Translate In Your Language

New Videos

نیتاجی........سبھاش چندر بوس

نیتاجی........سبھاش چندر بوس


نیتاجی........سبھاش چندر بوس
ہندوستان کے جہد آزادی کے عظیم رہنما سبھاش چندر بوس کی سوانح عمری،فکر و نظریات
(.....ایک قسط وار سلسلہ.....)

تحریر : شری چمن لال آزاد پیش کردہ : ادارہ سنگر

’’نیتا جی‘‘ہندوستان کے جہد آزادی کے عظیم رہنماشری سبھاش چندر جی بوس کی سوانح عمری ، جدجہد ،فکرو نظریات اورتعلیمات پر مبنی یہ ایک تاریخی و دستاویزی کتاب ہے جسے شری چمن لال آزاد نے تحریر ہے۔یہ کتاب اقوام عالم میں جاری جدو جہد آزادی کی تحریکات کیلئے ایک عظیم اثاثہ ہے جس کی رو سے وہ اپنی جدو جہد کیلئے بہتر رستے متعین کرکے انہیں کامیابی سے ہمکنار کرسکتے ہیں کیونکہ یہ کتاب جدو جہد کی ایک عظیم تاریخ و تجربت رکھتی ہے ۔ہم بلوچ قومی تحریک آزادی کے جہد کاروں سمیت بلوچ حلقوں کیلئے اس کتاب کو قسط وار شائع کرنے کا اہتمام کررہے ہیں تاکہ وہ سبھاش چندربوس کی تعلیمات ، فکرو نظریہ اور تجربت سے استفادہ کرسکیں ۔چونکہ یہ کتاب بہت نایاب ہے اور عام لوگوں کی دسترس میں نہیں ہے اسی لئے اسے اپنے قارئین ، بلوچ حلقوں اور بلوچ جہد آزادی کے جہد کاروں کے لئے پیش کیا جارہاہے ۔(ادارہ سنگر )

(قسط 2)

سبھاش بوس لاہور میں
18اکتوبر 1929ء کو شری سبھاش سورگیہ جتیندر داس کے بھائی کے ہمراہ پہلی مرتبہ لاہور تشریف لائے۔ چنانچہ پنجابیوں نے ان کا شایان شان استقبال کرنے کا فیصلہ کیا۔ وقت مقررہ پر پچاس ہزار اشخاص کا ایک بھاری ہجوم ریلوے اسٹیشن پر موجود تھا جونہی آپ کار سے اترے۔ فضا شیر بنگال "شری سبھاش چندر بوس زندہ باد" کے نعروں سے گونج اٹھی۔ بعدازاں آپ کا شہر میں زبردست جلوس نکالا گیا۔ اگلے روز بریڈلا ہال لاہور میں پنجاب پراونشل اسٹوڈنٹس کانفرنس کے اجلاس میں آپ نے جو ہنگامہ خیز صدارتی ایڈریس پڑھا۔ اس طویل ایڈریس کے کچھ حصے ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔
"پنجابی بہنو اور بھائیو! میں آپ کے پرتپاک اور دلی خیر مقدم کیلئے جس کا آپ نے پانچ دریاؤں کی اس پوتر بھومی میں میری پہلی آمد کے موقع پر اہتمام کیا ہے۔ تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ لیکن تمام اشخاص میں سے آپ نے مجھے کیوں بلایا۔ کیا اس لئے کہ بنگال جو غیروں کے جوئے تلے سب سے پہلے آیا اور پنجاب جو سب سے آخر غلام ہوا۔ کو آپس میں ایک دوسرے کی امداد کی ضرورت ہے، یاکیا آپ اور مجھ میں کوئی مشترکہ چیز ہے یعنی ایک ہی خیال اور ایک ہی خواہش۔ جب میں اس مہربانی کا خیال کرتا ہوں، جو پنجاب کے نوجوانوں نے پنجاب کی جیلوں میں قیام کے دوران شہید جتیندر داس اور ان کے ساتھی بنگالی اسیروں کے ساتھ کی ہے۔ تو میرے دل میں آپ کی اس محبت کے صلے میں شکریہ کے جذبات موجزن ہوتے ہیں۔ ہم بنگالی جذباتی لوگ ہیں۔ اور آپ کی فراخدلی نے پنجاب کو ہمارے دل میں ایک ناقابل بیان حد تک عزیز بنادیا ہے۔ بنگال اس امداد کو شکریہ اور احساس کے ساتھ ہمیشہ یاد رکھے گا، جو پنجاب نے اس کے تاریک ترین دنوں میں بنگال کو دی ہے۔ میرا وشواس ہے کہ شہید جتیندر داس نے اپنے آتم بلیدان کے ذریعے نہ صرف بھارت ماتا کی آتما کو بیدار کردیا ہے۔ بلکہ بنگال اور پنجاب کے درمیان ایک مستقل رشتے کی بنیاد بھی مضبوط کردی ہے۔ پنجاب اور بنگال میں اس وقت جبر و تشدد کا دور دورہ ہے۔ یہ بات بلاشبہ مبارک باد کے قابل ہے۔ کیونکہ اس طرح ہم سوراجیہ کے زیادہ نزدیک آرہے ہیں۔ بھگت سنگھ اور بی۔ کے دت جیسے شور بیروں کو جبر و تشدد کی پالیسی جھکانہیں سکتی۔ آؤ ہم بھی دل و جان کے ساتھ حکومت کی سخت گیرانہ پالیسی کا خیرمقدم کریں۔ ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں، جو یہ خیال کرتے ہیں۔ کہ طلباء کو پالیٹکس میں نہایت سرگرم حصہ لینا چاہیے۔ آزاد ممالک ممالک میں سیاسیات میں حصہ لینے کے لئے طلباء کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ کیونکہ طلباء میں سے ہی سیسای مدبر اور فلاسفر پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ہندوستان کے طلباء ہی سیاسیات میں حصہ نہ لیں۔ تو ہمیں ملک کی رہنمائی کرنے والے نوجوان کہاں سے مل سکتے ہیں۔ زمانہ حال کی سب سے زیادہ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ہندوستان کے کونے کونے میں طبلاء کی تحریک زور پکڑتی جارہی ہے۔ اس تحریک کو میں نوجوان تحریک کا ایک جزو سمجھتا ہوں۔ اب ہندوستان کی تہذیب ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ ایک وقت یہ یہ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں ہماری تہذیب یورپ کی فاتح قوموں کے بوجھ تلے نہ دب جائے۔ لیکن وقت کی دستبرد لے باوجود ہماری تہذیب بدستور زندہ ہے۔ اس وقت ہندوستان بھر میں بیدار کے جو آثار پائے جاتے ہیں، اسے برقرار کھنے کیلئے خیالات میں انقلاب بپاکرنے کی ضرورت ہے۔ آزادی ایک ایسا لفظ ہے جس کے کئی معنے لئے جاتے ہیں۔ لیکن اس لفظ سے میری مراد ایک ایسی عالمگیر آزادی سے ہے۔ جس میں سیاسی غلامی سے مخلصی پانے کے علاوہ اقتصادی اور سماجی آزادی بھی شامل ہے۔ ہمیں آزادی کا تنگ نظریہ ترک کردینا چاہیے، زندگی کا صرف ایک مقصد ہے۔ ہمیں ہرقسم کی غلامی سے نجات حاصل کرنی چاہیے۔ نوجوانو! نہ صرف اپنے دل میں ہی بلکہ اپنے دیگر ہم وطنوں کے دلوں میں بھی آزادی کی خواہش پیدا کرو۔ پھر ہندوستان چشم زدن میں آزاد ہوجائے گا۔ دوستو! اب وقت ہے کہ آپ سب اپنے ملک کی آزادی حاصل کرنے کیلئے سچے سپاہی بن جائیں۔ کانگریس اس ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ ہماری تمام امیدیں صرف اس ایک جماعت سے وابتہ ہیں۔ لیکن کانگریس اپنی طاقت اور اثر کے لئے مزدور، کسان، نوجوان، طلباء اور ویویوں کی تحریکوں پر انحصار رکھتی ہے۔ اگر ہم ان سب تحریکوں کو مضبوط بنانے میں کامیاب ہوجائیں۔ تو کانگریس بہت طاقتور بن جائیگی۔ اور پھر اس کیلئے آزادی حاصل کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہوگا۔ چین ہمارا ہمسایہ ملک ہے۔ دیکھئے۔ وہاں کے طلباء نے اپنے وطن کیلئے کیا کچھ کیا۔ چین کا دور جدید طلباء کی کامیاب جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے۔ وہ ایک طرف تنظیم کے کام میں لگے رہتے۔ اور دوسری طرف شہروں اور دیہات میں چکر لگاکر لوگوں کو آزادی کا درس دیتے تھے۔"
"نوجوانو! آزادی کی راہ میں کانٹے بچھے ہوئے ہیں۔ لیکن صرف یہی ایک راستہ ہے جوکامیابی اور خیات جاودانی کی منزل تک پہنچاسکتا ہے ہمیں سچے یاتریوں کی طرح منزل آزادی کی طرف بڑھنا چاہیے۔ آزادی کے معنیٰ "زندگی" ہیں۔ ہمیں تہیہ کرلینا چاہیے کہ یا تو ہم آزاد ہوکر دم لینگے یا آزادی کے لئے جدوجہد کرتے کرتے اپنا جیون قربان کردیں گے۔ ہمیں اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کردینا چاہیے کہ ہم شہید اعظم سورگیہ جتیندر داس کے ہم وطنوں کہلانے کے مستحق ہیں۔"
جب آپ تقریر ختم کرچکے۔ تو ہال شیر بنگال سبھاش بوس زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔ اگلے روز شری سبھاش بوس نے نوجوانان پنجاب کے نام مندرجہ ذیل اپیل جاری کی-:
"ہمارے محب وطن جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے مڑرہے ہیں۔ وہ مصیبتیں اٹھاتے ہیں تو صرف اس لئے تاکہ ہم خوشحال ہوں۔ اور اگر وہ مرتے ہیں تو صرف اس لئے کہ ان کے ہم وطن آزاد انسانوں کی حیثیت سے اپنی زندگی بسر کریں گورنمنٹ نے جو جابرانہ پالیسی اختیار کررکھی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب حکومت ایک نوجوان کو جیل بھیجے۔ تو اس کی جگہ لینے کیلئے ہزاروں نوجوان میدان میں نکل آئیں۔"
پنجاب سے روانگی سے پیشتر آپ نے کہا۔
" عدم تعاون کی تحریک پنجاب سے ہی شروع ہونی تھی۔ مجھے امید ہے کہ الٹی میٹم کی میعاد ختم ہونے پر لاہور کانگریس ان تحریک کو پھر جاری کردیگی۔ پنجابیوں کو آنے والی جدوجہد میں بھاری قربانیاں پیش کرنے کیلئے تیار رہنا چاہیے۔"
اسی روز اہل لاہور کے ایک عظیم الشان جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے شری سبھاش بوس نے کہا-:
"مجھے افسوس ہے کہ میں اس وقت یہاں نہ آشکا جب لالہ لاجپت رائے زندہ تھے۔ لیکن مجھے اس سے زیادہ اعزاز یہ ملا کہ میں اس جیل میں ملک معظم کا مہمان رہا جہاں لالہ جی رہ چکے تھے۔ میری مراد مانڈلے جیل سے ہے۔ وہاں اکثر مجھے لالہ جی اور لوکمانیہ تلک کی یاد آیا کرتی تھی۔ وہ بھی اس جیل کی آہنی سلاختوں کے پیچھے اپنی زندگی کی کئی قیمتیں گھڑیاں گزار چکے تھے۔ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا چرخے سے سوراجیہ مل جائے گا؟ میں کہتا ہوں کہ سوراجیہ کسی خاص ذریعے سے نہیں بلکہ عوام میں آزادی کی خواہش اور قربانیوں سے ملے گا۔ جب لوگ قربانیوں کے لئے تیار ہوجائیں گے۔ ہندوستان ایک دن بھی غلام نہ رہ سکے گا۔ میں آپ سے پھر اپیل کرتا ہوں کہ اگلے سال کی جدوجہد کے لئے تیار کرو۔ گورنمنٹ ہماری طاقت دیکھ کر بوکھلاگئی ہے۔ وہ آنے والی تحریک کو کچلنے کی تیاریاں کررہی ہے۔ اس لئے آپ کا بھی فرض ہے کہ قربانیوں کے لئے کمربستہ ہوجائیں۔ پنجب کو اس بات کا شرف ہے کہ 1919ء میں اس نے کانگریس کا نقشہ بدل دیا تا اب بھی لاہور کانگریس ہی ملک کے سامنے فیصلہ کن پروگرام رکھے گی۔"
روانگی سے پیشتر آپ نے سردار بھگت سنگھ۔ مسٹر بی۔ کے دت اور مقدمہ سازش لاہو رکے دیگر زیر سماعت قیدیوں سے ملاقات کی اجازت طلب کی۔ لیکن انہیں ملاقات کی اجازت نہ ملی۔ نامعلوم حکومت کے انکار میں کیا بھید تھا۔ بہرحال آپ نراش لوٹے۔
اگلے روز شری سبھاش لاہور سے امرت سر پہنچے۔ سارے شہر میں جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ عدم تعاون کے زمانے کی یاد تازہ ہوگئی۔ جلوس کے خاتمے پر ڈاکٹر کچلو کی زیر صدارت جلیا نوالہ باغ میں ایک پبلک جلسہ منعقد ہوا۔ سبھاش نے انگریزی میں تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا۔
یکم جنوری کے بعد درجہ نوآبادیات ملے یا نہ ملے، کانگریس مکمل آزادی کے حق میں فیصلہ کرے یا نہ۔ نوجوان پارٹی مکمل آزادی کا اعلان کردیگی۔ کیونکہ وہ آزادی کیلئے تڑپ رہی ہے اور اس میں ایک نیا جوش پیدا ہوچکا ہے۔"
ان دنوں جب شری سبھاش بوس پنجاب کا دورہ کررہے تھے۔ تو ان کے خلاف کلکتہ کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوگیا۔ پبلک پراسیکیوٹر نے انہیں حاضری سے مستثنیٰ قرار دیئے جانے پر اعتراض کیا۔ چنانچہ عدالت کی طرف سے انہیں بذریعہ تار مطلع کیا گیا کہ آپ آئندہ پیشی پر عدالت میں حاضر ہوں۔
لہٰذا شری سبھاش چندر بوس 23اکتوبر کو پنجاب سے روانہ ہوگئے۔ اور کلکتہ جاتے ہوئے راستہ میں میرٹھ اترکر سازش کیس کے اسیروں سے ملاقات کی۔ لیکن جب 24اکتوبر کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کلکتہ کی عدالت میں شری سبھاش کے خلاف مقدمہ کی سماعت پھر شروع ہوئی۔ تو آپ حاضر نہ ہوسکے۔ پبلک پراسیکیوٹر نے درخواست کی کہ ان کے خلاف بلاضمانت وارنٹ جاری کئے جائیں۔ عدالت نے اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے شری سبھاش بوس کے بلاضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے۔ وکیل صفائی مسٹر بی۔ سی چیٹر جی نے وارنٹ جاری کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا۔ "عدالت کم از کم اتنا وقت تو دینا چاہیے کہ وہ لاہور سے کلکتہ پہنچ سکیں"۔ اس پر عدالت نے کہا "شری سبھاش بوس کو جس وقت میرے سامنے پیش کیا جائے گا۔ میں اسی وقت انہیں ضمانت پر رہا کردوں گا"۔ اس وقتہ سے کلکتہ میں ہیجان پھیل گیا۔ ان کی گرفتاری کے امکان کی خبر سن کر شری سبھاش بوس کی انتظار میں ہزاروں لوگ ہوڑہ ریلوے اسٹیشن پر گاڑی آنے سے گھنٹوں طپہلے پہنچ گئے۔ لیکن جب آپ گاڑی سے اترے تو ان پر وارنٹ گرفتاری کی تعمیل نہ کرائی گئی۔ آپ ٹرین سے اترکر سیدھے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ علی پور کے بنگلہ پر پہنچے۔ جہاں اکی دو ہزار روپیہ کی ضمانت منظور کرلی گئی۔
آج کل کی طرح 1929ء میں بھی کانگریس کے دو گروپ تھے۔ اعتدال پسند اور انتہا پسند۔ ان دنوں مہاتما جی اور پنڈت موتی لال نہرو اعتدال پسند کانگریس طبقہ کے رہنما اور شری سبھاش بوس اور پنڈت جواہر لال نہرو انتہا پسندوں کے لیڈر تسلیم کئے جاتے تھے چنانچہ کلکتہ کانگریس میں شری سبھاش چندر بوس نے گاندھی جی کے مطالبہ نوآبادیات کو ٹھکراتے ہوئے ان کے ریزولیوشن میں ترمیم پیش کی تھی۔ اس ترمیم میں یہ بات واضح کی گئی تھی کہ "ہندوستان کے لوگوں کا منتہائے مقصود مکمل آزادی ہے۔ اور کہ برطانیہ سے قطع تعلقات کئے بغیر ہدنوستان مکمل آزادی حاصل نہیں کرسکتا۔" پنڈت جواہر لال نہرو نے اس ترمیم کی پرزور حمایت کی تھی۔ لیکن گاندھی جی کے ذاتی اثر و رسوخ کے باعث شری سبھاش بوس کی ترمیم گرگئی تھی۔ اور برطانیہ کو یہ الٹی میٹم دے دیا گیا تھا۔ کہ اگر ہندوستان کو ایک سال کے اندر درجہ نوآبادیات نہ دیا گیا۔ تو انڈین نیشنل کانگریس آئندہ اجلاس میں مکمل آزادی کا اعلان کردے گی۔ اس معمولی سے ریزولیوشن نے برطانیہ کے رجعت پسند حلقوں میں ہلچل مچادی تھی۔ ماہ اکتوبر میں لارڈارون وائس رائے ہند لندن بلائے گئے اور برطانوی کیبنٹ کے مشورے کے بعد ہندوستان واپس آکر 31اکتوبر کو آپ نے ہندوستان کے متعلق برطانوی ارادوں کا انکشاف کیا۔ بالفاظ دیگر حکومت برطانیہ نے انڈین نیشنل کانگریس کے الٹی میٹم کو ٹھکرادیا۔ کانگریس کا مطالبہ تھا کہ ہندوستان کو ایک سال کے اندر اندر درجہ نوآبادیات دیا جائے۔ اس کے جواب میں حکومت برطانیہ نے ہندوستان کو محض "بتدریج"درجہ نوآبادیات دینے کا وعدہ کیا۔ اور اعلان کیا کہ لندن میں ہندوستانی لیڈروں کی ایک گول میز کانفرنس بلائی جائے گی۔ اس اعلان سے ہندوستان کے سیاسی حلقوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔
اس اعلان پر غور کرنے کیلئے پنڈت موتی لال نہرو نے دہلی میں لیڈروں کی ایک کانفرنس بولائی۔ اور کانفرنس کے اختتام پر مہاتما گاندھی۔ پنڈت موتی لال۔ پنڈت جواہر لال نہرو۔ سردار پٹیل۔ پنڈت مدن موہن مالویہ۔ ڈاکٹر انصاری اور کئی دیگر لیڈرؤں کے نام سے وائس کے اعلان کے جواب میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا۔ جس میں درج تھا کہ حکومت اپنے عمل سے یہ یقین دلائے کہ اس کا دل تبدیل ہوچکا ہے۔ سیاسی قیدیوں کو عام معافی دی جائے اور مجزوہ گول میز کانفرنس میں کانگریس کو سب سے زیادہ نمائندگی دی جائے اور کہ اگر جملہ شرائط پوری نہ کی گئیں۔ تو کوئی کانگریس لیڈر مجوزہ کانفرنس میں شریک نہ ہوگا۔
شری سبھاش بوس نے اس اعلان پر دستخط نہ کئے۔ ان کا خیال تھا۔ کہ کلکتہ ریزولیوشن پر پابند رہتے ہوئے حکومت برطانیہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دینا سیاسی پستی اور غداری کے مترادف ہے۔ شری سبھاش بوس نے اس ضمن میں ایک علیحدہ بیان جاری کیا۔
"وائس رائے کے اعلان پر غور کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں۔ کہ حکومت برطانیہ کی پیشکش قطعی ناقابل قبول ہے۔ وائس رائے کے اعلان میں دو اہم باتیں ہیں۔ اول ذمہ دار حکومت کی تعریف درجہ نوآبادیات۔ دوئم برطانوی حکومت اور ہندوستان کے نمائندوں کی کانفرنس۔ لیکن سرکاری اعلان میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی۔ کہ درجہ نوآبادیات کب دیا جائے گا۔ میں تو مکمل آزادی کا حامی ہوں۔ اور برطانیہ سے قطع تعلق کئے بغیر میں مطمئن نہیں ہوسکتا۔ باقی رہا گول میز کانفرنس کا سوال۔ میں اسے بھی پسند نہیں کرتا۔ یہ وعدے کانگریس میں انتشار پیدا کرنے اور اسے سیاسی بھول بھلیوں میں الجھانے کی مکروہ چالوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔"
آخر میں آپ نے ہم وطنوں سے اپیل کی کہ وہ آنے والی جدوجہد کے لئے تیار رہیں۔ اگلے روز شری یت سبھاش چندر بوس نے کانگریس ہائی کمانڈ کی پالیسی کے خلاف پروٹسٹ کے طورپر کانگریس ورکنگ کمیٹی سے استعفے دے دیا۔ اس پر گاندھی جی نے ان پر ڈورے ڈالنے شروع کردیئے۔ اور انہیں یقین دلایا کہ اختلاف رائے کے باوجود آپ کو آزادانہ طورپر اپنے خیالات کے اظہار کا حق ہے۔ اس لئے آپ اپنا استعفےٰ واپس لے لیں اس ضمن میں ایک بات خاص طورپر قابل ذکر ہے۔ کہ جہاں نوجوان شری سبھاش بوس کے خیالات کو سراہ رہے تھے۔ وہاں پنڈت جواہر لال نہرو کے متعلق ان کے دل میں کئی شکوک پیدا ہونے لگے۔ چنانچہ مشترکہ اعلان پر پنڈت جی کے دستخطوں کا چرچا مدت تک نوجوانوں کی مجلسوں میں ہوتا رہا۔ سب ک خٌال تھا۔ کہ جہاں گاندھی جی شری سبھاش بوس پر اپنا رنگ چڑھانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ وہاں پنڈت جواہر لال پر ان کا جادو کارگر ثابت ہوچکا ہے۔
اب یہ بات واضح تھی۔ کہ کانگریس ہائی کمانڈ اور سبھاش بوس کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہوچکی ہے۔ یہ خیال صرف ہندوستانی نوجوانوں تک ہی محدود نہ تھا۔ بلکہ لندن کے سیاسی حلقوں میں بھی شری سبھاش کے بڑھتے ہوئے اقتدار کا چرچا شروع ہوگیا۔ چنانچہ 16دسمبر کے لندنی اخبار "مارننگ پوسٹ" میں شائع شدہ ایک مضمون خاص طورپر اہمیت رکھتا ہے۔ اسے ذیل میں درج کیا جاتا ہے-:
"ایک بار پھر مہاتما گاندھی کو اپنی اہمیت اور ناموری دکھانے کا موقع ملا ہے۔ لیکن ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا گاندھی جی اس نوجوان تحریک کا مقابلہ کرسکیں گے۔ جس کی رہنمائی اس وقت بنگال کے مشہور لیڈر شری سبھاش چندر بوس کررہے ہیں۔ ایک بات یقینی ہے کہ شری بوس مکمل آزادی کاریزولیوشن پاس کرانے کے لئے کانگریس پر قبضہ کرنے کی پوری کوشش کریں گے اور مہاتما گاندھی اپنی تمام طاقت ان کوششوں کو ناکام بنانے میں لگادینگے۔"
اسی روز لندن کے ایک اور اخبار " مانچسٹرگارڈین" میں مندرجہ ذیل اطلاع شائع ہوئی-:
"اگر مہاتما گاندھی اور ہر دو نہرود پنڈت موتی لال اور جواہر لال، شری سبھاش بوس کے سامنے جھک گئے۔ تو یہ بنگالی نوجوان جس نے پنڈت جواہر لال کے ہاتوں سے کانگریس کے انتہا پسند طبقے کی لیڈری چھین لی ہے، کانگریس کو دو حصوں میں منقسم کردے گا۔ اور ان میں سے ایک لبرلوں وار اعتدال پسندوں سے مل جائے گا۔"
ان اقتباسات سے طاہر ہے کہ اب حکومت برطانیہ کو بھی شری سبھاش بوس کی طاقت کا احساس ہوچکا تا۔ اور شری سبھاش بوس ہندوستان کے نوجوان اور انتہا پسند طبقہ کی رہنمائی کرنے والے واحد لیڈر بن گئے تھے۔ ایک سال میں حالات بدل چکے تھے اور سبھاش بوس پنڈت جواہر لال نہرو کو کئی سو گز پیچھے چھوڑ کر نہایت تیز رفتار سے آگے بڑھ چکے تھے۔ ہندوستان بھر کے نوجوانوں کی نگاہیں شری سبھاش بوس کی طرف ٹکی ہوئی تھیں۔ اور وہ ان کی امیدوں کا آخری سہارا بن گئے۔ انہی دنوں جب لاہور میں کانگریس کا اجلاس ہونے والا تھا۔ اور مہاتما گاندھی و لارڈ ارون وائس رائے ہند میں مصالحت کی گفت و شنید کی کوششیں ہورہی تھیں، چند انقلاب پسندوں نے 23دسمبر 1929ء کو دہلی کے نزدیک وائس رائے کی اسپیشل ٹرین کو بم سے اڑانے کی کوشش کی۔ لیکن لارڈ ارون بال بال بچ گئے۔ حادثے سے دو روز پیشتر شری سبھاش بوس نے مدنا پور میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہا تھا-:
"نوجوانوں نے ہندوستان کو اغیار کے پنجہ غلامی سے آزاد کرانے کا تہیہ کرلیا ہے۔ اس سے پیشتر ہماری قومی تحریک بوڑھے رہنماؤں کے ہاتھ میں تھی۔ لیکن وہ ملک کو آزادی دلانے کے نااہل ثابت ہوئے ہیں۔ گزشتہ دو سال کے دوران انتہائی سنجیدگی سے غور کرنے پر میں سا نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ کانگریس نے ملک کو آزاد کرانے کے لئے 1921ء میں جس پروگرام پر عمل کیا تھا۔ وہ ملک کو آزاد کرانے کیلئے ناکافی ہے۔ اس لئے اب ہمیں ایک نئے پروگرام کی ضرورت ہے۔ اس وقت جو لیڈر اور کارکن کانگریس کی صف اول میں ہیں، ان سے مجھے کوئی توقع نہیں کہ وہ کسی نئے اور انقلابی پروگرام کی حمایت کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے پروگرام کا انکشاف نہیں کرتا۔ اس سے پیشتر کہ میں اپنے پروگرام کا انکشاف کروں ہیں آدرش کارکنوں کا ایک جتھا بنانے کی کوشش کروں گا۔ تاکہ وقت آنے پر نیا انقلابی عنصر نئے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کیلئے میدان میں نکل آئے۔"

لاہور کانگریس
انڈین نیشنل کانگریس کے لاہور سیشن سے چند دن پہلے گاندھی جی اور وائس رائے ہند لارڈ ارون کے درمیان دہلی میں ملاقات ہوئی۔ بعدازاں گاندھی جی سیدھے لاہور پہنچے اب ایک بات واضح تھی۔ وہ یہ کہ گورنمنٹ کانگریس کے الٹی میٹم کو ٹھکرا چکی ہے۔ وہ مقررہ میعاد کے اندر ہندوستان کو درجہ نوآبادیات دینے کے لئے رضا مند نہ ہوئی بلکہ حکومت نے "بتدریج" درجہ نوآبادیات اور گول میز کانفرنس کا ڈھونگ رچاکر ہندوستانیوں کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کی کوشش کی۔ اب صرف یہ دیکھنا باقی تھا کہ انڈین نیشنل کانگریس قومی مطالبے کی اس توہین کا کیا جواب دیتی ہے۔ اس لئے لاہور کانگریس کے اجلاس کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن یہ اجلاس انتہائی مایوس کن فضاء میں شروع ہوا۔ ملک بھر میں سخت گیری کا دور دورہ جاری تھا۔ ملک کے کونے کونے میں پکڑ دھکڑ بدستور جاری تھی۔ وائس رائے کے اعلان پر گاندھی جی اور دیگر سرکردہ کانگریس لیڈروں کی طرف سے جو جواب دیا گیا تھا۔ اس میں سیاسی قیدیوں کی عام معافی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ حکومت نے یہ مطالبہ بھی ٹھکرادیا اور اجلاس شروع ہوتے سمے ہندوستان کی جیلیں بدستور سیاسی قیدیوں سے پر تھیں۔ چنانچہ ان دنوں تمام ملک کی نگاہیں لاہور کانگریس کی طرف لگی ہوئی تھیں۔ 25دسمبر کو صدر منتخب پنڈت جواہر لال جی نہرو لاہور تشریف لائے۔ تاریخ کے اس نازک ترین موقع پر پنجابیوں نے ان کا جو شاندار سواگت کیا۔ ایسا استقبال کبھی کسی شہنشاہ کو بھی نصیب نہ ہوا ہوگا۔ اسی روز گاندھی جی نے ایک پبلک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے لگے ہاتھوں وائس رائے پر بم پھینکنے والوں کی مذمت کردی۔ آپ نے ولت ادھار کانفرنس لاہور میں تقریر کرتے ہوئے کہا-:
"جو لوگ بم پھینکتے ہیں وہ بزدل ہیں۔"
گاندھی جی کے اس بیان سے نہ صرف نوجوان کو ہی بلکہ حکومت کو بھی پتہ چل گیا کہ کانگریس پالیٹکس کی ہوا کا رخ کدھر ہے۔ بم اور سیاسی قتل ہندوستان میں کوئی انوکھی بات نہ تھی۔ دیگر غلام ممالک میں بھی بے کس و بے بس لوگ یہ ذرائع استعمال کرتے رہے ہیں۔ لیکن ہندوستان اور ان ممالک کی تحریکوں میں ایک نمایاں فرق ہے۔ آئرلینڈ میں اس قسم کے ایک حادثے کے بعد جب کسی انگریز سیاستدان نے آئرش لیڈر پارنل سے سوال کیا کہ آپ تشدد کے واقعات کی مذمت کیوں نہیں کرتے؟ تو آپ نے کہا تھا۔ I am not going to act for the police (میں پولیس کا کام نہیں کرنا چاہتا، اس کے برعکس جب گاندھی جی جیسا بلند پایہ لیڈر تشد کے واقعات کی مذمت کرتا ہے۔ تو ہندوستان کی تحریک آزادی اور غیر ممالک میں ایسی تحریکوں میں جو نمایاں فرق ہے۔ وہ ہر فرد و بشر کی سمجھ میں آجاتا ہے۔ بہرحال لاہور کانگریس نے جو نہایت ناخوشگوار سیاسی حالات میں شروع ہوئی۔ لوگوں کے دلوں میں ایک نئی امنگ پیدا کردی۔ یعنی گاندھی جی نے گورنمنٹ سے لڑنے کی ٹھان لی۔ اور کانگریس ورکنگ کمیٹی نے مکمل آزادی۔ نہرو رپورٹ کی منسوخی اور کونسلوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرلیا۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی میں جو ریزولیوشن پاس ہوا۔ اس کی نقل مندرجہ ذیل ہے-:
"یہ کانگریس مہاتما گاندھی اور دیگر لیڈروں کی وائس رائے سے ملاقات کے نتیجے پر غور و خوض کرنے کے بعد یہ رائے قائم کرسکی ہے کہ موجودہ حالات میں کانگریس مجوزہ گول میز کانفرنس میں شامل ہوکر کچھ حاصل نہیں کرسکتی۔ اس لئے کانگریس کلکتہ میں پاس شدہ ریزولیوشن کو مدنظر رکھتے ہوئے اعلان کرتی ہے کہ کانگریس کانسٹی ٹیوشن میں لفظ سوراجیہ کے معنیٰ مکمل آزادی کے ہونگے۔ نیز یہ بھی اعلان کرتی ہے کہ نہرو رپور کی تمام اسکیم واپس لے لی جائے اس کانگریس کو اس بات کی امید ہے کہ آئندہ تمام کانگریسی ہندوستان کے لئے مکمل آزادی حآصل کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ مکمل آزادی کی مہم تیار کرنے اور کانگریس پالیسی کو اس پالیسی کے مطابق بنانے کیلئے"۔ کانگریس ہدایت کرتی ہے کہ مرکزی اور صوبائی لیجسلیچروں، لوکل باڈیوں اور کمیٹیوں کے موجودہ کانگریسی ممبر۔۔۔۔۔۔ وہ مستعفی ہوجائیں۔ اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی کو اس بات کا اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ مناسب سمجھے تو سول نافرمانی کے پروگرام، جس میں عدم ادائیگی ٹیکس بھی شامل ہے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ضروری تدابیر اختیار کرے۔"
اس ریزولیوشن کے بعد ہندوستان کی تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہوگئی، بلاشبہ کانگریس کا یہ فیصلہ ایک ہنگامی کارروائی ہی نہیں بلکہ ایک انقلابی قدم بھی تھا۔
اس ریزولیوشن کے بعد پنڈت جواہر لال نہرو کا کھویا ہوا وقار پھر بحال ہوگیا۔ گویا شری سبھاش چندر بوس ریزولیوشن کی سپرٹ سے متفق تھے۔ لیکن وہ اس سے بھی ایک اور قدم آگے بڑھتے ہوئے آنے والی جدوجہد کو فیصلہ کن لڑائی میں تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ انہیں سمجھوتہ اور مصالحت کی پالیسی میں چنداں یقین نہ تھا۔ وہ ایک بہادر سپاہی کی طرح اپنے فرض کو پہچانتے تھے۔ انہیں اس بات کا احساس تھا کہ کسی دیر یودھا کے لئے ایک دفعہ میدان میں نکل آنے کے بعد پیچھے ہٹنا ناممکن ہے۔ چنانچہ آپ ہر محاذ پر لڑائی لڑنے اور متوازی گورنمنٹ قائم کرنے کے متعلق ایک ترمیم پیش کی۔ جس میں درج تھا۔
"یہ کانگریس کلکتہ کانگریس کے ریزولیوشن کی مخالفت کرتے ہوئے اعلان کرتی ہے کہ سوراجیہ کا مطلب مکمل آزادی ہوگا۔ یعنی برطانیہ سے قطع تعلق۔ نیز ہندوستان سے برطانوی امپیرئلزم کو ختم کرنے اور مکمل آزادی کے حصول کے لئے یہ کانگریس فیصلہ کرتی ہے کہ متوازی حکومت قائم کرنے اور سول نافرمانی جاری کرنے کے لئے، جس میں عدم ادائیگی ٹیکس اور عام ہڑتالیں بھی شامل ہوں گی۔ پراپیگنڈہ شروع کیا جائے۔ چنانچہ اس نئی کریڈ کی مطابقت میں اعلان کیا جاتا ہے کہ نہ صرف کونسلوں اور لوکل باڈیز کا ہی بلکہ عدالتوں کا بھی بائیکاٹ کیا جائے-"
ریزولیوشن پر تقریر کرتے ہوئے شری سبھاش بوس نے کہا-:
"میں مہاتماجی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اس قسم کا ریزولیوشن پیش کیا ہے۔ میں صرف اس خیال سے ترمیم پیش کررہا ہوں کہ مہاتما جی نے جو پروگرام طے کیا ہے۔ وہ ہمیں مکمل آزادی کی طرف نہیں لے جاتا۔ لیکن میں نے جو پروگرام پیش کیا ہے۔ اس میں نوجوانوں کے لئے کشش ہے۔ اس میں تعمیری اور تخریبی دونوں حصے موجود ہیں۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ متوازی حکومت قائم کئے بغیر مکمل آزادی کس طرح مل سکتی ہے۔ میں آپ کے روبرو آئرلینڈ کی مثال پیش کرتا ہوں۔ آئرلینڈ میں بھی ہمارے جیسی مشکلات پر عبور پانے کیلئے یہی طریقہ اختیار کیا گیا تھا جس کا ذکر میری ترمیم میں ہے۔ اگر ہمیں کانگریس کو ایک قومی۔ طاقتور اور جنگجو جماعت بنانا ہے۔ تو ہمارے لئے لازمی ہے کہ ہم کسانوں، نوجوانوں اور مزدوروں کی تنظیم کریں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان لوگوں نے ابھی تک ہماری جنگ میں پورا حصہ نہیں لیا۔ اگر اس بے پناہ طاقت کو جنگ آزادی کے لئے استعمال کیا جائے۔ تو یقیناًمفید ہوگا۔"
بائیکاٹ کے پروگرام کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے کہا-:
"اگر اس پروگرام کو واقعی موثر بنانا ہے۔ تو بائیکاٹ کا ایک جامع پروگرام بنانا ہوگا۔ اسے ادھورا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مکمل آزادی کے اعلان کے بعد یہ ہمارے کریڈ کے مطابق نہ ہوگا کہ ہم عدالتوں میں جاکر وکالت کریں اور لوکل باڈیز میں جائیں۔ جہاں کہ بالکل اسی طرح حلف وفاداری لینا پڑتا ہے۔ جس طرح کہ کونسلوں اور اسمبلیوں میں۔ میں ایک انتہا پسند ہوں۔ اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو مکمل طورپر کرو۔ ورنہ چھوڑدو۔ اخلاقی طورپر بھی یہ مناسب نہیں کہ مکمل آزادی کے کریڈ کے ساتھ حلف وفاداری لیتے پھریں میں مہاتما جی سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ وقت کی ضروریات کو پہچانیں ان کا پروگرام موثر نہیں۔ اسے موثر بنانے کیلئے میری ترمیم منظور کی جائے۔"
دیگر کئی ترمیموں کی طرح یہ ترمیم بھی گرگئی۔ دراصل پنڈت موتی لال نہرو جیسے اعتدال پسند لیڈر گاندھی جی کا بس نہ چلنے دیتے تھے۔ اور گاندھی جی کے گرد ایسے اعتدال پسند لیڈروں کے ہی طواف کا یہ نتیجہ تھا کہ انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس میں وائس رائے کو مبارکباد کا ریزولیوشن پیش کیا گیا۔ شری سبھاش بوس نے ریزولیوشن کی اس مد کی بھی مخالفت کی۔ لیکن ماڈریٹوں نے یہاں بھی ان کی نہ چلنے دی۔ بالآخر انڈین نیشنل کانگریس نے عین رات کے بارہ بجے جبکہ 1929ء اور 1930ء میں اتصال ہورہا تھا۔ لاجپت رائے نگر لاہور میں کامل آزادی کا اعلان کردیا۔ اس وقت نوجوانوں کے جوش کا یہ عالم تھا۔ کہ وہگ خوشی کے مارے پھولے نہ سماتے تھے۔ اور پنڈال میں قومی گیت گاتے ہوئے ناچ رہے تھے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس شبھ گھڑی اور پوتر دن دیوتاؤں نے بھی پنڈال پر پھول برسائے۔ اور کئی آدمیوں نے تو زنجیروں میں جکڑی ہوئی بیکس و بے بس بھارت ماتا کی پکار بھی سنی۔ جس میں وہ نوجوانوں سے قربانی کی بھیک مانگ رہی تھی۔
اجالس کے آخری روز جب کانگریس ورکنگ کمیٹی کے ممبروں کے چناؤ کے لئے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا۔ تو اس میں ہنگامہ ہوگیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ گاندھی جی نے ورکنگ کمیٹی کے ممبروں کی جو فہرست پیش کی۔ اس میں شری سبھاش بوس کا نام درج نہ تھا۔ مسٹر ستیہ مورتی نے یہ تجویز پیش کی کہ ورکنگ کمیٹی میں شری سبھاش بوس کا نام ضرور شامل کیا جائے۔
مہاتما گاندھی-: "آپ کن اشخاص کے نام اڑانا چاہتے ہیں؟"
مسٹر ستیہ مورتی "-: میں یہ نہیں کہوں گا کہ فلاں فلاں آدمیوں کے نام اڑاؤ لیکن تاہم میں پھر کہوں گا کہ شری سبھاش بوس کا نام ضرور شامل کرو۔"
اس مرحلہ پر پنڈت جواہر لال نہرو نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔ "ان اصحاب کے نام شامل کرنا مناسب نہیں جو پروگرام سے پورا پورا اتفاق نہ کرتے ہوں۔ شری سبھاش کانگریس کے ریزو لیوشن سے متفق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اس ریزولیوشن کی مخالفت کی تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ اس ریزولیوشن سے آگے جانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس میں کلام نہیں کہ اختلاف موجود ہے۔ اور اس لحاظ سے انہیں ورکنگ کمیٹی میں شامل کرنا ورکنگ کمیٹی اور شری سبھاش بوس دونوں کے ساتھ بے انصافی ہوگا۔"
شری سبھاش بوس موقع کی نزاکت کو اچھی طرح بھانپ گئے۔ وہ سمجھ گئے کہ ورکنگ کمیٹی میں صرف ان مائی کے لالوں کو لیا جانا مقصود ہے۔ جو گاندھی جی اور پنڈت موتی لال نہرو کے گرد طواف کرنے میں فخر محسوس کرتے ہوں۔ جو اپنی ضمیر کو کچل کر ان کی ہاں میں ہاں ملانا ہی ملک اور قوم کی بہترین خدمت تصور کرتے ہوں۔ بھلاسبھاش بوس جیسے آزاد طبیعت منش یہ بات کس طرح گوارا کرسکتے تھے۔ وہ سمجھ گئے کہ انہیں ا ن کی انتہا پسندی اور کانگریس ہائی کمان سے بغاوت کی سزا دی جارہی ہے۔ چنانچہ آپ اپنے ساٹھ ساتھیوں سمیت اجلاس سے واک آؤٹ کرگئے۔ اور گاندھی جی کی پیش کردہ فہرست بلا رد وبدل منظور ہوگئی۔
3جنوری 1930ء کو لاہور کے ایک پبلک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے شری سبھاش بوس نے کہا-:
"ہم بنگال میں سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے والے ہیں۔ چونکہ ہم اپنے بڑوں کی عزت کرتے ہیں۔ اس لئے یہ ضروری نہیں۔ کہ ہم ان کی اندھا دھند پیروی بھی کریں۔ ہمارے لیڈر نوجوانوں سے گھبراتے ہیں۔ لیکن آزدی ہمیشہ نوجوانوں کی تحڑیک سے ہی آیا کرتی ہے۔ ہندوستان کی نجات ہمارے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ ٹرکی کے نوجوانوں نے کمال پاشا پیدا کیا۔ رو سنے لینن پیدا کیا۔ آپ میں سے بھی کئی لینن اور کمال پاشا بن سکتے ہیں۔ بشرطیکہ آپ اپنے وطن کو آزاد کرانے کا تہیہ کرلیں۔ اور اس مقصد کیلئے ہرممکن قربانی کرنے کیلئے کمربستہ ہوجائیں۔
مزید کہا-: ہمارے رہنما ان نوجوانوں کی مذمت کرتے ہیں۔ اور انہیں سمجیھنے کی چنداں کوشش نہیں کرتے۔ یہ نوجوان ہی ہیں جو لیڈر بناتے ہیں لیکن ہمارے نام نہاد لیڈروں نے کانگریس میں ہنگر سڑائیک بند کرنے کا ریزولیوشن پاس کرکے اس اثر اور اسپرٹ کا خاتمہ کردیا۔ جو شہری جتیندر دادس کی موت اور بھوک ہڑتال نے پیدا کی تھی۔ وہ لوگ جو تھوڑا عرصہ پہلے نوجوانوں کو خطرناک طورپر سوچنے اور خطرناک طورپر عمل کرنے کی تعلیم دیتے تھے۔ آج انہیں ساکن رہنے کی تعلیم کیوں دیتے ہیں۔ میں تو نوجوانوں کو وہی پرانی تعلیم دونگا۔ ہم مہاتما گاندھی یا دوسرے لیڈروں سے لیڈر شپ نہیں چھیننا چاہتے۔ بلکہ اعتدال پسند لیڈروں کو بے نقاب کرکے ملک کو آگے لے جانا چاہتے ہیں"۔
اس روز آپ لاہور سے کلکتہ روانہ ہوگئے۔ اور وہاں پہنچتے ہی کونسل اور کارپوریشن کی ممبری سے استعفےٰ دے دیا۔ 7جنوری کو شردھانند پارک کلکتہ میں تقریر کرتے ہوئے آپ نے کہا-:
"لاہور میں جو پروگرام طے پایا ہے۔ اس سے میرا اختلاف ہے۔ مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اس پروگرام پر وفاداری سے عمل کروں گا۔ جب قوم کی زندگی میں نازک وقت آئے گا۔ تومیں صف اول میں رہوں گا۔ اکثر پوچھا جاتا ہے کہ اگر کل درجہ نوآبادیات مل جائے تو کیا میں اسے قبول کرلوں گا۔ اس کے جواب میں میں کہونگا۔ اگر ہماری آزادی کی پکار حقیقی ہے۔ اور اگر وہ محض ایک حکمت عملی کا کرشمہ نہیں تو ہم اپنے آدرش کے متعلق کبھی مصالحت پر آمادہ نہیں ہوسکتے۔ اگر کل درجہ نوآبادیات پیش کردیا جائے۔ تو ہمارا فرض ہوگا کہ ہم نوجوان طبقہ کو ری پبلکن پارٹی کی صورت میں منضبط کریں۔ جیسا کہ آئرلینڈ میں کیا گیا تھا۔ ہمارے ہم وطنوں کو اس غلط کا اعادہ نہ کرنا چاہیے۔ جو آئرلینڈ میں مائیکل کو سگریو نے کی تھی۔ ہندوستانی کو گھٹیا آدرش قبول نہیں کرنا چاہیے۔ نوجوانو! اس جھنڈے کو سرنگوں نہ ہونے دو۔ جولاہور میں بلند کیا گیا ہے"۔

(جاری ہے)

Share this Post :

Post a Comment

Comments

News Headlines :
Loading...
 
Support : Copyright © 2018. BV Baloch Voice - All Rights Reserved