New Posts from Balochistan Channel

Translate In Your Language

New Videos

Showing posts with label Dr Allah Nazar Baloch. Show all posts
Showing posts with label Dr Allah Nazar Baloch. Show all posts

پاکستان کے اجتماعی سزا کے مقابلے میں بلوچ قوم کو اپنی قوت یکجا کرکے مقابلہ کرنا ہوگا۔ ڈاکٹراللہ نذر بلوچ

پاکستان کے اجتماعی سزا کے مقابلے میں بلوچ قوم کو اپنی قوت یکجا کرکے مقابلہ کرنا ہوگا۔ ڈاکٹراللہ نذر بلوچ

بلوچ آزادی پسند رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کوئٹہ سے بلوچ خواتین کی اغواء نما گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قابض ریاست آزادی کی جدوجہد میں برسرپیکار بلوچوں کے سامنے شکست کھا کر بلوچ خواتین کو نشانہ بنا رہی ہے۔ پاکستان دن کی روشنی میں اور دنیا کی نظروں کے سامنے واضح طورپر جنگی جرائم کا ارتکاب کررہا ہے۔ ہم اپنے دشمن سے یہ التجا نہیں کرتے کہ برسرپیکار اور مسلح لوگوں سے رعایت برتی جائے بلکہ ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ دنیا پاکستان کو جنگی قوانین کے احترام کیلئے پابند کرے۔ ہم نے بارہا دنیا سے اپیل کی ہے کہ پاکستان کو جنگی قوانین کی پاسداری پر مجبور کیا جائے لیکن اس کا صلہ ہمیں یہ مل رہا ہے کہ ہمارے خواتین و بچے، بزرگ اور نہتے لوگ پاکستان کے جنگی جرائم کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔
‏ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ کوئٹہ سے خواتین، چھوٹے بچوں اور عمر رسیدہ بلوچوں کا اغوا اور گمشدگی اجتماعی سزا کی پالیسی کا تسلسل اور جنگی و عالمی قوانین کو بندوق کی نوک پر رکھنے کی واضح علامت ہے۔ جب ہم کسی بھی قانون کی بات کرتے ہیں تو اس قانون کو تخلیق کرنے تک محدود نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اسے نافذ کرنا بھی تخلیق کارروں کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اسی طرح جب ہم جنگی قوانین یا اقوام متحدہ کے کنونشنز کی بات کرتے ہیں تو اقوام متحدہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان قوانین پر عملدرآمد کے لئے دستخط کنندگان کو پابند کرے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے حوالے سے عالمی برادری بشمول اقوام متحدہ اپنے فرائض سے صریحاً غافل دکھائی دیتے ہیں جس کی قیمت بلوچ قوم کو اپنی جان و مال اور لٹتی عزتوں اور تذلیل سے چکانی پڑرہی ہے۔
‏انہوں نے کہا کہ اجتماعی سزا کی پالیسی کے تحت مختلف علاقوں سے نہ صرف خواتین کو گھروں سے اٹھا کر لاپتہ کیا جاتا ہے بلکہ وہ ایک عرصے تک خفیہ زندانوں کی اذیتیں جھیلتے ہیں۔ کبھی کبھار چند ایک کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور اکثر صورتوں وہ ہمیشہ کے لئے زندان کی نذر ہوجاتے ہیں۔
‏ڈاکٹراللہ نذربلوچ نے کہا سات سالہ امین ولد حاجی دوست علی بگٹی، عزتون بی بی بنت ملحہ بگٹی، مراد خاتون بنت نزغو بگٹی، مہناز بی بی بنت فرید بگٹی، ساٹھ سالہ حاجی دوست علی ولد ملوک بگٹی اور اسی سالہ فرید بگٹی کا جرم محض بلوچ ہونا ہے۔ یہ ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا پاکستان کے آئین کے مطابق ہمیشہ کے لئے فوجی ٹارچر سیلوں میں اذیت سہنا ہے۔ ایک فسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ یہ جان کر کہ اٹھائے جانے والے لوگ کہاں ہیں ان کے لئے لاپتہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ہمیں ایسے الفاظ کو ترک کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس بات پر کسی بھی ذی شعور انسان کو رتی بھر شک نہیں ہے کہ یہ پاکستانی فوج کی غیرقانونی اذیت گاہوں میں قید ہیں۔ اور وہاں وہ جس کرب سے گزر رہے ہیں اس کا اندازہ صرف وہی لوگ لگا سکتے ہیں۔
‏انہوں نے کہا کہ خواتین اور بچوں کا اغوا اجتماعی سزا کی پالیسی ہے۔ اس کے تحت پاکستان بلوچ قوم کو نیست و نابود کرکے بلوچ قومی تحریک کو ہمیشہ کیلئے کچلنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اس سے پہلے ہزاروں بلوچ پاکستان کے ہاتھوں لاپتہ ہیں اور ہزاروں شہید کئے جا چکے ہیں۔ خواتین و بچوں اور نہتے لوگوں کو دنیا کے ہر قانون میں کسی بھی صورتحال میں تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان ایسی اخلاقیات سے عاری ایک غیر فطری ریاست ہے جس کی بنیاد جھوٹ پر رکھی گئی ہے۔ اسی لئے بلوچوں کو بھی ابھی اجتماعی قوت کیساتھ پاکستان کے ان مظالم کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
‏چونکہ پاکستان کی اپنی نہ کوئی ثقافت اور نہ کوئی خاص شناخت ہے اور نہ ہی آج تک ہم پاکستان میں کوئی تاریخی یا عظیم شخصیت دیکھ سکے ہیں جس نے اپنی ریاستی پالیسیوں کے خلاف حق و سچ کا ساتھ دیا ہو۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جسے وہ عظیم رہنما کہتے ہیں وہ خود بلوچ ریاست کے تنخواہ دار اور پیشہ ور وکیل رہے تھے۔ جس نے اپنے موکل کو دغا دے کر بلوچستان پر قبضے کا فرمان جاری کیا تھا۔ ایسی ریاست سے حق و انصاف کی امید رکھنا ہی عبث ہے۔ یہاں عالمی برادری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ واضح جنگی جرائم پر پاکستان کی سرکوبی کے لئے عملی اقدام اٹھائے۔

بلوچستان: بلوچ قوم نے فوجی طاقت کے بے پناہ استعمال کے باوجود انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ

بلوچستان: بلوچ قوم نے فوجی طاقت کے بے پناہ استعمال کے باوجود انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ

بلوچ قوم پرست رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ پاکستان نے تمام جمہوری عالمی اصولوں کے برعکس محض فوجی طاقت کے ذریعے بلوچ قوم پر اپنے نام نہاد اور ناجائز انتخابات مسلط کرنے کی کوشش کی مگر بلوچ قوم نے انہیں مسترد کیا۔ بلوچستان ایک مقبوضہ اور متنازعہ خطہ ہے بلوچ قوم نے گزشتہ انتخابات کی طرح موجود انتخابات میں بھی فوجی طاقت کے بے پناہ استعما ل کے باوجود اس عمل میں حصہ نہیں لیا۔ یہ پاکستان کی شکست فاش ہے۔ میں بائیکاٹ پر بلوچ قوم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور یہ بائیکاٹ بلوچ قومی تحریک کے عالمی پزیرائی میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ انتخابات جمہوری عمل کا نام ہے اورآئینی اتھارٹی کے تحت منعقد کئے جاتے ہیں۔ پاکستان ایک قابض ہے اور قبضہ گیر کو بلوچستان میں الیکشن کرانے کا کوئی آئینی اتھارٹی حاصل نہیں ہے۔یہاں انتخابات بلوچ قوم کی منشاکے خلاف ہیں۔ اسی بنا پر بلوچ قوم نے بائیکاٹ کرکے انہیں مسترد کیا۔ پاکستان کے پاس جمہوری اقدارکی فقدان ہے جس طرح پاکستان فوجی طاقت کے ذریعے بلوچستان پر قابض ہے اسی طرح نام نہاد انتخابات کو بھی فوجی جبر کے ذریعے منعقد کرتاآیاہے۔فوجی جبر کا اس سے بڑا اور ثبوت کیاہوسکتاہے کہ بین الاقوامی مبصر مشن اور عالمی میڈیاکو بلوچستان میں رسائی نہیں دی گئی۔ اگر انہیں اجازت دیاجاتا تو دنیا کے سامنے پاکستان کی جانب سے بلوچ قوم پر ڈھائی جانے والی قہر اور مظالم عیاں ہو جاتیں۔

انہوں نے کہاکہ نام نہاد انتخابات کے لئے پاکستان نے اپنی تاریخ میں سب سے زیادہ فوج تعینات کیا۔بلوچستان میں ایک لاکھ سے زائد ریگولر آرمی پہلے سے تعینات ہے۔ الیکشن کے نام پرساٹھ ہزار مزید فوج بلوچستان میں خون ریزی کے لئے تعینات کیاگیا۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ بلوچستان میں فوج تنہا نہیں بلکہ بنگلہ دیش طرز پر جرائم پیشہ اور قاتل گروہوں پر مشتمل بے شمارڈیتھ سکواڈزفوج کے متوازی بلوچ نسل کشی اوراستحصال میں مصروف ہیں۔ ان نام نہاد انتخابات میں پاکستان نے اپنی قوت جھونک دی تھی تاکہ بلوچ قوم کو حصہ دار بنایاجاسکے لیکن قومی تحریک آزادی کے ساتھ شعور ی وابستہ اورحمایت میں کمر بستہ بلوچ قوم تمام جبر و دہشت خیزیوں کے باوجود قابض کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کیا بلکہ اس بربریت کا مقابلہ کیا اور نام نہاد انتخابات کوناکام بنادیا۔

ڈاکٹر اللہ نذربلوچ نے کہا کہ نام نہاد انتخابات کے نام پر ضمیر فروشوں کی ایک کھیپ کو استعمال کرنے کے بعد دوسری کھیپ سامنے لایا جاتاہے تاکہ قومی تحریک کو کاؤنٹر کیاجاسکے۔ نام نہاد قوم پرست نیشنل پارٹی کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کے بعد انہیں ایک طرف رکھ کر اب ضمیرفروشوں اورقاتلوں کی نئی گروہ وجود میں لایاگیاہے اورمذہبی جنونیوں اور دہشت گردوں کو بھی جمہوری لبادہ پہنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو فوجی سرپرستی میں بلوچ قوم کے لہو سے کھیلتے آرہے ہیں۔ دہشت گردی کے فروغ پر مبنی حکمت عملی سے پاکستان بلوچ قوم اور دنیاکے لئے مزید خطرناک بنتا چلاجائے گا۔دنیاکو اس پر ضرور نوٹس لینا چاہئے کہ عالمی طاقتیں جس دہشت گردی کے خلاف لڑرہے ہیں اس کے سرپرست اور محرک کردار وں کو پاکستانی پارلیمان کاحصہ بناکر مزید توانا کیا جارہاہے۔

ڈاکٹراللہ نذربلوچ نے کہاکہ الیکشن کے ناکامی کے باوجود فوج اور اس کے مقامی دلالوں نے کئی علاقوں میں بندوق کے زور پر لوگوں کو گھیسٹ کر پولنگ اسٹیشنوں تک لانے کے علاوہ ٹھپہ ماری کے ذریعے ٹرن آؤٹ میں اضافہ دکھانے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن اس سے پاکستان اپنے قبضے اور انتخابات کو قانونی جواز نہیں دے سکتا اور نہ ہی اسے بلوچ قوم کی حصہ داری قرار دی جاسکتی ہے۔ اس کے باجود پاکستان ایک کٹھ پتلی اسمبلی کو منتخب قراردیتاہے تو اس کی حیثیت قومی نمائندگاں کا نہیں بلکہ بلوچ نسل کشی میں معاون کا ہوگا اوربلوچ قوم ایسے قومی غداروں کا ایک دن حساب ضرور لے گا۔

 

Balochistan:Those taking part in elections are no leaders but occupier’s agents, Dr. Allah Nazar Baloch

Balochistan:Those taking part in elections are no leaders but occupier’s agents, Dr. Allah Nazar Baloch

Baloch national leader Dr. Allah Nazar in his statement said that there is no ethical and legal credibility of Pakistan sponsored elections in occupied Balochistan. He appealedthe Baloch nation to boycott the socalled electionsas they did in 2013 and sent a clear message to the world that Balochistan is an occupied territory and Pakistan has occupied it with the use of brute force. Like other schemes of Pakistan, the upcoming electionstoo are being held without the consent of Baloch nation.”

He made it clear that those who are contesting the elections are not the true representativesof Baloch people; the fact of the matter is they are the ones involved in Baloch genocide, and they admittedit on several occasions. No doubt, history is full of such incidents where a handful of traitors join the ranks of the enemy and become the facilitatorsof enemy forces; similarly,the Balochistan is no exception as some people also are doing the same here as well. These people justify the atrocities on Baloch nation with lame excuses, but one day they will be held accountable for their crimes.

Allah Nazar Baloch explained, in the past the state selected someindividuals as its representatives, even without any balloting. Pakistan will use them as its pawns to sign the death warrants of Baloch nation’s and continue the genocide, and prolong its occupation of Balochistan.  He added, from time to time,we have seen Pakistan brings forth its pawns throughits quasi-assemblies. But the last electionsdid expose the charade of democracy in Balochistan, where a person with less than 100 votes was selected and promoted into the position of chief minister.

He further said such people are mere agents and tout of the state.Even their resignation letters are already typed in and submitted into the office of Inter Service Intelligence (ISI) so that they will be kicked out of the office without any notice if they fail to perform a small errand. The way they ousted Sana Ullah Zahri from chief ministership, and later on the drama of senate election is quite clear to everyone. The election is nothing but a farce to exploit the national wealth of Baloch people and strengthen the occupation of Balochistan. These so called representatives are fully aware that their fate would not be better than Sana UllahZahri, but for personal gains, greed and worldly comforts they are involved in the genocide of Baloch nation. All parliamentarian parties and religious parties’ hands are soaked with the blood of innocent Baloch people.

Baloch national leader said, more than 40,000 Baloch, including women and children are in torture chambers.Thousands of them were killed; several mass graves have been discovered. Hardly there would be such atrocities in Syria and Burma. The world is oblivious toward Balochistan crisis due to Pakistan’s policy of Talibanisation and blackmailing. One of the main reasons of this is the media blackout and yellow journalism.Journalists and media houses are engaged in the propagation of ISPR pushed narrative and deliberately ignoring the Balochistan issue because they receive all kinds of incentives for doing so.

Dr. Allah Nazar said, there is not a single house in Balochistan that is not mourning the death of one of their loved one, and there is not a single family whose members have not been whisked away by the law enforcement agencies and disappeared. Everyone is treated like an animal. In such a situation Pakistan and its pawns think that the Baloch nation will be the part of their illegal and so called electoral process, this would be an utter misconception on their part, and a futile attempt to dupe the world community.

At the end Dr Allah Nazar Baloch, addressing the international media, said we appeal to the international observers that they would come to Balochistan; they not only cover the so called elections in Balochistan, but also visit those areas that are affected by Pakistan’smilitary operations, and report about it to the world.

 

انتخابات میں حصہ دار قومی نمائندے نہیں،قبضہ گیر کے ایجنٹ ہیں،قوم الیکشن کا بائیکاٹ کرئے۔ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ

انتخابات میں حصہ دار قومی نمائندے نہیں،قبضہ گیر کے ایجنٹ ہیں،قوم الیکشن کا بائیکاٹ کرئے۔ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ

کوئٹہ:  بلوچ قوم پرست رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ پاکستان کے انتخابات کا مقبوضہ بلوچستان میں کوئی آئینی ،قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ہے ،میں بلوچ قوم سے اپیل کرتاہوں کہ گزشتہ انتخابات کی طرح ان نام نہاد انتخابات کا بائیکاٹ کرکے دنیا کو واضح پیغام دیں کہ بلوچستان ایک مقبوضہ ملک ہے اور پاکستان ایک قبضہ گیر ہے ۔پاکستان کے تمام منصوبوں کی طرح آنے والا انتخابات بھی بلوچ قوم کی مرضی اور منشاکے بغیر ہورہے ہیں اوران میں حصہ داری کرنے والے لوگ بلوچ قومی نمائندے نہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کی بلوچ نسل کشی میں واضح طورپر شامل ہیں جس کا وہ خود اقرار کرتے رہے ہیں اور تاریخ عالم گواہ ہے کہ ہر قبضہ گیرکو مقبوضہ قوم میں سے چند افراد ایسے ملتے ہیں جو قبضہ گیر کے دست وبازو بنتے ہیں اوربلوچ قوم میں سے یقیناًاس میں حصہ لینے والے وہی لوگ ہیں جو بلوچ قوم پر ڈھائے جانے والی مظالم کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ان کا احتساب یقینی ہے ،ماضی میں جس طرح ووٹ کاسٹ نہ ہونے کے باوجود کسی نہ کسی کو منتخب قرار دیکر نام نہاد نمائندہ بنایا گیا، اس دفعہ بھی یہی ہوگا اور ان مہروں کو بلوچ نسل کشی کے پروانوں پر دستخط کیلئے مختص کرکے بلوچ سرزمین پر قبضہ کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
قوم پرست رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ ہم نے مختلف ادوار میں دیکھا ہے کہ پاکستان اپنے زرخریداورضمیرفروشوں کو اسمبلیوں میں لاکر انہیں دنیاکے سامنے پیش کرتاہے ،گزشتہ انتخابات سے پاکستانی جمہوریت کا پول کھل گیاکہ ایک سو سے کم ووٹ لینے والے شخص کو وزیر اعلیٰ بنادیاجاتاہے ۔ایسے لوگوں کی حیثیت محض ایجنٹ اوردلال کی ہے ،ایسے لوگوں کے استعفیٰ نامے آئی ایس آئی کے دفتر میں پہلے سے جمع ہیں اور انہیں حکم بجا آوری نہ کرنے پر لات لگا کر باہر کیا جاتا ہے۔ ثناء اللہ زہری کو جس طرح وزارت اعلیٰ سے ہٹایا گیا اور سینیٹ میں بلوچستان اور بلوچ نمائندگی پر جو ڈرامہ رچایا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔ یہاں انتخابات محض ڈرامہ، بلوچ قومی وسائل کی لوٹ مار اور بلوچستان پر قبضہ کو جواز بخشنے کی کوششیں ہیں۔ ان نام نہاد نمائندوں کو بھی بخوبی علم ہے کہ ان کا حشر ثناء اللہ سے مختلف نہیں ہوگا لیکن لالچ، عارضی مراعات اور دنیاوی عیاشیوں کو دیکھ کر یہ لوگ بلوچ نسل کشی میں ملوث پاکستانی فوج کا ساتھ دینے پر آمادہ ہیں۔ ان معمولی مراعات کے بدلے وفاق پرست جماعتیں، مذہبی جماعتیں اور مذہب کے ٹھیکیداروں سمیت سب کے ہاتھ بلوچ کے خون سے رنگے ہیں۔
قوم پرست رہنما نے کہا کہ بلوچستان میں بچوں اور خواتین سمیت چالیس ہزار سے زائد بلوچ پاکستانی خفیہ زندانوں میں انسانیت سوز اذیتیں سہہ رہے ہیں۔ ہزاروں نشانہ بنا کر قتل یا دوران تشدد شہید کئے جاچکے ہیں۔ کئی اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں۔ ایسی مظالم شام اور برما میں شاید ہی ہوں مگر پاکستان کی طالبانائزیشن پالیسی اور بلیک میلنگ سے عالمی برادری پاکستان کی مذہبی شدت پسندی پر توجہ دیکر بلوچستان کی صورتحال سے بے خبر ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک میڈیا پر پابندی اور زرد صحافت ہے۔ صحافی اور صحافتی ادارے میڈیا کو آزاد قرار دیکر آئی ایس پی آر کی ترجمانی میں مصروف ہیں اور بدلے میں اشتہارات اور مراعات کے مزے لیکر بلوچستان کی صورتحال کو دانستہ طور پر چھپانے کی کوشش میں ہیں۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں کوئی گھر ایسا نہیں جو سوگوار نہیں۔ کوئی گھر یا خاندان ایسا نہیں جس سے کوئی شخص لاپتہ نہ ہو۔
خواتین کو فوجی کیمپوں میں بلاکر ان عصمت دری کرنے کے واقعات میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ سیاسی کاکنوں کے رشتہ داروں کو اغوا کرکے لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ یہاں کسی کے ساتھ انسانوں جیسا برتاؤ اور انسانی حقوق ناپید ہوچکے ہیں۔ ان مظالم کے باوجود پاکستان اور اس کے حواری اگر یہ سمجھیں کہ بلوچ قوم پاکستان کو تسلیم کرکے غیر آئینی اور غیر قانونی انتخابات کا حصہ بنے گی تو یہ پاکستان کی بھول اور عالمی برادری کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ ہم عالمی مبصرین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان آکر نہ صرف ان انتخابات کو اپنی آنکھوں سے
دیکھیں بلکہ آپریشن سے شدید متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے لوگوں کی داستانیں قلمبند کریں۔

I wish a happy Holi to all humanity and peace loving Hindus from around the world.

I wish a happy Holi to all humanity and peace loving Hindus from around the world.

بلوچ نسل کشی میں ملوث چین سے مذاکرات نہ ہوئے ہیں نہ ہوں گے: ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ

بلوچ نسل کشی میں ملوث چین سے مذاکرات نہ ہوئے ہیں نہ ہوں گے: ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ

کوئٹہ: بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے بی بی سی اُردو کے ریاض سہیل کو تازہ انٹرویو دیتے ہوئے چین سے مذاکرات کی باز گشت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ چین سے مذاکرات نہ ہوئے ہیں نہ ہوں گے۔
اللہ نذر بلوچ بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک کے سب سے متحرک دھڑے بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ہیں۔
بلوچ عسکریت پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا ہے کہ انھوں نے چین سے کوئی مذاکرات نہیں کیے اور نہ ہی مستقبل قریب یا مستقبل بعید میں ایسے کوئی مذاکرات ہوں گے۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ نے واضح کیا کہ انھیں ایسے مذاکرات کرنے ہی نہیں اور نہ ان کے لیے انھیں کسی ضامن کی ضرورت ہے۔
بی بی سی اردو کو دیے گئے ایک تحریری انٹرویو میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ چین کے ساتھ کسی بھی صورت میں مذاکرات نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ حال ہی میں انگریزی اخبار فنانشل ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ چین گذشتہ پانچ برس سے بلوچ علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کر رہا ہے اور چین کا کہنا ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند اب ان کے لیے مزید خطرہ نہیں ہیں۔
گو کہ بعد میں چین نے بھی بلوچ علیحدگی پسندوں سے مذاکرت کی خبروں کو مسترد کیا تھا۔
چین پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی رقم سے اقتصادی راہداری کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ جس کے تحت چین کے صوبے سنکیانگ سے گوادر تک راہداری بنائی جا رہی ہے اور پاکستان میں متعدد ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر کرنا چین کے مفاد میں ہے جبکہ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک چلانے والی جماعتیں چین پاکستان اقتصادی راہدری منصوبے کی مخالف ہیں۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا کہنا تھا کہ جہاں ہماری نسل کشی ہو رہی ہوں وہاں کے شراکت دار سے ہم مذاکرات نہیں کریں گے۔
انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ 'ہمیں کوئی ان مذاکرات سے جوڑے اور نہ ہی کوئی ملک ہم سے مذاکرات کرنے کی توقع رکھے۔
بلوچستان میں جاری علیحدگی کی تحریک میں شامل عسکریت پسند گروہوں میں بلوچستان لبریشن فرنٹ سب سے متحرک گروہ ہے، جو خاص طور پر مکران کے علاقے میں سرگرم ہے۔ مکران کی ساحلی پٹی سے چین پاکستان اقتصادی راہداری کی ایک بڑی گزرگاہ ہے۔
اللہ نذر بلوچ کا کہنا ہے کہ 'کوئی بھی جمہوری پارٹی یا علیحدگی پسندگروہ وہ چین، حکومتِ پاکستان یا کسی ایسے ملک سے جو بلوچ قومی وجود کے خلاف سے مذاکرات کرے تو اسے نہ صرف میں بلکہ پوری قوم اس کو مسترد کرے گی۔
انھوں نے کہا کہ 'یہ پوری قوم کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔'
ڈاکٹر اللہ نذر کا کہنا ہے کہ بے اعتمادی تو پہلے سے موجود ہے 'مگر یہاں ہمارے وجود کو خطرہ ہے، یہاں ہماری عزت اور ناموس محفوظ نہیں ہے، وہاں پر اعتماد کی کیا بات کی جاسکتی ہے اب تو ہمارے وجود اور بقا کا مسئلہ ہے۔'
یاد رہے کہ پاکستان کی سکیورٹی اداروں نے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کو تلاش کرنے کے لیے کئی آپریشن کیے ہیں اور حال ہی میں ہونے والے ایک فوجی آپریشن میں محفوظ رہے تھے خیال کیا جارہا تھا کہ وہ اس میں شدید زخمی ہوئے ہیں۔
گذشتہ سال قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان کی اہلیہ کو بھی حراست میں لیا تھا۔جس کے بعد سیاسی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے دباؤ کے بعد ان کی اہلیہ کی رہائی عمل میں آئی تھی۔

بلوچ قومی تحریکِ آزادی کا مستقبل انتہائی تابندہ ہے – ڈاکٹر اللہ نظر

بلوچ قومی تحریکِ آزادی کا مستقبل انتہائی تابندہ ہے – ڈاکٹر اللہ نظر

بلوچ سی پیک پر چین سے کوئی مذاکرت نہیں کررہے – ڈاکٹر اللہ نظر

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے بانی اور مایہ ناز سیاسی بلوچ گوریلہ کمانڈر ڈاکٹر نظر بلوچ نے ان دعووں کو مسترد کیا ہے کہ چین بلوچستان میں بلوچ آزادی پسندوں کے ساتھ کسی رابطے میں ہے۔

ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ بلوچستان کے ایک سینئر اور معروف رہنما ہیں اور بلوچستان کے آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں، زیر نظر ڈاکٹر اللہ نظر کا ” اے این آئی ” کو دیا گیا خصوصی انٹرویو ہے، جو دی بلوچستان پوسٹ قارئین کی دلچسپی کیلئے اردو میں ترجمہ کرکے شائع کررہا ہے۔

سوال: ایسی اطلاعات ہیں کہ چین اور بلوچ آزادی پسندوں کے بیچ مذاکرات جاری ہیں، ان میڈیا رپورٹس میں کتنی صداقت ہے؟ کیا بلوچ آزادی پسند جہدکار چین سے مذاکرات پر آمادہ ہونگے؟

ڈاکٹر اللہ نظر: میں یہ بتانا چاہوں گا کہ بلوچ آزادی پسند جہدکار اور بلوچ قوم واضح طور پر ان تمام دعووں کو جو فنانشل ٹائمز یا دوسرے میڈیا اداروں میں شائع ہوئیں ہیں کہ بلوچ سی پیک کے حوالے سے چین سے رابطے میں ہیں مسترد کرتے ہیں۔ چین ہمارے قابض کو زندہ رہنے کیلئے آکسیجن فراہم کررہا ہے اور ہم بلوچ پاکستان کے خلاف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پاکستان نے بلوچ سر زمین پر غیر قانونی طور پر قبضہ کیا ہوا ہے، یہ بلوچ کیلئے ممکن ہی نہیں کہ وہ چین کے ساتھ کسی قسم کی کوئی مذاکرات کرے کیونکہ چین پاکستان کے ہاتھوں جاری بلوچ نسل کشی کا مکمل حمایتی ہے۔

اگر پاکستان بلوچستان سے اپنی فوج بمعہ اپنی سیاسی و عسکری اسٹبلشمنٹ کے نکال دیتا ہے اور یہاں اقوام متحدہ کی امن فوج نافذ کی جاتی ہے، تو پھر بلوچ ان کی ثالثی میں پاکستان سے مذاکرات کرسکتا ہے، بصورت دیگر مذاکرات ناممکن ہے۔

سوال: چین بلوچستان سے گذرنے والی، اپنے ملٹی بلین سی پیک منصوبے کے بابت کافی جارحانہ ہے، اس غیر قانونی منصوبے کو روکنے کیلئے بلوچ آزادی پسند کیا کوششیں کررہے ہیں؟

ڈاکٹر اللہ نظر: جی ہاں، گوادر پورٹ نا صرف چین بلکہ اس پورے خطے کیلئے انتہائی اہم ہے، نا صرف یہ بلکہ اس پورٹ کی تکمیل امریکہ ، بھارت اور پوری دنیا کیلئے ایک خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ چین گوادر نیول بیس پر اپنے نیوکلیئر آبدوزیں بھی تعینات کرنا شروع کرچکا ہے، اس لیئے آنے والے وقتوں میں یہ امریکا، بھارت اور دوسرے ممالک کیلئے بہت سے مسائل پیدا کریں گے کیونکہ وہ آبنائے ہرمز کے بالکل قریب ہیں۔ سی پیک سے محض چین و پاکستان کے مفادات کی تکمیل ہوگی، اس منصوبے میں بلوچ اور بلوچستان کیلئے کچھ بھی نہیں رکھا۔ اس وقت چین وحشیانہ انداز میں بلوچ قوم کو اس طرح مٹانے کا ارادہ رکھتا ہے، جس طرح پاکستان گذشتہ 70 سالوں سے کوشش کررہا ہے، اس ضمن میں بلوچ اپنی پوری کوشش کررہے ہیں کہ وہ ان منصوبوں کے سامنے رکاوٹ بنیں اور مزاحمت کریں اور امید رکھتے ہیں کہ بھارت بالخصوص اور مغربی قوتیں بالعموم آزاد بلوچستان کے حصول کے ان کوششوں میں میں ہمارا ساتھ دیں گے، کیونکہ بلوچ ایک مظلوم قوم ہے جو اپنے بقا کیلئے لڑرہا ہے، جو انسانیت کے سربلندی کیلئے لڑرہا ہے اور انسانی اقدار کی حفاظت کررہا ہے۔

سوال: آپ کے اہلخانہ کو حال ہی میں گرفتار کرکے پاکستان آرمی نے پھر چھوڑ دیا تھا، کیا آپ اور دوسرے بی ایل ایف جہد کاروں پر دباو ہے کہ وہ ہتھیار پھینک دیں؟

ڈاکٹر اللہ نظر: جی ہاں، میرے بیوی بچوں کو پاکستان نے گرفتار کیا تھا تاکہ مجھ پر اور میرے خاندان پر ذہنی دباو ڈالا جائے، لیکن یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ مجھے کبھی بھی ایسے بیہودہ حرکتوں سے توڑا نہیں جاسکے گا، اب تک میرے خاندان کے 45 سے زائد افراد کو پاکستان آرمی شہید کرچکا ہے اور 60 سے زائد گھروں کو بمباری کرکے اڑایا جاچکا ہے لیکن نا میں نے اور نا میرے خاندان میں سے کسی نے پاکستان کے سامنے ہتھیار ڈالے، ہم پاکستانی قبضے کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں اور اس پر مضبوطی سے کھڑے ہیں۔

سوال: بلوچ تحریکِ آزادی کا مستقبل کیا ہے؟

ڈاکٹر اللہ نظر: بلوچ قومی تحریکِ آزادی کا مستقبل انتہائی تابندہ ہے، ہماری قوم ہم پر یقین کرتی ہے، وہ ہمارے جدوجہد آزادی سے محبت اور اسکی مکمل حمایت کرتی ہے، ہم اللہ تعالیٰ کی مدد سے اور اپنے دوستوں کی قربانیوں کے بدولت بہت جلد اپنے منزل تک پہنچ جائیں گے اور اپنی کھوئی ہوئی آزادی حاصل کرلیں گے۔

پاکستانی قبضے کے خلاف متحد ہو جانا وقت کی اہم ضرورت ہے،ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ

پاکستانی قبضے کے خلاف متحد ہو جانا وقت کی اہم ضرورت ہے،ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ

کوئٹہ: بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے تازہ ٹیوٹ میں کہا کہ میں تمام آزادی پسند تنظیموں سے اپیل کرتا ہوں جو بلوچستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، وہ پاکستانی قبضے کے خلاف متحد ہو جائیں یہ وقت کی انتہائی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ قابض پاکستان چین کے ساتھ مل کر بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف نہ صرف دنیا بھر میں پروپیکنڈوں میں مصروف ہے بلکہ  بلوچ جہد کو کاؤنٹر کرنے کے لیے اپنی تمام ٹولز استعمال میں لاتے ہوئے بڑھے پیمانے پر بلوچ قوم کی نسل کشی روزانہ کی بنیاد پر کر رہا ہے۔ تمام مکاتب فکر و قوم کی جانب سے آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے اس ٹیوٹ کو بڑی حد تک سرایا جا رہا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ تمام آزادی پسندوں کو متحد کرنے میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ اہم کردار نبھائیں گے۔ 

پاکستانی دہشتگردی سے متاثرہ بلوچستان کی مدد انڈیا پر قرض ہے ، ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ

پاکستانی دہشتگردی سے متاثرہ بلوچستان کی مدد انڈیا پر قرض ہے ، ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ

کوئٹہ: بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’’ٹوئٹر ‘‘پر بلوچستان میں پاکستان کی دہشتگردی ، بلوچ نسل کشی و انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر انڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ
’’انڈیا جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ملک ہے اور بلوچستان کے ہمسایہ ہونے کے ناطے اس پر بلوچستان کے سلگتے مسئلے کی بین الاقوامی مدد کی ذمہ داری ایک قرض ہے ۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’اب وقت کی اشد ضرورت ہے کہ انڈیا بلوچ جہد آزادی اور پاکستان کی دہشتگردی سے متاثرہ بلوچ عوام کی مدد کرے ‘‘۔

ڈاکٹر اللہ نظر کے سوا باقی بلوچستان میں سیاسی قیادت قبائلی نظام کی وجہ سے موروثی ہے۔: بی بی سی

ڈاکٹر اللہ نظر کے سوا باقی بلوچستان میں سیاسی قیادت قبائلی نظام کی وجہ سے موروثی ہے۔: بی بی سی

لندن :  بلوچستان میں سیاست کا محور قبائلی یا خاندانی وفاداریاں ہیں، سیاسی جماعتیں نام کی حد تک وجود رکھتی ہیں۔ اچکزئی، بزنجو، رئیسانی، مری، مینگل، بگٹی، زہری، غرض کسی کا نام بھی لیں تو ان سارے خاندانوں کی سیاسی نظام پر اجارہ داری اپنے اپنے قبائلی یا نسلی خطوں میں برقرار ہے۔ یہاں ستم ظریفی یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک، سابق وزیر اعلیٰ، کے علاوہ ڈاکٹر اللہ نذر کی زیر قیادت قوم پرست بلوچستان لبریشن فرنٹ ایسی ہے جہاں فی الحال موروثی قیادت نظر نہیں آتی ہے۔

موروثی یا خاندانی سیاست پاکستان میں ایک منفی اصطلاح کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ ابھی حال ہی میں جب پاکستان تحریک انصاف نے اپنے رکن اسمبلی جہانگیر خان ترین کی نااہلی کے بعد انہی کے بیٹے علی ترین کو ان کی خالی نشست کیلئے نامزد کیا تو عمران خان پر بھی موروثی سیاست کی حمایت کرنے کے الزامات لگے۔ حالانکہ عمران خان کے اپنے خاندان کا کوئی فرد یا ان کے بیٹوں میں سے کوئی بھی اس وقت سیاست میں نہیں ہے۔

جب کہ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ ہر ملک میں کچھ نہ کچھ خاندان ایسے ہوتے ہیں جن کی قومی سیاست پر، قومی وسائل پر، نجی یا قومی شعبے میں تاریخی وجوہات کی بنا پر اجارہ داری قائم ہوجاتی ہے۔ تاہم اس اجارہ داری کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کے مختلف انداز، زاویے اور درجے ہوتے ہیں اور ان تمام باتوں کا ان ممالک کے سماجوں کی ترقی، تعلیم اور معیشت طے کرتی ہے۔ جاگیردارانہ نظام میں موروثی سیاست کا کردار زیادہ ہوگا جبکہ صنعتی معیشت میں کم۔

موروثی سیاست یا قیادت صرف بڑے خاندانوں تک محدود نہیں ہے یہ طرز سیاست معاشرے کے نچلے طبقوں میں بھی بہت زیادہ مروج ہے۔ ایک خاندان کی اجارہ داری صرف قومی یا صوبائی اسمبلیوں تک ہی محدود نہیں، مقامی حکومتوں میں بھی امیدواروں کی شرح موروثی سیاست کو واضح طور پر ظاہر کرتی ہے۔ میڈیا پر بیٹھ کر موروثی یا خاندانی سیاست کو برا بھلا تو کہا جاتا ہے مگر عملاً اس حمام میں سب ننگے ہیں۔

لاہور کے انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمینٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹوز کے محقق، ڈاکٹر علی چیمہ اور ان کے ساتھیوں (حسن جاوید، اور محمد فاروق نصیر) نے پاکستان کی موروثی سیاست کا موازنہ چند دوسرے ممالک سے کیا تھا۔ ان کے مطابق، امریکی کانگریس میں 1996 میں موروثی سیاست کا حصہ تقریباً 6 فیصد تھا، بھارت کی لوک سبھا میں 2010 تک 28 فیصد، جبکہ پاکستان کی قومی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں موروثی سیاست دانوں کا حصہ 53 فیصد تھا۔ (کسی بھی جمہوری معاشرے کیلئے موروثی سیاست کی یہ شرح ناقابل قبول ہے۔)

انہی محقیقن کے مطابق، موروثی یا خاندانی سیاست کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ پچھلی تین دہائیوں سے پنجاب کے تقریباً 400 خاندان ہیں جو مسلسل ایسی پالیسیاں بناتے اور قانون سازیاں کرتے چلے آرہے ہیں جن کی وجہ سے قومی وسائل اور نجی شعبوں میں ان کی طاقت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اُن کے مطابق 1985 کے انتخابات سے 2008 کے انتخابات تک ہر انتخابی حلقے میں پہلے تین امیدواروں کی مجموعی دو تہائی تعداد موروثی یا خاندانی سیاست سے تعلق رکھتی ہے۔ اور تاحال یہ حالات بدلے نہیں ہیں۔

اب بھی زیادہ تر خاندانی سیاست میں بیٹوں کا سب سے زیادہ حصہ ہے۔ اس کے بعد قریبی رشتہ داروں کا نمبر آتا ہے، پھر بھتیجوں کا نمبر ہے اور سب سے کم دامادوں کا حصہ ہے۔ بیٹیوں کا حصہ شاذ و نادر نظر آتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ موروثی یا خاندانی سیاست دان 2008 کے انتخابات تک قومی اسمبلی کا پچاس فیصد رہے ہیں۔ اسی وجہ سے ہر جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ “الیکٹ ایبلز” امیدوار ڈھونڈے اور اس طرح نئی جماعت بھی موروثی سیاست سے بچ نہیں پاتی ہے۔

ایک عجیب بات یہ ہے کہ جنرل ضیاء کے غیر جماعتی انتخابات میں نئے امیدوار انتخابات میں آئے مگر ان ہی میں سے نئے آنے والوں میں سے چند ایک نے اپنی نئی حاندانی سیاسی اجارہ داریاں قائم کرلیں۔ جرنیلوں کے بچوں نے انتخابات لڑ کر اپنی اجارہ داریاں بنانے کی کوششیں کیں ہیں۔ یعنی فوجی حکمرانوں نے موروثی قیادت کو کمزور نہیں کیا۔ اس لئے اس سے یہ بات نظر آتی ہے کہ نئی قیادت کے آنے سے ضروری نہیں ہے کہ موروثی سیاست یا خاندانی سیاست کا نظام کمزور ہو گا۔

اسی تحقیق میں یہ بھی نظر آیا کہ موروثی سیاست جاگیرداروں کے طبقے تک محدود نہیں ہے، بلکہ سیاست میں آنے والے صنعت کاروں اور کاروباری طبقے بھی اپنے اپنے وارث سیاست میں لیکر آئے اور اس طرح انھوں نے موروثی سیاست کی روایت کو جلا بخشی۔ جنرل مشرف نے اپنے دور اقتدار میں امیدواروں کے لیے گریجویٹ ہونے کی شرط تو رکھی تھی مگر جب انھوں نے جوڑ توڑ کی سیاست کی تو سیاسی خاندانوں کے گریجویٹ چشم و چراغ پھر سے اسمبلیوں میں پہنچ گئے۔

پنجاب کے بڑے سیاسی خاندان بشمول نواز شریف، چوہدھریز آف گجرات، ٹوانے، قریشی، گیلانی، جنوبی پنجاب کے مخدوم اور اقتدار میں رہنے والے جرنیلوں کے بچے، نہ صرف قومی اسمبلی میں اپنی اجارہ داری برقرار رکھتے ہیں بلکہ صوبائی اسمبلیاں بھی براہ راست ان ہی کے خاندان کے افراد یا ان سے وابستہ لوگوں کے حصے میں آتی ہیں۔ نواز شریف کی اپنی بیٹی، مریم نواز کو مسلم لیگ کا لیڈر بنانے کی کوشش بھی ان کی جماعت میں کشیدگی بڑھنے کی ایک وجہ سمجھی جاتی ہے۔

موروثی یا خاندانی سیاست کی یہی حالت صوبہ خیبر پختون خواہ کی ہے جہاں اس وقت بڑا سیاسی خاندان پرویز خٹک کا ہے، روایتی طور پر وہاں بڑا سیاسی خاندان خان عبدالولی خان کا رہا ہے۔ ہوتیوں کا خاندان، سیف اللہ کا خاندان، یوسف خٹک کا خاندان، ایوب خان کا خاندان اور مولانا مفتی محمود کا خاندان اس موروثی سیاست سے فیض یاب ہوئے ہیں۔ قاضی حسین احمد کا خاندان بھی جماعت اسلامی میں موروثی سیاست کا آغاز کہا جا سکتا ہے۔

سندھ میں کیونکہ سیاست زیادہ تر جاگیرداروں کے ہاتھ میں ہے تو وہاں موروثی سیاست معاشرتی طور پر بہت زیادہ مضبوط ہے۔ لیکن سندھ کے شہری علاقوں میں الطاف حسین کی متحدہ قومی موومینٹ نے اپنے زیر اثر حلقوں میں ایک نئی جماعت ہونے کی وجہ سے موروثی یا خاندانی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا۔ اب جبکہ یہ جماعت اسٹیبلشمینٹ کے عتاب کا شکار ہے تو خدشہ ہے کہ اس میں بھی ایسی تبدیلیاں آئیں جو موروثی یا خاندانی سیاست کو واپس لانے کا سبب بنیں۔

سندھ میں عموماً موروثی سیاست کے حوالے سے بھٹو خاندان کا نام لیا جاتا ہے۔ تاہم وہاں، زیادہ تر سیاسی رہنما موروثی لیڈر ہی ہوتے ہیں۔ البتہ بھٹو خاندان کے بارے میں یہ کوئی بات نہیں کرتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو موروثی سیاست نہیں ملی تھی۔ وراثت کے لحاظ سے ممتاز بھٹو کو سیاست کرنا تھی اور اگر بھٹو کی حکومت کا تختہ نہ الٹا جاتا تو بے نظیر بھٹو کے لیڈر بننے کے امکانات بہت ہی کم تھے۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو کی اپنی پر تشدد موت نے ایک ہیجانی کیفیت پیدا کی جس کی وجہ سے قیادت ان کے بیٹے کو ملی۔ تشدد اور مارشل لا وغیرہ نے پیپلز پارٹی میں موروثی سیاست کو مضبوط کیا۔

بلوچستان میں سیاست کا محور قبائلی یا خاندانی وفاداریاں ہیں، سیاسی جماعتیں نام کی حد تک وجود رکھتی ہیں۔ اچکزئی، بزنجو، رئیسانی، مری، مینگل، بگٹی، زہری، غرض کسی کا نام بھی لیں تو ان سارے خاندانوں کی سیاسی نظام پر اجارہ داری اپنے اپنے قبائلی یا نسلی خطوں میں برقرار ہے۔ یہاں ستم ظریفی یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک، سابق وزیر اعلیٰ، کے علاوہ ڈاکٹر اللہ نذر کی زیر قیادت قوم پرست بلوچستان لبریشن فرنٹ ایسی ہے جہاں فی الحال موروثی قیادت نظر نہیں آتی ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور ستم ظریفی یہ ہے کہ شدت پسند تنظیمیں، لشکر طیبہ، جماعت الدعوٰۃ، جماعت اہل سنت والجماعت اور تحریک طالبان پاکستان میں تاحال موروثی سیاست نظر نہیں آتی ہے۔ لیکن تحریک نفاذ شریعت محمدی میں موروثی قیادت واضح طور پر نظر آتی ہے کیونکہ صوفی محمد کے داماد فقیر اللہ نے قیادت سنبھال لی۔

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے محقیقین، عبدالقادر مشتاق، محمد ابراہیم اور محمد کلیم کے مطابق، موروثی سیاست کے بارے میں ایک نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ کیونکہ تاریخی لحاظ سے بڑے سیاسی خاندان ریاستی وسائل، اپنی خاندانی دولت، حالات کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت اور مخالفین یا دوسروں پر تشدد کرنے کی صلاحیت پر اجارہ داری رکھتے ہیں اس لئے انہی خاندانوں کی اگلی نسل کے لیے سیاست میں اپنی حیثیت بنانا یا منوانا آسان ہوتا ہے۔

پھر ایک بات اور بھی کہی جاتی ہے کہ موروثی سیاست ان معاشروں میں زیادہ مضبوط ہوتی ہے جن میں جمہوری روایات پھلی پھولی نہیں ہوتی ہیں اور غیر جمہوری قوتیں گاہے بگاہے جمہوری نظام میں مداخلت کرتی رہتی ہیں (بھارتی پنجاب میں اگر موروثی یا خاندانی سیاست کا حصہ 28 فیصد ہے تو پاکستانی پنجاب میں 53 فیصد)۔ تاہم اب ایک رجحان دیکھا جا رہا ہے کہ موروثی سیاست دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں میں کمزور ہو رہی ہے۔

روزا بروکس اپنی کتاب A Dynasty is not Democracy میں کہتی ہیں کہ موروثی سیاست یا قیادت کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک غیر جانبدار عدالتی نظام حکومتوں کی کارکردگی کی نگرانی کرے جبکہ ایک طاقتور الیکشن کمیشن انتخابی نظام کی سختی سے نگرانی کرے۔ اس کے علاوہ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ قومی دولت کی بہتر تقسیم اور صنعتی ترقی بھی موروثی سیاست کو کمزور کر سکتی ہے۔

 

ثقلین امام بی بی سی اردو، لندن

بی بی سی رپورٹ کے مطابق

Latest Dr Allah Nazar Baloch interview to Indian media sunday guardian live

Latest Dr Allah Nazar Baloch interview to Indian media sunday guardian live




The elusive leader of a major rebel group fighting for the independence of Balochistan, Dr Allah Nazar Baloch has gained iconic status in Balochistan province. In his first interview to any Indian media organisation, the head of the Balochistan Liberation Front (BLF) said over phone from an undisclosed location that Kulbhushan Jadhav was never arrested from Chaman on the Afghanistan-Pakistan border, contrary to the claims made by Pakistan. According to him, Jadhav was picked up by mercenaries and smugglers from Chabahar in Iran, and then sold to a terrorist group, which, in turn, sold him to ISI.

Q: You are the only leader who is fighting for an independent Balochistan while staying in Balochistan. The other leaders are in “exile”. How do you justify your armed struggle, in which, as per your own admission, 2,000 Pakistani security personnel have been killed?

A: Not only me, but my colleagues, who are on the ground, are also fighting for a free Balochistan. We cannot achieve freedom for Balochistan without an armed struggle. The Baloch have no other way because the colonial powers and the rest of the world only hear the roar of the gun. I cannot say that only 2,000 army men have been killed, but I can say that my nation (Balochistan) has adopted its own culture and language (to deal with Pakistan).

Q: Why is the Balochistan Liberation Front (BLF) against CPEC when Pakistan and China both claim that it will bring prosperity to Balochistan?

A: The Baloch nation is not only against the CPEC, but also against all the imperialistic projects that are against Baloch interest. The CPEC may bring prosperity for Punjab, but the Baloch will suffer from a demographic change and this project will bring a level of disasters that we cannot even imagine.

Q: You had recently tweeted that Indian national Kulbhushan Jadhav was kidnapped by the ISI and Saudi backed terrorist group Jaish-ul-Adl and Mulla Omar of the Jundallah group. Can you share more details on this? Is this a substantiated truth? When was he kidnapped and why?

A: Yes, Pakistani ISI is backing the Jaish-ul-Adl, and Saudi Arabia is financing both the Jundullah and Jaish-ul-Adl. Both are carrying out terrorist activities in the region and they were also involved in the abduction of the Indian national from Chabahar, Iran.

According to our sources, the Indian national was never even seen at the Chaman border (Pakistan had first claimed that Jadhav was arrested from Chaman border between Afghanistan and Pakistan). Pakistan had initially claimed that they had arrested him from Chaman border, but later they said that they arrested him from district Washuk, Balochistan. Later, they also involved the Iranian government (in the whole matter), but the Iranian government denied its involvement.

Q: You have also claimed that one of the training camps of the Lashkar-e-Tayyaba is situated in Balochistan. How has this camp not been discovered by the Pakistan army, which carries out regular operations in that region?

A: The Lashker-e-Tayyaba is an asset for the Pakistani army. How can you expect the Pakistani army to discover it? The Lashkar-e-Tayyaba conducts operations against the Baloch freedom movement.

Q: Pakistan has accused you of working with the Indian security agencies. Your comments.

A: I categorically reject this as a false propaganda of the ISI and the military of Pakistan.

Q: India’s Prime Minister Narendra Modi in his Independence Day speech in 2016 raised the issue of Balochistan. Did that lead to any marked changes on part of the Pakistan security establishment in dealing with the Balochistan freedom fighters?

A: We hope that not only India but the entire civilised world will raise their voice for Baloch nation, which is suffering from the worst kind of human crisis. The Pakistani regime has intensified its actions against the Baloch nation, the number of forced disappearances of people is increasing day by day. We hope the international community will take action against Pakistan for the atrocities it is doing in Balochistan.

Q: How serious is the issue of forced disappearances in the region? Are the judiciary and the media not being allowed to do their job there?

A: This is one of the most serious problems which the Baloch are facing today. The repercussions of this will be very disastrous for the region. Regional stability and peace depend on Baloch state’s freedom. We appeal to the civilised world to support the Baloch nation.

ہمیں قومی آزادی ہی کرہ ارض پر ایک قوم کی حیثیت سے زندہ رکھ سکتی ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ

ہمیں قومی آزادی ہی کرہ ارض پر ایک قوم کی حیثیت سے زندہ رکھ سکتی ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ

کوئٹہ : بلوچ قوم پرست رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بلوچ نسل کشی میں تیزی لانے کیلئے ریاستی فورسز روز بہ روز فوجی آپریشنوں میں تیزی لا رہے ہیں۔ ہر نئے سال یا نئے اقتدار کے بعد بلوچ قوم کے خلاف جبر و استبداد کی نئی مثالیں قائم کی جاتی ہیں۔ فوجی آپریشنوں کا حالیہ فیز جو نیشنل پارٹی، مسلم لیگ، بی این پی اور دیگر وفاق پرست جماعتوں کی ایما پر شروع اور تیز تر کیا گیا ہے، بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ نئے سال کیلئے بلوچ قوم کو پیغام ہے کہ وہ ماضی سے بدترین دہشت کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہے۔ ڈاکٹر مالک کا سوات طرز آپریشن، سرفراز بگٹی کی نسل کشی کی دھمکی اور قدوس بزنجو کا بلوچ آزادی پسندوں کو کرش کرنے کا اعلان اپنی کرسی و مراعات کی حفاظت اوراپنے آقا کو خوش کرنے کی پالیسی ہے۔ دوسری طرف انہی باتوں کے بعد قابض فوج آپریشن، اغوا اور قتل میں تیزی لاتی ہے۔بلوچستان میں نسل کشی جاری ہے۔
آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ راگئے اور مشکے سے خواتین اور بچوں کا اغوا، گچک اور کولواہ میں فضائی شیلنگ، دشت سے لوگوں کو زبردستی نقل مکانی پر مجبور کرنا، ساہیجی کا محاصرہ اور گرد و نواح میں نئے کیمپوں کی تعمیر، کالج اور اسکولوں پر فوجی قبضہ بھی انہی عناصر کی ایما پر کیا گیا ہے تاکہ آنے والی انتخابات کیلئے راہ ہموار کی جاسکے۔ مگر ہمیں یقین ہے کہ گزشتہ انتخابات کی طرح اس دفعہ بھی بلوچ قوم انتخابات کا بائیکاٹ اور آزادی پسندوں کی حمایت کرکے پاکستان سے نجات اور قبضہ کے خلاف ووٹ ڈالیں گے۔ موجودہ کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ بھی انہی ناکام انتخابات کی پیداوار ہے جس میں ایک فیصد ووٹ بھی کاسٹ نہیں ہوئے مگر آئی ایس آئی کی مہربانی اور بلوچ نسل کشی میں معاونت پر انہیں اسپیکر، قائم مقام گورنر اور اب وزیراعلیٰ بھی مقرر کیا گیا ہے۔ ان کی تقرری سے ضلع آواران میں آزادی پسندوں کے خلاف سخت کارروائی اور بہتر نتائج کی توقع رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں کیونکہ بلوچ قومی تحریک پورے بلوچستان میں شعوری طور ہر بلوچ کے ذہن میں نقش ہے اور وہ آزادی کی جد و جہد کا عملی طور پر حصہ ہیں۔ اور بلوچ قوم کو جس شدت کی دھمکی دی جارہی ہے، ان کا بلوچ قوم گزشتہ ستر سالوں اور خاص کر گزشتہ سترہ سالوں سے دلیری سے سامنا کرتا آ رہا ہے۔ اس دھمکی سے قبل بھی کئی سالوں سے قابض ریاست کے مظالم اور فوجی آپریشنوں کا مرکز ضلع آواران، خاران اور مکران رہے ہیں۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ گوادر ایکسپو کو کامیاب کرنے کیلئے گوادر کو فوجی حصار میں لیا گیا اور ساہیجی سمیت قریبی پہاڑیوں اور آبادی کو بھی محاصرے میں لیکر اس نمائش کا افتتاح کیا گیا، پھر بھی یہ کوئی توجہ حاصل نہیں کر سکا کیونکہ دنیا اس منصوبے کی ناکامی سے آگاہ ہو رہی ہے۔ اس میں چینی اور پاکستانی کمپنیوں کے علاوہ دوسرے بین الاقوامی اداروں کی عدم شرکت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بلوچ قومی جد وجہد، بلوچ قوم کی بیش بہا قربانی اور ہمت ایک ایسے منصوبے کو ناکامی کی جانب دھکیل رہے ہیں جو بلوچ قوم کی موت و زیست کا مسئلہ ہے۔ گوادر پورٹ یا سی پیک منصوبے کی بلوچستان میں کامیابی سے لاکھوں غیر ملکیوں کی آباد کاری کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ یہ منصوبہ خالصتاً بلوچ قوم کو اپنی ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرکے دائمی غلام رکھنے اور بلوچ قومی وسائل کو ہڑپنے کی پالیسی ہے۔
قوم پرست رہنما نے کہا کہ پاکستان بلوچ قوم کو نیست و نابود کرنے کیلئے جن سازشوں میں مصروف ہے، ہمیں قومی آزادی ہی کرہ ارض پر ایک قوم کی حیثیت سے زندہ رکھ سکتی ہے۔ یہ احساس ہر بلوچ کے دل میں موجود ہے اور یہی احساس بلوچ عوام کی آزادی کی جدوجہد میں شامل ہونے کا اہم محرک ہے۔ جو لوگ پاکستان میں رہنے کی باتیں کرتے ہیں وہ وفاق پرست اقتدار کی لالچ میں ان سنگین حالات سے چشم پوشی کرکے مستقبل میں بلوچ قوم کے گناہ گار اور غدار ہی ٹھہریں گے۔

بلوچ قوم نے پاکستان کیخلاف جنگ میں اپنی زبان و ثقافت اپنائی ہے...ڈاکٹر اللہ نذربلوچ کا خصوصی انٹرویو

بلوچ قوم نے پاکستان کیخلاف جنگ میں اپنی زبان و ثقافت اپنائی ہے...ڈاکٹر اللہ نذربلوچ کا خصوصی انٹرویو


بھارتی نشریاتی ادارے’’ سنڈے گارجین لائیو ‘‘کیساتھ بلوچ رہنما

ڈاکٹر اللہ نذربلوچ کا خصوصی انٹرویو

انٹرویو: مشرا ابھی نندن

بلوچستان کے آزادی کے لئے لڑنے والے ایک بڑے باغی گروہ کے رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے صوبہ بلوچستان میں ایک غیر معمولی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ بھارتی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے سربراہ نے نامعلوم مقام سے فون پر بات کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے کیے گئے دعوؤں کے برعکس کہا کہ کلبھوشن جادو کو پاک افغان سرحد پر واقع شہر چمن سے گرفتار ہی نہیں کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق جادو کو ایران کے شہر چابہار سے زرخرید سپاہیوں اور اسمگلروں نے اغواء کیا تھا اور پھر اسے ایک دہشت گرد گروہ کو فروخت کردیا ۔ اس کے بعد انہوں نے اسے آئی ایس آئی کو فروخت کردیا تھا۔

مشرا ابھی نندن: آپ وہ واحد رہنما ہیں جو بلوچستان میں رہتے ہوئے ایک آزاد بلوچستان کے لئے لڑ رہے ہیں۔ دیگر رہنماء ’’جلاوطنی‘‘ میں ہیں۔ آپ اپنی مسلح جدوجہد کو کس طرح سے جواز پیش کرتے ہیں جس میں، بقول آپ کے، آپ لوگوں نے 2000 پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کو ہلاک کیا ہے؟

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ:نہ صرف میں بلکہ میرے ساتھی، جو اپنی سر زمین پر موجود نہیں ہیں، بھی ایک آزاد بلوچستان کے لئے لڑ رہے ہیں۔ مسلح جدوجہد کے بغیر ہم بلوچستان کی آزادی حاصل نہیں کرسکتے۔ بلوچ کے پاس کوئی اور طریقہ نہیں ہے کیونکہ نوآبادیاتی طاقتیں اور باقی دنیا صرف بندوق کی گھن گرج ہی سنتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ محض 2000 فوجی اہلکار ہلاک کیے گئے ہیں، لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری قوم (بلوچ) نے (پاکستان سے نمٹنے کے لئے) اپنی ثقافت اور زبان اپنائی ہے۔

مشرا ابھی نندن: بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کیوں سی پیک کے خلاف ہے چونکہ پاکستان اور چین دونوں کا دعویٰ ہے کہ یہ بلوچستان میں خوشحالی لائے گی؟

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ: بلوچ قوم نہ صرف سی پیک کے خلاف ہے بلکہ ان تمام سامراجی منصوبوں کے بھی خلاف ہے جو بلوچ مفاد کے خلاف ہیں۔ سی پیک شاید پنجاب کے لئے خوشحالی لے آئے، لیکن بلوچ ڈیموگرافیک تبدیلی سے متاثر ہوں گے اور اس منصوبے سے ایک ایسی تباہی آئے گی جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔

مشرا ابھی نندن: آپ نے حال ہی میں ٹویٹ کیا تھا کہ ہندوستانی شہری کلبھوشن جادو کو آئی ایس آئی اور سعودی عرب کی پشت پناہی سے چلنے والے دہشتگرد گروہ جیش العدل اور جنداللہ کے ملا عمر گروپ کی طرف سے اغوا کیا گیا تھا۔ کیا آپ اس کی مزید تفصیلات دے سکتے ہیں؟ کیا یہ حتمی سچ ہے؟ وہ کب اغوا ہوئے اور کیوں؟

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ: جی ہاں، پاکستانی آئی ایس آئی جیش العدل کی حمایت کررہا ہے اور سعودی عرب جند اللہ اور جیش العدل دونوں کی مالی امداد کر رہا ہے۔ یہ دونوں تنظیمیں اس خطے میں دہشت گرد سرگرمیاں کر رہی ہیں اور یہی بھارتی شہری کو ایران کے شہر چابہار سے اغوا کرنے میں ملوث تھے۔

ہمارے ذرائع کے مطابق، ہندوستانی شہری کو کبھی بھی چمن کی سرحد پر نہیں دیکھا گیا (پاکستان نے سب سے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ جادو کو افغانستان اور پاکستان کے درمیان چمن کی سرحد سے گرفتار کیا گیا تھا)۔ ابتدائی طور پر پاکستان نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اسے چمن کی سرحد سے گرفتار کیا ہے، لیکن بعد میں انہوں نے کہا کہ اسے بلوچستان کے ضلع واشک سے گرفتار کیا گیا۔ بعد میں انہوں نے ایران کو بھی (اس پورے معاملے میں) شامل کیا، لیکن ایرانی حکومت نے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔

مشرا ابھی نندن: آپ نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ لشکر طیبہ کے تربیتی کیمپ بلوچستان میں موجود ہیں۔ کس طرح سے پاکستانی فوج ان کیمپوں کا کھوج نہیں لگا سکی ہے، جس کی طرف سے اس پورے علاقے میں باقاعدگی سے آپریشن کیے جا رہے ہوں؟

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ:لشکر طیبہ پاکستانی فوج کیلئے ایک اثاثہ ہے۔ آپ پاکستانی فوج سے ان کا کھوج لگانے کی توقع کس طرح سے کر سکتے ہیں؟ لشکر طیبہ بلوچ تحریک آزادی کے خلاف بھی کارروائیاں کرتی ہے۔

مشرا ابھی نندن: پاکستان نے آپ پر بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کے ساتھ کام کرنے کا الزام لگایا ہے۔ آپکی رائے؟

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ:میں واضح طور پر اس کو آئی ایس آئی اور پاکستان فوج کے ایک غلط پروپیگنڈے کے طور پر مسترد کرتا ہوں۔

مشرا ابھی نندن: 2016 کی یوم آزادی کی تقریر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بلوچستان کا مسئلہ اٹھایا تھا۔ کیا اس کی وجہ سے بلوچستان کی آزادی کیلئے لڑنے والے جنگجوؤں سے نمٹنے کے لئے پاکستان کی سیکورٹی اسٹابلشمنٹ کے لائحہ عمل میں کسی بھی طرح کی کوئی تبدیلی آئی ہے؟

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ: ہم امید کرتے ہیں کہ نہ صرف بھارت بلکہ پوری مہذب دنیا بلوچ قوم کے لئے اپنی آواز بلند کرے گی جو کہ بدترین قسم کے انسانی بحران سے گزر رہی ہے۔ پاکستانی حکومت نے بلوچ قوم کے خلاف اپنے اقدامات کو تیز کر دیا ہے، لوگوں کی گمشدگیوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ بین الاقوامی برادری پاکستان کے خلاف کارروائی کرے گی جو مظالم وہ بلوچستان میں ڈھا رہا ہے۔

مشرا ابھی نندن: خطے میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ کتنا سنگین ہے؟ کیا عدلیہ اور میڈیا کو وہاں پر اپنا کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے؟

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ: یہ سب سے سنگین مسائل میں سے ایک ہے جس کا بلوچ آج سامنا کر رہے ہیں۔ اس کا ردعمل خطے کے لئے انتہائی تباہ کن ہوگا۔ علاقائی استحکام اور امن بلوچ ریاست کی آزادی پر منحصر ہے۔ ہم مہذب دنیا سے بلوچ قوم کی حمایت کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔

***

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا فکر انگیز پیغام.......عبداللہ حسین

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا فکر انگیز پیغام.......عبداللہ حسین



اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بلوچ کو ایک پیچیدہ جنگ کا سامنا ہے۔ محدود وسائل اور کمزور پوزیشن کے مقابلے میں چائنا اور امریکہ کی سیاسی، معاشی و عسکری امداد کے مزے لینے والے پاکستان کی طاقت ور ریاست ہر طرح سے بلوچ تحریک کو مٹانے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ لازمی بات ہے کہ اگر تحریک کو ریاست ختم کرنے میں کامیاب ہوگئی تو اس کا مطلب ہے کہ بلوچ قوم کی زبانوں ، تاریخ و ثقافت اور جغرافیہ کو تبدیل کرنے میں پاکستا ن مکمل آزادہوگا، اب تک بلوچ قوم کے اقدار، زبان کو اگرچہ ریاست کمزور کرنے میں جزوی کامیابی حاصل کرچکی ہے، لیکن مکمل کامیاب نہ ہونے کی اصل وجہ بلوچستان کی مزاحمتی تحریک ہے، جس کی جڑیں تاریخی حقیقتوں سے جڑی ہوئی ہیں۔

بلوچ قوم جس طرح آج شناخت کے خطرے سے دوچار ہے، اس سے پہلے شاید ہی کبھی اس صورت حال سے دوچار ہوا ہو۔ دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کے حالات بلوچ قو م کے لئے غیر معمولی ہیں، ان حالات سے غیر معمولی زیرک اور ادراک وفہم رکھنے والے رہنما ہی اپنے قوم کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ ، اس تحریک کے اہم ترین نام ہیں، جن کی شخصیت کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے کے باوجود موجودہ تحریک کی با اثر ترین شخصیت ہیں۔ بلوچستان بھر میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے ماننے والوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی مسلح تنظیم کسی علاقائی نمائندہ تنظیم کے بجائے بلوچستان بھر کے نوجوانوں کی تنظیم ہے۔ آزادی پسند حریت پسند نوجوانوں کی بڑی تعداد نے زبان و علاقائی تفریق کے باوجود اس تنظیم کے پلیٹ فارم پر جدوجہد کرنے کا انتخاب کرکے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں۔پاکستانی ریاست بلوچستان کے حوالے سے غیر اعلانیہ، لیکن واضح موقف رکھتی ہے۔ ریاست کی عملی سرگرمیاں انہی پالیسیوں کا اظہار ہیں، اس پالیسی کے مطابق آزادی پسندوں کو جڑ سے ختم کرکے بلوچستان پر بغیر کسی رکاوٹ کے حکمرانی کی جاسکے۔ چند روز قبل ایک بریگیڈیئر نے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔ جس پر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کوئی موقف ظاہر نہیں کیا البتہ بی ایل ایف کے سینئر رہنماء اخترندیم بلوچ نے مذاکرات پر آمادگی کو اقوام متحدہ کی ثالثی سے مشروط کرکے اس پیشکش کو سختی سے مسترد کردیا۔ بلوچستان آج ایک ایسی صورت حال سے گزر رہی ہے کہ درمیانی راہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچی ہے۔ نیشنل پارٹی اپنے کردار سے خود کو فوج کا سول نمائندہ ثابت کرچکی ہے البتہ اختر مینگل کی پارٹی کی کوشش یہی ہے کہ وہ درمیان میں رہ کر سیاست کرے، سخت ترین کوششوں کے باوجود بھی بی این پی مینگل درمیان میں اپنے لئے جگہ نہیں بنا پائی ہے، اب بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اختر مینگل کے جھکاؤ کو آزادی پسندی کی سیاست کی طرف محسوس کررہی ہے، حالانکہ اختر مینگل پاکستانی پارلیمنٹ کو نہ صرف تسلیم کرتی ہے بلکہ اس پارلیمنٹ کو بلوچستان کے مسائل کے حل کا ذریعہ بھی سمجھتی ہے۔ یہ یہی پارلیمنٹ ہے جس کا تجربہ بلوچستان کے بیشتر رہنماؤں بشمول مینگل نے خود کی ہے۔ تمام پارلیمانی جماعتیں کوئی بڑی سرگرمی اپنی جگہ، بلوچی و براہوئی زبان میں پرائمری تعلیم تک رائج نہیں کرسکی ہیں۔ میگاپروجیکٹس پر کنٹرول اب اس پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں کے لئے محض خواب ہی ہیں۔ اگر اختر مینگل اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے موجودہ طرز سیاست کو جاری رکھ کر قوم کے لئے کچھ کرسکتے ہیں، تو وہ غلطی پر ہیں۔ عالمی حالات کا بدلتا منظر نامہ اور بلوچستان میں موجود آزادی کی خواہش کو مدنظر رکھ کر اختر مینگل کو واضح الفاظ میں آزادی مانگنا چاہیے، اپنے وسائل پر حصہ مانگنے سے بہتر ہے کہ وسائل پر ملکیت کا دعویٰ کیا جائے۔

جیسا کہ شروع میں ، میں نے کہا تھا بلوچ قوم کو ایک پیچیدہ جنگ کا سامنا ہے۔ جنگ کی یہ پیچیدگی ریاست کی صرف فوجی طاقت کے استعمال کی وجہ سے نہیں بلکہ زبانوں کی تفریق، مذہبی شدت پسندی، اور بلوچستان میں نوجوانوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی کوششیں وہ حربے ہیں کہ ان کی کامیابی کی صورت میں بلوچ مزید تقسیم کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس تقسیم کا نقصان کسی مخصوص تنظیم یا پارٹی کو نہیں ہوگا بلکہ اختر مینگل سمیت تمام پارلیمانی و غیر پارلیمانی جماعتیں اس تقسیم سے متاثر ہوں گے، اگر زبان کے نام سے بلوچ قوم کو تقسیم کیا گیا تو اس کے نقصانات بلوچ وطن کی ایران و افغانستان میں تقسیم کے نقصانات کی نسبت بھی زیادہ ہوں گے۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے تازہ ترین پیغام میں ان حربوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست زبان، و علاقہ پرستی کی بنیاد پر بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ اپنے اس پیغام میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے براہوئی زبان کا انتخاب کرکے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ بلوچ قوم کی زبانوں کی بنیاد پر تقسیم کی سازشیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ ریاست کی طاقت ور میڈیا اور دوسرے ذرائع ان حربوں کو کامیاب بنانے کی کوششوں میں باقاعدہ لگے ہوئے ہیں۔ براہوئی اکیڈمی کے چند عہدے دار بھی شعوری و لاشعوری طور پر براہوئی کو بلوچ قوم سے الگ کوئی شناخت دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان کوششوں کا حاصل کچھ نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ بلوچوں کی یکجہتی کو مزید تقسیم کرکے شکوک و شبہات کا ماحول پیدا کیا جائے۔

اپنے اس پیغام میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے آنیوالی ریاست کے لئے ٹیکنوکریٹس، میرین بائیولوجسٹس اور دوسرے شعبوں میں ایکسپرٹس کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ان شعبوں میں تحقیق کریں تاکہ آزادی حاصل کرنے کی صورت میں بلوچ اپنی ریاست کو خود چلا سکیں۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا یہ پیغام زمینی حقائق پر مبنی ایک فکرانگیز پیغام ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام بلوچ تنظیمیں، اپنے نظریے میں اختلاف کے باوجود ان معاملات پر یکجہتی کا مظاہرہ کرکے تقسیم کے اس عمل کی حوصلہ شکنی کریں۔ کیوں کہ قوموں کا اتحاد ہی ان کی بقاء ہے، اگر قومیں علاقائیت اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہونا شروع ہوگئیں تو وہ اپنے وجود کے مخالفین کے لئے خود یہ راستہ ہموار کررہی ہیں کہ انہیں آسانی سے زیر کیا جا سکے۔

***


پروفیسر حسن ظفر کے قتل کی مزمت کرتا ہوں، ڈاکٹر اللہ نزر

پروفیسر حسن ظفر کے قتل کی مزمت کرتا ہوں، ڈاکٹر اللہ نزر

کوئٹہ: بلوچ آزادی پسند رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے پروفیسر حسن ظفر کے قتل کی مزمت کی ہے۔


ڈاکٹر اللہ نذر نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر ایک پیغام شائع کیا ، جس میں انہوں نے پروفیسر حسن ظفر عارف کے قتل کی شدید مزمت کی ہے۔


انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی آرمی اہم ترین لوگوں یعنی عوام کے دانشوروں کو دشمن گرادن کر ان کا صفایا کر رہا ہے بلکہ ان لوگوں کو بھی نہیں بخشتا جنہوں نے اس کو تخلیق و قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

I cannot mourn , Dr Allah Nazar Baloch

I cannot mourn , Dr Allah Nazar Baloch

The universe is dancing round the clock. Some in it are in grief. They have either lost a loved one or face natural and man-made tragedies. Poverty, hunger, thirst.
Some are losing their shine like a shooting star. Some are bored or lonely. Some have calmed down. They are in eternal rest.
When I look at galaxies, I see a billion of small and tiny crowds of stars. They are slowly changing their position and losing their light.
When I go to another planet I see elements of life. There, a billion of ideas strike me in the millionth of a second. Me and the rest of the universe. But, none of them is applicable.
My friends tell me I am always optimistic and pragmatic about survival.  One of these friends is an ant. Some friends tell me I am selfish and self-centered. One such friend is a scorpion.
My friends are in the search of nothing. Some search for lies and deception. Yet, they fail to find lies and deception.
Millions of my friends, unknown to the rest of the world, are busy giving themselves a name. They are a weak species, losing their identity, surrounded by enemies. Some are bored of their thankless job like hornets. Who create sweet from poison for the whole universe?
I don’t know why the cock is not crowing today and the lily potion has descended upon our planet? It is amazing to see the dwarf being eaten by the giant. Bored to see the complexities of my planet.
I don’t know why I am calm today. Why I am not participating in the dance of the universe’s festivities? Every second, a festivity is being arranged by some friend like spring, the fragrance of rose, rays of the sun and shining of the moon. I think something has happened and I am not feeling it. Maybe scientists are still unable to discover the receptor of boredom in my brain among all the billions of receptors.
Today I felt myself completely paralyzed, for a while. Sometimes I suffer from hemiplegia. Maybe something has happened or is happening.
Today dawn is late. I see nothing over the horizon. Nothing of the light pink and yellow colors. Only black shines upon my planet.
Sometimes I feel guilty of a crime which I have not committed. Still I await justice from the jury guilty of a thousand crimes.
I feel lonely in the crowed of flesh-eating animals. It is amazing for me. Sometimes, I feel I am the only one who is calm, deaf and dumb. I’ve lost one of the precious assets of life. Yet, I cannot mourn. This is my tragedy.

Existence of Pakistan is a bad omen for humanity – Dr. Allah Nazar Baloch

Existence of Pakistan is a bad omen for humanity – Dr. Allah Nazar Baloch

The Baloch pro-independence leader, Dr Allah Nazar Baloch, in a statement, dubbed the silence of the United Nations and other universal human rights organizations regarding the ongoing military operations in Balochistan and all out genocide of Baloch nation as a dark chapter in human history. He said the state forces, in collaboration of its proxies, are engaged in Baloch genocide. At present no area of ??Balochistan is spared of oppression and abuses. Here, on the daily basis, looting of general population, military operations, violence and kidnappings are a routine.

Similarly, the occupational forces have even brought an increase to the custodial killings, he added. Yesterday, the body of Noor Ahmed Baloch, who was martyred after being kept in custody for one and a half years, was found in District Kech. The conspicuous silence of the human rights organizations on the war crimes of the state clearly indicate that, either they are partner in crime in Baloch massacre or totally helpless against the might of the state. While being helpless, they should lock down their whole-sale human rights vending machines. Because, in the name of human rights, it is an insult to humanity if they are incapable to act, neglect, being impotent. Thus it is considered nothing more than a lucrative business.

He further said, along with the so called human rights organizations, the civil society and the media have also jumped into the band wagon of state-narrative-defense-league. Today, the so called free media is using the state narrative as propaganda against unarmed Baloch civilians and trying to label the Baloch as terrorist. While being completely silent on the non-stop Baloch genocide and exploitation in Baluchistan. On a day in history, they all will also be held accountable for Pakistan's war crimes. At this time, many areas in Makran have been sealed off with military camps and outposts that have made people's lives miserable. The entire Balochistan is offering a scene of a military camp.

He said that our struggle for freedom in Balochistan is the natural right of the Baloch nation and our national movement is being waged in accordance to the rules and regulations accepted by the international community. But, the Pakistani state, devoid of any civility, in order to perpetuate its occupation of Baloch homeland and for completion of its exploitive and military projects, has escalated its military operations with regular forces and death squads. These are difficult and dangerous times for the Baloch. But the Baloch nation, for its national independence, will fight off all kinds of savagery of the enemy. On the other hand, this level of barbarism and inhumane brutality is also a challenge to the existence of the civilized nations and international human rights institutions.

Dr Allah Nazar Baloch further said that with each passing day, Pakistan's policies towards promoting religious extremism and terrorism becoming more discernible. And now the time has come that civilized countries along with the United Nations take direct action against this terrorist state and in order to stop genocide and war crimes in Balochistan, they must hold Pakistan responsible at global forums and pave the way to establish a Free Balochistan. A Free Balochistan can guarantee to keep the world, including this region, from Pakistan’s extremism and terrorism. The only path towards peace, security and sustainable development in this region, is subject to Balochistan's independence.

The United States, providing Pakistan with billions of dollars in the war against terrorism post 9/11, has now reached to the conclusions that we have expressed long ago. Pakistan continued swindling money from the United States and allies, the oxygen that enabled its pursuit of not only accelerating Baloch genocide but nurturing and strengthening religious extremists as well. There is still time that America, its allies and other countries recognize the hidden face of Pakistan; impose all kinds of sanctions on Pakistan so that the terrorists' nursery and haven come to an end and the world could live more peacefully. Every day, in Afghanistan and India, terrorists cross the border to carry out terrorist acts, but if there is an incident anywhere in the western world, terrorists are directly or indirectly traced back to Pakistan. Therefore, the existence of this terrorist and inhumane entity on the world map is not a good omen for humanity.

Comments

News Headlines :
Loading...
 
Support : Copyright © 2018. BV Baloch Voice - All Rights Reserved