی کے بعد چے کو میکسیکو کی طرف ہجرت کرنی پڑگئی جہاں اس نے فیڈل کاسترو کی انقلابی 26جولائی موومنٹ کو جوائن کرلیا۔یہ گروپ کیوبا کے اندرقائم جنرل بتیستا کی آمریت کے خلاف ایک متشدد جدوجہد میں مصروف تھا۔ایسالگتا تھا کہ گویرا اور کاسترو کو جیسے ایک دوسرے کی ہی تلاش تھی۔ فیڈل کو ایک بااعتمادساتھی اور گویراکو ایک متحرک تنظیم اور ایک مقصد کی طلب تھی جس کیلئے لڑاجاسکتاہو۔
باغیوں کی حکمرانی حکمرانی کا پچھلا ڈھانچہ مکمل طورپر زمین بوس ہو چکا تھا۔اور اس کی جگہ ایک نئی طرزحکمرانی قائم کر دی گئی۔ گوریلا فوج نے کمزور جگہوں کا کنٹرول سنبھال کر ان کو بہتر کر نا شروع کردیا۔طاقت اب گوریلا فوج کے ہاتھوں میں منتقل ہو چکی تھی۔ دنیا بھر میں مارکسسٹوں نے کیوبا انقلاب کا بھرپور خیر مقدم کیا اور جشن منایا۔یہ سامراج،سرمایہ داری اور جاگیردار ی کیلئے حقیقتاًایک بہت بڑا جھٹکا تھااورپھر سامراج کویہ شکست انسانی تاریخ کی سب سے بڑی سامراجی طاقت امریکہ کے عین ناک کے نیچے واقع ایک ملک میں ہوئی تھی۔اس انقلاب نے دنیا بھر میں ہر جگہ محروموں مظلوموں کی آنکھیں ایک بار پھر امید سے روشن کر دیں۔ہر چند اس انقلاب کا طریقہ 1917ء کے بالشویک انقلاب سے مختلف تھا،تاہم اس انقلاب کوپھر حتمی فیصلہ کن کامیابی محنت کشوں کی عام ہڑتال نے بخشی تھی۔لیکن وہاں روس کی طرح نہ سوویتیں تھیں نہ ہی محنت کش طبقہ۔عام ہڑتال کی فیصلہ کن حمایت کے باوجود اس انقلاب کی قیادت محنت کش طبقے کے ہاتھوں میں نہیں تھی۔
پرولتاریہ کی آمریت
Related Posts :
Labels:
Articles,
Che Guevara
Comments
News Headlines :
Loading...
Post a Comment